کچھ کرناہو تو ترجیحات کو بدلنا ہوگا

موجودہ حکومت، اس کی کابینہ اور اس کے انداز فکر کو اگر سامنے رکھا جائے تو پرویز مشرف دور اور موجودہ دور میں بڑی مماثلت نظر آئے گی۔ وہی چہرے نظر آئیں گے جو مشرف دور کے آئینوں سے جھانکتے نظر آتے تھے۔ جب چہرے وہی ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی دور سے ملتے جلتے فیصلے یا اقدامات بھی دیکھنے کو نہ ملیں۔

مشرف دور کی دور “ثانی” والی حکومت کہنے کو تو ایک جمہوری حکومت ہی تھی۔ اختیارات عوام کی نچلی سطح تک منتقل کر دیئے گئے تھے اور منتخب نمائندے اپنے اپنے فنڈز کے استعمال میں مکمل خود مختار بنادیئے گئے تھے لیکن ان سب کی ساری ڈوریں ایک ہی ہاتھ میں نظر آتی تھیں۔ جب چاہا جاتا وزارت عظمیٰ تک بدل دی جا سکتی تھی اور جیسا چاہا جاتا آئین و قانون کو تراش خراش لیا جاتا تھا۔ فیصلے کابینہ میں ہوتے یا کابینہ سے باہر، قوانین اسمبلیاں پاس کرتیں یا ایک حکم شاہانہ نافذ کر دیا جاتا، لیکن یہ کسی “ایک” ہی کے ابرؤں پر پڑ جانے والے بَلوں کا ثمرہ ہی ہوا کرتا تھا۔ وہی سارا کچھ آج کل دیکھا جارہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہاتھی کے دانت جیسا معاملہ دکھائی دے رہا ہے جو دکھانے کے اور، کھانے کے اور کیلئے ایک خاص شہرت رکھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انداز سارے کے سارے وہی ہیں۔ اختیارات ایک ہی ہاتھ میں مرکوز نظر آرہے ہیں لیکن جو سب سے واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت کرنے والے ہاتھ جو کچھ کرتے دکھائی دیا کرتے تھے وہی ہوتے تھے لیکن موجودہ حکومت کے  کرنے والے ہاتھ جو دکھائی دے رہے ہیں وہ ہیں نہیں اور جو ہیں وہ دکھانی ہی نہیں دیتے۔

فرق اگر شمار کئے جائیں تو اور بھی بے شمار ہیں جن میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جو بھی ماحول تھا اس میں پاکستان بھر میں کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ ہوتا نظر بھی آرہا تھا اور اگر ہم ایمانداری سے تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی شرم اور جھجک محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ اگر ہم اب تک ترقی کے لحاظ سے مسلسل الٹے قدموں چلتے رہنے کے باوجود بھی اپنے ریاستی وجود کو سلامت رکھے ہوئے ہیں تو اسی دور “خرابات” میں کئے گئے بیشمار ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ہیں۔

میں مزید کسی اور بحث میں الجھے بغیر اور ایک لکھاری ہونے کے حوالے سے گزشتہ دور کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق تجزیہ کرنے کے بعد جو بات کہنا چاہونگا وہ یہ ہے کہ اگر موجودہ دور حکومت مشرف دور کی کہانی کا حصہ دوئم ہی ہے تو پھر کسی کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اُس دور کی طرح موجودہ عدالتوں کی تاریخ  کو بھی اسی طرح کس لئے دہرایا جارہا ہے جس طرح گزرے دور میں عدالتوں کے خلاف کیا گیا۔ مرکزی گھر میں بیٹھ کر ایک بڑا اور کڑا ریفرنس ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج کے ہاتھ میں تھمادیا گیا اور پاکستان بھر کی عدالتوں کو ایک شاہی حکم پر توڑدیا گیا۔ جب اس دور میں عدالتوں کو محض کسی “ایک” کا حکم نہ ماننے پر توڑا جاسکتا تھا تو ایسی ہی کسی رویت کو ایک ایسے دور حکومت میں جس کی ایک ایک ادا دورِ گزشتہ کی آئینہ دار ہو، کسی ایسے جج یا ججوں کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جو “پس آئینہ” والوں کی پیشانیوں کو شکن آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہوں۔

خبر ہے کہ وفاقی کابینہ نے عدالت عظمیٰ کے 2ججوں کیخلاف ریفرنسز کے فیصلے کی توثیق کردی۔ وزیراعظم عمران خان نے ججوں کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ پاکستان میں آج تک ایسا ہوا ہی نہیں کہ کوئی بھی انقلاب “قانون” سے ہٹ کر برپا کیا گیا ہوا۔ آئین و قانون کی جب جب بھی دھجیاں اڑائی گئیں وہ ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر ہی اڑائی گئیں۔ ایوب خان، یحیٰ خان، جنرل ضیاالحق سے لیکر پرویز مشرف کے دور تک جتنی مرتبہ بھی مارشل لا نافذ کیا گیا وہ عین آئین و قانون کے مطابق نافذ کیا گیا۔ ججوں کو اگر کان پکڑ کو عدالتوں سے نکال دیا گیا تو وہ بھی آئین کا تقاضا تھا اور اگر ان کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تو وہ بھی غیر آئینی و غیر قانونی نہیں تھا۔ جب ماضی میں اٹھائے گئے اس قسم کے سارے اقدامات آئین و قانون کے دائرے میں اٹھائے جاتے رہیں ہیں تو چند ججوں کے خلاف کوئی تازہ ریفرنس تیار کیا جانا اور ان پر کڑے الزامات لگا کر ان کے خلاف “قانونی” دائرہ تنگ کرنا کہاں سے غیر آئینی کہلایا جاسکتا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان پاگل وکلا کو یہ کون سمجھائے جو حکومت کے اٹھائے جانے والے اس اقدام کو آئین و قانون کے خلاف سمجھتے ہیں اور طیش میں آکر احتجاج کی ہر حد پار کرجانا چاہتے ہیں۔ اب یہ دیوانگی نہیں تو کیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر غیرروایتی احتجاج کی کال دیتے ہو ئے کہا کہ اگر ریفرنس واپس نہ لیا گیا تواب روایتی احتجاج نہیں ہو گا، ہم عدالتوں کو تالے لگائیں گے، عدالت کے اندر آگ لگائیں گے، ہم توہین عدالت کریں گے اور معافی بھی نہیں مانگیں گے اور مجرموں کو سڑکوں پرگھسیٹیں گے۔ پیر کو عدالت عظمیٰ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں پیمرا کی پابندیوں کی مذمت کرتا ہوں، عدلیہ کو انسانی حقوق پر نوٹس لینا چاہیے کہ پیمرا نے میڈیا پر پابندیاں کیوں لگائیں ہیں۔ انہوں نے کہا ریاست اکبر بگٹی کے زخم کو اب تک چاٹ رہی ہے، ایک بار پھر بلوچستان کے جج کے ساتھ ناروا سلوک ہو رہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نا کردہ گناہوں کی سزا نہ دی جائے، ہم قاضی فائز عیسی کو آپ کے سامنے شکار ہونے کے لیے نہیں چھوڑیں گے، ہم احتساب کے خلاف نہیں بلکہ امتیازی سلوک کے خلاف ہیں، ہم چیف جسٹس سمیت تمام ججز کا احترام کرتے ہیں۔  14 جون سے پہلے اگر ریفرنس واپس نہ لیا گیا تواب روایتی احتجاج نہیں ہو گا، 14 جون کو آنسو گیس نہیں بلکہ ایمبولینسیں منگوائیں، ہم مرنے کے لیے آئیں گے، اگر کینگرو کورٹ نے یہ کارروائی کی تو لاشیں بچھائیں گے۔

یہ اسی قسم کے حالات ہیں جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ہاتھ میں ریفرنس کا ایک پلندہ پکڑا دیا گیا تھا لیکن اس وقت وکلا اپنی عدالتوں کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اب بھی حالات اسی سمت جاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اب یہ سمجھنا کہ وکلا جو کچھ اب کہہ رہے ہیں وہ سب کچھ کرپائیں گے یا نہیں، یہ الگ بات ہے لیکن موجودہ حکومت جس دور کا حصہ دوئم نظر آرہی ہے اس دور سے ملتے جلتے سارے واقعات ایک ایک کرکے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ میڈیا اس دور میں بھی شدید دباؤ میں دیکھا جارہا تھا وہی حال اب بھی ہے۔ عدالتیں شدید مشکلات کا شکار تھیں، اسی صورت حال کا سامنا اب بھی نظر آرہا ہے۔ بڑے بڑے حکومتی فیصلے پہلے بھی کابینہ اور ایوان ہائے حکومت سے باہر ہی ہو رہے تھے، اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے اس لئے اگر میں یہ کہوں کہ وزارت عظمیٰ میں رد و بدل اس دور میں بھی ممکن تھا تو مجھے یقین ہے کہ وہ رد و بدل اب بھی کسی وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہی ایک بات ایسی رہ گئی ہے جو مشرف دور حکومت سے مختلف رہ گئی ہے ورنہ “ایکشن ری پلے” میں سارا کچھ دہرایا جا چکا ہے۔

موجودہ حکومت ہر اس کام سے دور ہوتی جارہی ہے جن کو انجام دیا جانا ضروری تھا اور اس پڑی لکڑی کو لیتی نظر آرہی ہے جس کا لیا جانا خود اس کی اذیت میں اضافہ در اضافہ کرتا جارہا ہے۔ اس کی ترجیح عوام کی فلاح اور ان کی مشکلات میں کمی ہونی چاہیے تھی لیکن یہ الجھ گئی یا الجھادی گئی مخالفین کی سرکوبی میں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ کام جو فوری ہونے چاہئیں تھے وہ پس پشت چلے گئے ہیں اور جن کو متعلقہ محکموں کے سپرد کرکے بھول جانا چاہیے تھا وہ اتنی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جیسے وہ پاکستان کے اصل اشوز ہوں۔ حکومت کو اپنی ترجیحات اور اقدامات کا پھر سے جائزہ لینا ہوگا ورنہ آنے والا ہر لمحہ اس کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا جائے گا اور قوم مایوسیوں کا شکار ہوکر ممکن ہے ہر قسم کی سیاست پر لعنت بھیجنے پر مجبور ہوجائے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں