اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان میں جتنے بھی حکمران اب تک آئے، علاوہ معدودِ چند، وہ عوام کے ساتھ ہنسی مذاق ہی کرتے نظر آئے۔ آنے سے قبل وہ جو جو دعوے اور وعدے کرتے رہے، آنے کے بعد وہ اس کے بالکل برعکس کرتے دکھائی دیئے۔ پاکستان کے عوام بھی اتنے سیدھے بھولے بنے رہے کہ ہر پُر فریب نعرے کے اسیر بنے رہے، قربانیاں دیتے رہے، جانیں اور مال ان کے قدموں میں نچھاور کرتے رہے اور انھیں مسند اقتدار پر بٹھانے کے بعد بھی تمام تر وعدہ خلافیاں دیکھنے کے باوجود ان کا دفاع کرتے رہے اور وہ بھی جی بھر کر عوام کو بیوقوف بناتے رہے، ان کو لوٹتے گھوٹتے اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے نوچتے رہے۔ لیکن ایک مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے جب عوام اپنا رد عمل دکھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور پھر سارے نوسربازوں اور دھوکا دینے والوں سے مایوس ہو کر کسی تیسرے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمارے فوجی حکمرانوں اور ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہوا۔ عوام نے مسلسل دھوکا دینے والوں، ان کو بیوقوف بنانے والوں، ان کے ساتھ کھیلنے والوں اور پر فریب نعرے لگانے اور امیدیں دلانے والوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک ایسی پارٹی کے حق میں رائے کا استعمال کیا جس کا نعرہ پاکستان کو “نیا” بنانے کا تھا۔ وہ تمام پرانے دام توڑ کر جس میں گزشتہ 30 برسوں سے عوام جکڑے ہوئے تھے، اس کے ایک ایک پھندے کو توڑ کر آزادی دینے کا تھا، پاکستان کی ساری جھوٹی روایتوں کو چھوڑ کر حق اور سچ کو فروغ دینا اور ان کی فلاح و بہبود کی ذمے داری اپنے سر لیناتھا، کو منتخب کیا اور اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ اب ان کے سارے سوئے مقدر جاگ جائیں گے اور پاکستان مدینہ جیسی فلاحی و اسلامی ریاست بن جائے گا۔
کہتے ہیں کہ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی۔ بے شک یہ بات ایسی نہیں تھی جس کو آسانی سی مانا جاسکتا تھا لیکن اس کو کیا کیجئے کہ وقت کچھ ایسا ہی ثابت کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ جس چمچماتی شے کو لوگ سونا سمجھ بیٹھے تھے وہ واقعی سونا نہیں تھی بلکہ شاید سونے کے قبیلے “کوئلے” جیسی بھی نہیں تھی جس کہ وہ اس سے اپنے لئے دولت نہیں تو توانائی حاصل کرنے کا ہی راستہ تلاش لیتے۔ میں مشہور ٹی وی اینکر اور سینئر تجزیہ نگار جناب طلعت حسین کے ایک پروگرام کا حرف بحرف تبصرہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے اس بات کا اندزہ بہت اچھی طرح ہوجائے گا کہ اس مرتبہ کسی نے نہیں بلکہ عوام نے اپنے آپ کو خود ہی دھوکا دیا اور بہت شدومد کے ساتھ ایک ایسی حکومت کو منتخب کیا جس نے کئی برسوں میں نہیں چند ماہ میں ہی اپنے اندر کے فریب کو عوام کے سامنے شبِ تاریک کی طرح عیاں کر کے رکھ دیا۔
طلعت حسین اپنے تجزیہ میں کیا کیا فرما رہے ہیں خود ہی ملاحظہ کیجئے۔ فرماتے ہیں کہ آیئے ناظرین ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا بتایا گیا تھا اور ہو کیا رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان بجٹ کے خسارے کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور ہمیں اسے بچانا ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ پچھلے 9 مہینے میں بجٹ کے 11 سالہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی کشتی ڈوب رہی ہے کیونکہ قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس ملک کی نیا کو پار نہیں لگایا جا سکتا، اب پتا چلا ہے کہ پچھلے 9 ماہ میں ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ قرضے لئے جاچکے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں بیرونی دنیا سے سرمایہ کار اس لئے نہیں آرہا کہ یہاں کے حکمران کرپٹ ہیں اس لئے کارو باری حضرات پاکستان پر اعتبار نہیں کرتے ہیں اب پتہ چلا ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 52 فیصد کم ہو گئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہیں تو آمدن بڑھے گی اور لوگوں زندگی کے اندر راحت آئے گی اب پتہ چلا ہے کہ ریاست کی آمدن صرف 3 فیصد بڑھ سکی ہے جو 20 سالہ تاریخ کی کم ترین گروتھ ہے۔ ہمیں بتا یا گیا تھا کہ گزشتہ حکمران مغل رہنما ہیں جو ریاست کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور شاہ خرچیاں کرتے ہیں، ہمیں بتایا گیا تھا کہ آمدن کو ہم بڑھائیں گے اور خرچوں کو کم کریں گے اب پتہ چلا ہے کہ خرچے 723 ملین ہوئے ہیں جو پچھلے خرچوں سے 18 فیصد زیادہ ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ عوام پچھلی حکومتوں کی ترجیح نہیں تھے اور جب ہم آئیں گے تو عوام پر جی بھر کے خرچہ کریں گے۔ اب پتا چلا ہے کہ عوام پر لگنے والا پیسہ 32 فیصد کم کر دیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مہنگائی کم ہو جائے گی اور لوگوں کی زندگی میں بڑی راحتیں آئیں گی۔ اب پتا چلا ہے کہ مہنگائی نہ صرف دگنی ہو گئی ہے بلکہ آنے والے مہینوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ گیس، بجلی، پٹرول، دوائیاں، کھانا سب کچھ سستا ہوگا اب پتہ چلا ہے کہ ہر شے 50 سے سوا سو فیصد مہنگی ہو چکی ہے اور آنے والے دنوں میں قیمتیں مزید آسمان تک جائیں گی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب نئی حکومت آئے گی تو انویسٹر میں لوگوں کا اعتماد بڑھ جائے گا اور اسٹاک مارکیٹ ایسی ترقی کریگی کہ دنیا کی بہترین اسٹاک مارکیٹوں میں اس کا شمار ہوگا، اب پتہ چلا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں 2000 پوائنٹ کی کمی ہو گئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر ڈالر 2 روپے بھی بڑھتا ہے تو غریب کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اب پتہ چلا ہے کہ مئی 2018 کی نسبت مئی 2019 میں ڈالر 40 روپے مہنگا ہو گیا ہے۔
عوام کو سب کچھ جھوٹ نہیں بتایا گیا تھا بلکہ اتنے مکروں میں ایک ایسا سچ بھی تھا جس سے مخالف سے مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، یہ جو بتا یا گیا تھا یہ بالکل سچ تھا لیکن اس وقت تک ہمیں اس کے پاؤں موجدہ پی ٹی آئی کے مخالفین ہی میں نہیں دکھائی دیتے تھے لیکن اب معلول ہوا کہ جھوٹ کے نہ صرف پاؤں بھی ہوتے ہیں بلکہ اس کے ہاتھ بھی ہوتے ہیں جو بھولے بھالے معصوموں کو اپنے شکنجے میں اس بری طرح جکڑ لیتے ہیں کہ ان کو اپنے زندہ رہنے کیلئے سانس تک لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ طلت حسین کہتے ہیں کہ اب آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ مجھے یہ سب کچھ کیسے پتہ چلا تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ سب کچھ حکومت کے اپنے اعداد و شمار نے مجھے بتا یا۔
بر صغیر پاک و ہند میں بسنے والے تمام مسلمان اتنے معصوم، سیدھے، بھولے اور سادے ہیں کہ میں اپنے پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بنا کسی حساب کتاب جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ یہ بات میں بنا تصدیق نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ کم از کم دیڑھ سو سالہ تاریخ کی روشنی میں عرض کرہا ہوں۔ 1857 میں کسی بھی بندوق کی گولی کا کیس “سور” کی چربی کا نہیں ہوتا تھا لیکن سمجھایا گیا تو سمجھ لیا گیا، تحریک خلافت معاملہ تھا ترکی اور عربوں کا، اپنا سمجھ لیا گیا۔ مسلم لیگ نام کو اسلام مان لیا گیا۔ پاکستان کا مقصد اسلام کہہ دیا گیا اور اس کومان بھی لیا گیا۔ پاکستان کی ہر تحریک کے پیچھے مذہب کا سہارا لیا گیا۔ کتاب کے نشان کو قرآن قرار دیا گیا اور اب “ریاست مدینہ” کا نعرہ مکارانہ کا غلغلہ ہے اور ہر پاکستانی کو ہر سمت “گنبد خضرہ” دکھائی دے رہا ہے۔ مجھے اس موقع پر جوش ملیح آبادی کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں کہ
زمیں پہ روندی پڑی ہوئی ہے جو دل کا غنچہ کھلا رہی تھی
ارے کلی کو یہ ہو گیا کیا ابھی تو یہ مسکرا رہی تھی
نظر نے دیکھا کہ شوخ تتلی فضا میں پرواز کر رہی ہے
پلک جو جھپکی تو زرد پتی ہواؤں میں تھر تھرا رہی تھی
تجلیوں کے مشاہدوں سے نگاہ اب میری پھر گئی ہے
نظر نے اتنے دیئے ہیں دھوکے بصارت انکھوں سے گر گئی ہے