“جنگ لڑنی ہے مگر کس کے خلاف”

مجھے جنگ سے نفرت ہے۔ مگر مجھے جنگ لڑنی پڑے گی مگر کس کے خلاف؟ اپنے ہی نفس کے خلاف جو بے مقصد رسم و رواج اور معاشرت، معیشت پر مغرور ہے۔ دنیا ہی اس پر غالب ہے جیسے دین سے دوری اور لاعلمی نے تو انسانیت سے اتار کر حیوانیت کی ادنیٰ ترین سطح پر لاکھڑا کیا ہے کیونکہ وہ سستی، کاہلی، ہڈ حرامی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ کچھ کہنے سننے اور دیکھنے کو نہیں بچا ہے۔ سچ سننے سے بھی گھبراتا ہے کہ کہیں دل نہ ٹوٹ جائے کیونکہ جانتا ہی نہیں کہ
” تو بچا بچا نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ!
کہ شکستہ ہو تو عظیم تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں ”
یہ دنیا تو امتحان گا ہ ہے۔ یہاں بندہ ہر لمحہ آزمائش میں ہے۔ خوشیوں سے بھی غموں سے بھی، دو ہی باتیں ہیں جو سمجھنا چاہئے خوشیاں ملیں تو شکر ادا کریں اور رہا ٹینس تو سکون ملتا رہے گا اور اللہ نہ کرے کسی غم نے آ گھیرا ہے جو اپنے مرضی اور خواہش کے خلاف ہے، اداس ہیں تو مزید سوچ کر مطمئن ہو جا ئیے وہ بھی صبر کے ساتھ کہ رب کی پکڑ ہے آزمائش ہے میرا ا متحان ہے!
اسی سے گزر کر بیڑا پار ہو گا۔ مجبوری سے نہیں بلکہ اللہ کی مرضی اور خوشنودی کی خاطر کیونکہ اللہ ہمارے حق میں بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین کرتا ہے جس کا ہمیں شعور ہی نہیں۔
آج ہی کی بات ہے ابھی تو خوشی شیئر کرنا ہی چاہ رہی تھی عزیز ترین ساتھیوں کے سامنے جذباتی ہو کر پر مسرت اور شاداب ہو کر تھوڑی سی پذیرائی کیلئے وہ بھی اپنوں سے مگر یہیں منہ کی کھا ئی! نظر انداز اگنور اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے پھر نفس نے ہی خبردار کیا،بے وقوف عزت اور خوشی تورب کے ہاتھ ہے تم اسے لو گوں سے چاہ رہی ہو پتا نہیں ہے،
قدم قدم پر وہی آزمائے جاتے ہیں
کہ زندگی کے نشان جن میں پائے جاتے ہیں۔
میرے خیالات بھی میرے رب کا کرم ہے اور انکا اظہار بھی اسی کا فضل ہے ورنہ ہماری کیا حیثیت۔ ہماری دعائیں ہمارا مضبوط سہارا اور حصار ہیں کیونکہ قبول کرنے والے کا دعویٰ ہے کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تو پھر کیا کہنا!
سبحان اللہ! الحمد للہ پھر میرا مقصد ہر گز کسی کی دل آ زاری نہیں اور یہ بات بھی ہے کہ دل کی خواہش دعا بن کر لبوں پر آہی جاتی ہے کہ اے اللہ ہمیں تمام امور میں عافیت عطا فرما جن سے تو را ضی ہو جا اور جو تیری خوشی ہو۔ میں بھی پوری امت مسلمہ کیلئے اسی دعا کی خواہاں ہوں (آمین) بے شک ہدایت دینے والا، حوصلہ اور امید بڑھانے والا صبر پر انعام دینے والا رب ہی تو ہے واقعی”جو رب ہے وہی سب ہے ”
پس ہمیں جنگ لڑنی ہے اپنی انا کے خلاف اپنے غصے، شہرت، حسد، جیلسی، خود نما ئی اور خود غرضی کے خلاف، فضول رسم و رواج، منفی رویوں اور منفی میڈیا ئی بیماریوں کے خلاف اپنی جہالت، لادینی، لا علمی، رحمی رشتوں کی بے قدری کے خلاف گو یا ہمیں جنگ لڑنی ہے اپنی ہی ذات کے خلاف، اپنے خبیث نفس کے خلاف، ارے جنگ کیوں؟ یہ تو جنگ سے بھی بڑھ کر ہے جہاد ہے “جہاد” کیا آپ اسی جہاد کا حصہ بنیں گے؟
احساس مر نہ جائے تو انسان کیلئے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

حصہ

جواب چھوڑ دیں