۔ ۔ ۔ کھینچے ہے مجھے کفر

پاکستان جس نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والا تھا وہ دنیائے کفر کو ہلادینے کیلئے کافی تھا۔ دنیا جانتی تھی کہ اُس کی بنیاد انکار پر جبکہ اسلام کی بنیاد اقرار پر استوار ہے۔ جھوٹ سچ کے سامنے کبھی نہیں پنپ سکتا اور ظلمتیں نور کے آگے سیماب پا ہوجایا کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی

نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بننے سے کہیں پہلے کفر اور اہل کفر نے اسلام (پاکستان) کے خلاف صف بندی کرلی جبکہ پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اپنے، قول و قرار پر قائم نہ رہ سکا اور وہ امیدیں جو دنیا بھرکے مسلمانوں نے پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں سے وابستہ کر لیں تھیں، دم توڑ گئیں۔

ایک مکمل عمارت میں کئی “خانے” ہوتے ہیں اور جو “خانہ” جس مقصد کیلئے تعمیر کیا جاتا ہے وہ اسی کام کے لئے موزوں رہتا ہے اگر کسی بھی خانے کو اس کی تعمیر کے مقصد سے ہٹ کر استعمال کیا جائے تو وہ عمارت آنے والے دنوں میں بھوت بنگلہ تو بن سکتی ہے، عالی شان نہیں کہلا سکتی۔

پاکستان بن تو گیا لیکن جن مقاصد کے حصول کیلئے اس کو بنایا گیا تھا، ان مقاصد کو بالکل ہی نظرانداز کردیا گیا اوریہی نہیں ہوا بلکہ ان مقاصد کی احیا کیلئے پاکستان میں جتنی بھی تحاریک چلائی گئیں اور آوازیں اٹھائی گئیں وہ تمام تحاریک کچل دی گئیں اور اٹھنے والی آوازوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا۔

پاکستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے کبھی اس بات کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی کہ پاکستان بنانے کیلئے بر صغیر کے مسلمانوں نے جس مقصد کیلئے قربانیاں دی تھیں اس کی بنیاد پر پاکستان میں قانون سازی کی جائے تاکہ ایک جانب تو پاکستان بنانے والے شہدا کی روحوں کو سکون حاصل ہو سکے اور دوسری جانب اس خواب کی تعبیر مل سکے جسے علامہ اقبال، محمد علی جناح اور اس وقت کے رہنماؤں نے دیکھا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اسلامی ریاست بننے کی بجائے ایک غیر اسلامی سیکولر ریاست میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔

بر صغیر کی تقسیم کے نتیجے میں دوسری ریاست جو وجود میں آئی اسے ہندوستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بھی ایک نظریاتی ریاست ہی تھی جو ہندومت پر استوار تھی۔ یہ نظریات ہی کی جنگ تھی جس کی وجہ سے دونظریات کی فلاسفی نے جنم لیا اور یوں بر صغیر، پاکستان اور ہندوستان کے ناموں میں تقسیم ہوا۔ یہاں کے باسی تا حال انھیں نظریات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے مذہبی عقیدوں اور روایات کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں قائم ہونے والی حکومت نے اللہ کی خوشنودی کو چھوڑ کر دنیا کے دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کو ایسی ریاست بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا جس کے کسی بھی پہلو میں اسلام کی چھاپ نظر نہیں آتی ہو۔ ہندوستان کے حکمرانوں نے بھی اس بات کی بھر پور کوشش کی ان کی ریاست میں بھی غیر ہندومت کی ملمع سازی نمایاں رہے اور دنیا اس کو ایک مذہبی ریاست کی بجائے ایک ایسی ریاست سمجھے جس کا کسی بھی قسم کے مذہب سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو۔ اس طرح وہ نظریات جو برصغیر کی تقسیم کا سبب بنے تھے، دونوں ریاستوں نے اس کی نفی کرنے کی اپنی سی بھر پور کوشش کی لیکن کیا یہ دونوں ریاستیں اپنی اپنی اس سعی و جہد میں کامیاب ہو سکیں؟۔

پاکستان میں اب تک جتنی حکومتیں بھی قائم ہوئیں ان کی خواہ کتنی ہی کوششیں پاکستان کو سیکولر بنانے کی رہی ہوں وہ ان کوششوں میں ناکام و نامراد ہی رہیں اور تمام حکمرانوں کو کسی نہ کسی شکل میں اسلام کا سہارا لے کر ہی اپنی مقبولیت کو عوام میں قائم رکھنا پڑا۔ ایوب خان کی ہر تقریر کا آغاز “بسم اللہ” رہا تو ذوالفقارعلی بھٹو کا “اسلامی سوشلزم” کا شوشہ اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا۔ ضیا الحق کا “جہاد” تو ہر “توچل میں آیا” والی حکومتوں کا دور اسلام کی احیا کے جھانسے۔ پرویز مشرف کا “سب سے پہلے پاکستان” بعد میں قائم ہونے والی حکومتوں کا اسلامی “بینکنگ سسٹم”۔ مجلس عمل کی “کتاب” تو اب موجودہ حکومت کی “ریاست مدینہ”۔ المختصر یہ کہ سارے حکمرانوں کو اس بات کا بھر پور احساس رہا کہ ہم خواہ دنیا کے “خداؤں” کو خوش کرنے کیلئے جتنا بھی غیر فطری و غیر اسلامی طرز عمل اختیار کرلیں، پاکستان کے عوام میں مذہب اسلام کے بغیر اپنی مغبولیت کا حصول ممکن نہیں۔

یہی احوال ہندوستان کا ہے۔ ان کے کس حکمران نے پوری دنیا میں اپنے آپ کو ایک ایسی ریاست کے طور پر منوانے کی کوشش کی کہ وہ (حکمران) اور وہاں کے عوام غیر مذہبی نظام (سیکولر ازم) کے حامی ہیں لیکن پاکستان بننے سے قبل اور تاحال جو بات سامنے آتی رہی وہ یہی رہی کہ حکمرانوں کے دعوے کچھ بھی ہوں، ہندوستان کے عوام اپنے مذہب سے جنونیوں کی طرح وابستہ ہیں اور مذہب کی بنیاد پر انھیں غیر ہندوؤں کے لہو سے ہولی کھینے میں جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ “رنگوں” سے کھینے میں حاصل نہیں ہوتا۔ ہندوستان کے حالیہ انتخابات اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ مودی کی پہلی کامیابی کی بنیاد بھی ہندو مذہب کی انتہا پسندی ہی تھی اور 2019 کے انتخابات میں پہلے سے بھی بڑھ کر کامیابی اس کا ایک جتیا جاگتا ثبوت ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں سنہ 2024 میں اپنے دوسرے دورِ اقتدار کے اختتام پر نریندر مودی ایک ایسے ملک کی سربراہی کر رہے ہوں گے جو دنیا کی آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیارہو گا، جہاں دنیا کے بعض سب سے زیادہ آبادی والے شہر ہوں گے اور جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے طور پر کام کررہا ہوگا۔

یہ وہ مودی ہیں جنھوں نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں بنا کسی جھجک اس سوال پر کہ اگر مسلم اقلیت ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تو وہ کیا کریں گے، کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو احمد آباد میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔

راقم کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ احمد آباد میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ درست تھا یا غلط یا اب تک ہندوستان اپنے ملک کے مسلمانوں اور خاص طور سے کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کرتا رہا ہے وہ برا ہے یا بھلا، وہ تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہے کہ جس بر صغیر کی تقسیم “دوقومی نظریات” کی بنیاد پر ہوئی تھی وہ بنیاد اتنی اٹل ہے کہ آج بھی وہی نظریات ان دونوں ریاستوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ان دونوں ممالک کے انسان مذہب کی بنیادوں کو بھول چکے ہوئے ہوتے تو پھر کوئی بھی صاحب عقل یہ بتائے کہ “تقسیم” کی ضرورت ہی کیوں تھی؟۔

جب ہندوستان میں حکمرانوں کو اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کیلئے ہندومت اور پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی شہرت کیلئے اسلام کے سہارے ہی کی ضرورت ہے تو پھر دونوں کا اپنے آپ کو “سیکولر” ثابت کرنا منافقت یا عوام سے دھوکا دہی نہیں؟۔

پاکستان کی بقا، مضبوطی اور خوشحالی اسلام ہی سے ہے اور اس کی تباہی و بربادی کا سبب غیروں کی خوشنودی کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ بات پاکستان کا ہر آنے والا حکمران خوب اچھی طرح جانتا ہے لیکن وہ خدا سے کم اور “خداؤں” سے زیادہ ڈرتا ہے اور یہی خوف زدگی مقصد پاکستان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شاید اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے غالب نے ارشاد فرمایا تھا کہ

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

لہٰذا ضروری ہے کہ جس کی جانب پشت ہے، رخ اس جانب پھیر لیا جائے اور جس جانب رخ ہے اس سے ہر صورت میں پیٹھ موڑلی جائے ورنہ “بقیہ” کا بھی کچھ بھروسہ نہیں کہ بچ رہے یا ہاتھ سے نکل جائے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں