ؓ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے چار(4) سال بعد ہوئی، اس وقت تک آپ کے والدین(حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ام ّرومانؓ) اسلام قبول کرچکے تھے۔ اسم گرامی عائشہ،لقب صدیقہ،خطاب”ام المؤمنین“اور کنیت اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر کی نسبت سے ”ا م عبداللہ“تھی۔ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کا نکاح حضورﷺ سے ہوا،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب عورت ہیں جن کو نبی ﷺ کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا، نکاح سے پہلے خواب میں نبی ﷺ کو دکھلایا اور پھر آپ نبی ﷺ کے نکاح میں آئیں،چارسو(400) درہم مہر مقرر ہوا۔ نکاح کے بعد حضورﷺ تین سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔ اس کے بعد آپ نے ہجرت فرمائی جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے،لیکن ان کے اہل و عیال مکہ ہی میں قیام پذیر رہے اور مدینہ ہجرت مکمل ہونے کے بعد جب وہاں تسلی بخش صورتحال سامنے آئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال کو مدینے بلوالیا، یوں شوال کے مہینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی۔رخصتی کے لیے شوال کے مہینے کے انتخاب میں بھی ایک حکمت تھی وہ یہ کہ قدیم زمانے میں چوں کہ شوال کے مہینے میں طاعون آیا تھا اور بڑا جانی نقصان ہوا تھا،اس لیے اہل عرب اس مہینے کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ وغیرہ نہیں کرتے تھے،نبی اکرم ﷺ نے اس مہینے کا انتخاب فرماکر اس غلط خیال اور جاہلانہ توہم کی عملی طور پر بیخ کنی فرمادی۔
رخصتی چوں کہ کم سنی میں ہوئی تھی،اس لیے کم سن بچیوں کی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھیل کود کی بڑی شوقین تھیں،محلے کی لڑکیاں ان کے پاس جمع رہتی تھیں،ان کوسب سے زیادہ دوکھیل مرغوب تھے،ایک گڑیوں کے ساتھ کھیلنا اور دوسرا جھولا جھولنا۔حدیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ یک مرتبہ آپ ؓ گڑیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، کہ رسول اللہ ﷺ پہنچ گئے،ان گڑیوں میں ایک گھوڑابھی تھا،جس کے دو پر بھی تھے، آپﷺ نے پوچھا:یہ کیسا گھوڑا ہے،کیا گھوڑے کے بھی پرہوتے،آپؓ نے برجستہ جواب دیا:حضرت سلیمان ؑ کے گھوڑں کے بھی تو پر تھے۔اس جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بچپن میں بھی کس قدر دینی معلومات رکھنے والی اور حاضر جواب تھیں۔
حضور اقدسﷺکوآپ ؓ سے بے انتہا محبت تھی، بعض اوقات دوسری ازواج مطہرات بشری تقاضے سے اس بات کو محسوس بھی کرتیں اور کبھی کبھی احتجاج تک کی نوبت آجاتی تھی،اسی نوع کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ:حضرت ام سلمہ نے ایک بارآپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ اپنے اصحاب کو کہیں کہ وہ جوہدایا اور تحائف وغیرہ بھیجتے ہیں وہ تمام ازواج کے یہاں قیام کے دنوں میں بھی بھیجا کریں،صرف (حضرت) عائشہؓ کی باری کے دن ہی کیوں بھیجتے ہیں؟نبی کریم ﷺ نے ان کی بات پورے تحمل سے سنی اور پیار بھرے لہجے میں فرمایا: اللہ کی قسم!مجھے تو وحی بھی عائشہ کے حجرے میں آتی ہے، تم میں سے کسی کے حجرے میں نہیں آتی۔
ایک اور واقعہ ہے کہ:حضرت زینبؓ ایک دن حجرہ ئعائشہؓ میں تشریف لائیں، جب کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے،وہ کافی غصے میں تھیں،کہنے لگیں: آپ(ﷺ) کو ابوبکر کی بیٹی کے علاوہ بھی کسی کی خبر ہے؟ وہ بڑی عمر کی خاتون تھیں اور حضرت عائشہؓ ان کی بیٹیوں کی عمر کی تھیں،پھرحضرت عائشہؓ کی طرف رخ کیا اور دل کی بھڑاس نکالنے لگیں، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:میں کن اکھیوں سے اللہ کے رسول ﷺ کی طرف دیکھ رہی تھی،ان کا مقصود یہ تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف سے جواب دیں یا پھرانھیں جواب دینے کی اجازت دیں،نبی کریم ﷺ نے رخ انور حضرت عائشہؓ کی طرف کیا اور فرمایا: تم خود جواب دو،حضرت عائشہ ؓ نے جو ترکی نہ ترکی جواب دیا تو حضرت زینب ؓ دیکھتی ہی رہ گئیں،یہ دو سوکنوں کا معاملہ تھا،اس لیے حضور اکرم ﷺ درمیان میں نہیں آئے،تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
مذکورہ واقعات میں یہ بات ہر وقت ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ حضرت امّ سلمہ ؓ اور حضرت زینب ؓنے جو شکوہ یا اعتراض کیا،وہ ایک بیوی ہونے کی حیثیت سے اپنے شوہر سے تھا،نہ کہ امتی کا اپنے نبی سے۔بعض لوگوں کا اس قسم کے واقعات کی آڑ میں ازواج مطہرات کو چرب زبان اور بے ادب کہنا بدترین گستاخی ہے،تمام ازواج مطہرات ایمان والوں کی مائیں ہیں اور کوئی فرماں بردار بیٹا اپنی ماں پر ایسی تنقید کی جراء ت کبھی نہیں کرسکتا۔اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔آمین!
ایک موقع پراللہ کے رسول ﷺ اپناجوتا گانٹھ رہے تھے اور پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح جلدمبارک سے نکلتے توان میں نور کی چمک پیدا ہوتی،جو بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ چہرہ انورنورانی تجلیوں کا محور بنا ہوا تھا،جیسے چاند پر تاروں کی جھڑی لگی ہو،حضرت عائشہ ؓ مسلسل یہ منظر دیکھ رہی تھیں،پھر روئے انور کے قریب آئیں اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم!آج اگر شاعرابو کبیرہذلی موجود ھوتا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا تو اسے اپنے اشعار کا درست مصداق مل جاتا جو اس نے اپنے خیالی محبوب کی شان میں کہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سناؤ،ذراہم بھی سنیں۔۔حضرت عائشہؓ نے یہ شعر پڑھا:
ترجمہ: میں نے اس کے روئے تاباں پہ نگاہ ڈالی تو اس کی شانِ درخشندگی ایسی تھی،جیسے بادل کے کسی ٹکڑے میں بجلیاں کوند رہی ہوں۔
یہ سن کرللہ کے رسول ﷺ نے دستِ مبارک میں جو کچھ تھا اسے رکھ دیا اور حضرت عائشہؓ کا ماتھا چوم کر فرمایا:عائشہؓ! جو سرور مجھے اس کلام سے حاصل ہوا ہے، وہ تجھے اس نظارے سے بھی حاصل نہ ہو ا ہوگا۔یہ بھی محبت کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔اس میں مسلم شوہروں کے لیے اسوہ بھی ہے کہ خاتون خانہ کی تعریف وحوصلہ افزائی کرنا کوئی غیر اخلاقی یا غیر شرعی بات نہیں،بلکہ محبوب دو جہاں ﷺ کی سنت ہے۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آؤ عائشہ! و دوڑ میں مقابلہ کرتے ہیں،چناں چہ مقابلہ شروع ہوا،چوں کہ حضرت عائشہ ؓدبلی پتلی تھیں،اس لیے نبی اکرم ﷺ سے آگے نکل گئیں۔ پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد،جب حضرت عائشہ ؓ کا وزن بڑھنے لگا تھا،حضور ﷺ نے فرمایا:پھر مقابلہ کرتے ہیں،اور آپ ﷺآگے نکل گئے،اس موقع پر دل لگی کرتے ہوئے فرمایا: یہ اس دن کا جواب ہے-
شان محبوبیت کی ایک اور ادا ملاحظہ فرمائیے!جان دو عالم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:عائشہؓ! جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے،حضرت عائشہؓ نے پوچھا:وہ کیسے؟آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہوتو کہتی ہو:ربِ محمد(ﷺ)کی قسم،اور جب کوئی ناراضی ہو تو کہتی ہو:ربِ ابراہیم ؑکی قسم!حضور ﷺ اپنی رفیقہ ئ حیات کو راضی کس طرح فرمایا کرتے تھے،اس کا دل فریب و قابل تقلید نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیں:اگر حضرت عائشہ ؓ ناراض ہوتیں تو جب وہ پانی پینے لگتیں تو رسول اکرم ﷺ ان کے ہاتھ سے پیالہ لے لیتے اور جہاں حضرت صدیقہ ؓنے منہ رکھ کے پانی پیا تھا، ان کو دکھا کر اسی جگہ منہ رکھ کر پانی نوش فرماتے……اور ساری ناراضی ختم ہوجاتی۔
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے مرض الوفات میں دوسری ازواج مطہرات کی اجازت سے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں منتقل ہوئے،یوں آخری ایا م میں سب سے زیادہ محبوب ﷺ کی خدمت کا شرف حضرت عائشہ ؓ کو ملا،ان کی چبائی ہوئی مسواک حضور ﷺ نے استعمال فرمائی،ان کی گود میں سر رکھ کر اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے اور ان کے حجرے میں مدفون ہوئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب منافقین نے تہمت لگائی تھی تو ان کی صفائی کسی انسان نے نہیں دی،بلکہ خود رب کائنات نے آسمان نے دی اور سورہ نور کی تقریباًبیس آیات میں ان کی شانِ معصومیت ایسے بھرپور اور پُراثر و پرکشش انداز میں بیان فرمایاکہ جس سے بہتر انداز میں آپ کی معصومیت کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتاتھا، تاقیامت یہ آیات مبارکہ ان کی طہارت، عفت، پاکدامنی اور پاکیزگی کی گواہی دیتی رہیں گی۔ ایک موقع پرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل آتے ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ آپ نے جواب میں کہا کہ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔اس خصوصیت میں سوائے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کوئی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک نہیں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:(حضرت)عائشہ(رضی اللہ عنہا)کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پرفضیلت حاصل ہوتی ہے۔(بخاری شریف)
حضرت عمروبن عاص ؓسے روایت ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:”عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب میرے نزدیک عائشہ ؓ اور مردوں میں ان کے والد (ابوبکر)ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نو(9) خوبیاں ایسی عطا فرمائیں جوکسی عورت کو نہ ملیں:
۱……میں آپ کے خلیفہ اور آپ کے سب سے محبوب دوست ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی ہوں۔

۲…… مجھے پاکیزہ گھرانے میں پیدا فرمایا گیا،میں نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں اسلام کی ہی بات سنی۔
۳……نکاح سے پہلے میری تصویر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔
۴……نبی ﷺ نے میرے سوا کسی اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا،میرا نکاح فقط سات برس کی عمر میں اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔
۵……نبی ﷺ پر وحی اس حالت میں بھی نازل ہوجاتی تھی کہ آپ میرے لحاف میں ہوتے تھے،امت کو میری وجہ سے تیمم کی اجازت ملی۔
۶……میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو کھلی آنکھوں سے دیکھا،اورمجھ سے مغفرت اور رزق کا وعدہ اللہ نے فرمایا ہے۔
۷……میری برأت میں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے وحی نازل فرمائی۔
۸……بوقت وصال نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک میری گود میں تھا،آپ کاآخری عمل یہ تھا کہ آپ نے میری چبائی ہوئی مسواک استعمال فرمائی۔
۹……نبی ﷺ کی تدفین میرے حجرے میں ہوئی۔
خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں بھی ان کا فتویٰ قبول کیا جاتا تھا۔حضرت عائشہ صدیقہؓنے شریعت اسلامیہ کے متعلق احکام و قوانین اور اخلاق و آداب کی تعلیم کے حوالے سے نبی ﷺ سے اتنا کچھ حاصل کرلیا تھا کہ علمی اعتبار سے کوئی مرد و عورت ان کی معلومات کے ہم پلہ نہیں تھا۔ آپ اپنی ذات میں فقیہہ،مفسرہ اور مجتہدہ تھیں،تفسیر، حدیث، اسرار شریعت، خطابت اور ادب و انساب میں ان کو کمال حاصل تھا،شعرا کے بڑے بڑے قصیدے ان کو زبانی یاد تھے،آپ کا شمار مدینہ منورہ کے ان علماء میں ہوتا تھا کہ جن کے فتاویٰ پر عام مسلمانوں کو مکمل اور بھرپور اعتماد تھا،یہاں تک کہ بڑے بڑے صحابہ کرام کو بھی کسی مسئلے میں الجھن اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ آپ سے معلوم کرایا کرتے تھے،کیوں کہ سب کو اس بات کا اعتراف تھا کہ حضوراکرم ﷺ کے احکام کی تبلیغ و اشاعت میں ام المؤمنین کا کوئی ثانی نہیں،جیسا کہ ابومسلم عبدالرحمنؒ کا قول ہے کہ حضور ﷺکی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیات کے شان نزول اور فرائض (میراث) میں حضرت عائشہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں تھا۔ آپ نے عورتوں، مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین، اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں پوری زندگی گزار کر اسلام کی بہت بڑی خدمات انجام دیں۔ان کا شمار ان صحابہ ؓ میں ہوتا ہے جن سے کثرت سے احادیث مروی ہیں،ان کی مرویات کی تعدا د دو ہزار سے زائدہے۔اہل علم کا کہنا ہے کہ امت کو آدھا دین صرف حضر ت عائشہ ؓ کے وسیلے سے ملا،اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے دو حصے ہیں،گھر کی زندگی اور گھر سے باہر کی زندگی،سرور دو عالم ﷺ کی گھریلو زندگی کا علم امت کو حضرت عائشہ ؓ کے زریعے ہوا۔ حضرت عائشہ ؓ کم سن تھیں اور فطری طور پر انتہائی ذہین اور مجتہدانہ دماغ رکھتیں تھیں،یہی وجہ ہے کہ قربت رسول ﷺ کا جس قدرانھوں نے فائدہ اٹھایا،محبوب کے شب وروز کو محفوظ کیا،یہ انہی کا خاصہ ہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہرسال حج کے لیے مکہ جاتیں،تو آپ کے خیمے میں سائلین کا ہجوم ہوجاتا تھا،جو ان سے مختلف مسائل میں راہ نمائی طلب کرنے کے لیے آتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عبادت سے بھی بے انتہا شغف تھا، نہایت متقی اور حددرجہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والی تھیں،صرف ایک جوڑا پاس رکھتیں اور اسی کو دھو دھو کر استعمال کیا کرتی تھیں،دن بھر روزہ رکھتیں اور راتوں کو دیر دیرتک جاگ کر عبادت کیاکرتی تھیں،یہ آپؓ کاروز کا معمول تھا،تہجد،قیام اللیل اورچاشت کی نمازخاص اہتمام سے پڑھتی تھیں۔اس درجہ تقویٰ وعبادت کے باوجود رقت قلب کا یہ عالم تھا کہ فکر آخرت میں ہر وقت روتی رہتیں۔
ان کی ایک خوبی ان کی بے بہا سخاوت بھی تھی، اپنے پاس کبھی مال کو جمع نہیں ہونے دیا جیسے ہی کہیں سے کچھ آتا تھا فوراً ہی تقسیم کردیا جاتا۔تقریباًسڑسٹھ(67)غلام آزاد کیے،ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں ستر ہزار کی رقم صدقہ کردی،ایک بار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم بھیجے،سب کے سب اسی وقت خیرات کردیے،ایک بار ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر ؒ نے ایک لاکھ درہم بھیجے،خود بھی روزے سے تھیں،لیکن سب کے سب خیرات کردیے اور افطار کے لیے بھی کچھ بچا کر نہ رکھا۔ایک بار بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے کہا کہ خالہ جان!اتنا زیادہ صدقہ نہ کیا کریں،کچھ اپنے لیے بھی بچا کر رکھ لیا کریں،تو ان سے تین دن تک بات نہ کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ازدواجی زندگی اس خوبصورتی کے ساتھ گزاری کہ ایک مسلمان عورت کے لیے ان کی زندگی کے تمام پہلو، شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، سوکن سے تعلقات، بیوگی، خانہ داری کے تمام پہلواس قدر روشن ہیں کہ ان کی تقلید کرکے ایک مسلمان عورت دونوں جہاں میں اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرخرو ہوسکتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد تقریباً اڑتالیس(48) سال تک یہ امت کی محسنہ، عالم اسلام کے شب وروز کو انوارالہٰی اور اسوہئ حسنہ سے مسلسل اور متواتر منور کرتے رہنے کے بعد چند روز علیل رہ کرسترہ(17) رمضان المبارک 58ھ؁ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی، یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایام خلافت تھے، نماز جنازہ حاکم مدینہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں (، عبداللہ بن زبیرؓ،قاسم بن محمدؒ، عبداللہ بن عبدالرحمانؒ، عبداللہ بن ابی عتیق ؒ اور عروہ بن زبیرؒ)نے لحد میں اُتارا اور اس وقت جنت البقیع (مدینہ منورہ) میں محواستراحت ہیں۔ رضی اللہ عنہا وارضاہ!
٭٭٭٭٭

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں