صبح گھنٹی کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو امی کی آواز آئی “بیٹا نسیمہ ہوگی۔۔ دروازہ کھول دو”۔۔۔۔۔۔”امی اس کو آپ صبح ہی کیوں بلاتی ہیں اس کی وجہ سے میری روز نیند خراب ہوتی ہے” میں دروازہ کھول کر آئی سونے لیٹی ۔۔۔۔مگر ماسی نسیمہ کی جھاڑو!! میں دل ہی دل میں کڑتی تکیہ منہ پر رکھ کر سو گئی۔۔۔۔
دوسرا روزہ تھا۔۔ دوپہر کو اٹھی نہا دھوکر ظہر پڑھی اور تلاوت قرآن کے لئے بیٹھ گئی اس کے بعد میں نے کچھ اپنے کالج کا کام کیا اس سے بھی دل بھرا تو کمپیوٹر لے کر بیٹھ گئی۔۔ انہیں سب میں شام ہو گئی امی صبح دورۂ قرآن میں جاتی تھیں تو دوپہر میں آ کر سو جاتیں۔۔۔۔ شام کو امی اٹھیں تو میں نے کہا “آج افطار کیلئے کیا بنائیں گی؟” امی نے کہا “دہی بڑے ،فرائیڈ چکن، فروٹ چاٹ اور سموسے ہیں۔۔ آپ آکر فروٹ چاٹ بنالو” “جی اچھا امی ۔۔
میں کچن میں کھڑی فروٹ چاٹ بنارہی تھی کہ گھنٹی بجی امی نے کہا “دیکھو نسیمہ ہوگی” میں نے جا کر دروازہ کھولا ۔۔۔ وہ حسب روایت آتے ہی صحن کی جھاڑو دینے لگیں ۔ میں فروٹ چاٹ بنا کر فارغ ہوئی تو وہ برتن دھونے آگئیں میں ماسی نسیمہ کو باجی کہتی تھی میں نے کہا “باجی آپ گھر کب جاتی ہیں” انھوں نے کہا “گڑیا رمضان میں روزے کے بعد ہی گھر کی شکل دیکھتی ہوں کیونکہ سب لوگ صبح کے بعد شام کو بھی بلاتے ہیں” میں نے کہا “ہاں۔۔۔۔” پیچھے سے امی آواز آئی “تم روزہ رکھو تو بتا دینا اس دن میں کام کا خیال رکھ لوں گی اور پھر آپ شام میں نہ آنا ۔” اس نے کہا “جی بہتر!”
اگلے دن وہی دس بجے اس کی گھنٹی کی آواز آئی۔۔ میں امی کے بولنے سے پہلے ہی دروازہ کھولنے چلی گئی اور جلدی سے بستر پر لیٹ گئی کہ مبادا نیند اڑ نہ جائے مگر کچھ ہی دیر میں ہار مان کر اٹھ گئی منہ ہاتھ دھو کر آئی تو امی نے کہا “بیٹا میں دورۂ قرآن میں جا رہی ہوں۔آپ نسیمہ سے کام کروا لینا اور آج ان کا روزہ ہے اس لیے وہ کمروں کا نہیں صرف درمیان کا پوچھا دیں گی۔” میں نے کہا “جی اچھا۔” کام کروا کر فارغ ہوئی ظہر کی نماز پڑھی پھر قرآن پڑھ کر سونے لیٹ گئی کیونکہ صبح نیند نہیں لے سکی تھی۔۔۔۔شام کو چار بجے اٹھی امی کچن میں تھیں میں نے کہا “امی! آج میں نے لب شیریں کی ریسیپی دیکھی تھی آج فروٹ چاٹ کی جگہ بنالوں؟” امی نے کہا “چلو ٹھیک ہے۔ کچھ الگ ہو جائے گا ” میں بڑے شوق سے لب شیریں بنانے کھڑی ہو گئی۔۔ عصر تک میں نے سویٹ ڈش بنا کر فریج میں رکھی اور نماز پڑھ کر امی کا ہاتھ بٹانے لگی۔ افطار کے بعد کچن کو دیکھا تو کچن برتنوں سے بھرا تھا کیونکہ آج باجی نہیں آئیں تھیں اس لئے افطار سے پہلے اور بعد کے برتن منہ چڑا رہے تھے میں نے ایک سانس بھری اور برتن دھونے کھڑی ہوگئی برتن دھو کر فارغ ہوئی ۔ امی اور بھائی کو چائے دی ۔ چائے کے برتن رکھے تو عشاء کی اذان کی آواز آئی ۔میں انتہائی تھک چکی تھی اس لئے تراویح کا خیال کافی سوچنے پر مجبور کرنے لگا خیر میں نے وضو کیا اور تراویح کے لیے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔ابو تراویح پڑھ کر آئے ۔۔۔۔ تو آواز دی “صالحہ!” میں نے کہا “جی آئی” ابو نے کہا “بیٹا آج صحن کی صفائی نہیں ہوئی؟” میں نے کہا “جی ابو آپ رکیں۔” صحن کی جھاڑو دیتے ہوئے مجھے آج ماسی نسیمہ بہت یاد آئیں۔۔۔۔۔جھاڑو دے کر میں امی کے پاس گئی۔ امی سے کہا “امی !آپ کل سے باجی کو منع نہیں کیجیےگا شام کے بہت کام ہوتے ہیں۔۔۔۔” امی نے محبت بھرے انداز میں کہا “میری بچی تھک گئی آج ۔۔۔ مگر بیٹا دیکھو آپ کے صرف ان کام کرنے کی وجہ سے اس نے روزہ رکھ لیا اگرہم ان کو سہولت نہ دیں تو یہ لوگ اپنے فرض کیسے ادا کریں گے ؟ ہم تو اپنے گھر کا آدھا کام کرتے ہیں اور تھک جاتے ہیں۔۔ یہ تو روزے میں کتنے گھروں کو کام کرکے دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ اتنی پر مشقت زندگی میں روزہ رکھتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اس پر آسائش زندگی میں رہ کر ذرا کچھ عبادت کر لیں تو اپنے آپ کو زاہد وعابد قرار دیتے ہیں۔۔ اگر آپ یہ برتن دھو گی تو اس کو روزہ رکھنے میں آسانی ہوگی۔۔ سوچو یہ کتنی بڑی نیکی ہو گی اور پھر رمضان میں تو نیکی کا ستر گنا ثواب ملتا ہے۔۔” میں نے کہا “امی آپ ان سے کہیں وہ اس بار روزے رکھ لیں کیونکہ یہ کام توہو ہی جائيں گے۔۔۔۔۔ہم دونوں مسکراۓ اور سونے کےلیے چلے گئے۔