کیا غضب کی لڑکی تھی

آواز میں تھوڑی سی لکنت اور گردن تھوڑی سی مڑی ہوئی، حسین پُر کشش اسمارٹ سی باحجاب لڑکی تھی جس نے پہلی ملاقات میں مجھے موہ لیا۔ ماں کی خدمت گزار اور فل ڈے جاب کرنے والی اس لڑکی کی ماں نے بتا یا کہ پانچ سال پہلے جب اس کا نکاح ہوا تو معمولی نارمل لڑکی تھی۔ چند دنوں بعد فالج کے اثر سے اسکی آوازاور گردن متا ثر ہوئی۔ پانی کی طرح پیسہ بہا کر دوا دعا کے بعد یہ بالکل ٹھیک ہو گئی۔ اس دوران داماد جی اور ان کے گھر والوں کے نخرے اٹھاتے رہے۔ اللہ اللہ کرکے کافی جہیز اور مال و متاع کے ساتھ رخصتی ہوئی تو گُل کھلے کہ شوہر نامدار اور ان کی والدہ بہنیں کا فی مطلبی، لالچی اور خود غرض ہیں۔ ہر طرح سے لڑکی کا جینا اجیرن کیا ہوا ہے۔ اسے صرف پیسے اور کام کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ والدہ کے گھر بھی خوشی سے لڑکی کو بھیجنا محال ہے۔ پھر لڑکی کی والدہ اچا نک بیمار ہوگئیں وہ اجازت کے ساتھ کچھ دن ماں کی خدمت اور دیکھ بھال کیلئے میکے آئی۔ پیچھے سے کڑی دھمکی آئی کہ واپس آنے کی ضرورت نہیں۔ دل جلی مجبور لڑکی نے خود ہی خلع لینے کا فیصلہ کیا اور تما م تر نقصانات کو سہہ کر ایک بار پھر ماں کی خدمت اور نوکری کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھنے لگی۔ دیندار تو وہ تھی ہی صبر شکر سے رہنے لگی۔ ماں نے کافی تگ و دو کے بعد تقریباً ڈیڑھ دو سال بعد ایک دو بچیوں کے باپ سے اس کی دوسری شادی کی اور گھر داما د کے طور پر رکھا۔ اب تک وہ کافی قابل اچھی تنخواہ اور آفس کی گاڑی خود کی اپنی مناسب زندگی گزار رہی تھی۔ اس بندے سے بھی اس کی کوئی اولاد نہ ہو سکی تقریباً ڈھائی سال بعد وہ کچھ بیمار ہو گئی۔ وہی پہلے جیسی مصروف زندگی ماں بچوں اور شوہر کے ساتھ صبر شکر سے رہ رہی تھی۔ اس میاں میں بھی ا تنی مروت نہ تھی مگر بہر حال کچھ بہتر تھے۔ کبھی بھی کسی سے کوئی گلہ نہ کیا ہمیشہ ہر ایک کیلئے خدمت محبت خلوص لئے حا ضر رہنے والی لڑکی سے جب میری بات ہوئی تو اس نے میسج دیا کہ آنٹی بیمار ہو ں تھک گئی ہوں کھایا پیا نہیں جا تا دعا کیجئے۔ اپنا خیال رکھئے اور انکل کو سلام کہئے اور دعا کیلئے بھی کہئے۔ میں باہر گئی ہو ئی تھی میسج کا جواب دیا دل سے دعا کی کہ اللہ پاک عا فیت عطا فر ما۔ ابھی چار پانچ روز ہی ہوئے تھے کہ مجھے ایک دوست کا میسج ملا کہ اس کا شدید ٹا ئیفائیڈ کے بعد انتقال ہوگیا ہے۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے (آمین)۔ بتیس سال سے اڑتیس سال کا یہ عرصہ اور جوان زندگی سے موت کا دورانیہ میرے لئے سبق آموز اور دل دہلا دینے والا تجربہ تھا۔ بوڑھی ماں دو بیٹوں کی موجودگی میں بھی اتنی مطمئین نہ تھی جو بیٹی کے ساتھ تھی۔ “کیا غضب کی لڑکی تھی ” خاموش کہا نی جتا گئی کہ ہے “دنیا فانی” اسے جینے کیلئے محنت خلوص، لگن، انسانیت اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ اپنی صلا حیتوں، وقت اور محبت کو بانٹتے بانٹتے صبر و شکر سے زندگی گزار کر ہی حیا ت جنم لیتی ہے۔ یہی اسی پڑوسی لڑکی کا ہمارے لئے پیغام تھا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں