تعارف:
ہرسال پاکستان میں جب بھی اسلامی و مسیحی روزے آتے ہیں تو اکثر دونوں ادیان کے ماننے والے‘ ایک دوسرے سے ان کے روزہ کے بارے سوالات کرتے ہیں۔
چنانچہ مسیحی و اسلامی روزوں کے موقع پر مسیحی مشنری ادارے مسیحی و اسلامی روزہ کے تقابل پرجو تحریریں چھاپتے ہیں ‘ ان میں شاید ناسمجھی یا کم علمی کی بناپر بعض باتیں اسلامی تصور روزہ کے خلاف بھی ہوتی ہیں۔مناسب معلوم ہوا کہ اس بارے ایک ایسی تحریر لکھی جائے جو مسیحی بھائیوں کو اسلامی تصور روزہ کو سمجھنے میں مدد دے۔
تعریف اسلامی روزہ:
اسلامی اصطلاح میں روزہ کے لیے’’ صوم‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں اس کا مطلب ہے کسی چیز سے روکنایعنی پابندی لگادینا۔چونکہ اسلامی روزہ میں ‘ ایک مسلمان دن کے مخصوص وقت میں کھانے، پینے ، جنسی فعل اورکچھ دیگر باتوں سے خود کو روک لیتا ہے‘ اس لیے اسے ’’صوم‘‘ کہتے ہیں۔
مقصد:
اس کامقصد قرآن میں بیان کیا گیا ہے’’۔۔۔۔لعلّکم تتقون۔‘‘یعنی تاکہ روزہ دار مسلمانوں میں‘ نیکی و راست بازی پیدا ہوجائے۔
اسلامی تصور روزہ:
دین اسلام کے مطابق روزہ ایک شخصی عبادت ہے‘ نہ کہ اجتماعی(جیسا کہ جمعۃالمبارک ‘ ایک اجتماعی عبادت ہے)۔یعنی ضروری نہیں کہ تمام مسلمان مل کر روزے رکھیں ‘تب ہی یہ ادا ہوں گے۔بلکہ اسلام کے مطابق یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔چنانچہ روزہ نہ رکھنے پرایک مسلمان سے کوئی بھی شخص یا تنظیم پوچھ گچھ نہیں کرسکتی کیونکہ یہ بندہ اور خدا کا معاملہ ہے۔
البتہ چونکہ اسلام لوگوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کے لیے آیا ہے۔اس لیے روزہ کے بارے میں بھی کچھ بنیادی اصول و ضوابط بتادیے گئے ہیںیعنی کب کھولنا اور رکھنا ہے‘ اس کا دورانیہ کیا ہونا چاہیے؟ نیز یہ بھی کہ روزے ہرسال میں ایک مخصوص ماہ‘ لازماً رکھے جائیں تاکہ اس شخصی عبادت کے بجالانے میں بھی معاشرتی نظم و ضبط نظر آئے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیا میں دن اور رات کا دورانیہ ‘باقی تمام دنیا سے مختلف ہے۔مثلاً ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات رہتی ہے۔یا کسی ملک میں دن بیس گھنٹے جبکہ رات صرف چار گھنٹے کی ہوتو ایسے خطے کے لوگوں کو چاہیے کہ اگر تو وہ اتنے طویل روزے رکھنے کی ہمت و طاقت رکھتے ہیں نیز انہیں کوئی بیماری بھی نہیں، تب تو وہ یہ روزے رکھ لیں۔لیکن اگر انہیں اپنی جسمانی حالت کے تحت ایسا ممکن نظر نہ آتا ہو تو پھر قرآنی حکم ’’ فعدۃ من ایام اخر‘‘ کے تحت وہ جب چھوٹے دن آئیں، تب روزے رکھ سکتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام نے روزوں کادارومدار چاند کی حرکت پر رکھا ہے،جس کی وجہ سے کبھی روزے چھوٹے دنوں میںآتے ہیں اور کبھی بڑے۔ چنانچہ اس طرح اگر آج روس کے لوگ 22 گھنٹوں کا روزہ رکھ رہے ہیں تو یقیناًکچھ سال بعد وہ صرف 2 گھنٹوں کا روزہ بھی رکھیں گے۔ چنانچہ جس سے 22گھنٹوں کا روزہ نہ رکھا جائے تو اسے چاہیے کہ جب روزے کا دورانیہ 2 گھنٹے کا ہو تب رکھ لے۔ کیونکہ صرف چند ایک مقامات کی وجہ سے بقیہ پوری دنیا کو ’روزہ‘ جیسی خوبصورت عبادت یا اس کے نظم و ضبط (کب کھولنا اور کب بند کرنا ہے) سے چھٹکارا دے دینا ‘ کسی بھی لحاظ سے خداوند قدوس و دانا کی منشاء یقیناً ہرگز ،ہرگز نہیں ہوسکتی۔
جیسا کہ بیان ہوا‘ روزہ ایک شخصی عبادت ہے‘ اس لیے اس کامقصد بھی یہی ہے کہ ایک شخص کو شخصی و ذاتی طور پر بہتر انسان بنایا جائے۔چنانچہ اس مقصد کے لیے اسلام نے جو سب سے بہتر اصولپیش کیا ہے‘ وہ انسان کو اپنے نفس و خواہشات پر کنٹرول کرنا بتایا ہے۔کیونکہ انسان جتنی بھی غلطیاں اور گناہ کرتا ہے‘ وہ سب اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہی کرتا ہے۔
جب نفس ٹھیک ہوگاتوہرفرد بہتر’’انسان ‘‘ بنے گااور جب ہرفرد بہتر انسان ہوگا تو معاشرہ ’’انسانی‘‘ہوگا۔یعنی ایسا معاشرہ جس میں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور انہیں دکھ نہ پہنچائیں۔محبت و خوف الٰہی کے جذبہ کی وجہ سے لوگوں کے حقوق پامال نہ کریں ۔
چنانچہ اسلام نے ایک شخص کو اپنی غلط خواہشات پر قابو اور باطن کی صفائی کے ذریعے بہتر انسان بنانے کے لیے ہرسال میںایک ماہ تک‘ تمام دن کھانے،پینے اور جنسی فعل کرنے سے روک دیا ہے۔نیز یہ حکم بھی دے دیا ہے اگر ان تین کاموں میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کرکیا تو پھر اس دن کا روزہ ٹوٹ یا ختم ہوجائے گا۔ساتھ ہی انسانی نفس کو لگام دینے کے لیے ‘ جان بوجھ کر روزہ توڑنے کیوجہ سے نفس کی سزا یا باطن کی پاکیزگی کے طور پر کفّارہ بھی لازم کردیا گیا‘ تاکہ انسان اپنی خواہشات کو کچلنا سیکھے۔ رہا یہ سوال کہ آخر صرف ان تین کاموں سے ہی کیوں منع کیا گیا؟
اس کا جواب ہے کہ یہ تینوں کام ایسے ہیں ‘ جنہیں ہرانسان عام طور پر جانتے بوجھتے ‘ ضرورت پڑنے پر نیز کچھ وقفوں سے ضرور بالضرورسر انجام دیتا ہے۔پھر یہ ایسے کام ہیں جو اگرچہ انسان کی انتہائی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتے ہیں نیز جس وقت ان کی طلب ہوتو انسان بے چین ہوجاتا اور خود پر قابو رکھنا مشکل محسوس کرتا ہے۔البتہ کچھ گھنٹوں تک خود کو روکنا بھی ممکن ہے۔
بہ الفاظ دیگر اگر ایک انسان کے دلی خلوص و جذبۂ اطاعت کا امتحان اس طرح لینا مقصود ہوکہ اس کی روزمرّہ زندگی و معمول بھی قائم رہیں لیکن وہ اس امتحان میں مشکل بھی محسوس کرے‘ تو ان باتوں پر پابندی لگانا بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اسلامی تصور روزہ کے مطابق ‘ ایسا ہرگز نہیں کہ روزہ رکھنے کے بعد ایک مسلمان کو صرف ان تین کاموں سے ہی رکنے کا حکم ہو‘ خواہ ان کے علاوہ وہ کچھ بھی گناہ یا خلافشرع کام کرتا پھرے۔بلکہ درحقیقت اسلامی روزہ کا مقصد ‘ مسلمان میں ’تقوٰی ‘ یعنی نیکی و پرہیزگاری اور خداو انسان میں محبت کا رشتہ پیدا کرنا ہے۔چنانچہ ایک مومن کو چاہیے کہ وہ حالت روزہ میں ہرقسم کے حلال و حرام اور جائز وناجائز کا خیال رکھے۔کسی کاحق نہ مارے اور جہاں تک ہوسکے انسانیت کی خدمت کرے۔ہر اس کام سے بچے جو اس کے علم میں گناہ ہے‘ اور موقع ملنے پر ہر وہ نیکی کرے جسے وہ جانتا ہے۔پھر اسلام نے صرف زبانی حد تک ہی یہ سب نہیں کہا‘ بلکہ روزہ کے فوائد و اثرات معاشرے میں پہنچانے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔
چنانچہ مومنوں میں روزوں کے مہینہ ’’رمضان‘‘کی اہمیت اجاگر کی گئی اور اسے رحمت و برکت نیز مغفرت کا مہینہ قرار دیا گیا۔ایک روزہ کا بہت زیادہ اجر و ثواب مقرر کیا گیاتاکہ مسلمانوں کی طرف سے روزہ رکھنے کو یقینی بنایا جائے۔چونکہ کچھ لوگ باغی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں جنہیں اپنے نفع و نقصان کا اندازہ نہیں ہوتا۔ایسے لوگوں سے ان کی بھلائی کا کام زبردستی یا ڈرا کر بھی کروایا جاتا
ہے۔لہٰذا ایسے باغی النفس لوگوں کو اخلاقی طور پر ڈرانے کے لیے ‘ روزہ چھوڑنے پر گناہ و عذاب کا ڈراوا بھی دیا گیا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک ماں اپنے نادان بچے کے بہتر مستقبل کی خاطراسے سکول نہ جانے پرمارنے یا سزا دینے کا ڈراوا دیتی ہے۔کیونکہ درحقیقت ماں ہی بچے کی حقیقی خیر خواہ ہے۔
یونہی انسانوں میں پیار ،محبت و خیرخواہی اور فلاح انسانیت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے رمضان المبا رک میں غریبوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔اس عظیم مقصد کے لیے صدقہ و خیرات خصوصاً زکوٰۃ و فطرانہ کا نظام دیا گیا ہے۔اس نظام کے تحت ہر سال اسلامی دنیا میں‘ اس ماہ مبارک میں اربوں روپیہ گردش میں آتا ہے۔جس میں امیرو غریب ‘سب کا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق
حصہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں اپنے خالق و مالک کی اطاعت و فرمانبرداری اور محبت پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عبادت کی ترغیب دی گئی ہے۔چنانچہ عام دنوں کی نسبت رمضان میں فرض نمازوں کا ثواب ستر70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔اسی طرح ’’تراویح‘‘ کا نظام بھی دیا گیاجس میں بعد ازنمازعشاء 20 رکعات میں قرآن مجید سنا اور اپنے خالق کو یاد کیا جاتا ہے۔
یہ بات تو بالکل ثابت و تسلیم شدہ ہے کہ اسلام میں اللہ کے حقوق سے زیادہ مخلوق کے حقوق پر زور دیا گیا ہے۔بروز قیامت ‘ اللہ اپنے حقوق تو خودمعاف کردے گالیکن انسانی حق تلفی‘ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ‘ اس کی مرضی کے بغیر معاف نہیں کی جائے گی۔
اس صورت میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دین اسلام میں روزہ رکھوانے کا مقصد صرف انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا ہی ہو؟ جبکہ روزہ میں حقوق اللہ پورے کرنے کا مطالبہ بھی موجود ہے۔
چنانچہ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے جو واضح ارشاد فرمایا ‘ا سکا مفہوم ہے کہ اگر ایک شخص روزہ تو رکھے لیکن وہ اس کے تقاضے پورے نہ کرے مثلاً نمازیں نہ پڑھے،حقوق اللہ پورے نہ کرے،یاپھر شریعت کی منع کی گئی باتوں جیسا کہ جھوٹ،چغلی،غیبت،وعدہ خلافی یا بدنظری وغیرہ سے نہ بچے تو پھر اس مومن کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ درحقیقت وہ صبح سے شام تک خواہ مخواہ بھوکا پیاسا ہی رہا۔
معلوم ہوا کہ جب روزہ رکھ کر حقوق اللہ پورے نہ کرنے سے روزہ بے کار ہوجاتا ہے تو پھر حقوق العباد پورے نہ کرنے سے روزہ کس طرح فائدہ مندہ ہوسکتا ہے؟
مزید آسانی کے لیے اس مثال پر غور کریں کہ جب ایک بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو سکول سے متعلقہ ہرہر چھوٹا بڑا قانون پہلے ہی نہیں بیان کیا جاتا ۔ بلکہ شروع میں تو صرف یونیفارم کا رنگ اور فیس وغیرہ ہی بتائی جاتی ہے ۔البتہ جب بچہ اس یونیفارم کو پہن لیتا ہے تو اس پر اسکول کے تمام قواعد و شرائط لاگو ہوجاتی ہیں۔یونہی بظاہر روزہ میں صرف کھانے پینے سے ہی منع کیا گیا لیکن درحقیقت روزہ رکھنے کے بعد روزہ دار پر تمام شرعی حدود و قیود کی پابندی لازمی ہوجاتی ہے۔
روزہ اور ریاکاری:
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ روزہ ایک شخصی عبادت ہے‘جس کا تعلق کسی دوسرے فرد سے نہیں ہوتا ۔لہٰذا ایک مومن کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے روزہ کو چھپائے نیز کسی پر اس کا اظہار کرکے اپنے نیک ہونے یا پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہ کرے۔شرعی طور پر روزے دار کا مالک یا آجر‘ روزے کی وجہ سے ‘ اسے سہولتیں دینے یا پھر کم کام لینے کا پابند نہیں ہے۔چنانچہ اگر کوئی مسلمان روزہ رکھ کر ‘ اپنے مالک کے علم میں لائے بغیر کام ٹھیک طرح سے نہ کرے یا کام چوری کا مرتکب ہوتویقیناً وہ حقوق العباد میں حق تلفی کا مرتکب ہے‘ جس کا گناہروزہ دار کولازماً ملے گا۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعض باتیں اور ذمہ داریاں قانوناً نہ سہی تو اخلاقاً ضرورمحسوس کرنی چاہییں ۔
مثلاََاگر سڑک پر حادثہ کی وجہ سے کوئی شخص زخمی پڑا ہوتو اسے ہسپتال پہنچانا ہماری قا نونی ذمہ داری نہیں۔لیکن اخلاقی طور پرہرانسان کو اپنی ذمہ داری محسو س ہوتی ہے۔
بالکل اسی طرح اگر ایک شخص روزہ کی وجہ سے بھوکا پیاسا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ روزہ دار کی جسمانی طاقت وہ نہیں ہوگی جو ایک عام شخص کی ہوتی ہے۔لہٰذا اخلاقیات کا تقاضہ یہی ہے کہروزہ دارکا احساس کیا جائے۔ہم اس سے بہت زیادہ یا بہت مشکل کام نہ لیں نیز اسکے سامنے کھانے پینے سے گریز کریں‘تاکہ روزہ دار کو بھوکا پیاسا ہونے یا روزہ کی وجہ سے آنے والی وقتی سختی کےبارے میں شیطا ن دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈالے۔
ہاں البتہ شرعی طور پراسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔آپ روزہ دار کو دی گئی اجرت کے مطابق کام بھی لے سکتے ہیں نیز اس کے سامنے کھا اورپی بھی سکتے ہیں۔جبکہ شرعاً روزہ دار کے لیے یہ پابندی لازمی ہے کہ وہ اپنے مالک کا کام پورا کرے اور اسے حتی الامکان خوش رکھے۔روزہ کو اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ نہ بنائے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ روزہ دار کو اوپر بیان کردہ مسائل بھی عموماً غیر اسلامی معاشرے میں ہی پیش آتے ہیں۔ورنہ جہاں تک تعلق ہے اسلامی معاشروں کا‘ تو چونکہ استاد و شاگرد ،آجر و مجیراور مالک و خادم وغیر ہ ا لغرض سب کا ہی روزہ ہوتا ہے۔اس لیے ماہ رمضان میں سب ہی ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں نیز اوقات کار بھی کم کردیے جاتے ہیں۔اس لیے مسلم عوام کو زیادہ مسائل کا
سامنا نہیں کرنا پڑتا۔رہا یہ سوال کہ پورے ملک میں ایک ماہ تک اوقات کار کم ہونے یا پھر روزوں کی وجہ سے کام کم ہونے کی وجہ سے تو معاشی طور پر نقصان ہوسکتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مادی ترقی کے لیے سال میں گیارہ مہینے دیے ہیں جبکہ روحانی ترقی کے لیے ایک مہینہ۔چنانچہ جس طرح مادی ترقی ضروری ہے،اسی طرح روحانی ترقی اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔لہٰذا اگر اس روحانی ترقی کی خاطر ہم ایک ماہ کم پیسہ کمائیں تو یہ سودا مہنگا نہیں۔
روزہ اورپابندی:
اسلامی تصور روزہ پر ایک آخری اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں پابندی ہے جوکہ اچھی چیز نہیں۔جو شخص روزہ رکھنا چاہے‘ رکھ لے اور جو نہیں رکھنا چاہتا تو اس کی مرضی۔اسی طرح کب ر وزہ رکھنا ہے اور کب کھولنا ہے؟ یہ بھی بلاوجہ کی پابندی ہے۔یہ باتیں بھی انسان کی مرضی پر ہونی چاہییں کہ وہ کتنی دیر کا روزہ رکھے گا اور کب کھولے گا۔
سب سے پہلے تو روزہ کے لیے استعمال ہونے والے اصل لفظ یعنی ’’صوم‘‘ پر غور کرنا چاہیے‘کہ اس کا لفظی مطلب اور مفہوم کیا ہے؟ اسلامی نظریے کے مطابق تو ہم پیچھے بیان کرآئے ہیں کہ ’’صوم‘‘ کا مطلب ہے ’کسی کام یا چیز سے رک جانا یعنی پابندی لگادینا۔ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے توروزہ میں پابندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
مسیحی تصور روزہ:
اب دیکھتے ہیں کہ مسیحی نقطۂ نظر سے روزہ کا مفہوم کیا ہے؟ مسیحی روزہ کے بارے مسیحی تعلیمات واضح کرنے کے لیے پاکستان بائبل کارسپانڈنس انسٹیٹیوٹ فیصل آباد)جوایک سرگرم و ذمہ دار مسیحی مشنری ادارہ ہے) کے پرنسپل جناب ’روفن راورولیم‘ صاحب نے ایک کتابچہ ’’روزہ۔کے بارے مسیحی تعلیمات‘‘ تحریر کیا ہے۔اس کتابچہ میں “وہروزے کا مفہوم ‘‘ کے تحت صفحہ3 پر لکھتے ہیں:
’’روزے کے لیے عبرانی زبان میں لفظ ’’صوم‘‘ استعمال ہوا ہے۔عہد عتیق کے مطابق اس عبرانی لفظ ’’صوم‘‘ کا مطلب ہے فاقہ کشی ‘ نفس کشی‘ یا اپنی جان کو دکھ دیناہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’اسی طرح یونا نی زبان میں روزے کے لیے لفظ’’ انانیپسو‘‘ (Inna napso ) استعمال ہوا ہے۔اس کا مطلب بھی اپنی جان کو دکھ دینا ہے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں’’یوں اصطلاحی طور پر روزے سے مراد ایسی عبادت ہے جس میں روزہ دار ایک خاص مدت کے لیے ہرطرح کے کھانے سے گریز کرتا ہے‘‘۔ اس کے بعد روفن راورولیم صاحب مسیحی روزہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بائبل مقدس کے مطابق روزہ سے مراد کسی خاص وقت کے لیے کھانے، پینے ، سونے ،اور جنسی ا فعال سے منہ موڑ کر اپنی تمام تر توجہ روحانی ترقی کی طرف مبذول کرنا ہے۔ اس دوران ہم۔۔۔۔اپنی نفسانی خواہشات سے انکار کرتے ہوئے اپنا وقت دعا میں گذارتے ہیں۔‘‘ ملاحظہ کیجیے ’’روزہ۔کے بارے مسیحی تعلیمات،صفحہ3 ۔
اسلام اور مسیحیت میں روزہ کا تصور جانتے ہوئے ہمیں معلوم ہوا کہ (1) دونوں مذہبوں میں روزہ کے لیے ایک ہی لفظ یعنی ’’صوم‘ ‘ استعمال ہوا ہے۔(2) دونوں مذہبوں میں ’’صوم‘ ‘ کا ایک ہی مطلب یعنی خود پر سختی کرنا یا پابندی لگاناہے۔ (3 )دونوں مذہبوں میں ’’صوم‘ ‘ کا طریقہ (فاقہ کرنا اور جنسی فعل سے باز رہنا) اور مقصد(راستبازی و نیکی اور روحانی ترقی کا حصول) ایک ہی ہے۔
محترم قاری! روزہ کے بارے میں آ پ اسلامی و مسیحی تصورات کی یکسانیت،مماثلت اور مشابہت دیکھ کر یقیناً حیران رہ گئے ہوں گے۔کیاآپکادل گواہی نہیں دیتا کہ یقیناروزہ کا حکم اور تعلیم کسی ایک ہی ہستی (خداوند) کی طرف سے ہے؟ یہاں پر ہم اگر ایک قرآنی آیت پر غور کریں تو معاملہ مزید واضح ہوجاتا ہے۔چنانچہ سورۃ البقرۃ : 183 میں قرآن نے دعویٰ کیا ہے :
’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔‘‘ یعنی اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں بالکل اسی طرح جیسا کہ تم سے پہلے والی اقوام پر فرض کیے گئے تھے،تاکہ تم راستباز اور نیک ہوجاؤ۔
سو معلوم ہوا کہ قرآن کا یہ دعوٰی غلط نہیں ہے نیز واقعی قرآنی روزہ اسی ہستی (خداوند) نے عطا کیا ہے جس نے پہلے کی اقوام یعنی یہودی و مسیحی مذاہب میں روزہ کا حکم دیاکیونکہ ہم مسیحی و اسلامی روزہ میں بنیادی طور پر بہت زیادہ مماثلت دیکھتے ہیں۔ اس ضمنی بحث کے بعد ہم واپس اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں جو روزہ میں اسلامی پابندی کے حوالے سے تھا۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ روزہ کاتو اصل مفہوم ہی پابندی ہے نیز اس کا مقصد ہی انسان پر سختی ہے تاکہ اس میں برداشت کا مادہ پیدا ہو اور وہ اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھ جائے ،تو پھر اسلامی تصورو طریقۂ روزہ پر پابندی و سختی والا اعتراض بے معنٰی و بے جا ہے۔اگر روزے میں سے پابندی و سختی کو نکال دیا جائے تو پھروہ روزہ رہے گا ہی نہیں،اس طرح صرف روزے کا نام لیے جانا جبکہ اس کا اصل طریقہ بدل کر اپنی مرضی و آسانی کے مطابق اسے موڑ لینا یا اس کا انکار ہی کردینا،یہ خدائی حکم کے ساتھ کھیل اور مذاق کے سوا کچھ نہیں۔
پابندی کے فوائد: اگر ہم کائنات و دنیا کے نظام پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پوری کائنات پابندی کے اصول پر ہی چل رہی ہے۔جہاں پابندی یعنی نظم و نسق یا اصول و ضوابط اور قواعدو شرائط نہیں ہوتیں ۔وہاں زندگی کا قائم ہونا‘ اس کا قائم رہنا نیز انسانوں کا بہتر اور کامیاب زندگی گذارنے کا تصور ناممکن ہوتا ہے۔چنانچہ ہمارا نظام شمسی بھی پابندی کی ہی ایک مثال ہے۔
سورج روزانہ مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں ’پابندی سے‘ ڈوبتا ہے۔پھول نہایت پابندی سے صبح کھلتے ہیں اور شام کو بند ہوجاتے ہیں۔ہم پابندی سے صبح اٹھ کر اپنے سکول و آفس یا کام کی جگہ پہنچتے ہیں۔ہمارا دل کرتا ہے کہ بینک میں رکھی دولت حاصل کرکے خوب عیش بھری زندگی گذاریں ۔۔لیکن۔۔۔ قانون کا ’ڈر‘ ہمیں ایسا نہ کرنے پر ’مجبور‘ کرتا ہے۔
انسانی فطرت کچھ ایسی ہے کہ جہاں اپنا فائدہ ہو‘ تو ہمیں پابندی اچھی لگتی ہے لیکن جہاں اپنانقصان اور دوسرے کا فائدہ ہو تو ہمیں یہی پابندی بری لگتی ہے۔ مثلاً اتوار کے دن آفس سے اپنی چھٹی پر ہم خوش ہوتے ہیں لیکن اسی دن گھریلو ملازمہ کی چھٹی ہمیں انتہائی ناگوار لگتی ہے۔ایسی صورت میں ہمیں کسی پابندی کا برا لگنا ‘ کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ درحقیقت یہ ہماری’’ فطری بغاوت‘‘ یا لالچ و نفسانی خواہشات کے غلام ہونے کا اشارہ ہے۔ چنانچہ روزہ میں پابندی بھی اسی لیے لگائی گئی ہے کہ پابندی نہ ہوتو پھر بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر لوگ روزہ رکھیں گے۔
ذرا سوچیے! کس کا جی چاہے گا کہ وہ روزہ نہ رکھنے کی آزادی کے باوجود‘ خواہ مخواہ روزہ رکھے اور کئی گھنٹے مفت میں بھوکا پیاسا رہے؟ نیز دیگر نفس کو اچھے اور لذت دینے والے کاموں سے بھی رکا رہے۔کیا ہم نے کبھی سکول جانے والے بچے سے یہ کہا کہ ’’بیٹا تمہاری مرضی ہے‘ چاہو تو سکول جاؤ اور چاہو تو نہ جاؤ اور ہوم ورک بھی مرضی ہوتو کرلینا ورنہ ضرو ر ت نہیں ہے ‘‘۔ آخرکیوں؟؟
اس لیے کہ ہم جانتے ہیں ایسی صورت میں کوئی بچہ نہ تو سکول جائے گا اور نہ ہی اپنا ہوم ورک کرے گا۔بلکہ ہم اسکے بھلے کے لیے‘ الٹا بچے کو ڈراتے اور دھمکاتے ہیں تا کہ وہ ضرور سکول جائے ۔
الغرض کہ روزہ کے حوالے سے مسیحی بھائیوں کی طرف سے ’پابندی ‘کا بہانہ بنانا‘ درحقیقت انسانی فطری بغاوت کی نشانی ہے۔لہٰذا مسیحی بھائیوں کو چاہیے کہ بجائے روزہ پر اعتراض کرنے کے‘ وہ اپنے نفس کی اصلاح کریں جوکہ منہ زور گھوڑے کی مانند ہوکر خدائی کاموں میں نہ صرف دخل دینے بلکہ انہیں بدلنے لگا ہے۔ مسیحی بھائیوں کو چاہیے ‘وہ اس بات پربھی غور کریں کہ آخر وہ کون شخص یا لوگ تھے ؟ جنہوں نے یہودیت میں’ روزہ‘ کا حکم ہونے اور اس پر عمل ہونے کے باوجود مسیحیت میں اس’ حکم‘ کو ’مشورہ ‘ میں تبدیل کردیا اور اس حکم کو اتنا ہلکا کردیا کہ آج مسیحی قوم میں ’روزہ‘ ایک بھولی بسری بات بن کر رہ گیا ہے۔جس کا نام تو سب لیتے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں کرتا،بلکہ بعض نے تو اس کا انکار کرکے‘ اس خدائی حکم کو بالکل ہی دفن کردیاہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس صورت حال پر بجائے نادم یا دکھی ہونے کے‘روفن روار ولیم صاحب اپنی تصنیف ’’روزہ‘‘ ۔صفحہ17 ،پر لکھتے ہیں’’خدا کا شکر ہوکہ المسیح نے ہمیں تمام تر شریعتی اور قانونی ضابطوں سے آزاد ی بخشی ہے کہ ہم اپنی آزاد مرضی اور دل کی خوشی سے نہ صرف روزہ بلکہ دیگر تمام عبادات کے اوقات اور دورانیہ کا فیصلہ بھی خود ہی کرکے کسی ’پابندی‘ اور’ خوف‘ کے بغیر روح اور سچائی سے خداکی عبادت کرسکتے ہیں۔‘‘ روفن صاحب نے اس دعوے کاثبوت عہدنامہ جدید میں 2 مقامات سے پیش کیا ہے:
(1) ’’۔۔۔تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو‘‘رومیوں۶:۱۴۔نیز(2) ’’مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لیے آزاد کیا۔۔‘‘ گلتیوں۵:۱۔
کاش کہ روفن صاحب ’المسیح‘کے نام سے کیے جانے والے اس دعوے کا ثبوت ’المسیح‘ کے کسی قول سے بھی پیش کردیتے۔کیونکہ یہ باتیں ’المسیح‘ کی اپنی نہیں بلکہ المسیح کے 12 شاگردوں کے علاوہ، بعد میں ایمان لانے والے’’پولس‘‘ کے اپنے خیالات ہیں جو المسیح کی زندگی میں انکے سخت جانی دشمن اور مخالف رہے تھے۔نیز ان کے ایمان لانے پر یقین نہ کرتے ہوئے انہیں ’المسیح‘ کے 11 شاگردوں نے ٹھکرا بھی دیا تھا۔
حرف آخر:
امید ہے مسیحی بھائیوں کو اس وضاحت کے بعد ‘ اسلامی روزے کا تصو ر ‘ مفہوم اور طریقۂ کار کی سمجھ آگئی ہوگی۔نیز جو سوالات و اعتراضات تھے‘ یقیناً وہ بھی دور ہوگئے ہوں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔نیز شریعت سے چھٹکار ا پانے کے طریقوں اور سوچ سے بچنے کی بھی توفیق دے جو سراسر شیطانی وسوسہ اور تعلیم ہے۔ا