مذہبی انتہا پسندی کے نام پر چین کا جنون جو کہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہے حد سے گزر چکا ہے۔ چین میں صدیوں سے رہائش پذیر تقریباً ڈیڑھ کروڑ ایغور مسلم اپنی شناخت سے محروم کئے جارہے ہیں ، ان کو زبردستی ری ایجوکیشن کیمپس میں بھیجا جاتا ہے جہاں تشدد کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور یہ نسل کشی کی ایک بدترین شکل ہے۔اخبار گارجین اپنی ۷ مئی ۲۰۱۹ کی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ تقریباً دو درجن سے زائد مساجد اور مذہبی عمارات صوبے کے مختلف مقامات پر مکمل طور پر تباہ کردی گئی ہیں۔ ان میں کاشغر کی وسیع اور خوبصورت کارگلک مسجد اور ہوٹن کے قریب مسجد یوشین ایتیکا بھی شامل ہیں ۔ گارجین اور بیلنگ کیٹ کے رپورٹر اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ ظلم وستم والے حالات میں جہاں مسلم شناخت بھی چھینی جارہی ہے ، اگلی نسل بالکل اسلام سے نابلد ہوگی جبکہ موجودہ نئی نسل بھی مذہب سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے۔
چینی ایغور نسل کو مٹانے کے لئے چین سفاکی کی ایک تاریخ رقم کررہا ہے ، مغربی میڈیا اس پر آواز اٹھا رہا ہے لیکن حکومت چین ڈھیٹ بنی ان تمام کارناموں کی تردید کررہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سنکیانک کے عوام پر زندگی تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ اس پر مسلم ممالک کی خاموشی ایک مجرمانہ فعل ہے۔ دنیا بھر میں چینی عوام کے جرائم سامنے آتے ہی رہتے ہیں ۔ حال ہی میں پاکستان میں چینی لڑکوں کا ایک گینگ بھی پکڑا گیا ہے جو سادہ لوح لڑکیوں سے جعلی شادیاں کرکےان کو قحبہ گری پر مجبور کر کے کمائی کرتا تھا۔
اسی طرح پاکستان میں مختلف بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں سے پیسے نکلوانے کے واقعات بھی منظر عام پر آچُکے ہیں کیونکہ ملک عزیز میں سیکیورٹی سسٹم اتنا مضبوط نہیں ہے۔ چینی باشندے کثیر سرمایہ رکھنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جائیداد خرید رہے ہیں ۔ حکومت پاکستان کو ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ایسے قوانین کا اجراء کرنا ہوگا جس سے ملکی دولت ملک ہی میں رہے اور جعلی شناختی کارڈ بنانے پر سزا ہو۔ چین دوستی کی آڑ میں کہیں ہمیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچا دے۔ خدا کرے ہم بھی چین سے اپنے ایغور مسلم بھائیوں کے لئے احتجاج کی جرات کریں کہ بہرحال پڑوسی ہونے کے ناطے ہم پر حق ہے۔