روزہ۔۔۔۔۔عشق الٰہی کا مظہرکامل

 رمضان کا پورا مہینہ معمولات کے چھو ڑنے اور ایک مخصوص وقت تک بنیادی ا نسانی ضرورتوں سے دورہنے کا نام ہے،بندہ اپنے رب کے حکم میں فنا ہوکر سب چھوڑ کراس کی خوشی حاصل کرتا،سب سے ٹوٹ کراس سے جڑتا اور سب کو کھوکر اس کو پانے کی کوشش کرتاہے

روزہ اسلام کی اہم ترین عبادت اور اس کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو اپنے خالق ومعبود سے عشق ومحبت اور کمال ِتعلق کا مظہر ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہا ر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشن ندی کی طلب میں بھوک، پیاس برداشت کی جاتی ہے اوردنیا وی تعلقات اورکھانے پینے کی حلال چیزوں سے بچا جاتا ہے،جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ہمارا رب اس سے راضی ہوجائے،کھانے کے اسباب موجود ہیں،لیکن ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں جاسکتا، پانی کی کمی نہیں اور پیاس نے ہونٹوں اور منہ کو خشک کر رکھا ہے، لیکن کیا مجال کہ کوئی گھونٹ حلق کو تر کردے، دن بھریہ تکالیف اور مشقتیں برداشت کرنے کے بعد سورج ڈوبتے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزہ دار کھاتا،پیتاہے۔ دن بھر کی فاقہ مستی کے بعد اس کھانے نے طبیعت کو بوجھل اور جسم کو کمزور کردیا ہوتا ہے اور جسم کے ہر ہرحصے میں آرام و استراحت اور نیند کرنے کی خواہش مچل رہی ہوتی ہے، لیکن جس رب کو راضی کرنے کے لیے کھانے پینے اور جنسی خواہش کی قربانی دی،اسی رب کا اب یہ حکم ہے کہ نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور نماز بھی عام معمول یعنی عشاء کی سترہ رکعات سے  بڑھ کر مزید بیس رکعات ادا کرو اور وہ بھی کسی قدر طویل قیام وقرأت کے ساتھ،اب بندہ اپنے رب کی رضاکی خاطر اپنے تمام آرام واستراحت کے تقاضوں کو قربان کرکے اس کی بارگاہ میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ نماز سے فارغ ہوکر سوئے ایک پہرہی گزرتا ہے کہ پھر سے سحری کے لیے اٹھنے کا حکم آتا ہے،بندہ اس پر بھی لبّیک کہتا ہے۔اس تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان کا پورا مہینہ قدم قدم پرمعمولات کے چھو ڑنے، اور ایک مخصوص وقت تک بنیادی ا نسانی ضرورتوں سے دورہنے کا نام ہے،گویا بندہ اپنے رب کے حکم میں فنا ہوکر سب چھوڑ کراس کی خوشی حاصل کرتا،سب سے ٹوٹ کراس سے جڑتا اور سب کو کھوکر اس کو پانے کی کوشش کرتاہے، اسی لیے خود اللہ تعالی نے فرمایا:

روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزادوں گا،یایہ کہ میں خود اس کی جزاہوں۔(بخاری،کتاب الصوم)

روزے کا مقصد قرآن پاک کی زبان میں روزہ کا مقصد خاص تقویٰ کا حصول ہے،چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ:تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں،جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے،تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔(البقرۃ:۳۸۱)

تقویٰ ضبط نفس سے عبارت ہے، پیٹ اورنفسانی خواہشات گناہ کے سب سے بڑے دروازے ہیں،ہر گناہ کا سلسلہ انھی دومحرکات سے ملتا ہے۔ چوری اور ڈکیتی،قتل وغارت گری،غصب،دوسروں کے مال پر بے جاقبضہ،دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا،کسب معاش میں حرام وحلال کی حدوں کی نظراندازکردینا،ان سارے گناہوں کا سرچشمہ پیٹ کے سوااور کیا ہے؟ زنا، بد کاری اور بد نگاہی کی تمام ٖصورتیں اور ان کے لیے قتل وخون ریزی اور آبروریزی ان تمام گناہوں اور فتنوں کی اسا س نفسانی خواہشات ہی تو ہیں!روزہ صبح سے شام تک حرام وناجائز تو کجا، حلال وجائز طریقہ پر بھی ان خواہشات کو بر تنے اور عمل میں لانے کی اجازت نہیں دیتا۔جو بندہئ مومن مسلسل ایک ماہ اپنے آپ کو اس طرح نفس کے دام سے بچانے میں کامیاب رہے گا اور وقتاًفو قتاًنفل روزوں کی صورت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی سے محبت کے عہد کو تازہ کرتا رہے گا۔ یقینااس میں اپنے آپ پر کنٹرول کی صلاحیت پیدا ہوگی اور وہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاسکے گا،اسی کانام”تقویٰ“ہے۔جو مسلمان مرد وعورت روزے کو اس کے تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے سنت وشریعت کی تعلیمات کے مطابق رکھنے کا اہتمام کرے گا،اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ اس شخص میں تقویٰ کا جوہر اور پرہیز گاری کی صلاحیت ضرور پیدا ہوگی۔ان شاء اللہ!

روزے سے متعلق آداب

شریعت نے روزے کے عمل کی انتہائی اہمیت بتلائی ہے اور یہ روزہ اگر اپنی روح کے مطابق ہو تو نہ صرف یہ کہ شیاطین سے بھی روزے دار کی حفاظت ہوتی ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی اور جہنم سے بھی حفاظت ہوتی ہے لیکن خود روزے دار سے بعض اوقات ایسے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں جو روحانیت کے اعتبار سے روزے کو کمزور کردیتے ہیں۔ گویا کہ ان اعمال کی وجہ سے خود روزے دار اپنے روزے کو متاثر کردیتا ہے جیساکہ ایک روایت کے مطابق خود نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک کہ وہ خود (روزہ دار) اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔(سنن نسائی جلد 1 صفحہ 311)

اس اہمیت کے پیش نظر علمائے کرام نے اس کے چند آداب اور ان کے اہتمام کو ضروری قرار دیا ہے جوکہ درج ذیل ہیں:

(۱) روزہ دار اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے یہاں تک کہ اپنی اہلیہ پر بھی روزے کی حالت میں شہوت کی نگاہ نہ ڈالے اس لیے کہ نگاہ شیاطین کے تیروں میں سے ایک تیر ہے علمائے کرام نے اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ہر اس عمل سے منع کیا ہے جو دل کو خدا سے پھیر کر کسی دوسری طرف متوجہ کردے۔

(چنانچہ محتاط قسم کے لوگ خصوصی طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں ٹی وی وغیرہ دیکھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے جبکہ غیر رمضان میں بھی غیرمحرم کو دیکھنے کا جواز نہیں ہے۔)

(۲) روزہ دار، روزے کی حالت میں جھوٹ، چغل خوری، لغو، بکواس، غیبت، بدگوئی، بدکلامی، جھگڑے وغیرہ سے اپنی حفاظت کرے۔

(۳) روزہ دار ہر ناجائز بات کے سننے سے اپنے کانوں کی حفاظت کرے۔ (اگر رمضان المبارک میں مسلسل یہ عادت پڑگئی تو ان شاء اللہ غیر رمضان میں بھی اس حفاظت میں آسانی رہے گی۔)

(۴) تمام بدن کے اعضاء مثلاً ہاتھ، پاؤں وغیرہ کو ناجائز کاموں سے محفوظ رکھے نیز اسی طرح افطار کے وقت مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے پیٹ کو محفوظ رکھے۔

(۵) افطار کے وقت حلال مال سے بھی خوب پیٹ بھر کر روزے کی غرض کو فوت نہ کرے (روزے کی غرض نفسانی اور حیوانی قوتوں کو کم کرنا اور نورانی اور ملکوتی (فرشتوں جیسی) قوتوں کو بڑھانا ہے۔)

(۶) مندرجہ بالا تمام چیزوں کا اہتمام کرنے کے بعد اس بات سے ڈرتا رہے کہ نامعلوم روزہ قابل قبول ہے بھی یا نہیں (اس لیے کہ بہت سے روزے داروں کو بھوکا پیاسا رہنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بہت سے عبادت گزاروں کی عبادت کو ان کے منہ پر مار دیا جاتا ہے اور بہت سے ریاکار اور شہرت کی نیت رکھنے والوں کو اپنی اس بدنیتی کی وجہ سے آخرت میں سب سے پہلے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔)

سحری،فضیلت اور ضروری احکام

لغت میں رات کو سو کر رات ہی کے اوقات میں جاگنے کو سحری یا سحر آگہی کہا جاتا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں سحری اس عمل کو کہتے ہیں جس میں رات سونے کے بعد اُٹھ کر صبح صادق کا وقت شروع ہونے سے قبل روزہ رکھنے کے لیے کچھ کھایا پیا جاتا ہے۔روزہ کی ابتداء طلوع صبح صادق سے ہوتی ہے اور اختتام غروب آفتاب پر، اس لیے شریعت نے یہ سہولت رکھی ہے کہ روزہ دار صبح ہونے سے پہلے سحری کھالے، تاکہ روزہ میں قوت بحال رہے۔ مختلف حدیثوں میں آپ نے اس کی ترغیب دی ہے۔ سحری کے مستحب ہونے پر امت کا اجماع ہے (شرح النووی علیٰ مسلم،جلد:۱صفحہ:۰۵۳)

شریعت نے اس (سحری) کھانے کو نہ صرف برکت کا کھانا کہا ہے، بلکہ اس کو ثواب کی چیز بھی بنادیا ہے یعنی سحری کھانے پر اجر بھی دیا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے۔ (مسلم،جلد:۱،صفحہ: ۰۵۳)

 عمر وبن عاص ﷺ سے مروی ہے، آپﷺ نے فرمایا: ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کافرق ہے۔ (مسلم،جلد:۱،صفحہ: ۰۵۳)

حضرت زید بن ثابت ﷺ سے مروی ہے: ہم لوگ جب رسول ﷺ کے ساتھ سحرکرتے تھے تو سحری اور فجر کی اذان کے درمیان پچاس آیت کی تلاوت کے بقدر فاصلہ ہوتا تھا(عام طور پر اتنی مقدار قرآن پانچ چھ منٹ میں پڑھاجاتا ہے۔) (بخاری،جلد: ۱،صفحہ:۷۵۲)

ایک روایت کے مطابق خود حق تعالیٰ شانہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔(مسنداحمد جلد 3 صفحہ44)

 مسئلہ:روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانا نہ فرض ہے او رنہ ہی واجب بلکہ صرف اور صرف مسنون ہے، کیونکہ سحری سو کر اٹھنے کے بعد کھائی جاتی ہے اس لیے صبح صادق سے اتنی دیر پہلے اٹھنا بہتر ہے کہ اطمینان کے ساتھ سحری کھائی جاسکے البتہ اتنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے کہ سحری کے وقت کے ختم ہوجانے کا اندیشہ پیدا ہوجائے، نیز سحری اتنی زیادہ بھی نہ کھائی جائے کہ فجر کی نماز کی ادائیگی بھی مشکل ہوجائے۔

مسئلہ:ہمارے علاقوں میں عموماً سارا سال فجر کی اذانیں وقت ہوجانے کے باوجود تاخیر سے دی جاتی ہیں اور رمضان المبارک میں بھی احتیاطاً صبح صادق کے بعد چند لمحات کی تاخیر کی جاتی ہے لہٰذا اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ سحری کا وقت صبح صادق ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے جو لوگ سحری کا وقت اذان فجر تک سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور ان کا روزہ شروع ہی نہیں ہوتا۔ نوٹ:اگر کسی روزے دار نے سحری کا وقت ختم ہوجانے کے باوجود اس غلط فہمی میں کھانا پینا جاری رکھا ہو کہ ابھی وقت باقی ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وقت ختم ہوچکا تھا تو اس کا روزہ شروع ہی نہیں ہوا اور اسے اس روزے کی قضا ضروری ہے لیکن اُسے اس دن بھی غروب آفتاب تک روزے داروں کی طرح ہی رہنا ہوگا یعنی روزہ شروع نہ ہونے کے باوجود اس کے لیے غروب آفتاب سے پہلے کھانا پینا جائز نہیں اسی طرح روزہ تو صحیح اپنے وقت پر شروع ہوگیا تھا لیکن اگر کسی روزے دار عورت کے ماہانہ ایام کی دن میں ابتدا ہوجائے تو اس کا روزہ بھی ختم ہوجائے گا جس کی بعد میں اسے قضا کرنی ہوگی البتہ ایسی عورت کو بھی غروب آفتاب تک روزے داروں کی طرح ہی رہنا ہوگا۔

ہمارے یہاں لاؤڈاسپیکر اور سائرن وغیرہ کے ذریعے بھی سحری کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے، احتیاطاً اس اعلان سے دو تین منٹ قبل ہی سحری ختم کردینی چاہیے اس لیے کہ گھڑیوں کے اوقات میں بھی آپس میں کچھ نہ کچھ اختلاف نظر آتا ہے۔ سحری اگر کسی دن نہ کھائی جاسکی ہو تو بغیر سحری کا روزہ رکھنا پڑے گا بغیر سحری کے روزہ چھوڑنا پست ہمتی ہی نہیں گناہ کا کام بھی ہے۔ اگر سحری کا وقت ابھی باقی ہے اور کسی نے روزہ رکھنے کی نیت کرلی اس نیت کے بعد سحری کے وقت کے ختم ہونے سے پہلے دوائی یا کسی چیز کے کھانے کی خواہش ہو تو سحری کے وقت کے مکمل ہونے سے پہلے پہلے تک نیت کرلینے کے باوجود دوبارہ کھاسکتا ہے۔

افطار،فضیلت اور ضروری احکام

روزے کے مکمل ہونے پر عین مغرب کے وقت جس چیز سے کھانے پینے کی ابتدا کی جاتی ہے اسے افطاری کہتے ہیں۔ شریعت نے افطار کے لیے کھجور اور زم زم سے ابتدا کرنے کو افضل قرار دیا ہے لیکن لازمی نہیں بتلایا، نہ ہی اس کے علاوہ کسی حلال غذائی اشیاء کو لازم قرار دیا ہے اپنے اپنے علاقوں اور موسم کے اعتبار سے مفید اشیاء کے استعمال کی اجازت دی ہے۔

فضیلت:حضرت سہیل بن سعد ﷺ سے مروی ہے، رسولﷺ نے فرمایا: لوگ(امتِ محمدیہ) اس وقت تک خیر پر رہیں گے،جب تک افطار میں عجلت کرتے رہیں گے (مسلم،جلد: ۱،صفحہ:۱۵۱)

مسئلہ:جب اس بات کا یقین ہوجائے کہ سورج غروب ہوچکا ہے تو افطاری میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے،شریعت نے افطار میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہے جوکہ غروب آفتاب کے بعد ہی کا وقت ہے اور اس کے لیے ہمارے زمانے میں اگرچہ سحری اور افطار کے نقشے صحیح صحیح شائع ہوتے ہیں لیکن گھڑیوں کے اوقات میں باہمی فرق کی وجہ سے افطار کرنے میں احتیاطاً چند لمحات کی تاخیر کی جانی چاہیے تاکہ پورا اطمینان ہوجائے کہ سورج غروب ہوچکا ہے

مسئلہ: اگرکسی نے یہ احتیاط نہیں کی اور خدانخواستہ کسی دن کا روزہ جلدبازی کی وجہ سے غروب آفتاب سے قبل کھول لیا گیا تو وہ روزہ نامکمل کہلائے گا:

(۱) اگر شک ہو تو افطار کر لیا کہ آفتاب ڈوب چکا ہے، مگر بعد کو معلوم ہو اکہ اس کی غلط فہمی تھی تو صرف اس کی قضاء واجب ہو گی۔

(۲) اگر گمان تھا کہ آفتاب نہیں ڈوبا ہے پھر بھی افطار کر لیا توکفارہ بھی واجب ہو گا۔(ہندیہ،جلد:۱،صفحہ:۵۹۱)

رمضان المبارک کی مخصوص نمازتراویح

ہر عاقل، بالغ، مقیم مرد و عورت پر رمضان المبارک کے پورے مہینے کی ہر رات میں عشاء کے فرض پڑھ لینے کے بعد باجماعت یا اکیلے اکیلے پڑھنا سنت مؤکدہ ہے،اس وقت پڑھی جانے والی اس نماز کو نماز تراویح کہتے ہیں۔ نماز تراویح صرف رمضان المبارک ہی میں پڑھی جاتی ہے۔اس کی بیس(20) رکعات کو جماعت سے پڑھنے کا اہتمام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں لازم کیا گیا، اس وقت سے لے کر آج تک مسلمانانِ عالم ہر زمانے میں اس پر عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ نماز تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھ لینے کے بعد شروع ہوتا ہے اور سحری کا وقت ختم ہونے تک جاری رہتا ہے، لہٰذا اگرکسی رات میں کسی وجہ سے اول وقت میں نماز تراویح ہی نہ پڑھی جاسکی ہو یا اس کی کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں تو انہیں سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے تک پڑھ لینا چاہیے اس کے بعد قضا نہیں ہے۔ اس نماز کے حسن (خوبصورتی) میں دو چیزیں شامل ہیں:

(۱) رمضان المبارک کی تمام راتوں میں عشاء کے فرضوں اور وِتروں کے درمیان باجماعت پڑھنے کا اہتمام۔

(۲) نماز تراویح میں ایک خاص مقدار میں روزانہ پورا قرآن مجید اس ترتیب کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام،کہ پورے مہینے میں از اوّل تا آخر کم از کم ایک مرتبہ مکمل پڑھ اور سُن لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ اس رمضان المبارک کو تمام امت مسلمہ کے رحمت وبرکت اور بخشش ومغفرت کا ذریعہ بنائے۔تمام مسلمانوں کو اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے روزہ رکھنے،تراویح ادا کرنے اور زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں