رمضان کے ابتدائی دن ہیں، مساجد کی رونقیں بحال ہو چکیں ہیں، رات میں تراویح کی نماز میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ رمضان اسلام کا حسن ہے ۔ اس میں اللہ نے کیا رحمتیں اور برکتیں رکھی ہیں اور کتنی کشش رکھی ہے۔ ہر کوئی مسجد کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔جو جماعت سے رہ جاتا ہے اس کے چہرے پر ندامت نظر آتی ہے، میرا دوست زید کہتا ہے ہم فجر کی نماز سے واپس جارہے تھے ،کچھ نوجوان جو جماعت سے رہ گئے وہ ہمیں رستے میں ملے لیکن ان کی نظریں شرم کے مارے جھک گئیں کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے، یہ وہ رمضان ہے جس کے حسن نے ایک مسلمان کے اندر اتنا جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ ہی نوجوان جو کانوں میں ہینڈ فری لگے مسجد کے پاس سے لا پرواہی سے گزر جایا کرتا تھا ، لیکن آج رمضان نے اس کی اندرونی کیفیت کو بدل ڈالا۔ آج بہت سے اجنبی چہرے بھی مسجد میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے نظر آرہے ہیں، کتنی ہی آنکھیں ہمیں نم دکھائی دی۔ بہت ہی مصروف یا سست انسان کے علاوہ ہر مسلمان نے مسجد کی طرف رخ کیا۔ فجر کی نماز کے تو کیا کہنے آج جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ہمیں ایک یہودی کی بات یاد آگئی کہ” جس دن فجر کی نماز میں مسلمانو ں کی تعداد جمعہ کی تعداد جتنی ہو جائے گی اس دن مسلمان غالب آجائیں گے” آج بالکل جمعہ جتنی ہی تعداد فجر کی نماز میں دکھائی دے رہی تھی لیکن شاید مسلمان پھر بھی غالب اس وجہ سے نہیں آسکے کہ یہ رونقیں ، یہ جو ش و ولولہ چند دن کا ہوتا ہے پھر مساجد میں فجر کی نماز میں بمشکل تین سے چار صفیں پوری ہو پاتیں ہیں، پھر نمازیں قضا ہونا شروع ہوجاتی ہیں، پھر تلاوت چھوٹ جاتی ہے، پھر رفتہ رفتہ انسان خدا کو بھلانے کے در پے ہو جاتا ہے، پھر شیطان سے دوستی ہونے لگتی ہے، پھر نفس کے جال میں انسان پھنستا نظر آتا ہے، پھر سے گناہ کی گرد و غبار فضا کو آلودہ کر دیتی ہےاور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دفعہ پھر ہمارا اللہ ہمیں رمضان جیسی عظیم نعمت سے نوازتا ہے۔ لیکن میرے رب کے حوصلے تو دیکھو ہم پورے گیارہ مہینے کیا کچھ نہیں کرتے ، پھر بھی ہمیں کھلاتا ہے،پلاتا ہے، پہناتا، ہمارے اوپر زمین کو تنگ نہیں کرتا ، قوم عاد و ثمود کی طرح صفحہ ہستی سے مٹاتا نہیں ۔ بلکہ میرے پیارے نبی ﷺ کی دعاؤں کی بدولت ہمیں مہلت دیتا ہے۔ توبہ تو ہر وقت قبول کرتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنا مہینہ بھی دیتا ہے جسے ہم رمضان کہتے ہیں یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ جب اللہ نے ہمیں اپنا مہینہ دیا تو کیا ہم اپنا کچھ وقت اللہ کو نہیں دے سکتے، وہ بھی اپنے بھلے کے لئے، میرا اللہ تو ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم صبح سے شام تک مسجد میں بیٹھے رہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ ہم ہر وقت اللہ کو یاد رکھیں۔ اس کی نافرمانی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو صرف یہ کہہ کر ٹالنا نہیں کہ ہم تو پہلے سے بڑے گناہ گار ہیں ہمارا تو کچھ بننا ہے نہیں لہذا گناہ کرتے جاؤ۔۔۔ نہیں نہیں یہ نفس کا دھوکا تو ہو سکتا ہے ، یہ شیطانی وسوسہ تو ہو سکتا ہے لیکن ایک مسلمان کا عقیدہ و تصور نہیں ہو سکتا ۔ اس لیئے کہ انسان جس کی عبادت کر کے حقیقی معنوں میں انسان کہلاتا ہے وہ ذات تو اتنی بخشنے والی ہے کہ اگر آپ سے گناہ ہو گیا اور آپ اس پر فکر مند ہو گئے کہ میں نے اپنے پالنے والے کی نافرمانی کر دی، تو آپ کی یہ فکر آپ کو توبہ کی دہلیز تک لے جائے گی ، دستک دے کر اللہ کو پکارنا، پھر دیکھنا میرے رب کو تو معاف کرنا بہت پسند ہے، وہ اپنے محبوب پیغمبر کی امت کو بھی ضرور معاف کرے گا، لیکن کوئی معافی مانگے تو سہی ، کوئی سجدے میں پیشانی تو ٹیکنے ولا بنے، کوئی اپنی پلکیں تو آنسوؤں میں بھگو کر دیکھے، کوئی اپنے گناہ پر نادم تو ہو، کوئی تسلیم تو کرے کہ میں گناہ گار ہوں، کوئی عاجزی تو کرے میرے رب کےسامنے پھر دیکھو اللہ تعالی کتنا رحم کرتا ہے۔ ہم اتنے گناہ کر رہے ہیں پھر بھی وہ ہمیں نوازتا ہے ، تو کیا توبہ کریں گے تو نہیں نوازے گا، یہ اس کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ رمضان ایک مہمان ہے، ایک ہی تو مہینہ ہے، اس دنیا میں صدیوں کا پتہ نہیں چلتا کیسے بیت جاتیں ہیں یہ تو صرف ایک مہینہ ہے یہ بھی گزر جائے گا ، جس نے خدا کو منا لیا اس کا بھی یہ مہینہ گزر جائے گا، اور جو نہ منا سکا اس کا بھی یہ مہینہ گزر ہی جائے گا۔ فرق صرف اتنا ہوگا پہلا شخص بروز قیامت سرخرو رہے گا اور دوسرا شخص اس گزرے وقت پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہ کر سکے گا۔ وقت کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ کسی کے لئے رکا نہیں کرتا ۔ رمضان بھی ایک وقت ہی ہے جو کسی کا انتظار نہیں کرے گا، دھیرے دھیرے رخصت ہو جائے گا۔ پھر درمیان میں گیارہ مہینے ہیں کون جیئے گا ،کون مرے گا اگلے سال تک ،کسی کو کچھ معلوم نہیں ، نہ جانے اگلا رمضان ہماری قسمت میں ہو گا بھی یا نہیں۔ تو جب اللہ نے یہ سنہرا موقع دیا ہے اور پیکج بھی لاجواب ہے ایک فرض و نفل کا ثواب کئی کئی گناہ بڑھ جاتا ہے۔ توپھر ہمیں اس موقع کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ اور اپنے لئے کچھ زاد راہ کا انتظام کر لینا چاہیے، نہ جانے زندگی کی کون سی شام آخری ہو اور مسافر رخصت ہو جائے۔