رمضان المبارک دولازوال خوشیوں کامہینہ

کچھ دن قبل ایک دوست سے ملاقات ہوئی توچہرے پرپریشانی کے آثارتھے استفسارپرکہنے لگے پورے شہرکاچکرلگاچکاہوں لیکن کوئی درزی عیدکے کپڑے سلائی کرنے کے لئے تیارنہیں جس کسی دکان پرجاؤتوباہرجلی حروف میں تحریرہے ہمارے ہاں مزیدکپڑے لینے کی گنجائش نہیں اورکمبخت درزی بات سننے کے لئے تیارنہیں،کہتے ہیں ایڈوانس بکنگ ہوچکی ہے رمضان میں سرکھجانے کی فرصت نہیں کہیں اوررابطہ فرمالیں۔اب آپ ہی بتلائیں نئے کپڑوں کے بناعیدکوئی کیسے منائے؟دوست کایہ غصہ شایداپنی جگہ بجاتھالیکن اس واقعہ نے میری آنکھیں کھول دیں مجھے ایک دھچکالگاکہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک درزی کوآمدرمضان کااس لئے سال بھرانتظاررہتاہے کہ وہ اس ایک مہینہ میں سال بھرسے زیادہ کمائے گاچوبیس گھنٹوں میں وہ صرف چندگھنٹے آرام کے لئے نکالتاہے باقی وقت سرجھکائے ہمہ تن مصروف اپنے کام میں مگن رہتاہے۔لیکن کاش کیاہی اچھاہواکہ ہم اپنے خالق ومالک کوراضی کرنے کے لئے ان مبارک شب وروزمیں خوب عبادت وریاضت کریں۔
دوجہاں کے سردارخاتم النبیین ﷺ کی سیرت مبارکہ میں استقبال رمضان میں کمال درجہ کااشتیاق وانتظارمعلوم ہوتاہے ابھی رجب کاچاندنظرآتاتوزبان اقدس پرفوراًیہ دعاآجاتی ”اے اللہ ہمارے رجب اورشعبان میں برکت عطافرمااورہمیں رمضان تک پہنچا“ دوماہ تک متواتریہ دعاوردزبان رہتی پھریہی نہیں شعبان المعظم میں خوب روزے رکھ کرخود کوماہ مبارک کے روزوں کے لئے تیارکیاجاتا اورجب رمضان المبارک کی آمدہوتی توچہرہ کھل اٹھتا عجیب سی بشاشت ورونق جلوہ افروزہوتی۔اورایساکیونکر نہ ہوتاکہ خود خالق ارض وسماء جنت کو رمضان المبارک کے لئے شروع سال سے آخرسال تک مزیّن فرماتے ہیں اوررمضان کی پہلی رات عرش کے نیچے سے مثیرہ نامی ہواچلتی ہے کہ جس سے جنت کے درختوں کے پتے اورکواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں جس سے ایسی سریلی آوازنکلتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آوازکبھی نہیں سنی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کرجنت کے بالاخانوں کے درمیان کھڑی ہوکرکہتی ہیں ”ہے کوئی اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا؟تاکہ اس کی ہم سے شادی کردی جائے۔
خالق رمضان اپنی رحمتوں اوربرکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اورجہنم کے دروازے بندکردیتا ہے اوراپنے اوراپنے بندہ کے دشمن شیطان مردووکو جکڑدیتاہے کوئی ایک نیکی کرے توبدلہ میں ۰۷گناجھولی میں ڈال دیتاہے اعلان ہوتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے میں خودا س کااجردوں گا۔عشرہ اول میں رحمتوں کی موسلادھاربارش ہوتی ہے وسط میں مغفرت اورآخرمیں جہنم سے آزادی کی نویدسنائی جاتی ہے۔رمضان المبارک کاآخری عشرہ ساری دنیاسے یکتاہوکرجب کوئی بندہ مؤمن اپنے آقاومولی کے درکافقیربن کرگذارتاہے تواس کی مثال اس دروازہ کھٹکھٹانے والے کی مثل ہے کہ جوکسی کے غصے اورناگواری وحقارت سے لاپرواہ ہوکراپنامطلب لیے بناکسی قیمت پرنہیں ٹلتا اوربالآخراس کو اس کامطلوب مل جاتا ہے معتکف کو اللہ تعالی کی رضاوخوشنودی اورمغفرت کاپروانہ دے دیاجاتاہے۔
رب العالمین اوررحمۃ للعالمین ﷺ کی اس ماہ مبارک میں عنایات سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ان کے نزدیک یہ ساری کائنات سے قیمتی اوقات ہیں۔ان گنت انعامات واحسانات میں دومخصوص خوشیاں ایسی ہیں جن کاظہورصرف اسی ماہ میں ہوتاہے ایک توافطارکے وقت کی خوشی وفرحت اوردوسری جب یہ روزہ داراپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا۔
شہنشاہ عالم نے امت محمدیہ ﷺ کورمضان المبارک کے طفیل قرآن کریم اورلیلۃ القدرجیسی بے نظیروبے مثال تحفے عنایت کیے کہ جن میں سے ہرایک صرف اسی امت کاشرف خاص ہے۔اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺ اورامت مسلمہ سے اسی ماہ مبارک میں خطاب کاآغازکیااورپھر۳۲سال کاطویل عرصہ شب وروزمیں جب وہ چاہتاہے اپنے فرامین کوجبرائیل امین ؑکے ذریعہ سے پہنچاتا۔ان مبارک راتوں کوکلام باری سننے اورسنانے والوں کووہ اپنامحبوب بنالیتا ہے اوران کواپنی رضاکاپروانہ عطاکرتا ہے اورخود ان کی تلاوت کو سنتاہے اورہزارراتوں سے افضل رات شب قدر کہ ساری زندگی کی شب بیداری کواس سے ادنی سی مماثلت وبرابری نہیں۔طلوع فجرتک آسمان سے زمین تک نورکاتانتا بندھارہتاہے۔
یہ پے درپے انعامات کی بارش فقط اسی دل کونصیب ہوگی کہ جواپنے مالک اوراس کے محبوب پیغمبرﷺکی کماحقہ منشاوچاہت کے مطابق ان گھڑیوں کوبسرکرے گا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں