انوکھی افطاری

الماتے سے جہاز میں سوار ہوئے تو عصر کا وقت تھا، ہم نے براستہ ابوظہبی اسلام آباد جانا تھا،جہاز فضا میں بلند ہوا تو ہم نے اپنے ساتھ بیٹھی مسافر سے علیک سلیک کی، اسے ابوظہبی سے آگے انڈونیشیا جانا تھا، وہ وہاں تعلیم حاصل کر رہی تھی، اسے عید بھی وہیں منانی تھی،ہم اس سے باتوں میں مشغول تھے جب کھانے کی ٹرالیاں مسافروں کی نشستوں کے ساتھ چلنے لگیں، ہر مسافر کو دو تین آپشنز کا کارڈ پہلے ہی دیا جا چکا تھا، ان سے دوبارہ وضاحت کے ساتھ کھانا تقسیم ہونے لگا، کچھ ہی دیر میں ائر ہوسٹس کھانے کی ٹرے لئے آ حاضر ہوئی، ہم دونوں کا ہی روزہ تھا، ہم نے اس سے معذرت کی اور استدعا کی کہ ہمیں افطار کے وقت بتا دیا جائے اور کھانا پینا بھی اگر اسی وقت مل جائے تو۔۔
وہ مسکرائی، ہاں میرا بھی روزہ ہے، یقیناً میں آپ کو بھی افطار کے وقت بتا دوں گی۔اس کا تعلق اردن سے تھا، سولہ سترہ گھنٹے کا طویل روزہ تھا، مگر وہ چاک و چوبند ملازمت کے ساتھ روزہ بھی رکھے ہوئے تھی، بے احتیار اس سے محبت محسوس ہوئی۔
سارے مسافروں کو کھانا کھلا کر وہ فارغ ہوئی تو میری ساتھی مسافر کو پچھلی نشست پر بھیج دیا، شاید جہاز میں کئی سیٹیں خالی تھیں،میں اکیلی ہوئی تو اونگھ آنے لگی، کچھ دیر بعد اس نے مجھے ہولے سے بیدار کیا اور کھجور اور دودھ کا گلاس دے گئی، میں نے افطار کا پوچھا تو کہنے لگی، افطار کے لئے رکھ لو روزہ کھلے گا تو اس سے پہلے بتا دوں گی۔
کچھ دیر بعد وہ کھانے کی ٹرے بھی لے آئی، بولی پانچ منٹ بعد روزہ کھول لینا۔۔
جہاز میں اکثر مسافر کھانا کھا کر اونگھ رہے تھے، کچھ سو چکے تھے، میں افطار کے انتظار میں جاگ رہی تھی اور گھڑی کی ٹک ٹک سن رہی تھی، اگرچہ میں الماتے کی حدود سے نکل چکی تھی اور ابوظہبی نجانے کتنا دور تھا، اب میں قازقستان کے ٹائم زون میں تھی یا ابو ظہبی کے، یا کسی تیسرے ملک کی فضا یا سمندر کے اوپر جہاز اڑ رہا تھا، میں کچھ الجھن کا شکار تھی، گھڑی نے پانچ منٹ کا دورانیہ پورا کیا تو میں نے روزہ کھولنے سے پہلے جہاز کی کھڑکی کا پٹ اوپر کیا، مگر یہ کیا؟
آسمان پر سورج چمک رہا تھا، پٹ کھولتے ہی دھوپ جہاز کے اندر محسوس ہونے لگی، میں کبھی گھڑی کی جانب دیکھتی اور کبھی روشنی اور حرارت بکھیرتے سورج کی جانب دیکھتی۔۔ ائر ہوسٹس ایک مرتبہ پھر میری جانب آئی اور خیر سگالی سے پوچھا: ”کچھ اور چاہئے؟ جی اگر پانی کا گلاس مل جائے تو۔۔
۔ ”ایک گلاس؟“
نیکی اور پوچھ پوچھ، ہم نے جب اسے مہربانی پر آمادہ پایا تو دو گلاس پانی مانگ لیا، وہ پانی دینے آئی تو بولی:
”اب کھول بھی لو روزہ۔۔ بہت دیر ہو گئی ہے“۔
۔ ”کیسے کھول لوں؟؟ آسمان پر سورج چمک رہا ہے۔۔“۔ہم نے کھڑکی کی جانب اشارہ کیا۔
وہ بولی: ”دیکھو، الماتے میں بھی کھل چکا ہے روزہ، ابوظہبی میں بھی۔۔ اب تم کب تک اندھیرے کا انتظار کرو گی۔۔ جہاز کے لینڈ کرنے کا وقت ہو رہا ہے۔۔“۔
ہم نے دیکھا وہ جہاز کے باقی مسافروں سے کھانے کی خالی ٹرے جمع کر کے کچن کی جانب لے جا رہی تھی، ہم حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے، کیا جہاز کے تمام مسافر افطار کر چکے تھے؟ باہر سورج چمک رہا تھا، بلکہ بعض مواقع پر دھوپ اندر بھی آ جاتی تھی۔
ہمیں بس ایک ہی آیت ذہن میں گونج رہی تھی، اور کھانے کی جانب ہاتھ نہیں جا رہا تھا: ”ثمّ اتمّوا الصّیام الی اللیل۔۔“ (البقرۃ۔ ۷۸۱)
(پھر رات ہونے تک روزہ پورہ کرو، یعنی غروب آفتاب تک)۔
ہم ابھی سورج کی گول ٹکیا کے سمندر میں ڈوب جانے کے منظر کو دیکھ رہے تھے اور زیر ِ لب دعامیں مشغول تھے، جب ایک مرد میزبان نے آ کر کہا: پلیز آپ جلدی افطار کر لیں، کیونکہ جہاز لینڈ کرنے والا ہے، ٹرے واپس لے جانی ہے اور کرسی کی پشت پر لگی ٹرے کو لاک کرنا ہے، ہم نے اثبات میں سر ہلایا، اور اب ہماری دعاؤں میں شدت سے ایک دعا کا اضافہ ہو گیا تھا، ”اللہ جی اس سورج کو جلدی سے غروب کر دیں تاکہ ہم روزہ افطار کرلیں“۔
ہمارے میزبانوں کی بے چینی بھی سوا تھی، البتہ پائلٹ ان سب سے بے نیاز جہاز اڑائے جا رہا تھا، خدا خدا کر کے سورج کی گول ٹکی نے سمندر کے آخری کنارے سے اندر ڈبکی لگائی اور شفق آسمان پر پھیل گئی، ہم کھجور سے روزہ افطار کرنا چاہتے تھے مگر جہاز ڈول رہا تھا، اور ہمارے سامنے پڑے پانی بھرے دو گلاس، ایک دودھ کا گلاس اور ایک جوس کا، ٹرے میں لرز رہے تھے، دو میزبان بھاگ کر قریب آئے ایک نے ٹرے تھامی اور دوسری نے دودھ اور جوس کے گلاس اور ہم نے غٹ غٹ کر کے پانی کے دو گلاس خالی کر کے ان کی جانب بڑھائے، پھر جوس کا گلاس خالی کیا، افطاری کے خشک آئٹم بیگ کے سپرد کئے اور باقی کھانا اسی رفتار سے معدے کے رن وے میں اتارا جس رفتار سے جہاز رن وے پر پھسلنا شروع ہوا، میزبان ٹرے لے کر رخصت ہوئے اور ہم ہولے ہولے کھجور اور دودھ سے لطف اندوز ہونے لگے۔
ایسی افطاری تو ہم نے زندگی بھر نہ کی تھی، ہم نے فرض کی ادائیگی میں صبر کیا تھا یا موقف پر ڈھٹائی اختیار کی تھی اس کا فیصلہ تو ابھی ہونا تھا۔ پاکستان پہنچ کر ہم نے شیخ التفسیر والحدیث مولانا عبد المالک سے رابطہ کیا اور صورت ِ حال بیان کر کے مسئلہ پوچھا، وہ بولے: آپ نے درست کیا ہے، جب آپ بلندی پر ہوں تو سورج دیر تک چمکتا دکھائی دیتا ہے اور اس کا غروب کا وقت وہی ہے جب وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے سے بھی غروب ہو، اسے آپ زمین کے وقت سے قیاس نہیں کریں گے۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کیا، جس نے صحیح فیصلے کی توفیق دی اور روزہ ضائع نہیں ہوا۔
٭٭٭

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں