کربلائے سری رنگا پٹنم میں حضرت ٹیپو سلطان ؒ کی یادگار شہادت کو دو سو بیس سال پورے ہوگئے ۔ ۴ مئی سترہ سو ننانوے کو اُنچاس سال کی عمر میں محض سترہ برس کی مایہءِ ناز و یادگار حکمرانی(1782/1799) اور ایک ایسی معاشی طور پر خود کفیل فلاحی ریاست کے قیام کے بعد ،کہ تاریخ جس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنے سے آج تک عاجز و قاصر ہے ،اپنے ہی ، اَیسےدینی و وطنی بھائیوں کی غدّاری کے سبب جو’’ننگِ وَطن‘‘ بھی تھے اور’’ ننگ ِدین و ملت ‘‘بھی ،شہیدوں کی اُس صف میں شامل ہوگئے جودنیا سے ظاہری پردہ کر جانے کے باوجود ، اَبَدُ ا لآ باد تک زندہ ہی نہیں رہتے بلکہ اپنے پر وردگار سے بہترین رزق بھی پاتے ہیں !
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے صحیح لکھا ہےکہ ’’ٹیپو سلطان ؒ کی شہادت محض ایک حکمراں کا خاتمہ نہ تھا بلکہ اسلامی حمیت ،وطن دوستی اور حریت پسندی جیسے اوصاف سے مُزَیَّن ایک ایسے سعادت مند فرزند سے ہندستان کی محرومی تھی جو برطانوی اقتدار کے قیام کی راہ میں ’سنگ گراں ‘ تھا اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس سنگ گراں کے ہٹتے ہی انگریزوں نے تین چار سال کے مختصر عرصے میں پورے ہندستان پر اپنے اقتدار کی طنابیں پھیلا دیں اور اس وسیع و عریض ملک کے عوام کو سیاسی محکومی کا طوق پہنا دیا (۱)
تاریخ شاہد ہے کہ اگر 1757میں پلاسی (بنگال) کی جنگ میں سراج الدولہ ،1764میں میر قاسم اور سری رنگا پٹنم کی بے مثال جنگ 1799میں ٹیپو سلطان کی شکست نہ ہوئی ہوتی تو ہندستان پر انگریز سامراج کا قبضہ تو درکناراس عظیم سرزمین پر ان کے قدم ڈھائی سو سال پہلے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکھڑ گئے ہوتے اور آج وطن عزیز کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی (۲)۔لیکن تاریخ انسانی تو ہر دور کے اپنے سامریوں ، یزیدوں ،میر جعفروں اور میر صادقوں جیسے منافقوں سے بھری ہوئی ہے ۔جنہوں نے باب العلم ؑاور سردار جوانان جنت علیہم السلام کو جب زندہ نہیں رہنے دیاتو ٹیپو جیسے دیندار و خدا ترس اور مخلص و عادل سلطانوں کو بھلا کون ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا تھا ۔
استادی جمیل ؔمہدی نے ہفت روزہ ’عزائم ‘ کے اگست انیس سو تہتر کے خاص نمبر میں لکھا ہے کہ سلطان ٹیپو میں بیک وقت اپنے والد حیدر علی کے اوصاف بھی تھے اور اور اورنگ زیب عالم گیر کی خصوصیات بھی ۔فرق صرف اتنا تھا کہ حیدر علی اور اورنگ زیب سے جنہوں نے غداری کی اُن کے خون کو ان دونوں بڑے آدمیوں نے اپنے اوپر حلال جانا (لیکن ) سلطان ٹیپوؒ نے اپنی فطری رحم دلی کے سبب اُنہیں ہر بار معاف کر دیا ۔(۳)۔ ان کی شہادت اور سامراج کی کامیابی کے ذمہ دار ہمیشہ کی طرح وہی علمائے سوء تھے جنہیں عدل و انصاف سے زیادہ ذاتی مفاد عزیز تھا ۔ان ہی ’’ ننگ ملت ،ننگ دیں ، ننگ وطن ‘‘منافقین کے معنوی وارث آج بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے صریحی امتناع کے باوجود ’اہل ایمان کے اشد ترین اور دائمی دشمنوں‘(۴)سے ’رشتہ ء ولایت ‘ قائم و استوار کیے بیٹھے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو ’صالحین‘ کے بجائے ’مغضوبین ‘ اور ’ضالین ‘ کے راستوں پر چلا رہے ہیں۔
حوالے (۱) سہ ماہی فکر و نظر علی گڑھ ،تحریک آزادی نمبر، اکتوبر دسمبر انیس سو پچاسی ،مضمون بعنوان ’مجاہد آزادی ٹیپو سلطان ‘مصنفہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ص ایک سو اکتیس ۔(۲) ہندستان کی جد و جہد آزادی پر ایک نظر ۔ڈاکٹر درخشاں تاجور 1991(۳) جد و جہد آزادی اور اس کے بعد ۔ہفتہ وار عزائم لکھنو خاص نمبر اگست 1973ص 19(۴)سورہ مائدہ آیت 84۔