پہلے سرفراز بزؔمی کے یہ حقیقت اَفروز اور حوصلہ بخش اشعار ملاحظہ فرمائیں :
کیوں ہوئی ہے اِتنی اَرزانی ہمارے خون کی ۔اپنی عظمت کسنے اپنے ہاتھ سے مدفون کی
خون میں لتھڑی ہوئی ہے سر زمیں زیتون کی لال ہیں اپنے لہو سےسرحدیں رنگون کی
جبر کی تصویر کوئی نیل کا فرعون ہے ۔۔بے عصا مُرسی کے لب پر ’اَنتُمُ الاَعلَون ‘ہے
رو رہے ہیں دیکھ، وہ اکبرؔ کے بچے زار زار۔۔ دیکھ، لے آیا کہاں ہم کو ،ہمارا انتشار !
کانپتی تھی سلطنت ،تیرے خرام ِناز سے ۔۔آہ تو ڈرتا ہے اب ناقوس کی آواز سے !
اے جنیدؔ و اکبرؔ و اخلاؔق و پہلؔو کے لہو ۔۔۔یاد رکھ ،اللہ کا فرمان ہے :’لا تَقنَطُوا‘!
بے شک اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے ۔لیکن یہ آگاہی بھی اُسی رب العالمین کی ہے کہ ’’تم لوگوں نے کیا سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا جب کہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے ،ان پر سختیاں گزریں ،مصیبتیں آئیں ،وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ وقت کا رسول اور ان کے اہل ایمان ساتھی چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟(اُس وقت اُنہیں تسلی دی گئی کہ ) اللہ کی مدد قریب ہے ‘‘(بقرہ ۔دو سو چودہ )’’۔۔جو لوگ یہ جانتے تھے کہ ایک دن انہیں اللہ سے ملنا ہے انہوں نے کہا کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے اِذن سے اقلیت اکثریت پر غالب آگئی ہے اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے پر نکلے تو انہوں نے دعا کہ پالنے والے ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ،ہمارے قدموں کو جما دے اور ان کافروں پر ہمیں فتح نصیب کر ۔نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اللہ کے اذن سے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا ۔۔۔۔اور اگر اللہ اسطرح بعض سے بعض کا دفیعہ نہ کراتا رہے تو زمین فساد سے بھر جائے لیکن دنیا لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا ہے ) ‘‘(بقرہ۔آیات دو سو اۃنچاس تا دو سو اکیاون )۔
اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ ایک ’عُسر‘ کے ساتھ ایک سے زائد ’یُسر‘ اپنے بندوں کے آس پاس ہی رکھتا ہے لیکن انہیں دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کوشش کر نی پڑتی ہے ،ہاتھ پیر ہلانے پڑتے ہیں ،عملی اقدام کرنے پڑتے ہیں ۔کیونکہ یہ بھی اللہ ہی کی مقرر کردہ سنت ہے کہ ’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ‘۔۔وَاِن لیس للا نسان الا ما سعیٰ ! ‘‘
بے شک اللہ سبحانہ دعا ئیں سنتا ہے اور قبول بھی فرماتا ہے ۔اُدعونی اَستَجِب لکم ‘اُسی ذاتِ واجب کا وعدہ ہے جو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اور بلا شبہ دعا انسان کی بندگی اور عاجزی کا ثبوت ہے لیکن، ’سعی اور عمل‘ اُسی طرح دعا کا لازمہ ہیں جس طرح ایمان کے ساتھ عمل صالح نجات اُخرَوی کی شرط ہے ۔
ہم جو چاہتے ہیں اُس کے لیے ضروری ،اِمکانی اور اپنی استطاعت بھر کوشش لازمی ہے ۔کچھ کیے بغیر، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے والوں ،نِٹَھلوں ،کاہِلوں اور بے عَمَلوں کی دعا قبول کرنا اللہ کی سنت نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو اُس کے محبوب ،نبیِ آخر الزماں کو نہ روٹی روزی کے حصول کے لیے تجارت کا جوکھم اٹھانا پڑتا ، نہ دور دراز کے اَسفار کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتیں اور نہ انہیں دشمن کی تھوپی ہوئی جنگیں جیتنے کے لیےہتھیاروں ( تیروں ،تلواروں اور نیزوں) اور گھوڑوں اور اونٹوں کی ضرورت ہوتی نہ خندقیں کھودنے کی مشقت اٹھانی پڑتی ۔
اللہ سبحانہ کا وعدہ ءِہدایت تو صرف ’جدو جہد‘ کرنے والوں سے ہے،نٹھلوں سے نہیں ۔اُس کا واضح فرمان ہے کہ ’’۔جو لوگ ہمارے لیے ( ہماری راہ میں ) جد و جہد کریں گے، ہم ضرور اپنے راستے اُنہیں دکھا دیں گے اور بے شک اللہ ’محسنین‘ (احسان کرنے والوں یعنی نیک اعمال میں پہل کرنے والوں ) کے ساتھ ہے‘‘ (العنکبوت آیت اُنہتر)دنیا میں با عزت غلبہ و سر بلندی کا وعدہ اگر مؤمنین سے ہے تو آخرت میں جنت کا وعدہ صرف اُن لوگوں کے لیے ہے ’’جو خوش حالی اور تنگی ہر حال میں خرچ کرتے رہتے ہیں ،غصے کو پی جاتے ہیں ،اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ تو بس ’محسنین‘ ہی سے محبت کرتا ہے‘‘(آل عمران آیت ایک سو چونتیس )۔
اعمال صالحہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بیک وقت ادائگی شامل ہے ۔اور حقوق العباد میں سر فہرست ’انفاق فی سبیل اللہ‘یعنی بندگانِ الٰہی کی بے غرض خدمت ہے ۔واضح ارشاد الہی ہے کہ جو ’’لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا انفاق کریں (یعنی کس کو دیں یا کہاں اور کس مد میں خرچ کریں )تو (اے رسول ﷺ)آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر ،رشتہ داروں پر ،یتیموں اور مسکینوں پر اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو خیر بھی تم انجام دوگے اللہ اُس سے با خبر رہے گا ‘‘(بقرہ آیت دو سو پندرہ ) اور یہ کہ ’’تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ،قرابت داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے ،اجنبی ہمسائے سے ،پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں(بہر حال ) احسان کا معاملہ رکھو اور یقین جانو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا ‘‘(النساء آیت چھتیس )
ہمارے ساتھ پوری دنیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی عمل صالح،احسان اور بے غرض خدمت سے پہلو تہی کا نتیجہ ہے ۔’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف (یعنی کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی ) بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو ،آخرت کے حساب و کتاب کو،ملائکہ کو ،اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اپنا دل پسند مال اللہ کی محبت میں رشتے داروں اور یتیموں پر ،مسکینوں اور مسافروں پر ،مدد کے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ،نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے ،اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے پورا کریں ،اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔یہی لوگ سچے اور متقی ہیں (بقرہ ۔ایک سو ستہتر)‘‘قیامت کے دن جب مجرموں سے پوچھا جائے گا کہ کیا چیز تمہارے دوزخ میں جانے کا سبب بنی تو وہ کہیں گے کہ’’۔۔ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ‘‘(سورہ مدثر ۔آیت چوالیس )
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث(نمبر چھے ہزار پانچ سو چھپن)یہ ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا کہ اے ابن آدم ! میں بیمار تھا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی ۔انسان متعجب ہو کر کہے گا کہ پالنے والے تو تو سارے جہان کا پالنہار ہے تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا ؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن تو اس کے باوجود اس کی عیادت کے لیے نہیں گیا ۔اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا ۔پھر وہ فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا ۔انسان کہے گا کہ پروردگار تو کب بھوکا تھا کہ اور میں تجھے بھلا کیسے کھلاتا ؟اللہ فرمائے گا کہ تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں کھلایا ۔اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو مجھے وہیں پاتا ۔اسی طرح اللہ سبحانہ فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں نے ےتجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھ کو پانی نہیں پلایا ۔انسان کہے گا کہ اے دونوں جہان کے مالک تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا ؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کر دیا تھا اگر تو نے اس کی پیاس بجھادی ہوتی تو مجھے وہیں پاتا ۔‘‘اس حدیث کا واضح پیغام یہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا چاہتے ہو تو اس کے بندوں کی خدمت کرو ۔اس میں یہ مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ انسانوں کی بلا تفریق خدمت سے غفلت جہنم میں ڈالے جانے کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہو گی ۔نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی حق گوئی ،امانت داری اور غریبوں اور مسکینوں کی خدمت سے عبارت تھی ۔بہت مشہور واقعہ ہے کہ جب پہلی وحی کے نزول کے بعد آپ ﷺ غار حرا سے گھر تشریف لائے تو چہرہ مبارک کا رنگ متغیر تھا ۔ام المؤمنین حضرت خدیجہ نے آپ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں ،آپ تو غریبوں اور مسکینوں کا سہارا ہیں آپ تو بلا تفریق مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہیں ۔رب ذوالجلال کبھی آپ کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا ْ۔اور کون نہیں جانتا کہ آپ ﷺ کی خدمت خلق مثالی تھی ۔ غیر معمولی صداقت ، امانت اور دیانت کے ساتھ ساتھ مسکینوں کی داد رسی ،مفلوک الحال لوگوں پرحد درجہ رحم و کرم ،محتاجوں ،بے کسوں ،کمزوروں اور مظلوموں کی بلا تفریق امداد ہی آپ کے نمایاں ترین اوصاف ہیں ۔
ایمان و اخلاص اور مثالی اتحاد و اتفاق کے ساتھ نبی کریمﷺ کے اُسوہ حسنہ پر، حتی المقدور لفظاً اور معناً عمل کے سوا، موجودہ مسائل کا اور کوئی حل ،ہمیں نہیں معلوم ! فَھَل مِن مُدَّکِر !؟