پروپگینڈا وار‎

۔1994 میں نیویارک میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران ہندوستان کے وزیر اطلاعات نے ہمارے ایک صحافی کو بتایا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ اکیسویں صدی میں ہماراموقف ہماری فلمیں بیان کریں۔ہمیں اپنی ترجمانی کے لیے صرف اپنی فلمیں ہی کافی ہو جائیں گی اور ہندوستان اپنے اس مشن اور ہدف میں سو فیصد کامیاب ہوچکا ہے۔

ایک موقع پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ: “ہم  پاکستان سے  جغرافیائی سطح پر ہار گئے ہیں،لیکن تہذیبی جنگ میں ہم نے پاکستان کو چاروں شانے چت کردیا ہے ان کے سینما سے لیکر ان کے گھروں تک ہر جگہ ہماری تہذیب، ہمارا کلچر اور ہماری ہی ثقافت کا راج ہے”۔

 تیروں اور تلواروں کا دور گزر چکا ہے، مسلمانوں کا دشمن بھی اچھی طرح سے یہ جان چکا ہے کہ آج 2019 میں بھی وہ مسلمانوں سے کھلے میدانوں میں جنگ کرنے سے قاصر ہے۔افغانستان کے نہتےطالبان ہوں یا پاکستان میں ابھی نندن کا حشر۔ بہرحال وہ جغرافیائی سطح پر جنگ کرنے سے قاصر ہیں۔

اس لئے اب جو جنگ ہوگی اور ہورہی ہے اس کا سارے کا سارا دارومدار بیانیے پر ہے۔آج کے دور کی جنگ بیانیے کی جنگ ہے یہ پروپیگنڈا وار ہے جو اپنے نظریے، اپنے موقف اور اپنے بیانیے کو زیادہ دلچسپ، بہترین اور جاندار انداز میں ڈراما، فلم اور میڈیا میں پیش کردے گا جیت اسکی ہی ہوگی۔

پاکستان سے بغض اور دشمنی کی بنیاد پر ہندوستان نے سینکڑوں فلمیں بنائی ہیں اب وہ اپنی فلموں میں کشمیر کو باقاعدہ ہندوستان کا حصہ دکھاتے ہیں، وہاں فلمیں شوٹ کرواتے ہیں اور کشمیر کے نام پر “گانے” بھی پکچرائز کرواتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کی بنیاد پر امریکہ، یورپ اور ہالی وڈ نے لاتعداد فلمیں بنائی ہیں، ان کا مقصد مسلمانوں کی “انتہا پسندی” کو اجاگر کرنا اور اپنی “معصومیت” کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔اس پروپیگنڈے کا اثر اتنا واضح اور نمایاں ہے کہ نیوزی لینڈ میں کوئی عیسائی 50 لوگوں کو کیمرے کے سامنے بھون کر رکھ دے، ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کا جینا حرام کر دیں اور اسرائیل فلسطین کو قبرستان بنا دے پھر بھی دہشت گرد مسلمان ہی ہیں، لیکن اس معاملے میں ترکی کا کردار بہت شاندار ہے۔

ان کے فلمسازوں نے وقت کی اہم ترین ضرورت کے پیش نظر جس طرح “ارطغرل” شوٹ کیا ہے اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ ترکی کی جنگ ہمہ جہتی ہے اور وہ اس وقت چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ایک طرف وہ اپنے ایئرپورٹ کا نام “صلاح الدین ایوبی” رکھ کر یورپینز کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے، کبھی “آیا صوفیہ” کو دوبارہ سے مسجد کے طور پر آباد کرتا ہے، کبھی چالیس دن تک فجر کی نماز باجماعت پڑھنے والے بچوں کو سائیکلیں تحفے میں دیتا ہے، کبھی مساجد میں بچوں کے لئے “پلے ایریاز” بنائے جاتے ہیں اور کبھی طیب ایردوان خود “ارطغرل” کی شوٹنگ سائیٹ پر جا کر وہاں کے اداکاروں، ہدایتکار اور فلمسازوں سے اپنی بیوی اور کابینہ سمیت ملاقات کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دوسری طرف 2015میں سلیمان شاہ کی باقیات کو واپس ترکی کی حدود میں لاکر تدفین کرکے اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ ہمارے اصل ہیروز تو وہی ہیں جنہوں نے “خلافت عثمانیہ” کی بنیاد رکھی تھی۔ ارطغرل کی ہدایتکاری، کیمرہ گرافی اور کانٹینٹ اتنا شاندار ہے کہ اسے دیکھنے کے بعدآپ پھر کسی اور کام کے نہیں رہتے ہیں۔ ڈائیلاگز اور ہرہر مکالمے میں “ملت اسلامیہ، اسلامی نظام، اللہ کی کبریائی، مشرق کے پہاڑوں سے لے کر مغرب کے خطوں تک اللہ کا اقتدار اور باطل کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا” یہی کچھ ہے۔انسانی فطرت ہے کہ کسی بھی چیز کا اثر وہ وقتی طور پر لیتا ہے اور پھر واپس اپنے کاموں میں لگ جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی چیز کو مستقل طور پر دیکھتا رہے تو وہ چیز اس کے اندر سرایت کر جاتی ہے، مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ ایک ہی چیز کو بار بار دہرائیں تو انسان بور بھی ہوجاتا ہے لیکن مستقل مزاجی کے ساتھ ڈرامے میں طوالت کے باوجود ایسی دلچسپی پیدا کردی گئی ہے کہ لوگ چاہ کر بھی اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ارطغرل اور خلافت عثمانیہ کے بعد ان فلمسازوں نے اسی کام کی تجدید کا حق ادا کر دیا تو غلط نہ ہوگا۔

 2023 آق پارٹی اور طیب ایردوان کے لیے ویسے ہی کسی آزمائش سے کم نہیں ہے، اس دوران یہ پانچ سال اس سے بھی زیادہ آزمائش کے ہیں اور یہ ڈرامہ طیب اردوان کی الیکشن کمپین ثابت ہورہا ہے۔ جو کمال اتاترک کے بجائے خلافت عثمانیہ کے جانشینوں کو یکجا کرنے کا کام کر رہا ہے۔

 میرا خیال ہے کہ پاکستان میں موجود محب وطن اور اسلام سے محبت کرنے والوں کو ہر جھمیلے میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے لوگوں کی ذہن سازی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اب آپ ٹی- وی کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا آپ کے سامنے کھلی پڑی ہے۔ ایسے انویسٹرز اور پروڈیوسرز تلاش کریں جو اس کام میں آپ کے لیے کروڑوں روپے بھی خرچ کرنے کو تیار ہوں۔ آپ کے پاس نسیم حجازی اور ان جیسے کئی ناول نگاروں کا کانٹینٹ موجود ہے، پروفیشنل ہدایتکاروں اور اداکاروں کی مدد سے سندھ کے باب الاسلام بننے سے لے کر، سومناتھ کے حملوں اور قیام پاکستان تک کی تاریخ کو بے دلی کے بجائے پوری “دلجمعی” کے ساتھ شوٹ کروائیں ان موضوعات سے محبت کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد میڈیا انڈسٹری میں موجود ہے انہیں اس کام کے لئیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کیا جائے تو یقینا نظریاتی اور تہذیبی طور پر لوگوں کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے جو آئندہ آنے والے وقتوں میں بہت کار آمد ثابت ہوگی۔اگلے پانچ سال کا ہدف طے کریں اپنی تاریخ اور لٹریچر کو سیریز کی صورت میں فلم اور ڈراموں میں تبدیل کریں۔ بھرپور مارکیٹنگ کے ساتھ معاشرے میں اپنے بیانیے کو پھیلائیں، لوگوں کو اپنے نظریات پر لاکر انھیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کریں۔

میرے ملک کے کچھ “دانشوروں” کو اس بات پر اعتراض ہے کہ  نئی نسل کو عمل سے ہٹا کر “خیالی دنیا” کااسیر بنادیا گیا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر ماؤں کا اپنے بچوں کو رات کو سوتے ہوئے لوریاں سنانا اپنے اسلاف کے قصے سنانا بھی تو کسی “فینٹسی” سے کم نہیں ہے۔ پھر تو ساری موٹیویشنل انڈسٹری کو بھی تالا لگنا چاہئیے جہاں لوگوں کو “خیالات” پر کام کرنا سکھایا جاتا ہے اوردماغوں میں جوش و جذبہ بھرا جاتا ہے جو اس لیکچر اور اسپیچ کے کچھ دیر بعد ہی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور اگر یہ بات ٹھیک ہے تو پھر اسکولوں میں اساتذہ پر بھی پابندی لگنی چاہئیے جو درسی کتابوں میں سے نرے “قصے” بیان کرتے ہیں۔

ایسے ڈرامے، فلمیں اور سیریز وقت کی ضرورت ہیں  کیونکہ ماؤں نے اور اساتذہ نے بھی اپنے کرنے کا کام تو زمانہ ہوا چھوڑ دیا ہے، جب بچوں کو آپ نے لیپ ٹاپ اور موبائل کے حوالے کر ہی دیا ہے تو اس بات کی بھی فکر کریں کہ وہیں سے وہ کچھ نہ کچھ بہترین خیالات کی فصل کاشت کرسکیں۔

قوموں کی زندگیوں میں 25 سال بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ ایک پوری نسل اس دوران جوان ہوتی ہے، اس لئیے یہ وقتی نہیں ہمہ جہتی کام ہے، اگر ہم اس نسل کو اپنے اسلاف کے کئے گئے کارناموں سے جوڑنے میں کامیاب ہوگئے تو بہرحال یہ بہت بڑا کام ہوگا۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں