معاشرے میں مزدور وں کا مقام

حدیث کا مفہوم ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کو مزدوری دے دو۔اگر کوئی شخص مزدور کی مزدوری دبائے گا تو کل قیامت کے دن میں اس مزدورکا وکیل بنوں گا۔اس حکم سے اندازہ لگائیے کہ مزدور کو اجرت دینا کتنا نا گزیر ہے۔عرب میں آمد اسلام سے قبل یوں تو جہالت کا مکمل دور دورا تھا اور دولت مندوں کے ہاتھوں سے ہر طبقہ انسانی کی تذلیل کی جاتی تھی وہیں مزدوروں کے ساتھ بھی بڑا غیر انسانی سلوک روا رکھاجاتا تھا۔پھر اسلام کی روشنی نمودار ہوئی اور جہالت کے دبیز پردے ہٹ گئے۔انسانیت کا معیار حیات بلند ہوا وہاں مزدوروں کو بھی وہ حقوق دئیے جس کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔لیکن بڑے دکھ کا مقام ہے کہ آج کے اس نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دور میں اسلامی اصولوں سے روگردانی کی جا رہی ہے۔کمزوروں کو جو حقوق اسلام نے دیئے ہیں ان کو فراموش کیا جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔مزدوروں سے جتنا کام لیا جاتا ہے اس قدر ان کو مزدوری نہیں دی جاتی۔ویسے تو ہمارے ملک میں مغربی تقلید کرتے ہوئے ہر اہم اور ضروری فرض کو ایک دن کے اندر قید کر دیا گیا ہے۔ اس دن قوم چھٹی منا کر اس فرض کا کما حقہ حق ادا کر کے سبکدوش ہو جاتی ہے۔اس سے زیادہ کسی کو اس امرسے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا جو امر اس دن سے منسوب ہوتاہے۔ستم ظریفی تو دیکھیں کہ یوم مزدور پر ہر سرکاری،نیم و غیر سرکاری اداروں میں چھٹی ہوتی ہے سوائے مزدوروں کے۔ مزدور کی نہ تو چھٹی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ چھٹی کر سکتا ہے۔اسے بس اس دن چھٹی ہوتی ہے جس دن اس کو کام نہ ملے اوروہ بھی سارا دن اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہے کہ آج گھر میں چولہا کیسے جلے گا۔راقم نے لکھا تھا۔
سب کچھ ہے اس قوم میں شعور کے سوا
ترس سب کو آتا ہے یاں معذور کے سوا
یوم مزدور کا حال بھی کیا عجب ہے
رخصت ہے سب کو آج مزدور کے سوا
ایک بات اور جو قابل ذکر ہے کہ مزدور وہ طبقہ ہے جو سارا سال مسلسل محنت اور مشقت کرتا رہتا ہے لیکن اس کا معیار زندگی کبھی بہتر نہیں ہو پاتا۔معاشرہ اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔بسا اوقات تو معاشرے کی بے حسی پر رونا آتا ہے کہ مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔مقرر کردہ وقت سے بڑھ کر ان سے کام لیا جاتا ہے اور اجرت کے تقاضے پربھی اس بے چارے کو کم ہمتی کے طعنوں اورگالیوں سے نوازا جاتا ہے۔ایسے ملک میں جہاں پڑھے لکھے نوجوان ڈگریوں کے انبار اٹھائے ہوئے نوکری کی تلاش میں در بدر پھریں اور ان کی تعلیم،ذہانت اور قابلیت کو چند ہزار روپوں کے عوض خریدا جائے وہاں مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خیرہم اپنے طور پر تو احساس و رواداری کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔ہم مزدوروں سے کام لیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے مشفقانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھیں۔انہیں بھی اپنی طرح کا گوشت پوست کا جیتا جاگتا جذبات و احساسات سے پُر انسان سمجھیں۔اگرچہ انہیں مزدوری دینی ہے مگر بوجھ اٹھانے میں ان کا ہاتھ بٹا دیں۔ان کی طاقت و استطاعت سے بڑھ کر ان سے کام نہ لیں۔یہ سمجھیں کہ نظام قدرت کے تحت وہ ہمارے پاس آئیں ہیں،ہمارے ذاتی غلام نہیں ہیں اور نہ ہی ہم سے کم تر ہیں۔اکثر مزدوروں کو دیکھیں تو وہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں انہیں گھر بیٹھ کر آرام کرنے اور اپنی اولادوں سے خدمت کروانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر وہ فکر معاش میں اپنی ضعف و ناتوانی کو بھلا کرموسمی سختیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے افراد زیادہ احترام اور احساس کے مستحق ہوتے ہیں۔حدیث کا مفہوم ہے کہ میری امت کے بوڑھوں کی عزت کرنا میری عزت کرنا ہے۔ “بابا جی آپ کام چھوڑ کر تھوڑا سانس لے لیں۔ایسے آپ تھک جائیں گے،آپ بیٹھیں آپ کو ٹھنڈا پانی پلاتا ہوں “احساس سے بھرے ہوئے یہ چند جملے ان کے جسم روح میں ایسی تراوت بھر دیں گے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔شاید اتنی محبت اور عزت کا احساس ہی ان کی زندگی میں بھرپور رونق لے آئے،وہ کچھ دیر کو ہی سہی مگر زندگی کے بھاری بوجھ سے خود کو آزاد سمجھنے لگیں۔اور یہی لمحات ہمارے لئے بھی خدا کی رضا و خوشنودی لانے کا باعث بن جائیں گے۔ہمارے ملک میں آئین تو ہے مگر اس کی بالا دستی نہیں ہے۔حکومت کا فرض ہے کہ معاشرے کے اس اکثریتی طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے ٹھوس بنیادوں پر موثر اقدامات کرے۔مزدوروں کی مزدوری کے اوقات کار سے لے کر ان کو دی جانے والے مزدوری کی شرح کو اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا بھی قانون وضع ہونا چاہیے۔بذریعہ تعلیم معاشرے کو یہ سبق دیا جانا چاہیے کہ سب انسان برابر ہیں۔انسانیت کا رشتہ سب سے مقدم و مقدس ہے۔اس رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے مہر و مروت کی فضا قائم کی جانی چاہیے۔کسی کو اپنے بنائے گئے معیار کے مطابق ہر گز مت پرکھیں،ذہن میں رکھیں کہ خدا کے ہاں وہ مکرم ہے جو تقویٰ میں بڑھ کر ہے اورکون جانچ سکتا ہے کہ کون کتنا متقی ہے۔ شاید جس کو ہم دنیاوی نقطہ نگاہ سے خود سے کم تر تصور کر رہے ہیں وہ بارگاہ ایزدی میں ہم سے کہیں ذیادہ معروف و مقبول ہو۔لہذاٰ اس معاملے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا

حصہ

جواب چھوڑ دیں