اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اختلافِ رائے گفتگو کے حُسن کو چار چاند لگا کرمزین کر دیتی ہے بشرطیکہ دورانِ گفتگو باہمی ادب و آداب کاخاص خیال رکھا جائے،صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے،کسی سُرخ لکیر کو عبورکرنے سے گریز کیا جائے۔یہ روایت کبھی اُمتِ محمدیہ ﷺ کا خاصہ ہوا کرتی تھی جسے آج صرف “مہذب معاشروں ” نے اپنا کر برقرار رکھا ہوا ہے۔۔۔صد افسوس!!!
پاکستان میں جمہوریت کے مغنیوں کا طرزِ سیاست بد سے بتر ہوتا چلا جا رہا ہے گذشتہ ایک دہائی سے مذہبی اصطلاحات کا بے دریغ،بلکہ جاہلانہ استعمال کیا جارہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو قابل شرم ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ مذمت ہے اور ناقابلِ برداشت بھی۔ قارئین کویقیناً یاد ہوگا کہ نغمہ خوانوں کا یہی ٹولہ مختلف ٹی وی پروگراموں میں کبھی اپنے سیاسی جماعت کے سربراہ کو حضرت سیدنا عمر ؓ سے تشبیہ دیتا نظر آیا، کوئی اپنے دورِ حکومت کو خلافت راشدہ کا دورثابت کرتا ہوا پایا گیا، کبھی کوئی اپنی جہالت یا کم علمی کے باعث صحابہ کرام ؓ و اہل ِ بیت اطہارؓ کی تو ہین کرتااور لبرل ازم کی آڑ میں شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیرتاہوا دکھائی دیا بلکہ یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ ٹولہ خود کو “حُسینی ” اوراپنے مخالفین کو ” یزیدی” گردانتا رہا۔
ایسا ہی ایک منظر گذشتہ روز ہمیں ایک نجی نیوز چینل کے ایک مذاکرے میں دیکھنے کو ملا جب پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی انتہائی ذمہ داراور سیاسی رہنما محترمہ شہلا رضا صاحبہ نے وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان کے ایک بیان پرتنقیدی تبصرہ کرنے کے دوران انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابی رسولؐ،کاتب وحی، محب اہل بیت ؐ، امیر المومنین حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس و مکرم ذاتِ مبارکہ اور آپ ؓ کے سُنہری اسلامی دورِ خلافت پر بے رحمانہ طنز و تشنیع کے نشتر برساڈالے اُن کا یہ عمل دانستہ تھا یا غیر دانستہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بخوبی جانتی ہے یا محترمہ خود،لیکن اُن کے اندازِ بیاں اِسے عملِ دانستہ قرار دیتے دکھائی دے رہے تھے۔ اُن کے متنازع بیان کے بعدسماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کیااور اسے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف قرار دیااِن کے نزدیک محترمہ نے یہ عمل کر کے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پھیلانے اور مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس پر نیشنل ایکشن پلان کوحرکت میں آنا چاہئے اس تمام تر ردعمل کے پیش ِ نظرمحترمہ شہلا رضا صاحبہ نے اپنے متنازع بیان کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں فرمائی:
“گذشتہ روز ٹی وی پروگرام میں، میں محض عمران خان کے ایک بیان کی طرف اشارہ کر رہی تھی اِس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں تھی میں تمام مقدس شخصیات اور نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کی عزت و عظمت پر یقین رکھتی ہوں۔”
شہلا رضا کی وضاحت مقتدر دینی حلقوں کو مطمئن نہ کر سکی علماء کرام کا مطالبہ ہے کہ محترمہ کو ٹی وی پر آکراپنے اس عمل پرتوبہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے باقائدہ معافی مانگی چاہئے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرانی چاہئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے؟کیوں انہیں اپنی ناعاقبت اندیشی کے سبب ایسے نامناسب حالات سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس کا جواب جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ پاکستان میں موجود یہ سیاسی طبقہ دین سے مکمل طور پر نا آشنا ہے انہوں نے جتنا وقت دنیائے سیاست کو دیا ہے اگر اس کا ایک چوتھائی دین کے لئے صرف کر لیتے تو آج نہ انہیں اپنی جہالت کے سبب یوں شرمندگی اُٹھانی پڑتی۔یہی وجہ ہے کہ آج فریقِ مخالف ان کے لیڈرکو ” صاحبہ ” کہہ دیں (جو قابل اعتراض لفظ بھی نہیں) تو وہ اُسے یہ اپنے لیڈران کی “شان” میں بد ترین گستاخی تصور کر کے آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں، مخالفین کو “تمیزسکھانے ” بیٹھ جاتے ہیں، گلی گلی احتجاج کرتے پھرتے ہیں اس کی مخالفت میں قراردادیں منظور کراتے پھرتے ہیں لیکن جب با ت ہوتی ہے اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کی، محمد رسول اللہ ﷺ کے جانثاران ؓ کی یا آلِ و ازواجِ مطہرات ؓ کی دانستہ یا غیر دانستہ بے ادبی یا گستاخی کی تو اُسے آئی گئی کر دیا جاتاہے اقبال نے بلکل ٹھیک ہی کہا تھا “جدا ہو دیں سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی “۔
دین سے نا بلد یہ لوگ جانے اس کی حساسیت کو کیوں نہیں سمجھتے؟؟ حضور یہ دین کا معاملہ ہے اس میں احتیاط برتنی چاہئے زبانوں کو یو ں بے لگام نہیں چھوڑا جاتا ماضی قریب میں پاکستان اسی فرقہ واریت کی آگ میں جھلس کر رہ گیا تھا بے شمار شہدا ء نے اپنے خون سے اس آگ کو بجھایا۔دین و ملت کے دشمن آج بھی ایسی ہی کسی “غلطی” کے انتظار میں ہیں کہ کب ایسے موقع کا فائدہ اُٹھایا جائے اور ملک کو دوبارہ اسی آگ میں ڈال دیا جائے۔میری پاکستان کے سیاسی طبقے سے دست بستہ یہ گزارش ہے کہ خدارا، خدارا!!! اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے والوں کو کم از کم اس ایک معاملے پرضرور باور کرائیں کہ مذہبی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں اور اگرکوئی کسی موقعہ پر اسے بطور مثال یا دلیل کے پیش کرنا چاہتا ہے توانتہائی احتیاط سے کام لیں۔
تحریرکے اختتام سے قبل میں اگریہاں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب کوبیان نہ کروں تو یقیناً یہ ناانصافی ہوگی۔حضرت امیر معاویہ ؓ کا شماراُن جلیل القدر صحابہؓ میں ہوتا ہے جو شمع رسالت ؐ کے انتہائی قریبی پروانے سمجھے جاتے تھے احادیث شریف میں آتا ہے رسول اللہ ﷺ کے 13 کاتبین تھے جن کے ذمے آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی سے لے کر آپ ﷺ کے خطوط ومراسلہ جات تک کی نگرانی اور ترسیل کا کام تھا اِن تیرہ کاتبین میں سب سے زیادہ درجہ حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کا تھایہ دونوں حضرات دن رات سرکارِ دوعالم ﷺ کے ساتھ لگے رہتے تھے اور اس کے سوا کوئی اور کام نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کاتبانِ وحی کی شان میں سورۃ عبس کی پوری ایک آیت فی صحف مکرمۃ سے لے کر،کرام بررۃ نازل فرمائی جس کا مفہوم ہے: قرآنی صحیفے بہت معزز اور بلند درجے والے اورپاکیزہ ہیں اوراِس کے لکھنے والے چمکتے ہوئے ہاتھوں والے اور بہت زیادہ عزت والے ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ جب خطبہ دینے تشریف لا رہے تھے تب آپ ﷺ کی اُونٹنی پر سیدنا معاویہ ؓ آپ ﷺ کے ساتھ سوار تھے اُم المومنین حضرتِ اُم حبیبہ ؓ آپؓ کی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں اور اِسی نسبت سے آپ ؓکو “عم الامۃ” یعنی اُمت کے ماموں کہا جاتا ہے۔ حضرتِ اُم حبیبہؓ اپنے بھائی ؓ سے بے حد پیار کرتیں تھیں ایک بار آپ ؓ اپنی بہن ؓ کی گود میں سر رکھ کر سہلا رہیں تھیں کہ اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے آپ نے جب یہ منظر دیکھا تو اُم المومنین ؓ سے فرمایا کہ کیا تم اپنے بھائی کو اپنا محبوب رکھتی ہو؟ آپ ؓ نے فرمایا کیوں نہیں! بھلا ایسی کون سی بہن ہو گی جو اپنے بھائی کو محبوب نہ رکھتی ہو، یہ سُن کر آپ ﷺ مُسکرا کر فرمانے لگے اے اُم حبیبہ ؓتجھے مبارک ہو اللہ اور اُس کا رسول ﷺ بھی معاویہ ؓ کو محبوب رکھتے ہیں۔
حضرت سیدنا عثمان ذی النورین ؓ کی مظلومانہ شہادت کے موقع پر جب آپ ؓ کا امیر المومنین سیدناحضرت علی ؓ سے اختلاف ہوتوروم کے بادشاہ نے ان دونوں کے اختلاف کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جب حضرت امیر معاویہؓ کو پتہ چلا تو آپؓ نے روم کو بادشاہ کو جو خط لکھا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے” اے رومی کتے! اگر تو نے قتلِ عثمان ؓ پر میرے بھائی علی ؓسے میرے اختلاف کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی تویاد رکھ! علی ؓ کی فوج سے تیرے خلاف جس سپاہی کا تیر سب سے پہلے نکلے گا اُسکا نام معاویہ ؓ ہوگا”
تحریر کے آخر میں قارئین بالخصوص پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی خدمت میں نبی کریم ﷺ کی ایک وعید پیش کر نا چاہتا ہوں کہ نمازِ جمعہ سے قبل پڑھے جانے والے خطبے میں ہم سُنتے ہیں “اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخضوھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم ” اس حدیث کاترجمہ ہے کہ اللہ کے لئے، اللہ کے لئے میرے صحابہؓ پر طعن و تشنیع کے نشتر مت برسانا، جس نے اُن سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی جس نے اُن سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا۔
65 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
Hey outstanding blog! Does running a blog such as this take a large amount of work?
I have absolutely no expertise in coding but I had
been hoping to start my own blog soon. Anyways, if you have any ideas or techniques for new blog owners please share.
I know this is off subject nevertheless I simply wanted to ask.
Thanks a lot!
I’ve been browsing online more than three hours today, yet I never found any interesting article like yours.
It is pretty worth enough for me. Personally, if
all website owners and bloggers made good content as you did, the
internet will be a lot more useful than ever before.
Howdy are using WordPress for your site platform? I’m new to the blog world but I’m trying to get started and set
up my own. Do you require any html coding expertise to make your own blog?
Any help would be greatly appreciated!
Fantastic post however I was wanting to know if you
could write a litte more on this subject? I’d be very thankful if you could elaborate a little bit
further. Kudos!
Hi, I check your blog daily. Your writing style is witty, keep up the good work!
I pay a visit daily a few web pages and sites to read posts, except this web site
presents feature based content.
If you would like to obtain much from this post then you have
to apply these strategies to your won website.
My brother recommended I would possibly like this website.
He used to be totally right. This submit actually made my day.
You cann’t believe just how much time I had
spent for this info! Thanks!
Piece of writing writing is also a excitement, if you be familiar with after that you can write otherwise it is complex to write.
Thanks for your personal marvelous posting! I actually enjoyed reading it, you can be a great author.
I will ensure that I bookmark your blog and will eventually come back from
now on. I want to encourage that you continue your great posts,
have a nice afternoon!
I blog quite often and I really thank you for your information. This article has truly peaked my interest.
I will bookmark your site and keep checking for new details about once per
week. I opted in for your RSS feed too.
No matter if some one searches for his required thing, therefore he/she needs to be available that in detail, therefore
that thing is maintained over here.
It’s remarkable in support of me to have a web site,
which is beneficial designed for my know-how.
thanks admin
Way cool! Some extremely valid points! I appreciate you writing this
write-up and also the rest of the website is very good.
Someone essentially assist to make seriously articles I might state.
This is the first time I frequented your web page and up to now?
I amazed with the research you made to make this actual publish extraordinary.
Wonderful job!
We stumbled over here different web address and thought I may as well check
things out. I like what I see so now i’m following you. Look forward to going over your web
page again.
I got this site from my pal who shared with
me about this site and now this time I am visiting this website and reading very informative content at this place.
What’s up i am kavin, its my first occasion to commenting anywhere, when i read this
piece of writing i thought i could also make comment due
to this brilliant paragraph.
Hey! I just wanted to ask if you ever have
any problems with hackers? My last blog (wordpress)
was hacked and I ended up losing several weeks of hard work due to no data backup.
Do you have any methods to protect against hackers?
I’m not that much of a online reader to be honest but your blogs really nice, keep it up!
I’ll go ahead and bookmark your site to come back down the road.
All the best
Good replies in return of this matter with real arguments and describing the whole thing
about that.
Hello, yes this article is actually pleasant and I have learned lot of things from it regarding blogging.
thanks.
Pretty part of content. I just stumbled upon your weblog and in accession capital to say that I get actually loved account your
blog posts. Any way I will be subscribing on your feeds or even I
fulfillment you get admission to consistently fast.
If you would like to take much from this piece of writing then you have to apply
such strategies to your won blog.
Hey! Someone in my Myspace group shared this website with us so I
came to check it out. I’m definitely enjoying the information. I’m bookmarking and will be tweeting this to my followers!
Excellent blog and superb design.
I was suggested this web site by my cousin. I am not sure whether this post is written by him as nobody else
know such detailed about my trouble. You’re amazing!
Thanks!
I every time emailed this webpage post page to all my associates,
as if like to read it next my links will too.
Every weekend i used to pay a visit this web page, because i wish for enjoyment, as this this web site conations in fact fastidious funny stuff too.
I like the helpful info you provide for your articles.
I’ll bookmark your blog and take a look at again right here regularly.
I am reasonably sure I will be informed a lot of new stuff proper right here!
Best of luck for the next!
What’s up, constantly i used to check weblog posts
here in the early hours in the daylight, for the reason that i like to learn more and more.
I like the valuable information you provide in your articles.
I will bookmark your weblog and check again here frequently.
I’m quite certain I will learn plenty of new stuff right here!
Best of luck for the next!
Hi there, I enjoy reading all of your article.
I wanted to write a little comment to support you.
Hi Dear, are you really visiting this web page regularly, if so afterward you will absolutely get good knowledge.
When I originally left a comment I appear to have clicked on the -Notify me when new comments are added- checkbox and now
whenever a comment is added I receive 4 emails with the exact same comment.
Is there a way you are able to remove me from that service?
Cheers!
I am actually thankful to the holder of this website who
has shared this wonderful article at at this time.
Very good blog post. I certainly appreciate this website.
Thanks!
Your mode of describing all in this post is genuinely
pleasant, every one be able to without difficulty know it,
Thanks a lot.
bookmarked!!, I love your site!
Having read this I thought it was rather informative.
I appreciate you spending some time and effort to put
this short article together. I once again find myself
spending a lot of time both reading and posting comments.
But so what, it was still worth it!
I’m gone to convey my little brother, that he should also visit this
weblog on regular basis to take updated from most up-to-date reports.
excellent points altogether, you simply received a logo new reader.
What may you suggest about your put up that you made some days ago?
Any sure?
Howdy, i read your blog from time to time and i own a similar
one and i was just curious if you get a lot of spam responses?
If so how do you protect against it, any plugin or anything you can advise?
I get so much lately it’s driving me crazy so any assistance
is very much appreciated.
Thanks , I’ve recently been looking for information about this subject for ages and yours is the greatest I have discovered so
far. However, what about the conclusion?
Are you certain concerning the supply?
Hi there, always i used to check webpage posts here in the early hours
in the dawn, since i enjoy to gain knowledge of more and more.
No matter if some one searches for his vital thing, thus he/she needs to be available that in detail, thus that thing
is maintained over here.
Hi there! Do you know if they make any plugins to assist with SEO?
I’m trying to get my blog to rank for some targeted
keywords but I’m not seeing very good success. If you know
of any please share. Appreciate it!
Hi there to every body, it’s my first go to see of this
blog; this blog contains amazing and genuinely excellent stuff in favor of visitors.
For most up-to-date information you have to visit the web and on world-wide-web I found this site as a most excellent
web page for newest updates.
I really like your blog.. very nice colors & theme.
Did you create this website yourself or did you hire someone to
do it for you? Plz answer back as I’m looking to create my
own blog and would like to find out where u got this from.
thanks
Admiring the dedication you put into your site and in depth
information you offer. It’s nice to come across a blog every once in a while that isn’t the same
old rehashed information. Excellent read! I’ve bookmarked your site and I’m adding your RSS feeds
to my Google account.
After I originally left a comment I seem to have clicked the -Notify me
when new comments are added- checkbox and from now
on every time a comment is added I recieve four emails with the exact same comment.
There has to be an easy method you are able to
remove me from that service? Appreciate it!
Simply wish to say your article is as astounding. The clearness to your put up is just
cool and that i could assume you’re knowledgeable on this subject.
Well along with your permission allow me to grab your RSS feed to
stay updated with coming near near post. Thank you 1,000,000 and please carry on the enjoyable work.
Hi there mates, its impressive piece of writing concerning tutoringand fully
explained, keep it up all the time.
excellent publish, very informative. I’m wondering why
the other experts of this sector do not notice this.
You must continue your writing. I’m sure, you’ve
a great readers’ base already!
Yes! Finally someone writes about website.
Amazing! This blog looks exactly like my old one!
It’s on a totally different subject but it has pretty much
the same layout and design. Great choice of colors!
Hello, of course this paragraph is truly fastidious and I have learned lot of things from it
on the topic of blogging. thanks.
Article writing is also a excitement, if you be acquainted
with after that you can write or else it is complicated to write.
Stunning story there. What happened after?
Take care!
Awesome! Its genuinely awesome piece of writing, I have got much
clear idea on the topic of from this piece of writing.
I’m really inspired with your writing skills and also with the structure for your weblog.
Is this a paid theme or did you customize it your self?
Anyway keep up the nice high quality writing, it’s rare to see a nice weblog like this one today..
If you wish for to take a great deal from this piece of writing then you have to apply these
techniques to your won weblog.
I’ll immediately seize your rss feed as I can not in finding your e-mail subscription hyperlink or e-newsletter
service. Do you have any? Kindly let me realize so that
I could subscribe. Thanks.
Hey there! Do you know if they make any plugins to protect
against hackers? I’m kinda paranoid about losing everything I’ve worked hard on. Any tips?
my page: tracfone coupon
Today, I went to the beach front with my kids. I
found a sea shell and gave it to my 4 year old daughter and said “You can hear the ocean if you put this to your ear.” She put the shell to her ear and
screamed. There was a hermit crab inside and it pinched her ear.
She never wants to go back! LoL I know this is entirely off
topic but I had to tell someone!
my webpage tracfone 2022