آپ کیا کرتے ہیں؟

ہمیں دفتر سے نکلے کچھ وقت ہوا تھا۔اور ہمارے دماغ سے آج دفترمیں باس سے ہونے والی چوں چراں نہیں نکل رہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔گرمی جوبن پر تھی، سورج ناک چڑا رہا تھا۔ ہمارے جذبات کی ترجمانی آپ یوں کر لیجیے کہFall from the Sky obstruct in date (آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا)۔ ہمارے ابو جی کہا کرتے تھے کہ بیٹا اگر لوگوں کی نظروں میں معزز بننا ہے تودوسروں کی عزت کرنا شروع کردو۔لیکن ہمارے باس کا معاملہ تھوڑا الٹ ہے۔ہم اپنے باس کی تعریف میں آپ کو زیادہ شش پنج میں ڈالے بغیر دریا کو کوزے میں ایک مثال سے بند کر تے ہوئے بس اتنا کہیں گے کہ Cruw did laugh walk forget his own walk(کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا)۔
ہم اپنے ہاف فرائی دماغ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے، مگر آج کا دن دفتر میں جیسا گزرا تھا، اس کے بعد ہم اور کوئی مصیبت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔انہی سوچوں میں گم تھے کہ اچانک موبائل بجنے لگا۔ ویسے ہم موبائل استعمال کے معاملے میں بہت محتاط واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے ہم نے کارآمد فارمولے ’’دیر سے پہنچنا، نا پہنچنے سے بہتر ہے“ پر عمل کرتے ہوئے سڑک کے ایک کنارے رک کر فون کرنے والے کو دوچار کڑوی کسیلی سناڈالیں Left Theif scold guard (الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے)۔خیر ہم نے کال اوکے(Ok) کی، موبائل سر اورکاندھے کے بیچوں بیچ دبا کر بائیک دوبارہ چالو کی اور چلتے بنے۔”جیسا دیس ویسا بھیس“۔ ویسے ایک راز کی یہ بھی ہے کہ اس دیس میں بھیس بدل بدل کر دیس کی بوٹیاں نوچنے والوں کی کمی نہیں۔اس لیے تو نئے دیس بنانے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ چلیں اچھا ہے۔نئے دیس کے ساتھ نئے بھیس بھی۔Lots of mangoes in a price of pyrenes (آم کے آم گٹھلیوں کے دام)۔
ہم آپ کو نئے دیس کی پٹیاں نہیں پڑھائیں گے۔ اس کام کے لیے اور بہت سے لوگ اپنا وجود باسعید رکھتے ہیں۔ انہی کی زبانی نئے دیس میں شاد مانیوں کی بہنے والی گنگا کی کہانیاں سنیے گا۔ سرے دست ہم اپنی رام لیلا کی طرف واپس آتے ہیں۔ کہتے ہیں خوشی ایک دفعہ آتی ہے اور مصیبتیں قطار اندر قطار۔ موبائل پر بات کرتے ہوئے ناجانے کہاں سے ایک پولیس والا ہماری موٹر سائیکل کے عین سامنے آن وارد ہوا۔ وہ سوچ رہا ہوگا کہ یہ مرغا ہاتھ سے نانکل جائے۔ اب بھلا ہم آپ کو کہیں سے بھی مرغا لگتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم قانون کی عزت نہیں کرتے۔بالکل عزت کرتے ہیں۔ یہ قانون کا احترام ہی تو ہے کہ ہم رک گئے تھے ورنہ تو ہم ایسے خطرے کی بھنک محسوس کرتے ہی عنقاء ہو جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں Useless for work cereal’s enemy (کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے) جیسے گولڈن ورڈز سے ان کی تعظیم کرتے ہیں۔آپ کس طرح غائبی عزت افزائی کرتے ہیں یہ ہم نہیں پوچھیں گے۔ بات وہی کہ ہمیں بھی ہر مجبور شہری کی طرح ”چاروناچار“ رکنا پڑا۔ ”مرتا کیا ناکرتا“ کے مصداق ہم نے پل بھر کے لیے سوچا ضرورکہ آج ان سے تین پانچ کرلینا چاہیے مگر اک دم یاد آیا ”اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا“۔
اگلے لمحے ہمیں ایک ”پی ایچ ڈی“ ہولڈر پولیس والامندرجہ ذیل جملوں سے نواز رہاتھا۔ کہاں سے آرہے ہو؟ کہاں جارہے ہو؟ تم جانتے ہو ڈرائیونگ میں موبائل استعمال کرناکتنا بڑا جرم ہے؟ ”بڑا“ کو جناب نے اتنا بڑا کیا،ہمیں لگا کہ لائن آف کنٹرول سے گرفتار ہوئے ہوں۔ پھر اس نے ہمیں پہلے سے لگی پانچ بندوں کی لائن میں چھٹے نمبر پر کھڑا کردیا۔”کاش یہ لوگ دور سے نظر آجاتے تو ہم سابقہ طریق فرار اختیار کرتے ہوئے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے“۔ ہم نے خود کلامی کرتے ہوئے ضروری کاغذات نکالے اور خود کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے ”کٹنے“ کا انتظار کرنے لگے۔اب کر بھی کیا سکتے تھے۔ ایسے حالات میں عموماً بہت سے لوگ اپنے حواس کھو دیتے ہیں جب کہ See oil See oil’s edge (تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو) کافارمولا نہیں بھولنا چاہیے۔
بڑے صاحب گاڑی میں بیٹھے خوبصورت خطاطی میں جرائم کے اندراج کے ساتھ ہمارے آگے کھڑے ”مجرم“ کو موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ اور بیک لائٹ کے فوائد بتارہے تھے۔ حیرت سے ہم ان کی گاڑی کی بتیاں دیکھ رہے تھے جو مشکل سے اپنی درست حالت میں تھی۔ ہم نے بھی فرمودات سننے کو اس نیت سے کان لگا دیے کہ قانونی شد بد ہے چند ایک فائدے ہم بھی اڑس لیں۔گنگا بہہ رہی تھی، ہاتھ دھونا بنتا تھا۔ اس موقع پر وزیر باتدبیر فواد حسین چودھری صاحب بڑے یاد آئے،کہ ان سے بڑا ناصح العوام کوئی نہیں۔ جب ہمارا نمبر آیا تو صاحب نے پہلے تو ہمیں گھورا، پھر چیں بجبیں ہوئے۔ہم نے جھٹ سے کوائف صاحب کے سامنے دھرے اور لگے سوچنے کے اب خلاصی مل سکتی ہے۔ مگر ہم یہ بھول گئے تھے کہ ہمارا جرم ہی یہ ہے کہ کوئی جرم نہیں اور یہ بھی کہ یہاں Whose stick his buffalo (جس کی لاٹھی اس کی بھینس) کا قانون ہے۔ فرار کی ساری حسرتیں دم توڑنے لگی تھیں۔ ارے یہ کیا؟ ہم تو دھک سے رہ گئے۔اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ہمیں اب Something black in bean (دال میں کچھ کالا) لگنے لگاتھا۔ ہم نے احتجاجاً صاحب سے کہا:”دیکھئیے آپ اس طرح ہمارے نام کاتیا پانچا نہیں کر سکتے۔مکرر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا نام ”انسر“ نہیں ”عنصر“ ہے۔آپ کی تعلیمی قابلیت پہ ہم شک کی گنجائش نہیں رکھتے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ بڑی توپ چیز ہیں۔ لیکن ہمارے نام کی توہین کا حق بھی قانون آپ کو نہیں دیتا۔لہذا ہمیں یہ قطعی نامنظور ہے کہ آپ ہمارے”بامعنی“نام کو ”گدھ“کے مشابہ کردیں“۔ عنصر کی جگہ ”انصار“ بھی لکھتے تو کیا پتا ہمارے دل میں ”مدد“ کا لاوا پھوٹتا اور ہم کچھ لے دے کر راہ فرار اختیار کرلیتے۔(لے دے والی رائج العام پالیسی پر عمل کرنا گھاٹے کا سودا ہے، اس پر عمل سے گریز کرنا چاہیے)
صاحب نے حقارت سے ہمیں دیکھا۔گٹکے بھرے منھ کو آسمان کی طرف کر کے کچھ بڑبڑایا،جو ہماری سمجھ شریف میں آئے بغیر سر کے اوپر سے گزرتارہا۔کیوں کہ ہم تو اپنے دفاع میں محو تھے کہ ان کے اس آتش گیر معدہ سے ہم نہ جل جائیں۔ جلدی ہمیں احساس ہوگیا کہ خاموشی راہ نجات ہے۔یہی ایک رستہ ہے جس پر چلنا چاہیے۔ خدا خدا کرکے جناب نے رہائی کی ہری جھنڈی دکھائی تو ہم نے مزید Peas circle (مٹر گشت کرنا) مناسب نا سمجھا اور سیدھے گھر آکر دم لیا۔اس دن کے بعد سے اب ہم دونوں تو نہیں ایک آنکھ ضرور ان کے تعاقب میں لگا کر رکھتے ہیں۔آپ کیا کرتے ہیں؟

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں