یکساں تعلیمی نظام کے فروغ کے لیئے عملی اقدامات کی ضرورت

اگر پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو اِس کے دو نظریات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمارے ملک پاکستان میں شرح خواندگی بڑھتی جارہی ہے۔ہر صبح دیکھا جاتا ہے کہ ہزاروں بچے تدریس گاہوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں جن میں صاحبِ استطاعت لوگوں کے بچے نجی اسکولوں میں بھاری بھرکم فیس ادا کرتے ہیں نتیجے میں اُن کو معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور باقی عوام جن میں متوسط اور غریب گھرانوں کے بچے شامل ہیں وہ سرکاری اسکولوں کا رخ کرتے ہیں اور نتیجے میں اُنھیں اساتذہ کا انتظار کرتے کرتے اسکول کی خالی عمارت اور خالی کمروں سے باتیں کرنی پڑتی ہیں، یا پھر اگر اتفاق سے کچھ اسا تذہ طلبہ و طالبات کو اپنا شرف بخشتے ہیں تو اِس صورت میں بھی طالبات کو غیر معیاری تعلیم حاصل کرکے ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں فرقہ روی تو اپنے عروج پر ہے ہی لیکن سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان کے حکمران اور تعلیمی نظام چلانے والے افسران انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر تعلیم کے معاملات میں بھی بلا کا امتیاز رکھتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ امیر کی اولاد کو معیاری تعلیم اعلیٰ اسٹینڈرز پر رکھا جائے گا اور غریب کی اولاد کو غیر معیاری تعلیم دی جائے گی۔یہ کیسانظام ِ تعلیم ہے جس میں تعلیم امیر اور غریب کے لیئے علحیدہ علحیدہ منتخب ہے۔امیروں کے لیئے اعلیٰ معیار کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تمام تر سہولیات موجود ہیں بمع سفارشات کے،اور غریبوں کے لیئے نہ اساتذہ ہیں نہ ہی سہولیات۔اگر اساتذہ ہیں بھی تو وہ اعلیٰ مرتبے پر فائز ہونے کے باعث اپنے فرائض انجام نہیں دیتے جس کی وجہ سے تعلیمی عمل نامکمل ہوکر رہ جاتا ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام اِس قدر پسماندہ اور ضعیف ہوچکا ہے کہ لوگ اِس مسئلے پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور کریں بھی کیوں جب امیروں کے بچے کم محنت،پیسے کا بہاؤاور سفارشات کی مدد سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو کسی کو کیوں کوئی فرق پڑے گا؟ آج بھی ضرورت اِس امر کی ہے کہ انسانیت کے ناطے ہی ہمیں ملک میں ہونے والے غلط امور کی اصلاح کے لیئے آواز اُٹھانی چاہیئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس کے لیئے آگے کون بڑھے گا اور پاکستان میں رہتے ہوئے تو ہم اپنے کسی سگے رشتے سے بھی اتحاد اور یک جہتی کی اُمید نہیں رکھ سکتے تو پھر غیروں سے کیا اُمید کریں۔ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام ہر دور میں فرسودہ رہا ہے اور اب صورت ِ حال بد تر سے بد ترین ہوتی جارہی ہے۔ نظام ِ تعلیم میں کچھ فیصد بہتری بھی محض امیروں کے بچوں کی حد تک محدود ہے، اگر شروع سے ہی اِس فرق کا خاتمہ کیا جاتا تو آج کوئی بھی انسان امیر غریب کے نام سے نہ پہچانا جاتا۔
ہمارے معاشرے کا ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم بیچی جارہی ہے، پاکستان میں غریب طالب ِ علم جو ماسٹرز کرنے میں اپنی زندگی کے کئی سال خرچ کر دیتا ہے اور اپنے گھر کی نصف چیزیں بیچ کر تعلیمی اخراجات پورے کرتا ہے، اُس کے ہاتھ میں سند کے آتے ہی کسی پرائیوٹ اسکول میں ملازمت شروع کر دیتا ہے
اور اپنی زندگی کے اگلے کئی سال وہ بیچی ہوئی چیزوں کو خریدنے میں لگا دیتا ہے، نتیجے میں اُس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا،سوائے دھتکار کے، جس میں وہ ساری زندگی لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنا رہتا ہے۔اِس کے بر عکس امیر طالب ِ علم کے ہاتھ میں سند کے آتے ہی وہ ایک اچھے روزگار سے لگ جاتا ہے جس میں سفارشات کا عمل دخل زیادہ ہونے کے باعث وہ اپنے من پسند شعبے میں ملازمت حاصل کر لیتا ہے، ایک بڑی رقم کے عیوض امیر طالب ِ علم کاکسی سرکاری عہدے پر تعینات ہوجانا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک میں پرچی کلچر سسٹم کا راج ہے جہاں سب کچھ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن کچھ نہیں۔
تمام صورتِ حال کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک کے حکمرانوں اور تعلیمی افسران کو چاہیئے کہ پاکستان میں یکساں تعلیم کو فروغ دیں اور اِس ضمن میں مثبت تبدیلی لانے کے لیئے عملی اقدامات کریں،کیونکہ تبدیلی کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔مزید یہ کہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے تاکہ غریب عوام بغیر کسی ڈرکے ایک ہی طرز کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ بحیثیت انسانیت کے، ہمیں دوسروں کے حقو ق کے بارے میں بھی سوچنا چا ہیئے، کیونکہ ہم سب تو اپنی زندگی تمام ضروریات اور آسائشات کے ساتھ گزار رہے ہیں لیکن ایک بار دل سے اُن کے بارے میں بھی سوچیں جو نہ صرف بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں بلکہ ایک ہی ملک اور قوم کا فرد ہونے کے باوجود غیر معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔یاد رہے کہ یکساں تعلیم ہی تمام طالبات کے لیئے کامیابی کی کنجی ہے جس سے استفادہ کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں