نئی نئی چیزیں پہننے، دیکھنے اور برتنے والی فطرت رکھنے والا انسان کافی دفعہ دھوکا بھی کھاتا ہے ،لیکن پھر اپنے شوق کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے دوبارہ اسی میدان میں کود پڑتا ہے۔ معدودے چند ، وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے شوق سے دستبردار ہوکر حقائق کا چشمہ لگا لیتے ہیں جس سے انہیں ماحول خاصی حد تک صاف نظر آنے لگتا ہے ۔ لمبی تمہید باندھنے کا مقصد اپنا تجربہ شوق بیان کرنا ہے تاکہ آپ دوسری قسم کی غلطیاں تو کرلیں لیکن یہ نہ کریں جو ہم نے کی۔
ایک وژنری حکومت کے باصلاحیت عوام ہونے کے ناطے جب ہمیں وزیر اعظم کے قائم کردہ آن لائن مرکز شکایات کا پتا چلا تو فوری طور پر ویب سائٹ ڈاؤن لوڈ کرکے اپنا اکاونٹ بنایا، ضروری تفصیلات دینے کے بعد تقریباً ۶ فیلڈز میں اپنی شکایات اور ۲ میں حکایات (تجاویز) لکھیں۔ سبمٹ کیں، اپنا کمپلین نمبر محفوظ کیا اور ایک ٹھنڈی سانس لی کہ بس مسائل حل ہونے والی فہرست میں لگ چکے ہیں۔ ہم بھی اب کتنے ترقی یافتہ ممالک کی طرح گھر بیٹھے کھانا ، کپڑے ، جوتے ، اشیاء ضرورت سب ایک کلک کے فاصلے پر ورنہ باہر دھوپ میں مختلف جگہوں پر جا جا کر بندہ ہلکان ہی ہوجاتا ہے اور وقت الگ خراب ہوتا ہے۔
زندگی کچھ حد تک مطمئن ہوگئی تھی کہ ایک دن ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے اسکرین دھندلی سی ہوگئی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ فواد چودھری ہیں جو حکومت کے کارنامے گنوا رہے تھے پھر بولے کہ عوام کی سہولت کے لئے سٹیزن پورٹل سروس شروع کی گئی ہے جو کہ ابھی صرف پنجاب میں ہے ۔ ہمارا موڈ یک بیک بگڑ گیا “کیا ہر اچھی سروس صرف پنجاب کا حق ہے؟”۔ اپنی سوا گھنٹے کی محنت اور یوں بیوقوف بن جانے پر جان جل گئی۔ حکومت کے لئے منہ سے مغلظات نکلنے ہی والی تھیں کہ کسی خیال کے تحت ادا نہ کر سکے مبادا کوئی سن لے تو ماں باپ کی تربیت پر شک کرے۔ بس یہ کہہ کر رہ گئے “غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا، اب تو قیامت کا انتظار کر ۔پڑھی لکھی وژنری حکومت ایک خواب سی لگنے لگی، اپنے آپ کو سڑک پر شدید دھوپ میں ٹریفک جام کے بیچ محسوس کیا جہاں ایک طرف تیز رفتار گاڑی نے رکشے کو ٹھوکر مار دی تھی اور لوگوں کا ہجوم اس افتاد پر تماش بین بنا کھڑا تھا۔ نہ کوئی قانون کا رکھوالا نہ عوام کا پشتیبان۔ ابھی اسی طرف دیکھ رہے تھے کہ گاڑی کے شیشے پر دو اور تین بھکاری ٹولے کھڑے شیشہ بجانے لگے ۔عجیب وحشت سی ہونے لگی۔ اللہ اللہ کرکے ٹریفک کھلنا شروع ہوئی کہ آگے اور دائیں بائیں رکشے اور موٹر بائیکس نے ایسے گھیرا کہ گاڑی کا اسپیڈو میٹر ۱۵، ۲۰ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جگہ جگہ تجاوزات منہ کھولے نصف سڑک پر کھڑی تھیں ، گلی میں مڑے تو کئی گھروں سے آب حیات بہہ کر اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔اپنے گھر ہی پہنچنا مشکل ہوگیا۔ یہ مناظر کراچی کے ہر شہری کے مشاہدے میں ہیں ۔ دیگر مسائل کے ساتھ مل جل کر مسائل کا ایک اژدھام ہوجاتا ہے۔ مسائل کے بارے میں آگاہی ہوگی اور نیت ثابت ہوگی تو منزل کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے ایک آہ بھری اور لیپ ٹاپ کھول کر کچھ اداروں کے ایڈریسز نکالے ۔ سٹیزن پورٹل سے اپنی درج شدہ شکایات و حکایات کاپی پیسٹ کیں اور سینڈ کردیں کہ جو سہولت میسر ہے اسے تو بروئے کار لے آئیں اس سے پہلے کہ اس پر بھی پابندی لگ جائے۔ پتا نہیں کیوں دماغ میں یہ مصرعہ کلبلا رہا ہے
“آہ کو چاہئے اک عمر سر ہونے کے لئے”
ماشااللہ خوب تحریر ہے-