کشادہ ذہن کے ساتھ سوچو

کشادہ ذہن کے ساتھ سوچنے کا مطلب ہے کہ کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا سیکھنا ہے۔ اگر کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا نہ آتا ہو تو وہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوگا،ہمیشہ غلطیوں کا متحمل رہے گا۔اگر کسی کو کشادہ ذہن کے ساتھ سوچنے کا ملکہ حاصل ہے تو وہ کامیاب انسان تصور ہوتا ہے بنسبت اس شخص کے جس کو یہ ملکہ حاصل نہ ہو۔کشادہ ذہن خود کو جاننے اور ترقی کرنے کی شروعات کا نام ہے۔ہم اس وقت تک کچھ نہیں سیکھ سکتے جب تک ہم یہ تسلیم نہ کریں کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ دنیا میں ہم آئے روز نت نئے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے اکثر مسائل کا حل ہم ڈھونڈ نہیں پاتے،وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ اس مسئلے کا ہم نے تمام طرح سے جائزہ نہیں لیا ہوتا۔صرف سرسری جائزہ لے کر ہم اس کا حل ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں اور نتیجہ ناکامی کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
دنیا میں رہ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔یہ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔آپ کی زندگی کa کوئی بھی دور ہو آپ اس میں کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔جب تک آپ سیکھنے رہتے ہیں آپ کامیابی کی راہ کے مسافر شمار ہوتے ہیں۔ جب آپ تھوڑا بہت سیکھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ میں سب کچھ جانتا ہوں تو آپ کا ذہن بند ہوجاتا ہے اور ناکامی کی راہ کے آپ مسافر بن جاتے ہیں۔جب تک انسان کچھ سیکھتا رہے اس کا ذہن کشادہ ہوتا جاتا ہے۔جب سیکھنے کا عمل ختم ہوجاتا ہے تو اس ذہن بند ہوجاتا ہے اور کوئی نئی چیز نہیں جاتی۔آج کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم سے دوری کا یہی ہے کہ تھوڑا سا سیکھ کر یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ سیکھ لیا ہے۔اب ہمارے سیکھنے کے لیے کوئی نئی چیز نہیں رہی۔یہ سمجھنے کے بعد مزید علم حاصل نہیں کرتے اور جہالت کی یونیورسٹیوں کی پیداوار میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں۔علم کے حصول کا ایک مقصد ہمارے ذہنوں کو کشادہ کرنا ہوتا ہے۔جتنا زیادہ ہم علم حاصل کرتے ہیں اتنا زیادہ ہمارا ذہن کشادہ ہوتا ہے۔ علم سے ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ ہم کتنے زیادہ جاہل ہیں۔
جب آپ خود کشادہ ذہن سے نہیں سوچتے تو آپ خود کو دنیا کے سانچے میں ڈھلنے دیتے ہیں،دنیا اسی در پہ آپ کی منتظر رہتی ہے کہ آپ دوسروں کو اپنے بارے میں سوچنے دو۔ جب خود کشادہ ذہن سے نہیں سوچتے تو آپ دنیا کے بہاؤ کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔دنیا کے بہاؤ میں بہہ جانا آپ کی ایک بڑی غلطی اور ہمیشہ کی ناکامی ہوتی ہے۔جس کے بعد تعمیری سوچ کا فقدان آپ میں پیدا ہوجاتا ہے اور دوسروں کی صحیح یا غلط سوچ کا آپ شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔ایمرسن نے کہا تھا”اگر ہم اپنے لیے خود سوچنے کے بجائے دوسروں کو سوچنے دیں گے تو ہم اپنے ذہنوں کی سالمیت سے محروم ہوجائیں گے” اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا کردار خود تشکیل دیں کسی دوسرے کو ایسا نہ کرنے دیں۔ہم ان کاموں کو کرنے کے بجائے جو ہر کوئی کررہا ہے،درست کام کریں،ضروری نہیں کہ ہوا کا جدہر رخ ہو وہ درست بھی ہو۔
آج کے دور میں بہت سے مسائل کا حل کشادہ اور مثبت سوچنے میں منحصر ہے۔ بہت سی غلطیاں مثبت سوچنے سے دور ہوجاتی ہیں۔بہت سے مسائل کشادہ سوچنے سے حل ہوجاتے ہیں۔تنگ نظری نے اس دنیا کو بہت سے مسائل میں جھکڑ لیا ہے۔دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے خود کو کبھی وقف نہیں کرے گی بلکہ دنیا سے ہمیں ایسی مطابقت پیدا کرنی ہوگی کہ جس سے ہماری ضرورتیں پوری ہوسکیں اور یہ کام ہم سوچنے کے عمل سے ہی کرسکتے ہیں۔ایک وعدہ جو ہر انسان کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ مثبت سوچنا اور کشادہ ذہن کے ساتھ سوچنا۔ایسا کرنے پر اگر آپ قادر ہوجاتے ہیں تو بہت سے پیچیدگیوں سے نکل کر آپ مطمئن اور خوشگوار زندگی جی سکتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں