اس میں کوئی شک نہیں ملک خواہ ترقی کی جانب گامزن ہو یا بد قسمتی سے زوال پزیر ہو رہا ہو، ہر دو صورت میں اس کا سہرا حکمران کے سر ہی باندھا جاتا ہے۔ تاریخ میں ناکامی یا کامیابی کبھی محکموں کے سر نہیں باندھی جاتی البتہ تباہی کے اسباب میں کہیں کسی ادارہ کا ذکر آجائے تو وہ ایک الگ بات ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کا یہ کہنا کہ قبائلی علاقوں کی تباہی یا تباہ حالی میں افواج پاکستان کا نہیں بلکہ حکمرانوں کا ہاتھ ہے، اس لئے افواج پاکستان کو برا نہ کہا جائے، سو فیصد درست ہے۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے یہ بات قبائلی علاقے میں ایک پُر ہجوم جلسہ عام میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ “وہ قبائلیوں کی مشکلات سمجھتے ہیں اور ان کی اپنی نظر میں ان کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہے”۔ انھوں نے اس موقع پر قبائلی علاقوں کی ایک اور نمائندہ جماعت پی ٹی ایم کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ “پی ٹی ایم والے پٹھانوں کی تکلیف کی بات کرتے ہیں، وہ ٹھیک بات کرتے ہیں اور یہ وہی باتیں ہیں جو وہ خود 15 سال سے کرتے آ رہے ہیں، لیکن جس طرح کا لہجہ وہ اختیار کر رہے ہیں وہ ہمارے ملک کے لیے ٹھیک نہیں۔ جو لوگ تکلیف سے گزرے ہیں انہیں اپنی فوج کے خلاف کرنا ٹھیک نہیں”۔
عمران خان صاحب کی اس بات میں تو کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دیگر سیاستدانوں اور خاص کر ایسے سیاستدانوں سے جو قبائلی علاقوں سے تعلق نہیں رکھتے، قبائلیوں کی مشکلات اور ان کو درپیش مسائل کے بارے میں زیادہ بہتر علم اور جانکاری رکھتے ہونگے لیکن یہ جو چند باتیں مذکور کی گئیں ہیں ان کے مستند ہونے میں ضرور شک ہے یا وہ اس طرح نہیں جس طرح وہ قوم کو سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ ایک جانب وہ پختون تحفظ موومنٹ کی شکایات کو اپنانے یا اپنے دل کی بات قرار دے تے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ خود 15 سال قبل ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کے لب و لہجے کا سہارا لیکر ان کی شکایات کو رد کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔ میں یہ بات کہنے میں ذرا بھی تردد محسوس نہیں کرتا کہ ان کی سوچ اور پی ٹی ایم کی سوچ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے اس لئےان کا یہ کہنا کہ میں ان کی باتوں کو “اون” کرتا ہوں، سراسر زیادتی ہوگی۔ پی ٹی ایم افواج پاکستان ہی کی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بغاوت کی ایک کھلی تحریک ہے جس کے ہر جلسے میں “آزادی” کا نعرہ سب سے مقبول اور نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ افواج پاکستان کی مخالفت کا سہارا لیکر بلا خوف و خطر پاکستان سے بغاوت پر قبائلیوں اور پختونوں کو ابھار رہی ہے۔ اس کے حالیہ جلسے میں تو وہ ساری باتیں کہی جا چکی ہیں جو بنگلہ ڈیش کے شیخ مجیب کی زبان سی بھی نہیں سنی گئیں۔ جس موومنٹ کا رہبر کھلے عام یہ کہہ رہا ہو کہ بنگلہ ڈیش میں تو صرف 93 ہزار فوجی جوانوں نے ہتھیار ڈالے تھے لیکن وہ پاکستان میں کئی لاکھ افواج کے گلے کٹتے دیکھ رہا ہے، اس کے اور خان صاحب کے خیالات کو ایک جیسا کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ منظور پشتین کا یہ کہنا ہے کہ ہر وہ پختون جو فوج میں یا نیم فوجی دستوں میں شامل ہیں وہ صرف میرے ایک اشارے کے منتظر ہیں، ایسے لیڈر کی تحریک کے متعلق خان صاحب کا یہ کہنا کہ انھیں یعنی پی ٹی ایم کو جوبھی شکایت ہے وہ بجا ہے اور ان ہی جیسی باتیں میں بھی نہ صرف کیا کرتا تھا بلکہ اب بھی میری اور ان کی سوچ میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے، کیا یہ ایک کھلا تضاد نہیں۔
عمران خان کا یہ کہنا کہ اصل چیلنج یہ ہے کہ لوگوں کو بحال کیا جائے نہ کہ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے اور کوئی حل نہ پیش کیا جائے۔ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو لیکن جب کسی سے زخم ملتے ہیں تو ان کا کرب بیان کئے بغیر دل میں ٹھنڈ پڑ بھی نہیں سکتی۔ اصل سوال یہ ہے کہ زخم ڈالے ہی کیوں جاتے ہیں۔ کسی کے دل و جگر کو چھلنی کیا ہی کیوں جاتا ہے۔ پھر یہ کہ دل و جگر چھیدنے والے اگر اپنے ہی ہوں تو اس غم کو سہنا اور بھی عذاب بن جایا کرتا ہے۔ خان صاحب کا یہ کہنا کتنا درست ہے کہ “قبائلی علاقوں میں جو کچھ بھی ہوا وہ اس وقت کی حکمرانوں کا قصور تھا یا غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ہو”۔ اس میں کوئی شک نہیں جو بھی کارروائی شمالی علاقوں میں کی جاتی رہی ہے اور اب تک کی جارہی ہے وہ کسی نہ کسی دور حکمرانی میں ہی ہوئی ہوگی۔ پاکستان میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں جو بنا حکومت گزرا ہو لیکن کیا عمران خان صاحب یہ بھی بتانا پسند کریں گے کہ امریکی جنگ میں جنھوں نے پاکستان کی افواج کو جھونکا وہ حکمران تھے کون؟۔ لنگڑی لولی جمہوریت میں بھی خود خان صاحب سمیت سب ہی اس بات کے مخالف تھے کہ قبائل میں موجود مسلح گروہوں کے خلاف کوئی عسکری ایکشن لیا جائے۔ سارے سیاستدان ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہی ڈھونڈنا چاہتے تھے لیکن سب سیاستدانوں کو کس نے اس حد تک مجبور کیا کہ وہ ہر طرح کے آپریشن کے اختیارات نہ صرف منتقل کرنے پر مجبور کردیئے گئے بلکہ راتوں رات آئین و قانون بھی بنانا پڑا۔ اب اگر آپریشن کے نتیجے میں جن جن قبائل کو اذیت برداشت کرنی پڑی ہوگی اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے تو منظور پشتین ہی کیا جو بھی ان کے زخموں کو کرید کر زخم دینے والوں کے خلاف ان کو اکسائے گا تو قبائلی اس کا ساتھ نہیں دیں گے تو کیا ان کا ساتھ دیں گے جو دکھ دینے کے بعد بھی ان پر مرہم رکھنے پر تیار نہ ہوں۔ اس لئے عمران خان کا اس معاملے میں بھی صرف سیاستدانوں کوہی مورد الزام ٹھہرانا انصاف کے خلاف ہوگا لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات کا اعادہ کریں اور جن مسائل کا قبائلی شکار ہیں ان کو دور کرنے کیلئے جنگی بنیاد پر کام کریں ورنہ منظور پشتین کی سحر انگیزی سے قبائلیوں اور پختونوں کو نکالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔