ملانیاں قبول نہیں

یہ ستر کی دہائی کا زمانہ تھا، جب ہمیں ’’ہوم ا سکولنگ‘‘ کرواتے ہوئے امی جان کو نجانے کیسے خیال آ گیا کہ اب ہمیں گورنمنٹ سکول میں داخل کروا دیا جائے، ہم نے پہلی مرتبہ سکول کا منہ دیکھا تھا، اگرا سکول ہمارے لئے ایک عجوبہ تھا تو ہم اسکول والوں کے لئے بھی! پہلے دن اسکول کی اسمبلی کے لئے گراؤنڈ میں پہنچے تو ہر جانب سفید اور نیلے اجلے یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں تھیں، گلے میں ’’وی‘‘ والی پٹی بھی آویزاں تھیں، ہم نے بھی دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا، کئی لڑکیوں نے ہمیں حیرت سے دیکھا اور کلاس ٹیچر چونکہ ہمارے گاؤں کی تھیں اس لئے فقط سمجھایا کہ کل سے آپ بھی پٹی اوڑھ کر آئیں، یہی اسکول یونیفارم ہے، گھر آ کر والدہ کو بتایا تو انہوں نے کہہ دیا کہ اسکول تو دوپٹہ اوڑھ کر ہی جانا ہے، استانی کو بتا دینا۔ اس وقت توا سکول ٹیچر نے برداشت کر لیا مگروقت گزرنے کے ساتھ اسکول کا رویہ مزید سخت ہونے لگا، اور ہر نئی ٹیچر ہمیں یہی سبق پڑھاتی، کہ یہاں کون ہے کلاس میں، کلاس میں تازہ دم اور چست دکھائی دیں، اتنے بڑے دوپٹے اوڑھ کر کیا ملانی بنی ہوئی ہیں آپ؟! (ان دنوں ہم یہی سمجھتے تھے کہ ملانی شاید بہت ہی بری شخصیت کو کہتے ہیں)۔
اگلی کلاس میں گئے تو ایک سخت اور درشت ٹیچر سے پالا پڑا، جو کسی بھی معمولی بات پر ہمیں خوب سزا دیتیں، انکے خیال میں یہ ملانیاں کلاس کا ماحول خراب کر رہی تھیں، اور اب توا سکول ہیڈ مسٹریس کی جانب سے اسمبلی میں وزارتِ تعلیم کی جانب سے آرڈرز پڑھ کر سنائے گئے، تمام طالبات مکمل یونیفارم میں اسکول آئیں، اور اس کی وضاحت میں استانی صاحبہ نے ہر کلاس میں جا کر بتایا کہ کل سے کوئی سر پر دوپٹہ نہ اوڑھے، ’’وی‘‘ پہننا لازمی ہے، ہم عجب مشکل کا شکار تھے، نہ گھر والے مفاہمت کرنے کو تیار تھے اور نہ اسکول والے!!!
اور پھر کیا ہوا؟
۱۹۷۷ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت تسلیم نہ کی گئی، دھاندلی کے بڑے الزامات اور عوامی احتجاج کے بعد ملک میں مارشل لاء لگ گیا، کئی مہینوں کے لئے اسکول کالجز بند کر دیے گئے، اور جب تعلیمی نظام شروع ہوا تو اپنے ساتھ نئے قوانین بھی لایا، اور ان کانوں نے بڑی حیرت سے اسی اسکول کی پرنسل کو یہ اعلان کرتے سنا:
’’کل سے کوئی طالبہ اسکول میں ننگے سر نہیں آئے گی، ململ کا بڑا سفید دوپٹہ اوڑھنا لازمی ہے، اور کوئی استانی بھی چادر اوڑھے بغیرا سکول کی چار دیواری سے اندر نہیں آئے گی‘‘۔
سچ پوچھئے کہ ہمارے دل کی کلی کھل گئی، اب وہی ٹیچرز باری باری گیٹ پر ڈیوٹی دیتیں اور چوکیدار کو بار بار ہدایت کرتیں کہ کلاس ششم سے دہم تک کی کوئی طالبہ پٹی میں اندر نہ آنے پائے، اور ہم بھی بڑے دھڑلے سے دوپٹے کی بکل مار کر کلاس میں بیٹھتے، ہماری کارکردگی بھی ایک دم اچھی ہو گئی، کیونکہ اب اساتذہ ہمیں ایک ملانی کے طور پر جج نہیں کرتی تھیں،( اب تو وہ خود ملانی بن چکی تھی) اب کارکردگی بھی معیارِ تعلیم کی بنیاد پر طے ہوتی تھی۔
ہمارا اس حاکم کو دعائیں دینے کو دل چاہتا جس نے ہمیں دوپٹے اور چادر سے تحفظ عطا کیا تھا۔
آج بہت عرصے بعد یہ سننے کو ملا کہ طالبات کو امتحانی سینٹر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سینٹر سے باہر برقع اتار کر اندر داخل ہوں، نقل سے بچاؤ کو بنیاد بنا کر حیا کا لبادہ اتروانے کی ناپاک کوشش کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔تفتیش اور جانچ کے اور بھی محفوظ اور باوقار طریقے موجود ہیں۔
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں