(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر۴
ہم منی واپسی کے لئے کسی سواری کی تلاش میں تھے، کوئی بھی سواری آ کر رکتی تو ایک ہجوم اس کی طرف لپکتا، اور وہ فوراً ہی بھر جاتی، ہم اپنے مردوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے، تقریباً نصف گھنٹے کی تگ و دو کے بعد ایک ویگن ہاتھ لگی، ڈرائیور کو ۵۵ نمبر کیمپ کا بتا کر سب تسلی سے بیٹھ گئے، سب اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ سب ہی سو گئے، اور اب ڈرائیور آخری سٹاپ آنے پر سب کو نیچے اترنے کا کہہ رہا تھا، سب آنکھیں ملتے نیچے اترے، مردوں نے کیمپ نمبر ۵۵ کا پوچھا جو انہیں بتا دیا گیا کہ یہاں سے نیچے اتریں اور ’’کوبری‘‘ کو پار کر کے سامنے ہی ہے۔ نیچے اترتے ہوئے راستہ دو جانب جا رہا تھا، اور وہیں اختلاف ہو گیا کہ کدھر کو جانا ہے، طاقت ور گروہ آگے ہو لیا اور باقی سب پیچھے چلنے لگے، اتنی دیر پیچھے چلے کہ آگے والوں کو یقین ہو گیا کہ ہم غلط راستے پر آ گئے ہیں، پھر واپس مڑے، کئی جگہوں پر آویزاں نقشوں سے مدد لی، جو انگریزی میں بھی تھے اور عربی میں بھی، نقشے کے مطابق ہم اپنی قیام گاہ کے بالکل قریب تھے، بس چند قدم کی مسافت پر!! مگر جب چلنے لگتے تو ساری نشانیاں غائب ہو جاتیں، چلتے چلتے ایک پہاڑی سامنے آگئی، مرد اس پر چڑھنے لگے تو خواتین بھی پیچھے، جب دوسری جانب اترے تو ایک خار دار باڑ سامنے تھی، ایسے لگ رہا تھا باڑ کے دوسری جانب ہمارا کیمپ ہے، میاں صاحب نے ہماری حالت کا احساس کرتے ہوئے پوچھا: ’’اس ستون پر چڑھ کر پار اتر جائیں گی؟‘‘ ادھر کرنل صاحب کی بیگم نے ہولے سے کہا: ’’میرا پاؤں تو پہلے ہی مسلا ہوا ہے، چھلانگ کیسے لگاؤں؟اور کرنل صاحب پورے جلال سے بولے: ’’یہ حج ہے ۔۔ مشقت کا نام ہے‘‘۔ اللہ کا شکر کہ کسی بھی چھلانگ سے پہلے دوسری جانب کا راستہ بند ہونے کا علامتی نشان نظر آگیا، ہم اللہ کا شکر ادا کرتے واپس پلٹے، ایسا لگتا تھا ہم بس چل رہے ہیں ایسے قافلے کی مانند جس کی منزل غیر واضح ہو، جو ہر چند قدم کے بعد کسی اجنبی راہبر سے اپنی منزل پوچھ رہا ہو، چلتے چلتے ہم ترکی کیمپ کے پاس پہنچ گئے، وہاں ایک نوجوان نے مسکراہٹ سے بھرپور استقبال کیا، اور یہ جان کر کہ ہم پاکستانی ہیں، محبت کا اظہار کیا، بولا: مجھے کچھ معلوم تو نہیں، لیکن میرا دل کہتا ہے آپ کا کیمپ اس جانب ہو گا، اس نے ایک سمت اشارہ کیا اور ہم جوابِ محبت میں اسی سمت چل پڑے، ’’زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘، مگر محبت کی کوئی زبان ہوتی ہے کیا، بلکہ محبت کسی زبان کی محتاج ہوتی ہے کیا؟ بس ہم چلتے گئے اور چلتے ہی گئے، رات کے دو بجے ہم افریقن کیمپوں کے سامنے سے گزر رہے تھے، اور اندر سے خراٹوں کی آوازیں آ رہی تھیں، اور ہماری حسرت اور بے گھری کے احساس کو دو چند کر رہی تھیں، فضا میں اتنا سکوت تھا کہ ہمارے بھاری قدموں کی چاپ ہمارے دل کو اور بوجھل کر رہی تھی، چلتے چلتے ایک ایک کر کے ہم سے ہمارے لوگ بھی اوجھل ہو گئے تھے، پانچ خاندان جو ابتدائے سفر میں ایک ساتھ چل رہے تھے، اب ان میں ہم اور کرنل صاحب رہ گئے تھے، ہمیں ایک جانب کچھ رونق نظر آئی، ارے واہ، یہ تو پاکستان ایمبیسی کی راہنما سروس ہے، پاکستان کا جھنڈا چوم لینے کو دل چاہا، اہلکاروں نے بتایا کہ ہم اپنے کیمپ کے قریب ہی ہیں، میاں صاحب کو بھی یاد آیا، میں یہیں سے تو آپ کی کھانسی کی دوا لے کر گیا تھا، مگر ہمارا پھر بھی اصرار تھا، ان میں سے کسی کو ساتھ لے چلیں، ’’وہ ہر ایک کے ساتھ بندہ کیسے بھیجیں، تھوڑا سا سٹاف ہے ان کا‘‘، ابھی ہم پریشان ہی تھے کہ ہمارے کیمپ سے باہر ایک شخص نے ہمیں پہچان لیا، ارے بھئی، یہی کیمپ ہے آپ کا، اندر داخل ہوئے تو پتا چلا ہم سے بچھڑا صرف ایک خاندان پہنچا ہے، باقی دو ابھی نجانے کہاں بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم صبح فجر پڑھ رہے تھے جب آخری ساتھی پہنچے، ہم شرمندہ تھے مگر آنے والوں نے کوئی گلہ نہ کیا۔ فجر پڑھ کر سب ایک دوسرے کو اپنی روداد سنا رہے تھے، سب سے مزے دار قصّہ اکرم بھٹی صاحب کا تھا، انہوں نے کہا میں نے اللہ سے دعا کی: ’’اے اللہ میں ان پڑھ بندہ ہوں، تو ہی مدد کرنا، رمی کر کے مکہ گیا، اور طوافِ افاضہ کے بعد ویگن میں بیٹھا، کوبری کے دوسری طرف ویگن سے اترا تو سیدھا کیمپ میں آگیا، اللہ سوہنے نے بڑی مدد کی، ہم تینوں کی‘‘، اور ہم رشک سے انکی آواز سن رہے تھے، واقعی اللہ ہی تو ہے جو بھٹکنے سے بچاتا ہے، اور اس رات ہم پر یہ حقیقت بھی خوب آشکارا ہوئی کہ اللہ کی طرف جانے والے راستے بہت سیدھے ہیں، حرم کا راستہ سب سے آسان راستہ ہے، اصل مشکل تو وہاں سے واپسی پر سیدھا رہنے میں ہے۔
کیمپ میں سب حسبِ استطاعت ذکر، قرآن اور دعا میں مشغول رہے، نمازیں با جماعت کیمپ ہی میں ادا ہوتی رہیں، شام رمی کے لئے نکلے تو مغل صاحب کے موبائل پر میرے بھانجے کا فون آیا، وہ کل کے واقعے کے بعد سے پریشان بیٹھے تھے، مگر ہم نے سارا دن گزرنے کے بعد بھی رابطہ نہ کیا تھا، ہم نے خیریت کی اطلاع دی، لیکن اس چوک کا حساب پاکستان جا کر دینا پڑا، جب یک زبان ہو کر سب نے ایک ہی گلہ کیا، جس میں ہمارے والدین بھی تھے اور بچے بھی، ’’آپ کسی کو پیچھے تو چھوڑ کر نہیں گئے تھے جو آپ کے لئے پریشان ہوتا، اسی لئے مست رہے اپنے ہی حال میں‘‘، اور بیٹی نے بتایا کہ پاکستان کے فوت شدہ حاجیوں کی لسٹ میں جب پانچ مسنگ پرسن رہ گئے جن میں دو اسلام آباد کے تھے، توٹیلیوژن پر خبر سنتے سب گھر والے ایک ایک کر کے خاموشی سے اندر چلے گئے، شاید اسی کے بعد کسی سے گروپ ممبر کا نمبر لے کر فون کیا گیا تھا۔
ہم تکبیرات پڑھتے جمرات کی جانب بڑھے، آج بہت اچھا انتظام تھا، منتظم فورس ایک گروپ کے باہر نکل جانے پر دوسرے کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتی، البتہ ستون کے قریب پہنچ کر ابلیس دشمنی میں ایک شخص نے جوتا بھی مار دیا تھا، بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ایک ایک کر کے سات پتھر ہر جمرے پر مارے، وہیں ایک شخص ہجوم کا فائدہ اٹھا کر کسی کی جیب کترتے ہوئے پکڑا گیا، اسے پولیس اپنے حصار میں باہر لے جا رہی تھی، رمی کی ترتیب یوں ہے کہ پہلے جمرہ اولی (چھوٹا شیطان) پھر جمرہ وسطی (درمیانہ شیطان ) اور آخر میں جمرہ عقبی (بڑا شیطان) کو کنکریاں ماری جائیں گی، پہلے دو جمرات پر رمی کے بعد دعا بھی مانگی جائے گی، مگر تیسری رمی کے بعد بغیر رکے قیام گاہ کی طرف جانا ہے، واپس مڑے تو ’’البیک‘‘ کا نام دور سے نظر آرہا تھا، وہاں پہنچ کر مرد بھی قطار میں شامل ہو گئے، اور انتظار کے بعد مطلوبہ کھانا حاصل کر لیا۔
۱۲ دی الحج کو صبح ہی کیمپ میں ہلچل شروع ہو گئی، ہماری خواہش کہ ۱۳ ذی الحج تک قیام کریں دھری کی دھری رہ گئی، سب نے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا، کھانے کے سب سٹال بھی بند ہو جائیں گے، سب ہی واپس جا رہے ہیں۔ اب مرد حضرات پھر خواتین کے بارے میں پروگرام بنانے لگے، سب سامان دے کر خواتین کو مکہ بھجوا دیتے ہیں اور مرد انکی بھی رمی کر آئیں گے، ہمارے میاں صاحب نے تجویز دی کہ ہمارا بھی سامان بھجوا دیں، ہم دونوں رمی کر کے جائیں گے، مرد منتظمین اپنی خواتین کی بھی خواہش عود کر آنے کے پیشِ نظر اس پروگرام کی مخالفت کرنے لگے، ایک صاحب بولے: ’’آپ کا سامان کوئی نہیں لے کر جائے گا‘‘، میاں صاحب بولے: کوئی بات نہیں، ہم سامان ہمراہ لے جائیں گے، مگر انہیں پھر بھی غصّہ آرہا تھا، خواتین آہستہ چلتی ہیں، ہم تیز تیز چل کر رمی کر لیں گے، ہم نے خاموشی ہی میں عافیت جانی، جب سب خواتین سوار ہو گئیں تو وہ صاحب ہمارا سامان بھی لے گئے، ایک اور خاتون بھی ہمارے ساتھ کو آ گئیں، ہمارے میاں صاحب نے ہمیں ہدایت کی، ذرا تیز قدم اٹھائیں تاکہ کسی کو گلہ نہ ہو، ایک صاحب سن کر بولے: ’’بھابھی، کوئی فکر نہ کریں، آپ پیچھے بھی رہ جائیں تو ہم ہیں آپ کے ساتھ،‘‘ اور انہوں نے اپنی بیگم کے ساتھ قدم قدم پر ساتھ دیا، بڑی آسانی کے ساتھ رمی کر کے گاڑی میں سوار ہوئے اور عزیزیہ پہنچ گئے۔ الحمد للہ ہمارا حج مکمل ہو گیا تھا، آج کا باقی دن تھکاوٹ اتارنے میں لگا، حرم کی جانب دل کھنچ رہا تھا، مگر اسباب ناکافی تھے، اگلا دن چڑھا تو سب نے باری باری میلے کپڑے اور احرام دھونے شروع کر دیے، چھت پر دھلائی کے لئے ٹب بالٹیاں پانی کی ٹونٹیاں اور کپڑے پھیلانے کے لئے تار موجود تھے، ہم نے بھی کپڑے دھو لئے، جو کپڑے خشک ہو چکے تھے انہیں کنارے کر کے کپڑے پھیلائے، ایک حاجی صاحب غصّے میں کچھ دیر بعد ہی سر پر آن پہنچے، ہماری قسمت کہ ہم ان کی بیگم سے گپوں میں مصروف تھے، انہوں نے ہمارے میاں کو بے نقط سنائیں، اور بولے، اب میرے کپڑے کسی نے ہلائے تو میں انکے احرام زمین پر پھینک دوں گا، مزید بدمزگی سے بچنے کے لئے ہم کپڑے اتار کر کمرے میں لے آئے۔اسی شام عصر مغرب عشاء کی نمازیں امامِ حرم کی امامت میں سڑک اور صحن حرم میں ادا کی، اور آخر کار ہمیں مکہ کا ہوٹل دوبارہ مل گیا۔
پھر وہی صبح و شام کی فراغت اور حرم کی مصروفیات!!اور ایک مشغولیت جو چپکے سے معمولات میں شامل ہو گئی تھیں وہ والدین، بچوں اور عزیز و اقارب کے لئے تحائف کی خریداری تھی، مکہ کے تاجروں نے نت نئے ساز و سامان سے ہماری اشتہا بڑھا دی تھی، سامان بڑھتا جا رہا تھا، اور وقت سرک رہا تھا، ایسے میں ایک روز خبر ملی کہ ہمیں زیاراتِ مکہ کے لئے جانا ہے، اور پھر اندر کی خبر بھی کہ مرد حضرات احرام ساتھ رکھ لیں، یلملم کے میقات سے عمرے کا احرام باندھا جائے گا۔ اگلے روز ناشتے کے بعد غارِ حرا کی سڑک سے گزرتے ہوئے، غارِ ثور کے پہاڑ کے دامن سے ثور کا جائزہ لیا، منی مزدلفہ اور عرفات کے میدان میں پہنچے، خیموں دار بستیوں کو بے آباد اور اگلے سال کے حاجیوں کی منتظر پایا، جبلِ رحمت پر چڑھے، اس مقام کو دیکھا جہاں رسول اللہ ﷺ نے ایک لاکھ چالیس ہزار حاجیوں کو خطبہء حج الوداع دیا تھا، واپس لوٹتے ہوئے جمرات پر بھی گئے، میں نے جھک کر ان کنکریوں کو دیکھا، جو حاجیوں نے شیطان پر برسائی تھیں، بہت تھوڑی سی کنکریاں وہاں موجود تھیں، تحقیق پر معلوم ہوا کہ زیرِ زمین انتظام کے ذریعے اگلے حج سے پہلے انہیں کہیں اور پھینک دیا جاتا ہے۔
بس میں بیٹھے حاجیوں نے اگلے روز کے لئے غارِ حرا تک جانے کا پروگرام بھی بنا لیا، جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں، ہم نے میاں سے استفسار کیا تو بولے: آپ کے لئے اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہو گا۔اگلے روز ناشتے کے بعد تمام شائقین حرا کے لئے روانہ ہو گئے، میں خاموشی سے کمرے میں آگئی، تھوڑی دیر بعدمیاں صاحب کا ریسپشن سے فون آیا، میں ذرا اوپر آ رہا ہوں، میرے ذہن میں خیال کوندا، ضرور مجھے لینے آ رہے ہوں گے، اتنے کمزور افراد بھی تو جا رہے ہیں۔ اتنی دیر میں میاں صاحب کمرے میں داخل ہوئے،اور بولے: ’’سوچ رہا ہوں بوٹ پہن جاؤں، چڑھنے میں آسانی رہے گی‘‘، انہوں نے جوتے تبدیل کئے اور یہ جا وہ جا، ہم دروازے میں لگی چابی کو ہی دیکھتے رہ گئے۔
جوں جوں ہماری واپسی کے دن قریب آرہے تھے، حاجیوں کے حساب کتاب میں بھی تیزی آگئی تھی، چالیس طواف کرنے والے کی بخشش ہے، اور لوگ اپنی گنتیاں پوری کرنے لگتے، قریب کے کمروں میں ایک بڑا سا خاندان مقیم تھا، جن کے کھانے ہوٹل کے کمروں کے سامنے ہی پکتے، خواتین سارا دن ہوٹل میں رہتیں، البتہ عشاء کے بعد رات کو جب رش کم ہو جاتا تو وہ سب خواتین کو ساتھ لے کر جاتے اور طواف کی گنتی پوری کروا لاتے، ان کا خیال تھا کہ عورت پر چونکہ با جماعت نماز فرض نہیں ہے اس لئے بار بار حرم کے لئے ہوٹل سے نہیں نکلنا چاہئے، وہ مردوں کی خدمت کر کے اجر و ثواب سمیٹ سکتی ہے۔
ہمارے گروپ کے ایک ساتھی کو حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی سعادت ملی تو جیسے سب کی خوابیدہ خواہش بیدار ہو گئی، کبھی کوئی یہ معرکہ سر کر آتا تو کبھی کوئی اور ۔۔ گروپ کی خواتین بھی کسی سے پیچھے رہنے والی کہاں تھیں، البتہ میرا معاملہ مختلف تھا، میں تو حرا کا غار بھی نہ دیکھ پائی تھی، جہاں بھی رش ہوتا، چار قدم پیچھے ہو جاتی، بس ایک روز غم میں بیٹھی تھی کہ یہاں پہنچ کر بھی محروم نہ رہ جاؤں کہ میاں صاحب نے اشارہ کیا، طواف کروایا، جس میں رکنِ یمانی کو بھی چھوا، پھر حطیم میں لے گئے، نفل پڑھنے کی مناسب جگہ بھی مل گئی، تسلی سے دعا مانگنے کا وقت بھی، باہر نکلے تو بولے، وہ مقام کہاں ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ اسری کی رات نفل پڑھ کر مسجدِ اقصی گئے تھے؟ ہم باب عبد العزیز کی جانب مطاف کے اندر سے گئے، تو بدرالنساءؒ سابقہ ناظمہ اعلی اسلامی جمعیت طالبات کی بتائی ہوئی نشانی پر پہنچ گئے، وہاں دو تین اہلکاروں سے پوچھا تو انہوں نے وہی جگہ بتائی، وہاں نفل پڑھ کر باہر نکلتے ہوئے دل کا غم دھل چکا تھا، اور طمانیت نے سارے وجود کو ڈھانک لیا تھا۔
اور پھر وہ شام بھی آگئی، جب عشاء کے بعد ہمیں پیارے مکہ سے کوچ کرنا تھا، طوافِ وداع ادا کیا، اللہ تعالی سے مانگی گئی دعاؤں میں بار بار لوٹ کر آنے کی دعا بھی شامل تھی، سامان تو سب پہلے سے باندھ رکھا تھا، ہمیں جدہ لے جانے والی بسیں آچکی تھیں، مرد سامان لے جا چکے تو اپنے توشے پر نظر ڈالی، ساتھ والے کمرے میں خواتین جمع ہو گئیں، الوداعی ملاقات میں کرنل صاحب کی اہلیہ نقاب میں نظر آئیں، کرنل صاحب نے انہیں توجہ دلائی تھی، بولیں، اب تو میں بوڑھی ہو چکی ہوں، اب تو مجھ پر نقاب فرض بھی نہیں، مگر انہوں نے کہا: جو اتنا عرصہ حجاب کے حکم کی نافرمانی کی اب اطاعت سے رب کی بندگی کا ثبوت دے دو، بات انکے دل کو لگی، اور پھر پاکستان جا کر بھی انکا نقاب قائم رہا، تحفہء حج بن کر!
مغل صاحب کی بیگم نے بقول انکے اس روز دس طواف کئے، اس دعا کے ساتھ کر ہر سال حج نصیب ہو، اور میرے علم کے مطابق وہ ہر سال حج کر رہی ہیں تب سے۔
بس میں بیٹھے تو آنکھیں برسنے لگیں، کعبہ کے منظر آنکھوں میں پھرنے لگے، کتنے اچھے یہ دن!!!
کتنے مزے دار تھے یہ لمحات!! بیالیس روز ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا کی مانند گزر گئے تھے! یہ دنیا کتنی پیاری تھی، کتنی با برکت، کتنی پرنور!!
اللہ سے کیسا پیارا تعلق جڑا تھا، وہ کبھی ہنساتا اور کبھی رلاتا تھا، مگر اس رونے میں مایوسی نہ تھی، بارش کے بعد نکھرنے کا سا احساس ہوتا!
پیاس لگتی تو کوئی اجنبی ہاتھ آپ کے سامنے زمزم کا بھرا گلاس پیش کر دیتا، بھوک لگتی تو کبھی کھجورمل جاتی، کبھی کچھ اور ۔۔
صفوں میں جگہ کم ہوتی تو کوئی بزرگ ترک، یا فلسطینی یا اندونیشی یا کوئی اور ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے پاس بلا لیتی، کوئی جی بھر کر بلائیں لیتی، کوئی اپنے بیگ سے کوئی سوغات نکال کر آگے رکھ دیتی، با اصرار کھلا دیتی ۔۔
کئی خواتین گلے لگا لیتیں، محبت سے بوسہ دیتیں ۔۔
مکہ سے واپس جاتے ہوئے ایک ایک کر کے سب منظر نگاہوں کے سامنے آرہے تھے، رب کے گھر کے مناظر۔۔ رب کی عطا کے مناظر، جہاں ملتا ہے بن مانگے!!
بس مرکزی شاہراہ پر آئی تو اسے روک لیا گیا، الوداعی ضیافت پیش کی گئی، تمام حاجیوں کے لئے دو دو ڈبے، اور زمزم کی بوتلیں خادم الحرمین شریفین کی جانب سے!
جدہ ائر پورٹ پر لمبا قیام تھا، وہیں فجر پڑھی، سب حاجی دوسروں کو بھی اشیائے خورد و نوش پیش کر رہے تھے، ایک بابا جی بڑے فخر سے دو کرسٹل بال دکھا رہے تھے، کہہ رہے تھے، یہ بری امام کے مزار پر جا کر رکھوں گا، دوسرے بابا جی نے ان سے ایک بال مانگا تو وہ ناراض ہو گئے، خبردار جو میرے ہدیے کی طرف دیکھا، پیر صاحب کے لئے ہے۔
ائر لائن کی جانب سے چیک ان کا اعلان ہوا تو سب اپنے سامان اٹھائے لائنوں میں لگ گئے، کئی طرح کا سامان ریجیکٹ ہونے لگا، سب سے زیادہ افسوس انہیں تھا جن کا زمزم زائد ہونے کی وجہ سے واپس کیا جا رہا تھا، ایک خاتون نے اپنی بھری بوتل چھوڑ دی تو ایک خاتون نے اجازت لے کر اٹھا لی، اور ان کی بوتل کلیئر بھی ہو گی۔
جہاز میں کافی نشستیں خالی تھیں، آپ بیٹھیں یا لیٹیں، سب اجازت تھی، ظہر کا وقت ہوا تو ایک صاحب نے ذرا بلند آواز سے سب کو متوجہ کیا، ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور مسئلہ بیان کرنے لگے، چونکہ جہاز زمین سے بلند ہے اور سجدہ کے لئے زمین کا ہونا ضروری ہے اس لئے جہاز میں نماز نہیں ہوتی۔ان کی اس انوکھی منطق پر ابھی چہ مگویاں جاری تھیں کہ انہوں نے آنکھوں پر سفید پٹی باندھی اور تین نشستوں پر پھیل کر لیٹ گئے، تھوڑی دیر میں جہاز میں ان کے خراٹے گونج رہے تھے، مسافروں نے بغیر کسی الجھن کے عصر کی نماز بھی ادا کی، اور شام ڈھلے ہم اسلام آباد ائر پورٹ پر اتر رہے تھے۔
ہمارے میاں جنہوں نے دولہا بن کر بھی ہار نہ پہنا تھا انکے استقبالیہ میں دوست، رشتہ دار اور بچے سب موجود تھے ہاتھوں میں ہار لئے، اور ہم حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
ہمارا ڈھائی سالہ بیٹا ابا کے گنج پر تو پریشان تھا ہی، ہمیں بھی پہچان نہ پا رہا تھا، تھوڑی دیر بعد گود میں بیٹھ کر پوچھتا: آپ امی جان ہیں نا!
واپس اپنی دنیا میں آتے ہوئے یہی سوچ غالب تھی کہ وہ دعائیں جو رب کے گھر میں مانگی ہیں انکی قبولیت کے لئے ہماری ’’سعی‘‘ اور ’’رجوع الی اللہ‘‘ سب سے اہم ہے۔ ربّنا تقبّل منّا انّک انت السمیع العلیم۔آمین
***
اختتام
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
رنگت کا شور
خوب صورتی محض سفیدی میں نہیں اورحسن کا معیار گوری رنگت نہیں ۔ اس زندگی میں کچھ کردار ایسے ہیں جو چلتے پھرتے کہانی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت نے ایک مثبت پہلو رکھا ہوتا ہے ۔ سارہ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جسے پانچ برس کی عمر میں اس کے والدین آنکھوں میں مثبت خواب سجائے اسے مکتب میں بھیجتے ہیں کہ ایک روز سارہ پڑھ لکھ کر اس قوم کی خدمت کرے گی ۔ سارہ کو بدقسمتی سے بچپن ہی سے معاشرے سے وہ پیار نہ ملا جس کی وہ حق دار تھی ۔ پڑوس کے بچے اور بزرگ سب ایسے کالی کالی کہہ کر مخاطب کرتے مگر سارہ نے کبھی ماتھے پر شکن تک نہ لائی۔ سارہ کے والدین ان باتوں سے اکثر افسردہ ہوتے تھے آخر وہ کس کس کو اور کیا کیا کہہ کر سمجھاتے ۔
وقت گزرتا گیا سارہ کا مکتب میں پہلا دن اتنا بھی شان دار نہ رہا جتنی اس کو مسرت تھی ۔ مکتب کے بچے بھی اس کو کالی کلوٹی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ سارہ سب کو بھائی اور بہن کہہ کر مخاطب کرتی لیکن کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کرتا ۔ وقت گزرتا گیا سارہ نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا ۔ ہر سال جماعت میں اول آتی رہی ۔ جماعت ہشتم میں اب زیر تعلیم تھی لیکن اس کے چہرے کی رنگت اب بھی ایک مسئلہ تھا لیکن ہر جماعت میں ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے سارہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کردار اس کی معلمات کا تھا ۔ استاد کبھی بھی بچوں کو اس کی رنگت کی وجہ سے اس سے نفرت یا محبت نہیں کرتے ۔ ایک حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو بچوں میں محبت کو پروان چڑھاتا اور انھیں بلند حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔
میڈم شمیم اپنے ادارے میں ایک قابل معلمہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی ۔ ایک روز انہیں کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو دیکھا سب بچے قہقہ لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچی ایسی بھی بھی ہے جو اداس بیٹھی ہے ۔ میم شمیم نے بچوں کو مخاطب کیا اور پوچھا : ” بچو ! کیا تم جانتے ہو اچھے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ “ جماعت سے یکے بعد دیگرے مختلف آوازیں آنے لگی : صاف ستھرے ، اچھا بولنے والے ، اچھا پڑھنے والے ، بڑوں کی بات ماننے والے ۔۔۔۔ میم شمیم نے سوال تبدیل کیا کہ برے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ تو جماعت کے کچھ بچے سارہ کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہیں سے آواز بلند ہوئی سارہ کی طرح کالے کلوٹے ۔۔۔کلاس میں بلند قہقہ لگا ۔ میم شمیم نے سب کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ! بچو ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ پاک کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ہم اس کے تخلیق کردہ انسان کی تذلیل کریں ؟ اس کو برا بھلا کہیں، کیا ہم سب ایک جسم کی مانند نہیں...
محمد علی جناح قائد اعظم کیسے بنے؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان میں اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور انہیں ہر طرح سے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے انڈیا میں اپنی تجارت اور مصنوعات کو فروخت دینے کے لیے مسلمان ہنر مندوں کو گھر بٹھا دیا انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا مسلمانوں کی زبان کو متروک کرکے انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا فارسی زبان پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے یہاں تک کہ مثل مشہور ہو گئی کہ "پڑھو فارسی بیچو تیل" ۔ مسلمان پسماندہ سے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔
ہندوؤں نےان حالات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے انگریزی زبان سیکھ کر انگریزوں کا قرب حاصل کیا اور اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔
ہندو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ تھے اس بنا پر وہ جان گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ آسکتا ہے انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔
مسلمان بھی انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد میں جو مسلمان رہنما شامل تھے ان میں ایک نمایاں نام محمد علی جناح کا تھا جو پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے وکیلوں میں ہوتا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے اور ہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے علمبردار تھے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو رہنماؤں کا مقصد صرف ہندو اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی اور ان کے سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھی۔
محمد علی جناح اور دیگر مسلمان زعماء یہ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ہندو اور مسلمان دو بالکل علیحدہ قومیں ہیں جن کے افکار، نظریات، دین، مذہب اور رہن سہن کے طور طریقے اس قدر مختلف ہیں کہ یہ آپس میں مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس دو قومی نظریے کی بنیاد پر محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا آپ نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
محمد علی جناح ایک با اصول بے باک اور مخلص سیاستدان تھے۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ دوست دشمن بھی مخالفت کے باوجود آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی و لولہ انگیز قیادت کی بدولت بکھری ہوئی مسلمان قوم کو اسلام کے...
گواہی
السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟ مارتھا جوش سے ہاتھ ہلاتی ہوئی فریحہ کے گلے لگ گئی ۔
فریحہ نے جواباً اسے وعلیکم کہا اور دعا دی " اللہ سبحان تعالی تم سے راضی ہوں ہدایت عطا فرمائیں دونوں جہانوں کی فلاح عطا فرمائیں آمین "
فریحہ کی دعائیں سن کر مارتھا خوشی سے گویا ہوئی' اوہ آنٹی آپ نے تو میرا دن بنا دیا لو یو آنٹی ، آپ سے دعائیں ملتی ہیں تو لگتا ہے جیسے ممی دعا دے رہی ہوں ۔ فریحہ نے مسکراتے ہوئے محبت سے کہا مائیں تو اپنی اولادوں کے لئے دعا کو ہی سب سے قیمتی تحفہ سمجھتی ہیں بیٹی ۔ اچھا بتاو یہ امایہ کہاں ہے ابھی تک کلاس سے باہر نہیں نکلی ؟ ہی ہی ہی ہی ہی آنٹی آپ جانتی ہیں نا اپنی بیٹی کو مارتھا نے ہنستے ہوئے مزید کہا ' جب تک پیپر کا وقت ختم نہ ہوجائے وہ اسے ری چیک کر کر کے خود کو تھکاتی رہے گی ۔ مارتھا کی بات سن کر فریحہ بھی مسکرا دیں اور بولیں، ہاں یہ اس کی بچپن سے عادت ہے کبھی اپنے پیپرز سے مطمئن نہیں ہوتی ۔
ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ امایہ دور سے آتی نظر آئی.
اماں کو اپنی بہترین دوست کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھ مسکرا دی ، وہ جانتی تھی کہ مارتھا اس کی اماں سے بہت محبت کرتی ہے اور بہت عزت بھی کرتی ہے ' وجہ تھی امایہ کی والدہ کا مارتھا کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور مخلصانہ رویہ ۔
وہ مارتھا کے کہے بغیر اس کے لئے امتحانات میں کامیابی کی دعا کرتیں ' اسے پڑھائی میں مدد دیتیں امایہ کو مارتھا کے ساتھ بہت اچھا ' عزت کا سلوک کرنے کا کہتیں نہ مارتھا کو اپنے گھر آنے سے روکتیں بلکہ امایہ کو مارتھا کے گھر خود ملوانے لے کر جاتیں ۔ ان سب باتوں کی وجہ سے مارتھا اور اس کے والدین فریحہ سے بہت عزت سے ملتے ۔
فریحہ کا سلوک مارتھا سے بالکل امایہ کی طرح کا ہوتا زمانے کی اونچ نیچ ' حالات کی خرابی سے ہر دم خبردار کرتی رہتیں 'اکیلے باہر گھومنے، جسم کو شو آف کرتا لباس پہننے سے منع کرتیں اور وہ بھی ایسے دلائل کے ساتھ کہ مارتھا من و عن ان کی بات پر عمل پیرا ہوتی ۔ لیکن اتنی محبت ' عقیدت کے باوجود ایک بات جو مارتھا کو بہت کھٹکتی تھی وہ اس نے اپنی ممی سے بھی شیئر نہ کی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ فریحہ کبھی بھی عیدین کی دعوت میں مارتھا کو شریک نہ کرتیں کبھی امایہ کو کرسمس ' ایسٹر یا گڈ فرائڈے میں نہ آنے دیا نہ مبارکباد دینے دی بلکہ اگر مارتھا عیدین کی مبارکباد دیتی تو آنٹی اور امایہ مسکرا کر رہ جاتیں شکریہ تک نہ بولتیں جو کہ مارتھا کے لئے حیرت کا باعث تھا ہی ساتھ ہی تکلیف دہ بھی ہوتا ۔
اب پھر کرسمس قریب تھا اور مارتھا نے سوچ رکھا تھا کہ کالج کے اس آخری سال کو یادگار بنانے کے لئے وہ لازمی امایہ کو...
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
Very nice post. I just stumbled upon your weblog and wished to mention that I’ve truly enjoyed browsing your blog posts.
After all I will be subscribing on your feed and I’m hoping
you write once more soon!
Yes – I know you don’t like the music in my vieos…lol Don’t mess with my artistic expression!!!
LOLOLOL
Here is my web site: skip The Dishes Coupon