”گھر میں رہ کر ایک مرد کو کھانا دینا بہتر ہے یا تین سو لوگوں کو؟؟؟“

١٨ اپریل ٢٠١٩ فاران بینکوئیٹ کراچی میں ہونے والی خواتین کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ رخسانہ جبیں صاحبہ کی پریزینٹیشن نے شرکاء کے دل چیر کر رکھ دیئے جو فیکٹس اینڈ فگرز انھوں نے بیان کئے کیونکہ انھیں انٹرنیشنل  فورم پرشرکت کے مواقع ملتے ہیں اسلئےانھوں نے اس بات کو بیان کیاکہ جو  ترقی پذیر ممالک کو آئ ایم ایف کی بھیک لیتے ہیں  وہاں ان شرائط پر قرضے دیئے جاتے ہیں عورت کو گھر سے باہر نکالنا جس میں ٹریفک پولیس کانسٹیبل، شاپنگ مالز حتٰی  کہ لوڈرز بھی عورت کو بنایا جائے مخلوط طرز  تعلیم اور عورت کی آزادی کے نام پر عورت کا استحصال لبرل ازم اور فیمین ازم کی بات ہوتی ہے۔

 انھوں نے وہاں غالباً  ناروے کا ذکر کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ایسے  پاکستانی خاندان جو بہتر مستقبل کی لالچ میں اپنا ملک چھوڑ کر یورپین ممالک کا رخ کرتے ہیں انکے بچے انکے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں یا انکی کم آمدنی کے باعث انکے بچے lesbians یا gays  جوڑوں  کو دے دیئے جاتے ہیں ۔(ان ممالک  میں ہم جنس پرستی قانوناً جائز ہے)  اندرون ملک جو عورت کا استحصال  ہے اس میں انھوں نے ایک ایئر ہوسٹس کا ذکر کیا ”‏ایئرہوسٹس سےپوچھا گیا تم تھکتی نہیں جواب دیا پہلے تھکتی تھی اب ٹوٹ پھوٹ گئی ہوں۔“

گھر میں رہ کر ایک مرد کو کھانا دینا بہتر ہے یا تین سو لوگوں کو؟؟؟

یہ سوال ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک ہی گھر کی ملکہ بنایا مگر برابری کے حقوق کی دوڑ میں عورت کا وجود مسخ ہو کر رہ گیا۔ پھر عورت مارچ فیرئیر ہال میں جس طرح کے حقوق  کے نام پر بیجا سوالات اٹھائے گئے جن پر عورت بھی شرما جائے اور یہ ایسے سوالات لبرل ازم کے نام پر عورت کے ذہن میں بٹھائے جا تےہیں کہ مرد طلاق دے سکتا ہے ۔میں کیوں نہیں ؟ ،مرد عدت نہیں کرتا یہ پابندی عورت پر ہی کیوں؟مرد بیک وقت چار شادیاں کر سکتا ہے عورت کیوں نہیں؟

اسکے بعد اگلا  سیشن مذاکرہ بعنوان ”میں عورت ہوں “ ہوا۔مذاکرے کے شرکاء میں مختلف مکتبہ فکر کی خواتین رہنما شہناز غازی،ثنا غوری ،ڈاکٹر ذکیہ اورنگزیب ،ماریہ عندلیب ،الوینہ عروج نے شرکت کی۔

 جس میں محترمہ ثنا غوری صاحبہ نے اپنے تجربات بیان کئے کہ ہمارے معاشرے میں ہر جگہ عورت کا استحصال  ہوتا ہے چاہے وہ ١٦ سالہ لڑکی ہے یا ٤٠ ٥٠ سالہ عورت ، اگر وہ گھر سے کام کرنے نکلی ہے کسی بھی جگہ کام کرتی ہے یا تعلیم حاصل کرتی ہے کوئی  بھی کہیں محفوظ نہیں ۔موبائل  نے وہ تباہی مچائی ہے کہ گھر بھی اب محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں ۔یونیورسٹی  لیول پر لڑکیوں  کے ذہنوں میں یہ سوالات  اٹھتے ہیں اور ٹیچرز سے یہ جوابات مانگتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بیٹے اور بیٹی میں تفریق کیوں ؟؟؟ہمارے بھائی  گلی کے نکڑ پر موجود کافی اور پان شاپ پر آورارہ گردیاں کریں موبائل  اور نیٹ چیٹنگ پر لڑکیوں سے باتیں کریں، دوستی  کریں اور اس سے بھی بڑھ کر  ہم پر پابندی کیوں؟؟؟ ثناء غوری نے کہا کہ معاشرے میں عورت کو عزت اسی صورت مل سکتی ہے جب ہم اپنے بیٹوں کی صحیح تربیت کریں ۔ فیرئیر ہال میں عورت کے حقوق  کے نام پر جو طوفان بدتمیزی کی گئی اس کا سلسلہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ اسکے پیچھے جن لوگوں کے مذموم عزائم ہیں وہ تیزی سے کام کررہےہیں میڈیا پرسن لیکچرار یا ایسے لوگ جو نئی نسل  پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ان سے یہ لوگ تیزی سے رابطے کررہے ہیں۔اور عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ چند  گھنٹے کا شور تھا۔اور بھی  شرکاء نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار  کیا اور  سب کا اس بات پر اتفاق  تھا کہ نئی نسل کو موبائل  اور انٹر نیٹ کے آزادانہ استعمال سے روکا جائےاور خاندانی نظام کواسلامی خطوط پر استوار کیا جائے۔اگر عورت کو اسلام کے راستےسے اسکا حق نہیں دیا جائیگا تو وہ لبرل ازم اورفیمن ازم کے راستے اپنا حق تلاش کرے گی اور یہی ہمارے معاشرے کی تباہی کا سبب ہوگا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں