وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت گرانا مسائل کا حل نہیں، موقع دیا جائے۔ وزیر خزانہ اسد عمر سمیت کوئی بھی چٹکی بجا کر تمام مسائل حل نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی بتدریج اقدامات اٹھارہی ہے، معیشت میں استحکام آنا شروع ہوجائے گا۔ بیوروکریسی ہمارے مینڈیٹ کا احترام کرے۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا ہمارا پختہ عزم ہے اور اس پر ہم آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ہمیں علم ہے کچھ قوتیں پورس کے ہاتھی ہیں جو اس مسئلہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔
وزیر خارجہ کی ان ساری باتوں میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو کسی بھی زاویہ نظر سے غلط ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جن مسائل اور بحرانوں سے گزر رہا ہے اس میں صرف حکومت کو گرانے سے نہ تو مسائل حل ہونگے اور نہ ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ حکومت گرانے کے بعد بھی جو حکومت تشکیل پائے گی وہ جب تک مسائل اور بحرانوں کے حل کی جانب اپنے قدم نہیں بڑھائے گی اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان مشکلات سے باہر نکل سکے۔ یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست لیکن حکومت کو مسائل حل کرنے اور بحرانوں پر قابو میں پانے سے کون روک رہا ہے؟۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن مسائل کا شور جس شدومد کے ساتھ اب ہو رہا ہے اس کا ادراک اقتدار میں آنے سے قبل ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر ادراک ہوتا توبلندوباگ دعوے کئے ہی نہ جاتے اور قوم کو وہ امیدیں دلائی ہی نہ جاتیں جن کے پورا نہ کئے جانے پر بہر کیف پوری قوم ایک صدمے کی سی کیفیت کا شکار ہے۔
یہ بات کہ پی ٹی آئی بتدریج بہتری کی جانب قدم اٹھا رہی ہے، اتنا درست نہیں اس لئے کہ کوئی بھی اٹھایا گیا قدم قوم کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے مایوسیوں کی جانب دھکیل رہا ہے۔ مثلاً قوم کو ملازمتوں کی امیدیں دلائی گئی تھیں وہ بھی ہزاروں ماہانہ کی اوسط سے لیکن بے روزگاری تو ضرور بڑھ گئی ہے لیکن نوکریوں کا افق کے پار تک کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ بے چھتوں کو مکانات دلانے کا وعدہ تھا وہ بھی ہزاروں مکانات ماہانہ کے حساب سے لیکن مکانات کا انہدام تو دیکھنے میں ضرور آیا جبکہ تعمیر کا میلوں تک پتہ ہی نہیں۔ ڈیزل، پٹرول، مٹی کا تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی بجائے ہوشربا اضافہ، ڈالروں کی پرواز، تعلیمی اصلاحات میں نہایت سست روی، اشیائے ضروری کی قیمتوں میں اضافہ جیسے اقدامات کو اگر بہتری کی جانب پیش رفت میں شمار کیا جارہا ہے تو خیر ورنہ قوم ایسے مذاق کی متحمل کہاں ہو سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت کیلئے بیوروکریسی ہو یا بقول فضل الرحمن “منے دے ابا”، کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کرتے رہے ہیں۔ عوام جب ایک فیصلہ کسی کے حق میں دے دیں تو پھر بیورکریٹس ہوں، “منے دے ابا” یا پھر وہ لوگ جو اپوزیشن میں ہوں، ان سب کو عوام کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ یہی خواہش جو آج آپ رکھتے ہیں وہی خواہشات آپ سے پہلی والی حکومتیں بھی رکھتی رہی ہیں۔ ماضی کی کئی حکومتوں میں خود آپ بھی شریک رہے لیکن کیا جس طرح آپ اس وقت سوچ رہے ہیں اوراپوزیشن کرنے والوں سے ملتمس ہیں کہ وہ آپ کو موقع دیں، کیا ماضی میں آپ یا دیگر اپوزیشنوں نے حکومتوں کو سکون کے ساتھ سانس لینے کا موقع دیا؟۔ کیا اس وقت عوامی رائے کے احترام کی ضرورت نہیں تھی؟۔ آپ تو بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کیلئے “منے دے ابا” نہ صرف کوئی رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ جس مضبوطی کے ساتھ خم ٹھونک کر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اگر ماضی میں کسی ایک حکومت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوجاتے تو پاکستان خطے کی ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہوتا۔ اتنی بڑی سپورٹ کے باوجود بھی اگر آپ حکومت اور ریاست کو استحکام دینے میں ناکام ہیں اورمحض بیوروکریسی کا دباؤ ہی آپ کیلئے ہمالیہ بن گیا ہے تو ضروری ہے کہ اپنی ایک ایک کارکردگی اور صلاحیت کا جائزہ لیں کیونکہ کمزوری آپ کی نیت اور صلاحیتوں میں نظر آرہی ہے۔ رہا معاملا اپوزیشن کا تو اپوزیشن کا ہمیشہ سے کام اپوزیشن کرنا ہی ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی جمہوری ملک کی اپوزیشن ہو۔ اس کا وجود ہی اپوزیشن کرنے سے برقرار رہتا ہے اس لئے اسے دل نہ چاہتے ہوئے بھی ہر حکومت کو برداشت کرنا حکومت کی مجبوری ہوا کرتی ہے۔
رہی بات جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا عزم تو جناب اس سلسلے میں آپ کا وعدہ تھا کہ آپ جب بھی اقتدار میں آئے، اپنے اقتدار کے 100 دنوں کے اندر اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنادیں گے۔ دوسرے اور بہت سارے زبانی وعدوں کے بر عکس یہ صرف ایک وعدہ ہی نہیں ایک طرح کا تحریری معاہدہ تھا۔ حکومت قائم ہوئے اب 200 دن گزر چکے ہیں لیکن اس جانب ایک انچ بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ 200 دن گزرجانے کے بعد بھی اگر کوئی حکومت یہ کہے وہ اپنے “عزم” میں مصمم ہیں تو پھر وہ عزم جو “متزلزل” میں شمار ہوتا ہے اس کو کیا نام دیا جائے گا۔ شاید یہ اسی طرح کا عزم ہے جس طرح ڈالر سستا کیا جانا۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی لانا۔ ایک کروڑ ملازمتیں دینا۔ 50 لاکھ گھر تعمیر کرنا۔ لوٹ مار کرنے والوں سے راتوں رات 200 ارب ڈالرز نکلوالینا۔ ڈیم پر ڈیم تعمیر کرنا۔ کوئی این آر او نہ کرنا۔ آئی ایم ایف یا دنیا کے کسی بھی ملک سے قرضے (بھیک) کی مد میں ایک پیسہ بھی نہ لینا اور اگر لینا پڑ ہی جائے تو خودکشی کر لینا۔ وزیراعظم سمیت سارے ایوان ہائے اعلیٰ حکام کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تبدیل کردینا۔ کسی بھی قسم کا پروٹوکول نہ لینا۔ سادہ زندگی گزارنا اور ریاست کو مدینے جیسی ریاست بنانا وغیرہ۔ وعدوں اور دعوؤں کی ایک اتنی لمبی چوڑی فہرست لیکن پیش رفت صفر ہوتو پھر اس بات کا یقین کیسے کرلیا جائے کہ لمبی چوڑی فہرست کے نیچے دبا ہوا جنوبی پنجاب کے صوبے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر بھی ہوجائے گا؟۔
وزیر خارجہ کی اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ “کچھ قوتیں ان کی حکومت کیلئے پورس کے ہاتھی بنی ہوئی ہیں”۔ اپوزیشن کی رائے تو یہ ہے کہ وہ خود پورس کے ہاتھیوں پر سوار ہو کر آئے ہیں۔ ایک بیوروکریسی تو ضرور نظر آتی ہے جو ان کی راہ میں ان اپنی مرضی نہیں چلنے دے رہی لیکن “پورس کےہاتھیوں” والی بات وضاحت طلب ہے۔ بجائے بدگمانیوں کے اگر وہ سیدھے سادے انداز میں کسی وقت “پورس کے ہاتھیوں” کا راز بھی کھول جائیں تو قوم پر بڑا احسان ہوگا۔
ان ساری باتوں کو سننے کے بعد، سنانے کیلئے ایک شعر ہی رہ جاتا ہے تو کیوں نہ اسی کو نذرقارئین کرتا چلوں۔
ترے وعدے پر کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے