اساتذہ اکتساب کو کیسے فروغ دیں

زمانے قدیم میں بچوں سے بڑوں جیسی توقعات وابستہ کی جاتی تھیں حتی کہ بچوں کے سائز کی پوشاک (لباس) کا بھی کوئی رواج نہیں تھا۔ ما ہر تعلیم و نفسیات جان پیاجے نے بیسویں صدی کے نصف میں بڑے وثوق سے بتا یا کہ بچے بڑوں سے مختلف ہوتے ہیں ان کے جذبات سیکھنے کی صلاحیتیں ،دنیا کو دیکھنے کے زاویے اور شعور کے ارتقاء کی نوعیت مکمل طور پر مختلف ہوتی ہے۔انسانی تہذیب کے ارتقاء کے تیرہ ہزار سالوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے بچوں کے شعور کی انفرادیت کی با ت کی اور یہ بات سمجھائی کہ بچہ محض جسم نہیں بلکہ اپنے چھوٹے سے جسم میں وہ اپنے شعور کی انفرادی اور مخصوص قوت رکھتا ہے۔پیاجے نےؓ بتایا کہ بچوں کی دنیا بڑوں سے ممتاز و منفرد ہوتی ہے ۔بچہ بڑوں کی فہم و فراست کے مطابق نہ ہی سوچ سکتا ہے اور نہ ہی سمجھ سکتا ہے ۔بچوں کا اکتساب معلوم سے نا معلوم اور ادنی سے اعلی کی سمت گامزن رہتا ہے۔یہ با ت کسی بھی طور ممکن نہیں کہ بچہ پہلے اعلی درجہ کی معلومات سمجھے اور پھر ادنی درجے کی۔اکتساب، نشوو نما ،ترقی و بہتری کا ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران انسان نہ صرف معلومات ، عادات،مہارتوں اور رویوں کے متعلق حصول علم کو یقینی بناتا ہے بلکہ انسان کی زندگی اور طرز بود و باش میں بھی خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔اکستابی عمل میں سمت کا تعین نہایت اہمیت و توجہ کا طالب ہوتا ہے۔اگر اکتسابی تبدیلیاں مثبت ہوں تو بہتری اور بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے اس کے بر ٖخلاف اگر تبدیلی منفی راستوں پر چل پڑے تو طالب علم کی شخصیت پر اس کے خراب اثرات کو نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔تعلیم و تربیت میں لفظ اکتساب کا ستعمال دو مختلف معنوں میں رائج ہے ایک طریقہ کار(Process) اور دوسرا حا صل کردہ نتائج(Product)۔
زندگی بھر جاری رہنے والے اس اکتسابی عمل کو اس طرح سے مثبت سمت پر گامزن کرنا چاہیئے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات سے حصول علم کو یقینی بنایا جا ئے جس کے ذریعہ ایک بہتر زندگی کو گزارا جا سکے۔اکستاب کا پیچیدہ عمل تمام ادراکی (CognitiveDomain)،جذباتی (Affective Domain) اور حرکی) (Psychomotor Domainدائروں کا احاطہ کر تا ہے۔ رٹا مارنے کو کسی زمانے میں سیکھنے کے عمل میں نما یا ں مقام حا صل تھا۔رٹے او ر مضمون کے حفظ کرنے کو ما ضی قریب میں ایک آلہ تعلیم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔جدید طریقہ تعلیم میں اکستاب میں معاون تعلیمی اشیاء و سامان کے ذریعہ رہبری و رہنمائی کی جا تی ہے اورطلبہ سے توقع کی جا تی ہے جو کچھ علم کی تحصیل انھوں نے انجام دی ہے اس کا عملی مظاہرہ کر یں تاکہ ان کے اکتسابی معیار پر حتمی فیصلہ صادر کیا جاسکے ۔ اس طریقہ کار سے طلبہ کی ذہانت اور ذہنی پرواز میں توسیع وبہتری پیدا ہوتی ہے۔طلبہ میں تعلیم سے رغبت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان کو حصول علم کے مقصد طلب اور ضرورت سے واقف کروایا جا ئے ۔تعلیمی سرگرمیاں طلبہ میں اکتساب سے رغبت پید ا کرنے میں کلیدی کردار انجام دیتی ہیں۔
اکتسابی(سیکھنے کے )عمل میں معلومات،مہارتیں اور رویے ایک دوسرے سے مربوط ہو کر اکتساب کو بامعنی اور زندگی کے لئے فیض مند بناتے ہیں۔ان تین عناصر کے بغیر اکتسابی عمل کی انجام دہی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتی ہے۔معلومات ،مہارتوں اور رویوں کا باہمی ارتباط اکتساب کی کامیابی کا تعین کر تا ہے۔تعلیمی اکتساب کے دوران انجام دی جانے والی سرگرمیوں، تجربات سے طلبہ کی سمجھ بوجھ میں جہاں اضافہ ہوتا ہے وہیں طلبہ حاصل کردہ معلومات کو بر محل استعمال کرنے کے قابل بھی بن جاتے ہیں جس سے اکتسابی سفر مزید دلچسپ اور سہل بن جاتا ہے۔ سیکھنے کا عمل جب اعلی سے اعلی سطح تک پہنچ جاتا ہے تب طلباء کو معاون و مددگار تجاویز کی فراہمی ضروری ہوتی ہے تاکہ طلبہ اپنی اکتسابی ترقی کے بارے میں مناسب رہبری و معلومات حاصل کرسکیں۔طلبہ کے اکتساب میں بعض نا معلوم خرابیاں پائے جانے کی گنجائش ہوتی ہے جس سے ان کو با خبر کرنا اور مناسب اصلاحی طریقوں سے بھی واقف کروانا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے نقائص کو دور کرنے کی سعی و کوشش کریں۔بروقت اور مناسب تجاویز عام فہم اور دلپذیر انداز میں طلبہ کے اکتسابی سفر کو آسان اور با معنی بنا دیتی ہیں۔ اکتساب کے حصول میں تمام تر توانیوں کو صرف کرنے کے لئے طلباء کو اساتذہ اکتساب کے فیوض سے آگاہ کریں کہ کس طرح وہ ان کی آنے والی زندگی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔معلومات کی منتقلی یا ترسیل اکتساب کا اہم جزو ہے ۔کسی بھی طالب علم کی اکتسابی کامیابی کا انحصار مختلف موقعوں پر فراہم کردہ علوم کے بروقت استعمال کی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔تحصیل علم (اکتساب) کے دوران طلبہ کو اپنے علم کے استعمال و اطلاق کے بیشمار مواقع ملتے ہیں جونئے نظریات و اصول کے منبع و پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔اساتذہ کو علم ہونا چاہئے کہ ہر طالب علم کے اکتساب کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔اگر استاد اپنے طریقہ تدریس پر توجہ نہ دیں یا لچک و تبدیلی نہ لائے تب اکتساب کا عمل طلبہ کے لئے دشوار اور صبر آزما بن جا تا ہے۔استاد جس قدراپنے طریقہ تدریس میں لچک اور طلبہ کے ذہنی سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرے گا اکتساب اتنا ہی موثر اور کامیابی سے ہمکنا ر ہوگا۔بعض طلبا اکتسابی سرگرمیوں کی آزادانہ انجام دہی کو نفع بخش اور کارآمد سمجھتے ہیں جب کہ بعض طلبہ اکتسابی سرگرمیوں کو اپنے دیگر ساتھیوں کی شراکت و مدد سے انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔اساتذہ طلبہ کی ضرورت کے مطابق طریقہ تدریس یا اکتساب کا طریقہ کارمنتخب کریں جو طلبہ کے لئے موزوں اور نفع بخش ہو۔اساتذہ تدریس میں بنے بنائے تیار شدہ معلومات کی فراہمی سے مکمل اجتناب کر یں۔اساتذہ اپنی طریقہ تدریس کی اس طرح سے منصوبہ بندی کریں کہ طلباء دوران اکتساب تحقیق،تقابل ،موازنہ،جانچ و جائزہ توسیع و اطلاق اور انطباق کی مشقوں کا سامنا کر سکیں تاکہ اکتسابی عمل سے ان کومسرت و اطمینان حاصل ہو ۔اکتسابی عمل چونکہ ایک انفرادی عمل ہے اور انفرادی اکتساب سے سیکھنے کے عمل کو مزید دلچسپ و پرکیف بنایا جا سکتا ہے۔اسکولوں میں اکتساب یا سیکھنے کا عمل اسی وقت ترقی پذیر اور تعمیر ذات کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے جب اسکول انتظامیہ فراہم کردہ معلومات پر طلباء کو غور و خوص اور تجربہ کی گنجائش فراہم کرے۔اظہار ذات کے مواقعوں کی فراہمی تخلیقی ذہانت کی نشوونما ،زندگی ، میں معاون مہارتوں کا حصول اور اکتسابی عمل سے مسرت و خوشی کا احساس بھی نصابی تبدیلیوں میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اساتذہ برادری اپنے آپ کو مزید موزوں اکتسابی اسلوب و طریقوں سے متصف کریں جس کا راست اثر تعلیم و زندگی پر پڑتا ہے۔ اکتسابی عمل میں معاون طریقہ کار پر ذیل میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خود کاراکتساب(Self-Learning)؛۔ ہر طالب علم کی زندگی میں خودکار اکتساب نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ آئے دن علم و معلومات میں اضافہ ہو تاجا رہا ہے جن کو رسمی تعلیم فراہم نہیں کر سکتی ہے۔ بہتر اساتذہ جا نتے ہیں کہ طلباء میں خودکار اکتساب کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور وہ طلبہ کو خود کاراکتساب کے تجربات سے بہرور کرتے ہیں۔اکثر طلباء میں تعلیمی ترقی ناقص خودکار اکتساب کی وجہ سے مسدود ہوجاتی ہے اسی لئے ہر طالب علم کے لئے خودکار اکتساب کے طریقوں سے واقفیت اور آگہی لازمی تصور کی جاتی ہے۔ صلاحیتوں کے فروغ کے لئے اساتذہ طلبہ میں خود کار اکتساب کو فروغ دینے کی کوشش کریں تاکہ آنے والی زندگی میں طلبہ خود کو محفوظ و مامون پائیں۔منزل کا تعین ا ور مقاصد سے آگہی ،ثمرآور طریقوں پر عمل آوری ،مددگار اشیاء کے استعمال طلبہ کی مشکل حالات سے واقفیت اور رہنمائی ( جس کی طلبہ کو سخت ضرورت ہوتی ہے) کے ذریعہ موثر خودکار اکتساب کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔طلبہ میں خودکار اکتساب ابتدا مشکل اور دشوار ہوتا ہے لیکن اساتذہ کی مدد و تعاون کے ذ ریعہ ان امور پر با آسانی قابو پایا جاسکتاہے۔ منصوبہ پر بہتر عمل آوری کے ذریعے معیار میں بہتری پیدا کی جاسکتی ہے جس سے طلبہ زندگی بھر آزاد اور پرجوش اکتساب کے عادی ہوجاتے ہیں۔خود کار اکتساب کو مناسب اور بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے ذیل میں چند تجاویز تحریر کی گئی ہیں۔
(1)خود کار اکتساب کے لئے علم،فہم و ادراک اور مہارتوں کو سیکھنے کی فطری خواہش و تحریک کی حوصلہ افزائی کے علاوہ مو ثر تدریسی حکمت عملی ضروری خیال کی جاتی ہے۔
(2) درکار اور حاصل کردہ علوم کی بامعنی تنظیم و تربیت کے فن سے طلبہ کو متصف کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ معنویت پیدا کر سکیں۔
(3) اساتذہ طلبہ میں خودکار اکتساب کے فروغ کے لئے اپنے آپ سے سوال کرنے اور ازخود جواب دینے کی عادت کو فروغ دیں۔دلچسپ اور فکر کو مہمیز کرنے والے سوالات معلومات کے اعادہ اور فکر کو تیز کرنے کا باعث ہوتے ہیں اس لئے اساتذہ، طلبہ کو سوال کرنے کے فن سے متصف کریں۔
(4) تفویض کردہ گھر کا کام بھی طلبہ میں خود کار اکتساب کو فروغ دینے ،معلومات میں اضافہ اور مہارتوں کے فروغ میں مددگار ہوتا ہے۔گھر کاکام بچوں کی تخلیقیت ،اکتسابی تجربات میں اضافے اور شخصیت کی تعمیر میں معاون کردار انجام دیتا ہے اسی لئے اساتذہ گھر کا کام تفویض کرتے وقت بہت سنجیدگی سے کام لیں۔
(5) سوالات کے جوابات یا اسباق کے حقائق کو حفظ کرنے یا رٹہ مارنے کے دباؤ سے بچوں کو نجات دلانے کے لئے اساتذہ بچوں میں مضمون کی سمجھ بوجھ افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے ساتھ بچوں کے فہم کی جا نچ کے لئے مظاہروں کا اہتمام بھی کریں۔
(6)طلبہ اپنی قابلیت اور معلومات کی جانچ کے لئے مخصوص معیاری ٹسٹوں کے ذریعہ ازخود اپنی جانچ کریں۔خودکار جانچ کے ذریعہ طلبا اپنی ترقی پر نظر رکھنے کے علاوہ بہتر کارکردگی کے متحمل ہوجاتے ہیں۔
(7)معاون تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعہ خود کار اکتساب کو دلچسپ بنایا جا سکتا ہے اور اس طرح کی سرگرمیاں حصول علم میں نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
(8)خودکار اکتساب کے دوران جب کبھی طلبہ مسائل کا شکار ہوجائیں تو وہ اپنے اساتذہ والدین اور دیگر رہنماؤں کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے مدد کے حصول کو ممکن بنائیں۔
معاون(اشتراکی) اکتساب(Co-operative Learning) ؛۔ مثبت اکتسابی عمل میں بچوں کے درمیان کسی مقابلہ بازی کا عنصر نا پید ہوتا ہے۔ اشتراک کا بنیادی وصف صرف بچوں میں اکتساب کو فروغ دینا ہوتا ہے۔مشترکہ اکتساب میں بچے آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے نئے معلومات سیکھتے ہیں۔ اکتسابی تجربات کو شیئر کرتے ہوئے طلبہ بہتر اکتسابی طریقے سیکھتے ہیں۔مل جل کر کام کرنے سے بچے میں صبر و تحمل ، نقدو تنقید ،دوسروں کی آرا اور رویوں کا احترام ،اپنی رائے کو مدلل انداز میں پیش کرنا اور منوانا اور خو د اپنی اہمیت سے واقف ہونا جیسے سماجی رویوں کا علم فروغ پاتا ہے۔اساتذہ بچوں کے چھوٹے گروہ ترتیب دیں تا کہ طلبہ مشترکہ اکتساب کے فوائد سے فیض یاب ہو سکیں۔ذیل میں معاون اکتساب کے لئے گروہ ترتیب دینے اور منظممعاون اکتساب کے فروغ میں مددگار تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
(1)اساتذہ مناسب وسائل و اشیاء اور سرگرمیوں کی فراہمی کے ذریعہ کمرۂ جماعت میں طلبہ کے گروہ ترتیب دیں اور اکتساب میں معاون ہدایات بھی فراہم کریں۔
(2)طلبہ کی شرکت ،گروہ کی سرگرمی اوراجتماعی اکتساب کے دوران واقع ہونے والی مشکلات اور اکتسابی ترقی کا جائزہ لیتے رہیں۔گروہی ترتیب کو وقتا فوقتا تبدیل کر تے رہیں تاکہ طلبہ دیگر گروہ کے بچوں سے بہتر اکتساب کو ممکن بنائیں۔
(3) مخصوص عنوان یا معلومات ایک گروہ کے طلبہ کو دوسرے گروہ کے سامنے استدلا ل کے ساتھ پیش کرنے اور سمجھانے کی ترغیب دیں ۔طلبہ دیگر طلبہ کی جانب سے پیش کردہ خلاصہ مضمون یا عنوان کو بہتر طو ر پر سمجھ سکتے ہیں جس کی وجہ سے موثر اکتساب کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
(4)طلبہ پر مسلسل گروہی اکتسابی سرگرمیوں کے دوران نظر رکھیں کہ وہ دیگر طلبہ سے دانشمندانہ سوالات پوچھتے ہوئے سرگرم حصہ لیں اور خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے مقصد سے سوال وجواب کریں۔دیگر طلبہ کے جوابات کی جانچ کے ذریعے طلبہ اپنی جانچ کی صلاحیت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
(5) طلبہ کو کسی عنوان یا پراجکٹ کی پیش کشی اور مظاہر ے پیش کرنے کے مواقع فراہم کریں جو کہ آپسی اکتسابی کے جذبو ں کے فروغ میں نہایت معاون ہوتے ہیں۔
(6) اگر کسی طالب علم میں کوئی شخصی مسائل پائے جاتے ہیں تو ان کو اس گروپ سے علیحدہ کرتے ہوئے ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوسرے گروہ میں شامل کردیں تا کہ اکتسا ب میں کسی بھی قسم کی دقت اور دشواری نہ پیدا ہو۔
غور و فکر کے ذریعہ اکتساب(Reflective Learning)؛۔اکتساب کی راست ذمہ داری بچے پر ہوتی ہے اس لئے اس عمل کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لئے لازمی ہے کہ بچہ پہلے سے حا صل کر دہ معلومات(علم) اور تجربات پر غور و خوص کرے۔غور و فکر سے حاصل کردہ اکتساب کے ذریعہ طلبا سیکھنے میں خود مختار ہوجاتے ہیں بلکہ کام کو ادنی سے اعلی درجے تک پہنچانے کی قابلیت بھی اپنے آپ میں پیدا کرلیتے ہیں۔استا د انفرادی اور اجتماعی اکتسابی سرگرمیوں کے دوران غور و فکر کی عادت کو طلباء میں فروغ دیں اور حوصلہ افزائی کریں۔طلباء کے لئے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد عمل لائیں جس میں شامل ہو کر وہ اپنی ناقدانہ آرا ء پیش کر سکیں۔
مہارتوں کا اکتساب(Skill Learning)؛۔ طلبہ میں سیکھنے (اکتساب) کے بہترین نتائج زندگی میں معاون مہارتوں کے حصول سے مربوط ہوتے ہیں۔اگر طلبہ اپنی اکتسابی سرگرمیوں سے اہم زندگی کی مہارتوں کو حاصل کر لیتے ہیں تب ان کی زندگی بہت ہی بہترین اور کارآمد ثابت ہوتی ہے کیونکہ زندگی گزارنے کے ہنر و مہارتوں کی وجہ سے ہی زندگی کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر ولیم گلیسر کے بموجب ایسا نصاب بے وقعت کہلاتا ہے جو طلبہ میں زندگی کے لئے معاون مہارتوں کو فروغ دینے میں ناکام ہوجاتا ہے۔زندگی کے لئے مددگار مہارتوں کوسیکھانے اور ان کو فروغ دینے والا نصاب ہی مکمل اور جا مع تصور کیا جاتا ہے۔مہارتوں کو زیادہ سے زیادہ سیکھنے سے بچوں میں نکھار اور خوبی پیدا ہوتی ہے اس لئے تعلیمی نصاب میں مہارتوں کو مناسب جگہ دینا ضروری ہوتا ہے۔مہارتوں کے اکتساب کے ذریعہ طلبہ زندگی کے دشوار اور مشکل حالات کا با آسانی مقابلہ کرنے کے قابلبنتیہیں۔اساتذہ طلبہ میں مہارتوں کے فروغ اور انجام دہی کے لئے وافر مواقع فراہم کرنے کی کوشش کریں۔مہارتوں کوسکھانے کے دوران اساتذہ درجہ ذیل امور کا خیال رکھیں۔
(1)مہارتوں کی شناخت و اہمیت سے اساتذہ طلبہ کو واقف کروائیں تاکہ طلبا مہارتوں کے سیکھنے میں جوش و خروش سے کام لے سکیں۔
(2) اساتذہ خاص خیال رکھیں کہ مہارتوں کے سیکھنے کے لئے ذہنی اور جسمانی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔
(3) اساتذہ مہارتوں کے استعمال اور فروغ دینے والے حالات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
(4)اساتذہ مہارتوں کی عمل آوری پر طلبہ کو نتائج سے با خبر کریں اور مہارتوں پر عبور حا صل کرنے میں ان کی مدد کریں۔
معنوی اکتساب(Meaningful Learning)؛۔اکتسابی عمل محض معلومات کو ذخیرہ کرنے کا نام نہیں ہے۔نصابی کتب کی فراہم کردہ گونگی، بہری اور بے جان معلومات میں اس وقت زندگی پیدا ہوتی ہے جب طلباء اپنی سابقہ معلومات،تجربات اور دیگر حوالوں سے حا صل کردہ علوم کو بروئے کار لاتے ہوئے اختراعی کام انجام د یں اور اس کو معنویت کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔روایتی تدریس میں بچے کے دماغ کو معلومات ٹھونسنے کا ایک ڈبہ سمجھا جاتا تھا اور امتحانات میں بغیر سمجھے صرف رٹہ یا یاداشت کے سہارے کامیاب ہونے پر سند سے نوازا جاتا تھا۔ ایسا اکتساب زندگی کے لئے بے فیض اور سم قاتل ثابت ہوا ہے۔ جب کہ معلومات کو سمجھنا درحقیقت اکتساب کی پہلی سیڑھی ہے۔اساتذہ اپنے درس میں معنویت کا رنگ بھرنے کے لئے طلبہ میں سوجھ بوجھ کو فروغ دینا خود پر لازم کرلیں ۔سوجھ بوجھ کو فروغ نہ دینے والا اکتساب بچوں کی زندگی میں کسی کام نہیں آتا ہے جس کی بنا ء پر طلبہ اکتساب اور تحصیل علم کو ایک لایعنی اور بے فیض عمل گردانتے ہیں۔اکتساب میں معنویت طلباء میں تجسس کو جا گزیں کرتے ہوئے پیدا کی جاسکتی ہے ۔تجسس کی تسکین کے لیئے طلبہ میں تحقیق کے جذبے کو فروغ دینا ضروری ہوتا ہے۔جانوروں کی زندگی معنویت کی عدم موجودگی کی بنا ء پر جامد اور ساکت ہے جب کہ انسان اپنے تخیل اور تجسس کی بنیاد وں پر فطرت اور ماحول کے تعامل سے زندگی میں نئے معنی تلاش کرتا ہے۔اساتذہ بچوں میں تخیل ،تخلیق اور تجسس کے ذریعہ اکتساب کو پر معنی بنائیں۔اکستاب کو معنی خیز بنانے کا عمل سوال کرنے سے شروع ہوتا ہے ۔اساتذہ بچوں میں نفس مضمون سے متعلق سوال کرنے کی عادت کو فروغ دیں تاکہ اکتساب بامعنی اور موثربن سکے۔ ابتدائے افرینش سے دنیا بھر میں تعلیم کی اہمیت و افادیت مسلمہ رہی ہے۔درس و تدریس کے طریقوں اور ان کی افادیت پر آج جتنی تحقیق ہورہی ہے اس کی نظیر ہم کو ماضی میں کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔بحیثیت استاد یا والدین بچوں کی ذہنی سطح اور رجحان سے آ گہی لازمی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بچوں میں ذہانت پیدائشی ،موروثی یا طبعی طور پر نہیں پائی جاتی ہے۔ہر بچہ ذہین ہوتا ہے یہ اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ؂ذہانت کو اجاگر کرتے ہوئے پروان چڑھائیں۔بچوں میں علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ عقل و دانش کو بھی پیدا کریں۔ہا ں یقیناًیہ ایک چیلنج ہے اساتذہ اور والدین کو بچوں کی فلاح و بہبود اور بہتر اکتساب کے لئے اس چیلنج کو قبول کرنا ہوگا۔
حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں