تم کھلونے ہو میرے غلاموں کے

غروب آفتاب کے وقت عجیب وحشت زدہ ماحول تھا،دنیا کے مہنگے ترین ماڈل کی مہنگی ترین گاڑیاں دھول اُڑاتی ہوئی مغرب کی طر ف جارہی تھیں۔مغرب کی سمت کی وجہ سے مجھے ایسا لگا جیسے اِن کے سواروں کو بھی سورج کی طرح ڈوبنے کی جلدی ہو۔فطرت انسانی میں’’تجسس‘‘ کی بناء پر میں بھی اِن کے پیچھے چل پڑا۔اِن کاروں کا قافلہ سمتِ مغرب میں ایک بہت بڑے محل نما عمارت کے سامنے جا کر رک گیا ،سوار اپنی کاروں سے باہر نکلناشروع ہوئے تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ سب بڑے بڑے سیاستدان ،مذہبی رہنما ،شاہی افسران ،صنعت کار،میڈیامالکان الغرض یہ سب لوگ وہ تھے جو وقت کے فرعون مانے جاتے تھے ،کچھ علمیت کے فرعون تو کچھ دولت و طاقت کے فرعون تھے۔یہ سب لوگ عمارت کے بہت بڑے دروازے کے باہر بڑے موؤب انداز میں کھڑے ہوگئے ،عمارت کا چوکیداربہت ہی عجیب او رمکروہ چہرے والا انسان نمامخلوق ٹائپ لگ رہا تھا ،اس کو دیکھ کر پتہ نہیں کیوں دل میں خوف اور نفرت جیسے جذبات پیدا ہو رہے تھے ۔اسی اثناء میں دروازے کے اوپر ایک اسکرین روشن ہوگئی ،جس پر داخلہ کی شرط الفاظ کی صورت میں روشن ہوگئی ،اندھیرا چھا چکا تھا ۔بڑی ہی عجیب شرط تھی ،حصول ٹکٹ کی ۔احساس ،ضمیر ،قو میت ،مذہبی محبت اور عزت نفس کو چوکیدار کے پاس جمع کروا کر اندرآئیں۔سب لوگوں نے اپنی جیبوں سے لفافے نکال کر چوکیدار کو جمع کروا کرباری باری ٹکٹ لے کر داخلہ کے بہت ہی چھوٹے دروازے سے اندر جانا شروع کردیا،دروازہ اتنا چھوٹا تھا کہ اِس میں بہت جھک کر گزرا جا سکتا تھا ،سب جھک جھک کر اندر داخل ہوگئے،اِ س منظر نے مجھے خوفزدہ سا کردیا لیکن پھر بھی میں چھپ کر دیکھتا رہا ،کوئی ایک گھنٹہ کے بعد سب لوگ باہرآئے لیکن اُلٹے پاؤں نکل رہے تھے ،جیسے کسی کو تعظیم دے رہے ہوں ۔باہر آکر سب گلے مل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے ،ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی عید ملن پارٹی چل رہی ہوں لیکن مجھے حیرت اِس بات پر تھی کہ سماج میں یہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں ۔یہ دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ اِن کا کونسا روپ سچ ہے ؟سب کے جاتے ہی داخلہ کا دروازہ بند ہوگیا لیکن مین گیٹ ابھی تک کھلا ہوا تھا ،شرط داخلہ بھی بجھ گئی اور چوکیدار بھی جا چکا تھا۔اچانک میرا تجسس میرے خوف پر حاوی ہو کر مجھے عمار ت کی طرف لے گیا ،میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اند ر’’کون‘‘ ہے۔اندر ایک بہت بڑے ہال میں بہت ہی سوگوار ساماحول تھا،سامنے اسٹیج پر ایک بہت بڑا سونے کا بنا ہوا تخت جس پر اَن گنت جواہرات جڑے ہوئے تھے،جن پرنظر نہیں ٹک رہی تھی،اُس تخت پر کوئی بہت ہی سیاہ رنگ کی کوئی مخلوق براجمان تھی،جس کے خدوخال بھی واضح نہیں ہو رہے تھے کیونکہ جواہرات کی روشنی نظر ہی نہیں ٹکنے دے رہی تھی۔ہال میں مردہ گھرجیسی بدبوہرطرف پھیلی ہوئی تھی،اچانک ایک کڑک دار آواز سنائی دی ، مجھ سے پوچھا گیا ’’کیسے آئے ہو میرے غلاموں کے کھلونے‘‘ میں نے جواب دیا میں کسی کا کھلونا نہیں ہوں،میرے اِس جواب پر مجھے ایک بلند غصہ دلانے والا قہقہ سنائی دیا ،تم کھلونے ہو،میں یہ ثابت کردوں گا ۔میں کچھ پوچھنے آیاہوں ،جواب ملا،پوچھو،یہ سب لوگ جو وقت کے فرعون سمجھے جاتے ہیں،تمہارے پاس کیا لینے آئے تھے ۔جواب ملا، یہ سب مجھ سے میری غلامی کا طوق اپنے ضمیر ،احساس اور عزت نفس کے عوض لینے آئے تھے ،جو میں نے اِن کو عطا کردیا ہے۔یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی ،کوئی انسان اپنی عزت نفس ،احساس اور ضمیر کو کیسے بیچ سکتا ہے ۔جواب ملا، میری خاطر بیچ دیتے ہیں کیونکہ میری غلامی کا طوق دنیاوی عزت ،حکومت اور طاقت کی ضمانت ہے ۔بات میری سمجھ سے بالا تر تھی لہذا میں نے پوچھا کہ یہ چوکیدار اِتنا مکروہ کیوں رکھا ہوا ہے اور تم بھی بہت ہی سیاہ ہو،یہ سب کیا ہے اور چوکیدار سے ٹکٹ لینے کیلئے لفافوں میں کیا قیمت تھی۔جواب ملا،چوکیدار کا نام تم جانتے ہو،سب جانتے ہیں یہ شیطان ہے لفافوں میں سب نے حلف نامہ جمع کروا دیا ہے کہ وہ مجھ سے غداری نہیں کریں گے ،اپنا احساس ،ضمیر وہ سب کچھ مجھے بیچ کر مجھ سے غلامی کا طوق لے کر گئے ہیں۔اچھا یہ بتاؤکہ کیا کوئی عام اِنسا ن بھی تم سے غلامی کا طوق لے سکتا ہے۔جواب ملا،اگر میں عام لوگوں کو غلامی کا طوق دینے لگوں تو میرے غلام کن کو عینکیں بیچیں گے اور کن پر حکومت کریں گے ،کن سے کھیلیں گے اور عام انسان کے ضمیر کی قیمت ہی کیا۔سوال یہ ہے کہ عینکوں سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔۔جواب۔میرے مذہبی طبقہ سے تعلق رکھنے والے غلا م اپنے مقاصد کے حصول کی خاطرمذہب کی تشریح کچھ اس انداز سے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں کہ تم مذہب کو اُن کے نکت�ۂ ونظر سے دیکھتے رہتے ہو،خود کبھی اپنی الہامی کتاب کے علم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ،و ہ تم لوگوں کو لڑواتے ہیں ،لہذا تم اُن کے کھلونے ہی ہوئے ،سب سے زیادہ کھلواڑ بھی تم سے مذہب کے نام پر کی جاتی ہے کیونکہ تم لوگ خود اپنے مذہب کی سچائی کو صر ف مذہبی مسیحاؤں کی نظر سے دیکھتے ہو۔پھر باری آتی ہے ،میرے حکومتی غلاموں کو کھیلنے کی وہ تم کو بنیادی ضرورتوں کے حصول ’’روٹی،کپڑااو رمکان‘‘ کی عینک لگوا کر حیوانات کی صف میں شامل کردیتے ہیں اور تمہارے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ تم صرف ’’روٹی ،کپڑا او رمکان‘‘ کیلئے پیدا ہوئے ہواو رتمہارے اندر سے اشرف المخلوقات ہونے کا تصور ہی ختم کردیا جاتا ہے ۔تم کو مکمل محروم رکھا جاتا ہے کیونکہ محرومی عقل کو ختم کرتی ہے اور صرف جسمانی ضرورتوں کے حصول تک محدود کردیتی ہے۔پھر وقتِ انتخاب آتا ہے اور تم لوگ چند سکوں ،کھانے،کپڑوں کے عوض خود پر میرے غلاموں کو مسلط کرتے ہو تاکہ وہ تم سے کھیل سکیں ۔اس کے بعد ریاستی ادارہ جات میں میرے شاہی افسران کے کھیلنے کی باری آجاتی ہے جو تم لوگوں کے شعور سے تعلیمی نظام کے ذریعہ کھیلتے ہیں ،تم لوگوں کا تعلیمی نصاب ایسے لوگ تیار کرتے ہیں جو گالف کھیلتے ہیں،شطرنج کھیلتے ہیں ،جن کے بچے یورپ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ،جن کو مذہب اور خدا کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ،جن کو مذہبی و معاشرتی اقتدار کا پتہ ہی نہیں ہوتا جن کو سماجی افراد کے ذہنی معیار کا پتہ ہی نہیں ہوتا، جن کو گرمی و سردی کا پتہ ہوتا،جن کو بھوک کا پتہ نہیں ہوتا ،جو ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر دھوپ میں جلنے والے بچوں کیلئے نصاب تیارکرتے ہیں ،پھر وہ نصاب تم لوگوں کے ذہنو ں میں نصب کردیا جاتا ہے ،اس کے بعد تم لوگوں کے ذہنو ں سے کھیلنے اور احساس کمتری میں مبتلا کرنے کیلئے مواصلاتی اداروں(میڈیا)کے غلاموں کے کھیلنے کی باری آتی ہے جو تم کو کبھی اصل بات کا پتہ ہی نہیں چلنے دیتے ، روزانہ تم لوگوں کی سوچ تعمیر کرتے ہیں ،اپنے انداز سے تم لوگوں کو ذہنی اندھا بنادیاجاتاہے۔اس کے بعد میرے کاروباری افراد کے کھیلنے کی باری آتی ہے ،جو تم کو ٹیکنالوجی کے ذریعہ ذہنی آوارگی او رعیاشی پرلگا دیتے ہیں او راپنی مصنوعات کے ذریعہ جسمانی آوارگی پرمائل کرتے ہیں ،عورتوں کوبیوٹی انڈسٹری میں دھکیل دیتے ہیں ،وہ بناؤ سنگھار کے چکر میں ہی الجھی رہتی ہیں۔
یہ سب سن کر میرے دل و دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں کیونکہ ہربات سچ تھی ،یہ سب میری برداشت سے باہر ہوتا جارہا تھا ،میرے آخری سوال پر اُس کو شدید غصہ آگیا ،میں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟
جواب۔شدید غضبناک آواز میں بولا کیاتم نہیں سمجھے ،ایک بچہ بھی سمجھ جاتاہے کہ میں کون ہوں کیونکہ بچے کو بھی میری بہت پہچان ہوتی ہے۔
میرا نام دولت ہے !میں خدا نہیں ہوں لیکن میرے غلام خدا سے زیادہ میری پوجا کرتے ہیں ۔
میرا نام دولت ہے !دنیا میں تقریباً6500زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن میری زبان کو سب سمجھتے ہیں۔
میرا نام دولت ہے !دنیامیں تقریباً 4200مذہب ہیں لیکن سب سے زیادہ میری پوجاکی جاتی ہے۔
میرا نام دولت ہے!میرے غلام دنیامیں حکومت کرتے ہیں اور میرے غلاموں کو کوئی قید نہیں کر سکتا،دنیا میں کوئی جیل ایسی نہیں جو میرے غلاموں کو قید رکھ سکے۔
میرا نام دولت ہے !میں دنیاوی قانون ہوں،دنیاوی سزا ہوں، دنیاوی جزاء ہوں۔
میرا نام دولت ہے!میں سب رشتوں سے افضل ہوں،میں اپنے غلاموں کے سب عیب چھپالیتی ہوں۔
میرا نام دولت ہے!مجھے حلال کمانے والے آخرت میں بھی حصہ دار ہوں گے او رمجھے حرام انداز سے حاصل کرنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ،حرام صورت میں میں جہنم کی آگ ہوں ،مجھے جہنمی لوگوں کی پیشانی پر مجھے داغا جائے گا۔
میرا نام دولت ہے!میں فرعون اور شداد جیسے لوگوں کو جنم دیتی ہوں ،میرا حرام استعمال دلوں کو سیاہ کرتاہے ،دلوں سے عاجزی ختم کرتا ہے ، خدا سے دور کرتا ہے ،جہنم سے نزدیک کرتا ہے۔
کاش انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے ،وہ میری غلامی سے توبہ کرے ،کاغذ کی غلامی چھوڑ کر اپنے رب کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے مجھے حلال انداز سے حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اپنے رب اور جنت کے قریب ہو سکے۔اس کے بعد اُس کی سسکیاں شروع ہوگئیں اور میری آنکھ کھل گئی ،میرے دل کی دھڑکن بہت تیزتھی اور پیاس سے زبان اکڑی ہوئی ،میں سوچ رہا تھا کہ یہ خواب ہے کہ حقیقت؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں