(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر۳
مدینہ منورہ کی یاد دل میں بسائے ہم مکہ پہنچ چکے تھے، حرم سے دور عزیزیہ کی ایک اقامت گاہ ہمارا مسکن تھی، ہم نے کمرے میں سامان رکھا، وضو کیا، تو باہر گاڑی ہمارے انتظار میں کھڑی تھی، جس نے ہمیں صحنِ مسجد سے باہر کی زیر زمین پارکنگ میں اتار دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ عشاء کے بعد یہیں سے ہمیں واپس لیا جائے گا، ہم احرام میں تھے، عصر کی نماز ادا کر کے عمرہ شروع کیا، اور مغرب عشاء کے دوران مکمل کر لیا، اور اب لگے انتظار کرنے، یہ ۶ ذی الحج تھا، اگلے روز منی جانے کی تیاری بھی کرنی تھی، لیکن بہت دیر انتظار کے بعد بھی گاڑی نہ آئی، آخر مرد حضرات نے ہماری اور شاید اپنی بھی حالت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ویگن کو روکا، ہم اس میں بیٹھے تو تھکاوٹ کا اندازہ ہوا، اس روز تک تقریباً تمام حجاج مکہ پہنچ چکے تھے اور خوب رش تھا، ٹریفک بھی اور پیدل لوگ بھی، ہم سے کچھ آگے گاڑی نے ایک حاجی کو ٹکر ماری اور رکے بغیر آگے نکل گئی، اب وہ شخص زمین پر پڑا چیخ چلا رہا تھا، اس نے احرام پہن رکھا تھا، گاڑی اس کی ٹانگوں کے اوپر سے گزر گئی تھی، اور اب سفید احرام پر سرخی پھیلتی جا رہی تھی، کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے کنارے کیا، اور پولیس پہنچ گئی، اس حاجی کے لئے دل سے دعائیں نکلیں جو منی جانے سے ذرا پہلے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، اور پھر وہ حجۃ الوداع کے سفر کا حاجی بھی یاد آگیا، جسے اس کی اپنی سواری کے جانور نے کچل دیا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے غسل دو اور اسی احرام میں کفن دے دو، اس کا سر ننگا رکھو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ، یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ ویگن عزیزیہ کی جانب بڑھی تو سڑک پر معمول کی ٹریفک تھی، اور ڈرائیور نے ایک جانب اتار دیا کہ عزیزیہ آگیا ہے، آپ چلے جائیں، سعودی ڈرائیور کے ایسے رویے پر سب کو اترتے ہی بنی، اور اب عزیزیہ کی شاہرائیں تھیں اور تھکا ہارا قافلہ تھا، گوگل میپ کا زمانہ تھا نہ ہی موبائل فونز کی بہتات تھی، ایک حاجی صاحب کے پاس یہ سہولت میسر تھی، اور انہیں کی عرق ریزی سے ہم اقامت گاہ تک پہنچے۔
اگلی صبح مردوں نے قریبی مسجد میں نماز پڑھی، اور ہم نے دن چڑھے ناشتا کیا، میاں صاحب قریب کے کسی ہوٹل سے عربی ناشتا لائے تھے، جس میں حمص بھی تھا اور فول بھی، پنیر اور مکھن بھی۔
آج رات منی کی جانب روانہ ہونا تھا، اس لئے ایک رونق اور مصروفیت تھی، کوئی کپڑے استری کر رہا ہے، اور کوئی نہانے دھونے میں مصروف، کسی کا مختصر بیگ تیار ہو رہا ہے، اور لوازماتِ زادِ راہ کا دقیق جائزہ لے رہا ہے، ایک کسک تھی دل میں کہ آج حرم نہیں جا سکے، لیکن رات کی بھول بھلیوں کا سوچ کر دل کو تسلی دے رہے تھے، کچھ لوگ حج سے پہلے آخری آرام کر رہے تھے تاکہ جسم مشقت کے لئے تیار ہو جائے،جوں جوں وقت گزر رہا تھا، واش رومز کی جانب بھیڑ بڑھ رہی تھی۔ مغرب تک سب تیار ہو چکے تھے، عشاء کے بعد بس آنی تھی، مرد احرام پہن چکے تھے، ایسے لگ رہا تھا اندر باہر نور کے ’’پرے‘‘ گردش کر رہے ہوں، بس میں بیٹھتے ہی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونجنے لگیں، اللہ جی ہم اپنی زندگی کے سب سے پیارے سفر کی جانب نکل رہے ہیں، ہم نے تیری پکار پر لبیک کہا ہے، تلبیہ کے ایک ایک لفظ کو ہمارے دل کی آواز بنا دے، اے اللہ تو ہمارا ساتھی ہو جا، یہ سفر سارے کا سارا نیکی اور تقوی کا سفر ہو، اس کا لمحہ لمحہ تیری رضا میں بسر ہو، ہماری کمزور عبادتیں، ٹوٹے پھوٹے الفاظ، سب قبول فرما لے، اے اللہ ہمارے حج کو حجِ مبرور بنا دے، ہماری سعی و جہد کو قبولیت کا شرف عطا فرما دے، ہمارے گزشتہ تمام گناہوں، قصوروں اور لغزشوں کو معاف فرما دے، اے اللہ تو ہمیں پاک کر دے۔۔ آمین ثم آمین
بس نے ابھی حرکت بھی نہ کی تھی کہ باہر کھٹ پٹ سنائی دی، پاکستان ہاؤس سے فون آیا تھا کہ اس گروپ کی ایک خاتون گزشتہ رات سے غائب ہے اور وہ پاکستان ہاؤس میں ہے، آکر لے جائیں۔ ابھی یہی سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کون ہے کہ پاکستان ہاؤس کا اہلکار خاتون کو لیکر آ پہنچا، اوہ ۔۔ یہ تو ماسی پٹھانی ہیں۔ انکی دیورانی نے بتایا کہ وہ گزشتہ رات عمرے کے بعد ہی ان سے بچھڑ گئیں تھیں، اکرم بھٹی صاحب اپنی بھابھی کو وصول کرنے اترے، ماسی کھڑکی کے سامنے آئیں اور مسز بھٹی سے پورے جلال سے پوچھا: ’’میرا سامان کتھے اے‘‘، اور یہ سن کر کہ وہ تو ان کے کمرے میں ہی ہے، انکا غصّہ دو چند ہو گیا، ان دونوں نے نہ تو انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی نہ ہی ان کا سامان ہی ہمراہ رکھا۔اب وہ دونوں اندر گئیں اور کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر آئیں، تو پھر بس چلی،اس سہو یا لغزش کا تدارک اکرم بھٹی صاحب نے اس طرح کیا کہ باقی کا سفر حج دونوں خواتین نے ہاتھ تھام کر بلکہ کئی مقامات پردوپٹے باندھ کر کیا، تاکہ وہ سدا اکٹھی رہیں، اسی تلخی کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حج ماسی پٹھانی پر فرض تھا، وہ بیوہ ہو چکی تھیں اور محرم کی غیر موجودگی میں اپنے دیور دیورانی کو حج خرچ دے کر ساتھ لائی تھیں۔
ہماری بس عزیزیہ سے منی کی جانب رواں دواں تھی، رش سے بچنے کے لئے رات کو سفر کیا تھا، ورنہ ہمیں کل منی پہنچنا تھا، سڑک سے ہٹ کر کہیں کہیں سعودی نوجوانوں کی ٹولیاں دف بجا تی اور علاقائی رقص کرتی بھی دکھائی دیں، جو ہمارے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔
۵۵ نمبر کیمپ کے قریب بس نے اتار دیا، اب ہم خیمے میں تھے، چودہ مرد اور چودہ خواتین، اگلے حصے کی جانب خواتین چلی گئیں اور باہر کی جانب مرد۔ پھر کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہوا کہ درمیان میں رسی باندھ کر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ لٹکا لیا جائے، رات اسی طرح گزری، صبح پردہ ہٹا کر با جماعت نماز ادا کی گئی، جس میں مرد اگلی صفوں، یعنی خواتین کی سائیڈ پر آ گئے اور خواتین پچھلی جانب! اسی کیمپ میں ہمیں حج کا تحفہ ملا جس میں خادمِ حرمین شریفین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی چیزیں جو انتہائی ضروری تھیں فراہم کی گئی تھیں، جن میں بے بو صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، کنگھی، سرجیکل ماسک وغیرہ۔
ظہر کے قریب ایک جوڑا کیمپ تلاش کرتا ہوا پہنچا، صفیں باندھے دیکھ کر انہوں نے سب سے پہلے با جماعت نماز پر اعتراض کیا، مرد صاحب تو باہر چلے گئے، خاتون یہ کہہ کر کنارے بیٹھ گئیں، ’’ان امام کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی‘‘۔نماز مکمل ہونے کے بعد وہ صاحب بھی آگئے اور لگے کیمپ کی پردہ چادر کو غلط ثابت کرنے، انکے مطابق محرم کے ساتھ حج کرنے کی روح ہی یہ ہے کہ ہر شحص اپنی محرم کے ساتھ ایک چادر لگا کر بیٹھے اور وہ دونوں اکٹھے عبادت کریں، اس طرح اس کیمپ میں چودہ چادریں لگائی جائیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش رائیگاں ثابت ہوئی، ایک صاحب بولے: آپ ہمیں چھوڑیں، اپنی چادر لگائیں اور بیٹھ جائیں، دوسرے نے زیرِ لب تبصرہ کیا: ’’فیر دم وی آپے ای دینا‘‘۔بہر حال وہ صاحب کیمپ اور حج اور خادم حرمین کی شان میں بہت کچھ کہہ کر واک آوٹ کر گئے، انکی بیگم کو ایک دن حرم میں دیکھا تو وہ حرم کے امام کے پیچھے بھی نماز کے لئے نہ اٹھیں۔ محض فقہی مسلک کی بنا پر ہر روز دن میں پانچ مرتبہ ایک لاکھ نمازوں کے اجر سے محرومی!!
منی کے کیمپ کی اپنی ہی شان ہے، کھمبیوں کی مانند اگے ہوئے کیمپ، یہ اللہ کی فوج ہے، یہ اس کی پکار پر خوشی اور شوق سے دور دراز کا سفر کر کے آنے والے پروانوں کا لشکر ہے، جو اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے نہیں تھکتے، گزشتہ گناہوں کا بوجھ انہیں بار بار لرزا دیتا ہے، زبان استغفار کے کلمات سے تر ہے، اور اس غفور ورحیم سے مغفرت کی آس بھی ہے۔جس حج میں فحش باتیں اور شہوانی کام نہ ہو ، فسق وفجور نہ ہو، وہ حجِ مبرور بن جاتا ہے جس کی جزا جنت ہی ہے۔
آٹھ ذی الحج یوم ترویہ ہے، کہتے ہیں کہ اس روز حاجی پانی جمع کرتے تھے، کیونکہ قدیم زمانے میں مکہ میں پانی کم تھا، تو حج کے لئے ایک دن پہلے منی میں پانی اکٹھا کر لیا جاتا تھا کیونکہ اب حاجی کو ۱۲ یا ۱۳ ذی الحج تک یہاں قیام کرنا ہے، دوسری روایت کے مطابق اس رات حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، آٹھ ذی الحج کا دن آپ نے اس پر سوچ بچار میں گزارا، اور ۹ ذی الحج کو بیٹے سے اس کا ذکر کیا، جس کا جواب تھا:
’’ یا ابت افعل ما تؤمر، ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘ (الصافات، ۱۰۲)
ابا جان، کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ مجھے ان شاء اللہ صابروں میں سے پائیں گے۔
یوم الترویہ منی کے کیمپ میں تلبیہ پڑھتے، اور حج کی تیاری کرتے گزر گیا، رات سوئے تو آدھی رات کو مائیک پر آواز نے بیدار کر دیا، اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات جانے کے لئے تیار کھڑی ہے، جلدی آجاؤ ۔۔ اور یہ پیغام کیمپ کے چاروں جانب اس شدت سے کیا گیا، کہ کیمپ کے کچھ افراد نے اٹھ کر اسے یہاں سے جانے کو کہا، کیونکہ عرفات جانے کا وقت فجر کے بعد کا طے کیا گیا تھا، ابھی کیمپ والوں کی دوبارہ آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ ایک مرتبہ پھر کان پھاڑتا اعلان پوری طاقت سے کیا جا رہا تھا، کئی کیمپوں سے حاجیوں نے اس کی آوازکو دبانا چاہا، مگر اجرت پر حاصل کی گئی آواز کو اپنا رزق حلال کرنے کی بھی فکر تھی، ہم نے تکیہ سر پر رکھ کر آواز کی لہروں کو کم کرنے کی کوشش کی، اور ناکامی کے بعد وضو گاہ کی راہ لی، وہاں ابھی رش نہیں تھا، وضو کرنے کے بعد طبیعت میں چستی آچکی تھی، اور اب ’’اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات کے لئے تیار کھڑی ہے‘‘ کی آواز پر مسکراہٹ لبوں پر آ جاتی، اس نے کسی کو سونے نہیں دینا، کہہ کر کوئی اور حاجن آنکھیں رگڑتی اٹھ بیٹھتی۔ہم اوّل وقت میں فجر کی نماز ادا کر کے بس میں بیٹھ چکے تھے، تلبیہات سے فضا گونج رہی تھی، اور اب حاجی تلبیہات پڑھ پڑھ کر تھک رہے تھے مگر بس ان سوئے ہوئے حاجیوں کے جاگ جانے تک منتظر کھڑی تھی۔ ابھی اشراق کا وقت تھا کہ بس نے حرکت کی، اور کچھ ہی دیر میں عرفات کے خیموں میں اتار دیا، یہ کھلے خیمے تھے، نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ابھی ہم بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ معلم کی جانب سے ملنے والا دوپہر کا کھانا تقسیم کیا جانے لگا، یعنی ناشتے سے پہلے، کھانا، اور نوالہ منہ میں ڈالا تو اتنی مہربانی کا سبب بھی معلوم ہو گیا، کھانا کافی پرانا تھا، چاول پانی چھوڑ رہے تھے، واپس کرنا چاہا تو ایک تلخی!!
سب کیمپ میں بیٹھے تھے، کوئی قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، کوئی دعا اور مناجات میں، جب عقب سے آنے والی ایک آواز نے سب کو چونکا دیا: السلام علیکم حاجی بھائیو، میں بہت پریشان ہوں، حج سے پہلے میری جیب کٹ گئی ہے، اسی میں میری ساری نقدی تھی، اللہ کی خاطر میری مدد کریں، ایک نوجوان پاکستانی اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کے ہمراہ مدد کا خواستگار تھا، (ایسے کئی قصّے ہم اس سے پہلے بھی سن چکے تھے) اسے شاید معلوم نہ تھا کہ اس گروپ میں کرنل صاحب بھی تھے اور میجر صاحب بھی، اکاؤنٹ آفسر بھی اور پروفیسر بھی! سب نے اس پر جرح شروع کر دی، جیب تو کٹ گئی، حاجی کا لاکٹ اور کڑا کہاں ہے، کب آئے؟ مکتب نمبر کیا ہے؟ پاسپورٹ کہاں ہے؟ وہ اتنے سارے سوالوں سے گھبرا گیا، جی میں آپ کو سچ سچ بتاتا ہوں، تین ماہ پہلے عمرہ کے لئے آیا تھا، سوچا حج بھی کر لوں، اس کا پاسپورٹ چیک کیا گیا، اور سمجھایا بھی، جھوٹ بول کر حج؟ میدانِ عرفات میں دھوکہ؟ بس پھر اسے جانے دے دیا۔
عرفات کے کیمپ سے مسجد نمرہ کی جانب مارچ شروع ہو گیا، جو جتنا آگے جانے کے مشتاق تھے وہ تیز قدموں سے آگے چل دیے، کچھ مسجد کے اندر بھی پہنچ گئے، مسجد سے باہر حاجیوں کے لئے حرمین شریفین کے خادموں کی جانب سے لذتِ کام و دہن کا انتظام بھی تھا، راستے میں جگہ جگہ پانی کی بوتلیں حاجیوں کی جانب اچھالی جا رہی تھیں، کہیں آئیس کریم کی گاڑیاں سر راہ کھڑی تھیں کہیں جوس کی بوتلیں، کہیں لبن کی (لسی)۔جو سامنے آجاتا اسے وصول کرتے ہوئے حاجی آگے بڑھ رہے تھے، سڑک کے کنارے صف میں مرد ایک جانب اور خواتین ایک جانب بیٹھ گئیں، اب مجمعے میں بھی تنہائی تھی، ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف تھا، ہاں کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی سسکی سنائی دے جاتی، وقت گزر رہا تھا، اور سر پر چمکتا سورج پریشان نہیں کر رہا تھا، ہاں گناہوں، قصوروں، حق تلفیوں، بد اخلاقی اور رب کی بندگی میں تساہل ، اور نعمتوں کی بے قدری کا بڑا قلق تھا، اللہ تعالی سے معافی کی امید پر ہاتھ اس کے حضور پھیلے ہوئے تھے، آنکھیں اشک بار تھیں اور دل لرز رہا تھا، اللہ جی حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دیں، اللہ جی یہاں لا کر اکیلا نہ چھوڑ دینا، ہماری کمزور عبادت کو قبول کر لینا، ۔۔آمین۔
خطبہ شروع ہوا، اورہر جانب خاموشی، لاکھوں کے مجمعے میں بھی ایک ہی آواز ببانگِ دہل سنائی دے رہی تھی۔پیچھے والی ساری سڑک بھی صفوں میں تبدیل ہو گئی تھی، نمازِ ظہر اور عصر با جماعت قصر ادا کی گئیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کیمپ واپس پہنچے، کھانا پینا اور دعائیں وقفے وقفے سے جاری تھیں، ابھی مغرب میں کافی وقت تھا جب کیمپ سے باہر بسیں پہنچ گئیں، کیمپوں سے لوگ کھسک کھسک کر بسوں کے پاس پہنچنے لگے، جو ابھی تک مقفل تھیں، لیکن پھر بھی لائنیں بننے اور ٹوٹنے لگیں، اور بسوں کے دروازے کھلتے ہی دھکم پیل شروع ہو گئی، کچھ دیر پہلے سیدھی صفوں میں نماز پڑھتے حجاج کا سلیقہ نجانے کہاں رخصت ہو گیا تھا، کچھ خواتین کو سوار کروانے اور نشستوں پر بٹھانے کی فکر میں پریشان تھے، اور کچھ لوگ رواداری اور تحمل سے بے نیاز بس میں جگہ پانے کے متلاشی! وہ وقت جو مقبولِ دعا ہے، اس سرگرمی میں نکلا جا رہا ہے، بسوں میں بیٹھ کر دعائیں جاری ہیں، بس ڈرائیور بھی حجاج کے لئے ثواب بڑھانے کا ذریعہ ہے، جو ڈانٹ ڈپٹ کر کے زمین پر بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے، احرام میں زمین پر بیٹھنا ایک دقت ہے، حاجیوں کے صبر کا پیمانہ بھی بار بار چھلک جاتا ہے، ’’اوے پٹھانوں، اپنی عورتوں کو تو سیٹوں پر جگہ دے دو، اس بزرگ خاتون ہی کے لئے جگہ بنا دو، کچھ لوگ زیرِ لب بڑبڑاتے ہیں، یہ عجب پٹھان ہیں، پٹھان تو غیرت کی مثال ہیں، اور یہ اپنی خواتین کے لئے بھی جگہ خالی نہیں کر رہے‘‘ کوئی دوسرا حاجی سرگوشی کرتا ہے: ’’حاجی صاحب، چپ ہو جاؤ، احرام کا
پاس کرو، کسی کو عصبیت کے ساتھ عار نہ دلاؤ‘‘، اور حاجی صاحب بآوازِ بلند استغفار شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح بار بار دھکے لگنے پر ایک نوجوان طاقت ور حاجی دوسرے حاجی پر پل پڑنے کا ارادہ کرتے ہیں، ساتھ والے ان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، یومِ عرفہ ہے بھائی، پتا نہیں حج قبول ہوا بھی کہ نہیں، اگلا دفتر نہ کھولیں بھائی‘‘ ، اور وہ رو پڑتے ہیں، ایک حاجی بڑی عاجزی سے ایسے ہی کسی دھکے پر بے اختیار بولتے ہیں: ’’میں احرام میں نہ ہوتا نا تو پھر تمہیں بتاتا‘‘، اللہ تعالی لوگوں کے قصور معاف فرما رہے ہیں، آج رحمتِ خدا وندی جوش میں ہے، اللہ تعالی اتنے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں ایسے پاک کر دیتے ہیں جیسے ابھی ولادت ہوئی ہو،اور کوئی گناہ اس کے نامہء اعمال میں نہ لکھا گیا ہو،اسی لئے ’’شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن ذلیل ، خوار، حقیر اور خشمناک نہیں رہتا‘‘ پس شیطان اپنے سر پر خاک ڈالتا ہے، اسی لئے تو دوبارہ بندوں سے غلطیاں کروانے میں سرگرم ہوتا ہے۔ بندوں کے اونچے نیچے رویوں کے بیچ بسیں رینگنا شروع کرتی ہیں، اور صبر آزما سفر کے بعد آدھی رات گزر جانے کے بعد مزدلفہ آتا ہے، یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں، ہمراہ کھانے میں سے کچھ ہلکا پھلکا کھایا جاتا ہے، اس کھلے میدان میں اپنے اپنے ساتھیوں کو مجتمع رکھنے کا اہتمام بھی ہے، ایک بزرگ کی طبیعت کچھ خراب تھی، اب انکی بیوی اور بیٹی کاسامان بھی باقی لوگوں نے اٹھا رکھا ہے اور کرنل صاحب اس ثواب کا زیادہ حصّہ سمیٹ رہے ہیں۔اکرم بھٹی صاحب نے اپنی بیگم اور بھابھی کو اکٹھا رکھنے کے لئے انکے دوپٹوں کو گرہ لگوا رکھی ہے، اور خود ان سے آگے چل رہے ہیں۔
رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہے، بیگ سے ٹیک لگا کر آنکھیں کیا بند کیں، صبح کے جھٹ پٹے میں آنکھ کھلی، پتا چلا سب اسی بے خبری میں یہاں وہاں سوئے پڑے تھے، بھاگ کر وضو خانوں کا رخ کیا، نماز پڑھ کر ساتھی دعا میں مشغول تھے، نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوعِ فجر تک اللہ کا ذکرکثرت سے کرنے کا حکم ہے:
(فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام ۔۔) (البقرۃ، ۱۹۸)
پھر جب تم عرفات سے پلٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
رمی کے لئے پتھر چن کر ہم واپس اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ آج عید کا دن تھا، میاں صاحب کسی افریقی سٹال سے گرما گرم گوشت اور روٹی لے آئے ہیں، اتنا مزے دار کھانا، نمک مرچ کم ہے، لیکن بہت عمدہ پکا ہوا،جس کے ساتھ شوربہ بھی ہے۔
کچھ دیر آرام کے بعد ہم خواتین رمی کے لئے تیار ہو رہی ہیں، اچانک ایک صاحب اپنی بیگم کو بلاتے ہیں، واپس آکر وہ گروپ سے ذرا ہٹ کر بیٹھ جاتی ہیں، پھر دوسری، اور تیسری، آنے والی ہر خاتون کچھ خاموش ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مرد یہی پروگرام بنا رہے ہیں کہ عورتیں کیمپ میں رہیں، اور انکی رمی نیابتاً مرد کر آئیں، اتنے میں میاں صاحب مجھ سے پروگرا م کا پوچھتے ہیں، میں ذرا تلخی اور دکھ بھرے انداز سے پوچھتی ہوں، پروگرام پوچھنا چاہتے ہیں یا اپنا ارادہ بتانا چاہتے ہیں؟ وہ واقعی مجھ سے پوچھ رہے ہیں، میں خوشی سے ساتھ ہو لیتی ہوں، اور آہستہ آہستہ سب خواتین کو اجازت مل جاتی ہے، سوائے ان کے جو معذور ہیں۔
جمرات کے قریب پہنچتے ہیں تو جہاں تکبیرات کی پر سوز آواز فضا کو معطر کر رہی ہے وہاں ایمبولینس کے سائرن فضا کا سینہ چیر رہے ہیں، اوپر کا حصّہ بند کیا جا چکا ہے، اور کچھ دیر کے لئے نیچے بھی رمی بند ہے، شنید ہے کہ صبح کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے جس میں بہت سی اموات واقع ہو چکی ہیں۔کچھ دیر انتظار کے بعد حجاج پھر رمی کے لئے بڑے شیطان کی جانب بڑھتے ہیں، شروع میں کھلا راستہ آہستہ آہستہ تنگ ہونے لگتا ہے، اور پھر پیچھے سے دھکے کئی قدم آگے لے جاتے ہیں، کبھی دائیں سے دباؤ کبھی بائیں سے، ساتھیوں کے احترام، تحمل، صبر اور برداشت سے عاری ہجوم، ایسا لگتا تھا یہ عرفات میں بلکتے اور معافی مانگنے والوں سے ہٹ کر کوئی گروہ ہے، دائیں بائیں سے نصیحت اور سرزنش کی آوازیں بھی اٹھتی ہیں، مگر شیطان کی چال غالب آگئی ہے، ہم نے گرتے پڑتے خود کو سنبھالتے بڑی مشکل سے رمی کی، مجھے بچاتے ہوئے میاں صاحب گرتے گرتے بچے، جب باہر نکلے تو دونوں جوتیاں اتر یا ٹوٹ کر پاؤں سے الگ ہو چکی تھیں، اسی سے دائیں جانب حلاق سر مونڈنے میں مشغول تھے، اور استعمال شدہ بلیڈ بڑی فراوانی سے زمین پر پڑے تھے، ننگے پاؤں زخمی ہونے کا خطرہ تھا، پاس پڑی ایک ہوائی چپل میں پاؤں ڈالا تو دوسری بھی اسی پاؤں کی ملی، تھوڑا آگے گئے، تو ایک چپل سبز اور ایک نیلی، حاجی صاحب نے وہی پہن لی، حج اسی طرح مرغوب چیزوں کو چھوڑ کر اللہ کی پسند کو اپنا لینے کا سبق ہے، احرام پہنتے ہی عمدہ اور قیمتی کپڑوں، خوشبو، زینت، اور لش پش کرتے جوتوں کو چھوڑا، مکانوں کے آرام کو چھوڑ کر منی، عرفات اور مزدلفہ کے کیمپوں میں مہاجرت کو محسوس کیا، اور یہ رمی تو شیطان سے عملی لڑائی ہی ثابت ہوئی تھی، جس میں سب سے بڑا حوصلہ اور ساتھ اللہ کا تھا، جو سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا، ایسا لگتا اپنے بندوں کی حالت دیکھ کر مسکرا بھی رہا ہے۔
ہم نے ٹیکسی لی اور حرم کے قریب جا اترے، خانہ کعبہ سے ظہر کی اذان سنائی دے رہی تھی، مروہ کے جانب کے ایک صحن میں ہم نے ظہر کی با جماعت دو رکعت پا لی،ہمارے گروپ کے تین خاندان بھی مل گئے، ہماری قربانی ہو چکی تھی،بالوں کی لٹ کاٹ کر احرام کھولا، غسل کیا اور بعد از نماز عصر طوافِ افاضہ شروع کیا۔ہم نے نیچے صحن میں طواف کیا، جہاں لوگوں کی کثرت سے کبھی طواف کسی گوشے میں رک بھی جاتا، آگے سے ہاتھ بلند ہوتااور پیچھے سب لوگ خاموشی سے رک جاتے، اور جونہی راستے کھلتا سب چلنے لگتے، پورے خشوع کے ساتھ، نہ کو ئی تیزی، نہ دھکا اور نہ دل میں ابلتا غصّہ، اگر دھکا لگ بھی جاتا تو یہی احساس غالب رہتا کہ کسی نے جان بوجھ کر نہیں دیا، رش کے سبب لگ گیا ہے، اللہ کے گھر کی کیا شان ہے، اور یہاں سلامتی کے کیا معنی ہیں، وہی ہجوم جو جمرات میں اتنا بے صبرا تھا، حرم کی تغظیم، تکریم، اور ہیبت نے اسے دبا دیا تھا، وللہ الحمد!! آنسو بہہ رہے تھے، عاجزانہ دعائیں بلند ہو رہی تھیں، اور کہیں رب کو چپکے چپکے پکارا اور گڑگڑایا جا رہا تھا، جو جتنا کمزور اور ضعیف تھا، اس کے لئے جگہ کھلی کی جا رہی تھی، میرے دل سے دعا نکلی، اے اللہ تو حرم سے باہر بھی ہمیں ایسا ہی باوقار بنا دے، آمین۔
نمازِ مغرب ادا کر کے سعی شروع کی، صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا، مطاف میں سیکھا ہوا سبق حاجی پھر بھولنے لگے تھے، سبز روشنیوں کے مقام پر دوڑتے ہوئے، دھکے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی!! میرا دل رنج سے بھر گیا، میاں صاحب نے ایسے ہی بھاگتے ہوئے چند لوگوں کو پکڑ کر کہا، صبح کا اتنا بڑا حادثہ آپ جیسوں ہی کی جلد بازی سے ہوا ہے، اب تو سبق لے لو۔عشاء سے پہلے سعی مکمل ہو چکی تھی، اور دل سے بے اختیار نکلا: اللہ جی حج اتنا آسان ہے، ہم نے حج کر لیا ہے، الحمد للہ، تو اسے قبول کر لینا، حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دے، آمین۔
مروہ کے باہر ہی ہم نے نماز پڑھی اور واپسی پر صاحب نے کہا: آج تو عید ہے، اچھا سا کھانا کھاتے ہیں، سب نے جو کھانا منگوایا، وہ مزے دار تو تھا مگر کافی حد تک ناکافی!! ہم نے سپیشل آفر میں جس مرغی کا آرڈر دیا تھا وہ تو اس کا چوزہ نکلا۔
ہم پانچ فیملیز نے واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا رخ کیا، صاحب نے کہا بھی کہ گھر فون کر لیتے ہیں، مگر جہاں بھی فون کرنے گئے، رش تھا، اور انتظار کی ہم میں سکت نہ تھی، اب تو یہی دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھیں اور منی اپنے کیمپ پہنچ کر سانس لیں۔
***
(جاری ہے)
اہم بلاگز
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔