(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر۳
مدینہ منورہ کی یاد دل میں بسائے ہم مکہ پہنچ چکے تھے، حرم سے دور عزیزیہ کی ایک اقامت گاہ ہمارا مسکن تھی، ہم نے کمرے میں سامان رکھا، وضو کیا، تو باہر گاڑی ہمارے انتظار میں کھڑی تھی، جس نے ہمیں صحنِ مسجد سے باہر کی زیر زمین پارکنگ میں اتار دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ عشاء کے بعد یہیں سے ہمیں واپس لیا جائے گا، ہم احرام میں تھے، عصر کی نماز ادا کر کے عمرہ شروع کیا، اور مغرب عشاء کے دوران مکمل کر لیا، اور اب لگے انتظار کرنے، یہ ۶ ذی الحج تھا، اگلے روز منی جانے کی تیاری بھی کرنی تھی، لیکن بہت دیر انتظار کے بعد بھی گاڑی نہ آئی، آخر مرد حضرات نے ہماری اور شاید اپنی بھی حالت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ویگن کو روکا، ہم اس میں بیٹھے تو تھکاوٹ کا اندازہ ہوا، اس روز تک تقریباً تمام حجاج مکہ پہنچ چکے تھے اور خوب رش تھا، ٹریفک بھی اور پیدل لوگ بھی، ہم سے کچھ آگے گاڑی نے ایک حاجی کو ٹکر ماری اور رکے بغیر آگے نکل گئی، اب وہ شخص زمین پر پڑا چیخ چلا رہا تھا، اس نے احرام پہن رکھا تھا، گاڑی اس کی ٹانگوں کے اوپر سے گزر گئی تھی، اور اب سفید احرام پر سرخی پھیلتی جا رہی تھی، کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے کنارے کیا، اور پولیس پہنچ گئی، اس حاجی کے لئے دل سے دعائیں نکلیں جو منی جانے سے ذرا پہلے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، اور پھر وہ حجۃ الوداع کے سفر کا حاجی بھی یاد آگیا، جسے اس کی اپنی سواری کے جانور نے کچل دیا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے غسل دو اور اسی احرام میں کفن دے دو، اس کا سر ننگا رکھو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ، یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ ویگن عزیزیہ کی جانب بڑھی تو سڑک پر معمول کی ٹریفک تھی، اور ڈرائیور نے ایک جانب اتار دیا کہ عزیزیہ آگیا ہے، آپ چلے جائیں، سعودی ڈرائیور کے ایسے رویے پر سب کو اترتے ہی بنی، اور اب عزیزیہ کی شاہرائیں تھیں اور تھکا ہارا قافلہ تھا، گوگل میپ کا زمانہ تھا نہ ہی موبائل فونز کی بہتات تھی، ایک حاجی صاحب کے پاس یہ سہولت میسر تھی، اور انہیں کی عرق ریزی سے ہم اقامت گاہ تک پہنچے۔
اگلی صبح مردوں نے قریبی مسجد میں نماز پڑھی، اور ہم نے دن چڑھے ناشتا کیا، میاں صاحب قریب کے کسی ہوٹل سے عربی ناشتا لائے تھے، جس میں حمص بھی تھا اور فول بھی، پنیر اور مکھن بھی۔
آج رات منی کی جانب روانہ ہونا تھا، اس لئے ایک رونق اور مصروفیت تھی، کوئی کپڑے استری کر رہا ہے، اور کوئی نہانے دھونے میں مصروف، کسی کا مختصر بیگ تیار ہو رہا ہے، اور لوازماتِ زادِ راہ کا دقیق جائزہ لے رہا ہے، ایک کسک تھی دل میں کہ آج حرم نہیں جا سکے، لیکن رات کی بھول بھلیوں کا سوچ کر دل کو تسلی دے رہے تھے، کچھ لوگ حج سے پہلے آخری آرام کر رہے تھے تاکہ جسم مشقت کے لئے تیار ہو جائے،جوں جوں وقت گزر رہا تھا، واش رومز کی جانب بھیڑ بڑھ رہی تھی۔ مغرب تک سب تیار ہو چکے تھے، عشاء کے بعد بس آنی تھی، مرد احرام پہن چکے تھے، ایسے لگ رہا تھا اندر باہر نور کے ’’پرے‘‘ گردش کر رہے ہوں، بس میں بیٹھتے ہی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونجنے لگیں، اللہ جی ہم اپنی زندگی کے سب سے پیارے سفر کی جانب نکل رہے ہیں، ہم نے تیری پکار پر لبیک کہا ہے، تلبیہ کے ایک ایک لفظ کو ہمارے دل کی آواز بنا دے، اے اللہ تو ہمارا ساتھی ہو جا، یہ سفر سارے کا سارا نیکی اور تقوی کا سفر ہو، اس کا لمحہ لمحہ تیری رضا میں بسر ہو، ہماری کمزور عبادتیں، ٹوٹے پھوٹے الفاظ، سب قبول فرما لے، اے اللہ ہمارے حج کو حجِ مبرور بنا دے، ہماری سعی و جہد کو قبولیت کا شرف عطا فرما دے، ہمارے گزشتہ تمام گناہوں، قصوروں اور لغزشوں کو معاف فرما دے، اے اللہ تو ہمیں پاک کر دے۔۔ آمین ثم آمین
بس نے ابھی حرکت بھی نہ کی تھی کہ باہر کھٹ پٹ سنائی دی، پاکستان ہاؤس سے فون آیا تھا کہ اس گروپ کی ایک خاتون گزشتہ رات سے غائب ہے اور وہ پاکستان ہاؤس میں ہے، آکر لے جائیں۔ ابھی یہی سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کون ہے کہ پاکستان ہاؤس کا اہلکار خاتون کو لیکر آ پہنچا، اوہ ۔۔ یہ تو ماسی پٹھانی ہیں۔ انکی دیورانی نے بتایا کہ وہ گزشتہ رات عمرے کے بعد ہی ان سے بچھڑ گئیں تھیں، اکرم بھٹی صاحب اپنی بھابھی کو وصول کرنے اترے، ماسی کھڑکی کے سامنے آئیں اور مسز بھٹی سے پورے جلال سے پوچھا: ’’میرا سامان کتھے اے‘‘، اور یہ سن کر کہ وہ تو ان کے کمرے میں ہی ہے، انکا غصّہ دو چند ہو گیا، ان دونوں نے نہ تو انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی نہ ہی ان کا سامان ہی ہمراہ رکھا۔اب وہ دونوں اندر گئیں اور کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر آئیں، تو پھر بس چلی،اس سہو یا لغزش کا تدارک اکرم بھٹی صاحب نے اس طرح کیا کہ باقی کا سفر حج دونوں خواتین نے ہاتھ تھام کر بلکہ کئی مقامات پردوپٹے باندھ کر کیا، تاکہ وہ سدا اکٹھی رہیں، اسی تلخی کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حج ماسی پٹھانی پر فرض تھا، وہ بیوہ ہو چکی تھیں اور محرم کی غیر موجودگی میں اپنے دیور دیورانی کو حج خرچ دے کر ساتھ لائی تھیں۔
ہماری بس عزیزیہ سے منی کی جانب رواں دواں تھی، رش سے بچنے کے لئے رات کو سفر کیا تھا، ورنہ ہمیں کل منی پہنچنا تھا، سڑک سے ہٹ کر کہیں کہیں سعودی نوجوانوں کی ٹولیاں دف بجا تی اور علاقائی رقص کرتی بھی دکھائی دیں، جو ہمارے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔
۵۵ نمبر کیمپ کے قریب بس نے اتار دیا، اب ہم خیمے میں تھے، چودہ مرد اور چودہ خواتین، اگلے حصے کی جانب خواتین چلی گئیں اور باہر کی جانب مرد۔ پھر کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہوا کہ درمیان میں رسی باندھ کر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ لٹکا لیا جائے، رات اسی طرح گزری، صبح پردہ ہٹا کر با جماعت نماز ادا کی گئی، جس میں مرد اگلی صفوں، یعنی خواتین کی سائیڈ پر آ گئے اور خواتین پچھلی جانب! اسی کیمپ میں ہمیں حج کا تحفہ ملا جس میں خادمِ حرمین شریفین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی چیزیں جو انتہائی ضروری تھیں فراہم کی گئی تھیں، جن میں بے بو صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، کنگھی، سرجیکل ماسک وغیرہ۔
ظہر کے قریب ایک جوڑا کیمپ تلاش کرتا ہوا پہنچا، صفیں باندھے دیکھ کر انہوں نے سب سے پہلے با جماعت نماز پر اعتراض کیا، مرد صاحب تو باہر چلے گئے، خاتون یہ کہہ کر کنارے بیٹھ گئیں، ’’ان امام کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی‘‘۔نماز مکمل ہونے کے بعد وہ صاحب بھی آگئے اور لگے کیمپ کی پردہ چادر کو غلط ثابت کرنے، انکے مطابق محرم کے ساتھ حج کرنے کی روح ہی یہ ہے کہ ہر شحص اپنی محرم کے ساتھ ایک چادر لگا کر بیٹھے اور وہ دونوں اکٹھے عبادت کریں، اس طرح اس کیمپ میں چودہ چادریں لگائی جائیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش رائیگاں ثابت ہوئی، ایک صاحب بولے: آپ ہمیں چھوڑیں، اپنی چادر لگائیں اور بیٹھ جائیں، دوسرے نے زیرِ لب تبصرہ کیا: ’’فیر دم وی آپے ای دینا‘‘۔بہر حال وہ صاحب کیمپ اور حج اور خادم حرمین کی شان میں بہت کچھ کہہ کر واک آوٹ کر گئے، انکی بیگم کو ایک دن حرم میں دیکھا تو وہ حرم کے امام کے پیچھے بھی نماز کے لئے نہ اٹھیں۔ محض فقہی مسلک کی بنا پر ہر روز دن میں پانچ مرتبہ ایک لاکھ نمازوں کے اجر سے محرومی!!
منی کے کیمپ کی اپنی ہی شان ہے، کھمبیوں کی مانند اگے ہوئے کیمپ، یہ اللہ کی فوج ہے، یہ اس کی پکار پر خوشی اور شوق سے دور دراز کا سفر کر کے آنے والے پروانوں کا لشکر ہے، جو اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے نہیں تھکتے، گزشتہ گناہوں کا بوجھ انہیں بار بار لرزا دیتا ہے، زبان استغفار کے کلمات سے تر ہے، اور اس غفور ورحیم سے مغفرت کی آس بھی ہے۔جس حج میں فحش باتیں اور شہوانی کام نہ ہو ، فسق وفجور نہ ہو، وہ حجِ مبرور بن جاتا ہے جس کی جزا جنت ہی ہے۔
آٹھ ذی الحج یوم ترویہ ہے، کہتے ہیں کہ اس روز حاجی پانی جمع کرتے تھے، کیونکہ قدیم زمانے میں مکہ میں پانی کم تھا، تو حج کے لئے ایک دن پہلے منی میں پانی اکٹھا کر لیا جاتا تھا کیونکہ اب حاجی کو ۱۲ یا ۱۳ ذی الحج تک یہاں قیام کرنا ہے، دوسری روایت کے مطابق اس رات حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، آٹھ ذی الحج کا دن آپ نے اس پر سوچ بچار میں گزارا، اور ۹ ذی الحج کو بیٹے سے اس کا ذکر کیا، جس کا جواب تھا:
’’ یا ابت افعل ما تؤمر، ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘ (الصافات، ۱۰۲)
ابا جان، کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ مجھے ان شاء اللہ صابروں میں سے پائیں گے۔
یوم الترویہ منی کے کیمپ میں تلبیہ پڑھتے، اور حج کی تیاری کرتے گزر گیا، رات سوئے تو آدھی رات کو مائیک پر آواز نے بیدار کر دیا، اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات جانے کے لئے تیار کھڑی ہے، جلدی آجاؤ ۔۔ اور یہ پیغام کیمپ کے چاروں جانب اس شدت سے کیا گیا، کہ کیمپ کے کچھ افراد نے اٹھ کر اسے یہاں سے جانے کو کہا، کیونکہ عرفات جانے کا وقت فجر کے بعد کا طے کیا گیا تھا، ابھی کیمپ والوں کی دوبارہ آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ ایک مرتبہ پھر کان پھاڑتا اعلان پوری طاقت سے کیا جا رہا تھا، کئی کیمپوں سے حاجیوں نے اس کی آوازکو دبانا چاہا، مگر اجرت پر حاصل کی گئی آواز کو اپنا رزق حلال کرنے کی بھی فکر تھی، ہم نے تکیہ سر پر رکھ کر آواز کی لہروں کو کم کرنے کی کوشش کی، اور ناکامی کے بعد وضو گاہ کی راہ لی، وہاں ابھی رش نہیں تھا، وضو کرنے کے بعد طبیعت میں چستی آچکی تھی، اور اب ’’اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات کے لئے تیار کھڑی ہے‘‘ کی آواز پر مسکراہٹ لبوں پر آ جاتی، اس نے کسی کو سونے نہیں دینا، کہہ کر کوئی اور حاجن آنکھیں رگڑتی اٹھ بیٹھتی۔ہم اوّل وقت میں فجر کی نماز ادا کر کے بس میں بیٹھ چکے تھے، تلبیہات سے فضا گونج رہی تھی، اور اب حاجی تلبیہات پڑھ پڑھ کر تھک رہے تھے مگر بس ان سوئے ہوئے حاجیوں کے جاگ جانے تک منتظر کھڑی تھی۔ ابھی اشراق کا وقت تھا کہ بس نے حرکت کی، اور کچھ ہی دیر میں عرفات کے خیموں میں اتار دیا، یہ کھلے خیمے تھے، نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ابھی ہم بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ معلم کی جانب سے ملنے والا دوپہر کا کھانا تقسیم کیا جانے لگا، یعنی ناشتے سے پہلے، کھانا، اور نوالہ منہ میں ڈالا تو اتنی مہربانی کا سبب بھی معلوم ہو گیا، کھانا کافی پرانا تھا، چاول پانی چھوڑ رہے تھے، واپس کرنا چاہا تو ایک تلخی!!
سب کیمپ میں بیٹھے تھے، کوئی قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، کوئی دعا اور مناجات میں، جب عقب سے آنے والی ایک آواز نے سب کو چونکا دیا: السلام علیکم حاجی بھائیو، میں بہت پریشان ہوں، حج سے پہلے میری جیب کٹ گئی ہے، اسی میں میری ساری نقدی تھی، اللہ کی خاطر میری مدد کریں، ایک نوجوان پاکستانی اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کے ہمراہ مدد کا خواستگار تھا، (ایسے کئی قصّے ہم اس سے پہلے بھی سن چکے تھے) اسے شاید معلوم نہ تھا کہ اس گروپ میں کرنل صاحب بھی تھے اور میجر صاحب بھی، اکاؤنٹ آفسر بھی اور پروفیسر بھی! سب نے اس پر جرح شروع کر دی، جیب تو کٹ گئی، حاجی کا لاکٹ اور کڑا کہاں ہے، کب آئے؟ مکتب نمبر کیا ہے؟ پاسپورٹ کہاں ہے؟ وہ اتنے سارے سوالوں سے گھبرا گیا، جی میں آپ کو سچ سچ بتاتا ہوں، تین ماہ پہلے عمرہ کے لئے آیا تھا، سوچا حج بھی کر لوں، اس کا پاسپورٹ چیک کیا گیا، اور سمجھایا بھی، جھوٹ بول کر حج؟ میدانِ عرفات میں دھوکہ؟ بس پھر اسے جانے دے دیا۔
عرفات کے کیمپ سے مسجد نمرہ کی جانب مارچ شروع ہو گیا، جو جتنا آگے جانے کے مشتاق تھے وہ تیز قدموں سے آگے چل دیے، کچھ مسجد کے اندر بھی پہنچ گئے، مسجد سے باہر حاجیوں کے لئے حرمین شریفین کے خادموں کی جانب سے لذتِ کام و دہن کا انتظام بھی تھا، راستے میں جگہ جگہ پانی کی بوتلیں حاجیوں کی جانب اچھالی جا رہی تھیں، کہیں آئیس کریم کی گاڑیاں سر راہ کھڑی تھیں کہیں جوس کی بوتلیں، کہیں لبن کی (لسی)۔جو سامنے آجاتا اسے وصول کرتے ہوئے حاجی آگے بڑھ رہے تھے، سڑک کے کنارے صف میں مرد ایک جانب اور خواتین ایک جانب بیٹھ گئیں، اب مجمعے میں بھی تنہائی تھی، ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف تھا، ہاں کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی سسکی سنائی دے جاتی، وقت گزر رہا تھا، اور سر پر چمکتا سورج پریشان نہیں کر رہا تھا، ہاں گناہوں، قصوروں، حق تلفیوں، بد اخلاقی اور رب کی بندگی میں تساہل ، اور نعمتوں کی بے قدری کا بڑا قلق تھا، اللہ تعالی سے معافی کی امید پر ہاتھ اس کے حضور پھیلے ہوئے تھے، آنکھیں اشک بار تھیں اور دل لرز رہا تھا، اللہ جی حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دیں، اللہ جی یہاں لا کر اکیلا نہ چھوڑ دینا، ہماری کمزور عبادت کو قبول کر لینا، ۔۔آمین۔
خطبہ شروع ہوا، اورہر جانب خاموشی، لاکھوں کے مجمعے میں بھی ایک ہی آواز ببانگِ دہل سنائی دے رہی تھی۔پیچھے والی ساری سڑک بھی صفوں میں تبدیل ہو گئی تھی، نمازِ ظہر اور عصر با جماعت قصر ادا کی گئیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کیمپ واپس پہنچے، کھانا پینا اور دعائیں وقفے وقفے سے جاری تھیں، ابھی مغرب میں کافی وقت تھا جب کیمپ سے باہر بسیں پہنچ گئیں، کیمپوں سے لوگ کھسک کھسک کر بسوں کے پاس پہنچنے لگے، جو ابھی تک مقفل تھیں، لیکن پھر بھی لائنیں بننے اور ٹوٹنے لگیں، اور بسوں کے دروازے کھلتے ہی دھکم پیل شروع ہو گئی، کچھ دیر پہلے سیدھی صفوں میں نماز پڑھتے حجاج کا سلیقہ نجانے کہاں رخصت ہو گیا تھا، کچھ خواتین کو سوار کروانے اور نشستوں پر بٹھانے کی فکر میں پریشان تھے، اور کچھ لوگ رواداری اور تحمل سے بے نیاز بس میں جگہ پانے کے متلاشی! وہ وقت جو مقبولِ دعا ہے، اس سرگرمی میں نکلا جا رہا ہے، بسوں میں بیٹھ کر دعائیں جاری ہیں، بس ڈرائیور بھی حجاج کے لئے ثواب بڑھانے کا ذریعہ ہے، جو ڈانٹ ڈپٹ کر کے زمین پر بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے، احرام میں زمین پر بیٹھنا ایک دقت ہے، حاجیوں کے صبر کا پیمانہ بھی بار بار چھلک جاتا ہے، ’’اوے پٹھانوں، اپنی عورتوں کو تو سیٹوں پر جگہ دے دو، اس بزرگ خاتون ہی کے لئے جگہ بنا دو، کچھ لوگ زیرِ لب بڑبڑاتے ہیں، یہ عجب پٹھان ہیں، پٹھان تو غیرت کی مثال ہیں، اور یہ اپنی خواتین کے لئے بھی جگہ خالی نہیں کر رہے‘‘ کوئی دوسرا حاجی سرگوشی کرتا ہے: ’’حاجی صاحب، چپ ہو جاؤ، احرام کا
پاس کرو، کسی کو عصبیت کے ساتھ عار نہ دلاؤ‘‘، اور حاجی صاحب بآوازِ بلند استغفار شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح بار بار دھکے لگنے پر ایک نوجوان طاقت ور حاجی دوسرے حاجی پر پل پڑنے کا ارادہ کرتے ہیں، ساتھ والے ان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، یومِ عرفہ ہے بھائی، پتا نہیں حج قبول ہوا بھی کہ نہیں، اگلا دفتر نہ کھولیں بھائی‘‘ ، اور وہ رو پڑتے ہیں، ایک حاجی بڑی عاجزی سے ایسے ہی کسی دھکے پر بے اختیار بولتے ہیں: ’’میں احرام میں نہ ہوتا نا تو پھر تمہیں بتاتا‘‘، اللہ تعالی لوگوں کے قصور معاف فرما رہے ہیں، آج رحمتِ خدا وندی جوش میں ہے، اللہ تعالی اتنے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں ایسے پاک کر دیتے ہیں جیسے ابھی ولادت ہوئی ہو،اور کوئی گناہ اس کے نامہء اعمال میں نہ لکھا گیا ہو،اسی لئے ’’شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن ذلیل ، خوار، حقیر اور خشمناک نہیں رہتا‘‘ پس شیطان اپنے سر پر خاک ڈالتا ہے، اسی لئے تو دوبارہ بندوں سے غلطیاں کروانے میں سرگرم ہوتا ہے۔ بندوں کے اونچے نیچے رویوں کے بیچ بسیں رینگنا شروع کرتی ہیں، اور صبر آزما سفر کے بعد آدھی رات گزر جانے کے بعد مزدلفہ آتا ہے، یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں، ہمراہ کھانے میں سے کچھ ہلکا پھلکا کھایا جاتا ہے، اس کھلے میدان میں اپنے اپنے ساتھیوں کو مجتمع رکھنے کا اہتمام بھی ہے، ایک بزرگ کی طبیعت کچھ خراب تھی، اب انکی بیوی اور بیٹی کاسامان بھی باقی لوگوں نے اٹھا رکھا ہے اور کرنل صاحب اس ثواب کا زیادہ حصّہ سمیٹ رہے ہیں۔اکرم بھٹی صاحب نے اپنی بیگم اور بھابھی کو اکٹھا رکھنے کے لئے انکے دوپٹوں کو گرہ لگوا رکھی ہے، اور خود ان سے آگے چل رہے ہیں۔
رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہے، بیگ سے ٹیک لگا کر آنکھیں کیا بند کیں، صبح کے جھٹ پٹے میں آنکھ کھلی، پتا چلا سب اسی بے خبری میں یہاں وہاں سوئے پڑے تھے، بھاگ کر وضو خانوں کا رخ کیا، نماز پڑھ کر ساتھی دعا میں مشغول تھے، نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوعِ فجر تک اللہ کا ذکرکثرت سے کرنے کا حکم ہے:
(فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام ۔۔) (البقرۃ، ۱۹۸)
پھر جب تم عرفات سے پلٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
رمی کے لئے پتھر چن کر ہم واپس اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ آج عید کا دن تھا، میاں صاحب کسی افریقی سٹال سے گرما گرم گوشت اور روٹی لے آئے ہیں، اتنا مزے دار کھانا، نمک مرچ کم ہے، لیکن بہت عمدہ پکا ہوا،جس کے ساتھ شوربہ بھی ہے۔
کچھ دیر آرام کے بعد ہم خواتین رمی کے لئے تیار ہو رہی ہیں، اچانک ایک صاحب اپنی بیگم کو بلاتے ہیں، واپس آکر وہ گروپ سے ذرا ہٹ کر بیٹھ جاتی ہیں، پھر دوسری، اور تیسری، آنے والی ہر خاتون کچھ خاموش ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مرد یہی پروگرام بنا رہے ہیں کہ عورتیں کیمپ میں رہیں، اور انکی رمی نیابتاً مرد کر آئیں، اتنے میں میاں صاحب مجھ سے پروگرا م کا پوچھتے ہیں، میں ذرا تلخی اور دکھ بھرے انداز سے پوچھتی ہوں، پروگرام پوچھنا چاہتے ہیں یا اپنا ارادہ بتانا چاہتے ہیں؟ وہ واقعی مجھ سے پوچھ رہے ہیں، میں خوشی سے ساتھ ہو لیتی ہوں، اور آہستہ آہستہ سب خواتین کو اجازت مل جاتی ہے، سوائے ان کے جو معذور ہیں۔
جمرات کے قریب پہنچتے ہیں تو جہاں تکبیرات کی پر سوز آواز فضا کو معطر کر رہی ہے وہاں ایمبولینس کے سائرن فضا کا سینہ چیر رہے ہیں، اوپر کا حصّہ بند کیا جا چکا ہے، اور کچھ دیر کے لئے نیچے بھی رمی بند ہے، شنید ہے کہ صبح کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے جس میں بہت سی اموات واقع ہو چکی ہیں۔کچھ دیر انتظار کے بعد حجاج پھر رمی کے لئے بڑے شیطان کی جانب بڑھتے ہیں، شروع میں کھلا راستہ آہستہ آہستہ تنگ ہونے لگتا ہے، اور پھر پیچھے سے دھکے کئی قدم آگے لے جاتے ہیں، کبھی دائیں سے دباؤ کبھی بائیں سے، ساتھیوں کے احترام، تحمل، صبر اور برداشت سے عاری ہجوم، ایسا لگتا تھا یہ عرفات میں بلکتے اور معافی مانگنے والوں سے ہٹ کر کوئی گروہ ہے، دائیں بائیں سے نصیحت اور سرزنش کی آوازیں بھی اٹھتی ہیں، مگر شیطان کی چال غالب آگئی ہے، ہم نے گرتے پڑتے خود کو سنبھالتے بڑی مشکل سے رمی کی، مجھے بچاتے ہوئے میاں صاحب گرتے گرتے بچے، جب باہر نکلے تو دونوں جوتیاں اتر یا ٹوٹ کر پاؤں سے الگ ہو چکی تھیں، اسی سے دائیں جانب حلاق سر مونڈنے میں مشغول تھے، اور استعمال شدہ بلیڈ بڑی فراوانی سے زمین پر پڑے تھے، ننگے پاؤں زخمی ہونے کا خطرہ تھا، پاس پڑی ایک ہوائی چپل میں پاؤں ڈالا تو دوسری بھی اسی پاؤں کی ملی، تھوڑا آگے گئے، تو ایک چپل سبز اور ایک نیلی، حاجی صاحب نے وہی پہن لی، حج اسی طرح مرغوب چیزوں کو چھوڑ کر اللہ کی پسند کو اپنا لینے کا سبق ہے، احرام پہنتے ہی عمدہ اور قیمتی کپڑوں، خوشبو، زینت، اور لش پش کرتے جوتوں کو چھوڑا، مکانوں کے آرام کو چھوڑ کر منی، عرفات اور مزدلفہ کے کیمپوں میں مہاجرت کو محسوس کیا، اور یہ رمی تو شیطان سے عملی لڑائی ہی ثابت ہوئی تھی، جس میں سب سے بڑا حوصلہ اور ساتھ اللہ کا تھا، جو سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا، ایسا لگتا اپنے بندوں کی حالت دیکھ کر مسکرا بھی رہا ہے۔
ہم نے ٹیکسی لی اور حرم کے قریب جا اترے، خانہ کعبہ سے ظہر کی اذان سنائی دے رہی تھی، مروہ کے جانب کے ایک صحن میں ہم نے ظہر کی با جماعت دو رکعت پا لی،ہمارے گروپ کے تین خاندان بھی مل گئے، ہماری قربانی ہو چکی تھی،بالوں کی لٹ کاٹ کر احرام کھولا، غسل کیا اور بعد از نماز عصر طوافِ افاضہ شروع کیا۔ہم نے نیچے صحن میں طواف کیا، جہاں لوگوں کی کثرت سے کبھی طواف کسی گوشے میں رک بھی جاتا، آگے سے ہاتھ بلند ہوتااور پیچھے سب لوگ خاموشی سے رک جاتے، اور جونہی راستے کھلتا سب چلنے لگتے، پورے خشوع کے ساتھ، نہ کو ئی تیزی، نہ دھکا اور نہ دل میں ابلتا غصّہ، اگر دھکا لگ بھی جاتا تو یہی احساس غالب رہتا کہ کسی نے جان بوجھ کر نہیں دیا، رش کے سبب لگ گیا ہے، اللہ کے گھر کی کیا شان ہے، اور یہاں سلامتی کے کیا معنی ہیں، وہی ہجوم جو جمرات میں اتنا بے صبرا تھا، حرم کی تغظیم، تکریم، اور ہیبت نے اسے دبا دیا تھا، وللہ الحمد!! آنسو بہہ رہے تھے، عاجزانہ دعائیں بلند ہو رہی تھیں، اور کہیں رب کو چپکے چپکے پکارا اور گڑگڑایا جا رہا تھا، جو جتنا کمزور اور ضعیف تھا، اس کے لئے جگہ کھلی کی جا رہی تھی، میرے دل سے دعا نکلی، اے اللہ تو حرم سے باہر بھی ہمیں ایسا ہی باوقار بنا دے، آمین۔
نمازِ مغرب ادا کر کے سعی شروع کی، صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا، مطاف میں سیکھا ہوا سبق حاجی پھر بھولنے لگے تھے، سبز روشنیوں کے مقام پر دوڑتے ہوئے، دھکے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی!! میرا دل رنج سے بھر گیا، میاں صاحب نے ایسے ہی بھاگتے ہوئے چند لوگوں کو پکڑ کر کہا، صبح کا اتنا بڑا حادثہ آپ جیسوں ہی کی جلد بازی سے ہوا ہے، اب تو سبق لے لو۔عشاء سے پہلے سعی مکمل ہو چکی تھی، اور دل سے بے اختیار نکلا: اللہ جی حج اتنا آسان ہے، ہم نے حج کر لیا ہے، الحمد للہ، تو اسے قبول کر لینا، حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دے، آمین۔
مروہ کے باہر ہی ہم نے نماز پڑھی اور واپسی پر صاحب نے کہا: آج تو عید ہے، اچھا سا کھانا کھاتے ہیں، سب نے جو کھانا منگوایا، وہ مزے دار تو تھا مگر کافی حد تک ناکافی!! ہم نے سپیشل آفر میں جس مرغی کا آرڈر دیا تھا وہ تو اس کا چوزہ نکلا۔
ہم پانچ فیملیز نے واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا رخ کیا، صاحب نے کہا بھی کہ گھر فون کر لیتے ہیں، مگر جہاں بھی فون کرنے گئے، رش تھا، اور انتظار کی ہم میں سکت نہ تھی، اب تو یہی دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھیں اور منی اپنے کیمپ پہنچ کر سانس لیں۔
***
(جاری ہے)
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...