’’فیصلہ خود کرلیں ‘‘

موجودہ سیاسی قیادت کو غریب کے دکھوں کا مداوا کرنے والی عوامی قیادت کہا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ ہمیں نیک نیتی کے ساتھ ملک کی معاشی حالت کادرد محسوس کرنے اور عوام کو خوش حال بنانے کے اقدامات، وعیدوں اور نصائح سے آگے نہیں بڑھتے نظر نہیں آئے۔ غریب کے بے تحاشا مسائل توجہ طلب ہیں ۔ اگر وہ حل کرلیے جائیں تو ملک اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوجائے گا اور عوام خود انحصاری کا دامن تھام لیں گے۔ اس کے بعد ہمیں دامن پرقرضوں کے پیوند لگوانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ حکومت کو جس دانش مندی سے چلنا چاہیے تھا اب تک اس میں عوام کوناکامی اور مایوسی ہی نظر آئی ہے۔ پی ٹی آئی عوام کے اعتماد کا بوجھ اپنے کاندھوں پہ لادے، ناجانے کن بھول بھلیوں میں کھو چکی ہے ۔ پہلی حکومتیں ووٹ سے اقتدار میں آتی رہی ہیں ۔مگر تحریک انصاف کو عوام نے ووٹ ہی نہیں دیا ، بل کہ ان کی قیادت پہ مکمل اعتبار کیا ہے۔لگتا یہ ہے کہ اعتماد کا وزن بہت بھاری ہے جسے پی ٹی آئی اٹھا نہیں پارہی۔
عام آدمی جن مسائل کا شکار ہے عمران خان صاحب ان سے باخوبی واقف ہیں اوراس کا وہ برملا اظہار بڑے درد سے کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کیرئیرمیں شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال بنانے کا گولڈ میڈل ہے۔اس بار کام کی نوعیت شوکت خانم سے مختلف ہے ۔ اگر خان صاحب شوکت خانم کی طرح ملک کا معاشی حلیہ درست کرنے میں کامیاب ہوئے تو آئندہ کی نسلوں پہ ان کا احسان سمجھا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ جان لیں کہ وزیر اعظم کامنصب بڑا ہے تو فرض شناسی بھی خوب ہونی چاہیے۔ ملک میں اس وقت کئی بڑے مسائل میں سے ایک بے روزگاری ہے۔ نوجوان بے کار ہو رہا ہے۔ٹیلنٹ کی بے تحاشا ناقدری ہوتی ہے۔ ملک میں ناخواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ ہم خطرناک معاشی گراوٹ کا شکار ہیں۔ جس کی زندہ مثال ایشیائی اور ورلڈ بنک کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹیں ہیں۔
کئی سرکاری اداروں کا بھٹا بیٹھ چکا ہے ۔ ایوان نمائندگان کے ہوش اڑا دینے والے بیانات ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔ سب سے زیادہ تشویش نوجوانوں میں پائی جاتی ہے۔ ہم باصلاحیت نوجوانوں سے محروم ہو رہے ہیں ۔ایسے ہنر مند نوجوان ہی ہماری ترقی میں ناقابل یقین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ناقدری ،بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان یورپ اور عرب ملکوں میں غیر قانونی طریقے سے گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے یاتو پکڑا جاتا ہے یااکثر ہلاک کردیا جاتا ہے۔اور جو اللہ کی کرنی سے پہنچ بھی جاتے ہیں تو یہ ان ممالک میں اپنا ہنر ،صلاحیت بہتر روزگار کے حصول کے لیے کھپا دیتے ہیں۔ان نوجوانوں کا خواب اچھا مستقبل ہوتا ہے۔حکومت کی اب تک کی نمایاں کارکردگی میں ماسوائے صحت کارڈ کے اجرا کے ،غربت مکاؤ کے صرف دعوے رہ گئے ہیں۔باقی سب پشاور میٹرو بس اسٹیشن کی طرح ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے ۔
خان صاحب اور ان کے ورلڈ ماسٹر معاشی پیس آیے دن اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر عوام کی کمر توڑنے کی بجائے مہنگائی کے آگے بند باندھنے میں فیل ہو چکے ہیں۔کوئی مؤثر معاشی حکمت عملی کئی فرموں کی وارننگ کے بعد نہیں دکھی۔ غریب اشیاء خوردنوشی کے لیے پریشان ہے ۔عوام کو مہنگائی کے اژدھے نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔بظاہرتو عوامی سہولیات کے تمام تر حکومتی وعدے وفا ہوتے نظر نہیں آرہے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ پہلے غریب کا درد خان صاحب محسوس کرتے تھے ،اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے کہ غریب خان صاحب کو رورہاہے۔ مارکیٹ میں ہر بندہ پریشانی میں گھرا ہوا ہے ۔سرمایہ دار بجلی، گیس کے بلوں سیتنگ آکر مزدور طبقے کو اضافی بوجھ سمجھ کرفیکٹریوں ،کارخانوں ،ملوں سے نکال رہے ہیں ۔عام آدمی فاقوں کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ کون کہتا ہے کہ مہنگائی کا اثر غریب پر نہیں پڑتا۔پہلے سو روپے میں لمبا سفر کٹتا تھا ،اب موٹر سائکل دومرتبہ لٹانا پڑتی ہے۔
اسی طرح زراعت کے مسائل بھی کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔اگر ہمیں معاشی افریت سے نکلنا ہے تو حکومت غریب کسانوں کو ریلیف دیے اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کریے۔کسانوں کے لیے زرعی پالیسیاں بنائی جائیں اور انہیں جدید زرعی مشینری مہیا کی جائے ۔جس سے کسان کو براہ راست فائدہ پہنچے۔ پھر یہی کسان ملک میں بڑھتی بے روزگاری ،مہنگائی کو40 فیصد تک کم کردے گا۔ زراعت سے وابستہ غریب کسان سے پچھلی حکومتوں نے بہت زیادہ زیادتیاں کیں۔ لہذاموجودہ حکومت ان سب کاموں کو قابلِ متروک سمجھتے ہوئے ان پر عمل سے گریز کرے جو پچھلی حکومتوں نے انجام دیں۔ ن لیگ نے ’’خوش حال کسان‘‘ کا نعرہ تو لگایاتھا، مگر افسوس کہ پنجاب کے کسان کو سود کی لعنت سے نانکال سکی۔ سود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی بربادی کی جڑ کہا ،اس کو’’ خوش حالی‘‘ کا نسخہ اکسیر نہ سمجھاجائے۔ پنجاب کا عام کسان جس کی ایک دوایکڑ زمین ہے وہ بھی بنک کا مقروض ہے ۔ سود کی لعنت میں پھنس کر ملک کی معیشت کی کامیابی کے خواب نہ دیکھے جائیں ۔بلکہ ترجیحی بنیادوں پر صوبہ پنجاب سمیت پورے ملک کی زرعی انڈسٹری کو سود سے پاک کیا جائے۔حکومت سودی لین دین کا خاتمہ کر کے کسانوں کوآسان شرائط پر قرضہ حسنہ دے ۔ کیوں کہ ایسے قدامات کرکے ہی تحریک انصاف عوامی امیدوں پر پوری اتر سکتی ہے۔ورنہ اسے ایک عذابی حکومت سے تعبیر کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی فیصلہ خود کرے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں