قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک پیر صاحب بہت پہنچے ہوئے تھے۔ ایک دنیا ان کی کرامات کے گن گاتی تھی۔ دنیا بے شک ان کی مرید تھی لیکن بیگمیں کب کسی کو مانا کرتی ہیں۔ ایک دن بیگم صاحبہ صبح کے وقت صحن میں پلنگ بچھائے اس پر دراز تھیں۔ پیر صاحب نے بیگم کو مرعوب کرنے کیلئے عمل شروع کیا اور فضا میں اڑنے لگے۔ بار بار صحن کے اوپر سے گزرتے۔ کسی بزرگ شخصیت کو اس طرح فضا میں پرواز کرتے، لہراتے اور بل کھاتے دیکھ کر بیگم صاحبہ بہت متاثر ہوئیں اور جستجو میں پڑگئیں کہ آخر وہ بزرگ ہیں کون۔ پیر صاحب کچھ دیر بعد اپنے گھر میں داخل ہوئے اور بیگم کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ بیگم نے کہا کہ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے ایک بزرگ کو فضا میں پرواز کرتے دیکھا تھا کیا تم جانتے ہو کہ وہ بزرگ کون ہیں۔ پیر صاحب نے کہا ارے بیگم وہ میں ہی تو تھا۔ یہ سن کر بیگم نے ایک سڑا ہوا منھ بنا کر کہا، تب ہی میں کہوں کہ وہ ٹیڑھے ٹیڑھے کیوں اڑ رہے تھے۔
بات اتنی سی ہے ہم جس کے حامی ہوتے ہیں اس کی بڑی سے بڑی غلطی میں بھی حکمتیں اور دانائیاں نظر آنے لگتی ہیں اور جس کے مخالف ہوتے ہیں اس کا مسکرانا بھی زہر لگتا ہے۔ وہی بات جس کو ہم کسی خطا میں شمار کرتے نہیں تھکتے وہی بات جب ہم خود کررہے ہوتے ہیں تو سراسر “عطا” دکھائی دیتی ہے۔
فی زمانہ ایسا ہی کچھ سامنے آرہا ہے۔ سنہ 2018 کے الیکشن سے پہلے موجودہ حکمران پارٹی جو پہلے اپوزیشن میں ہوا کرتی تھی اس کو اس دور کی حکمران پارٹی کی جو جو باتیں زہر میں بجھے تیر و نشتر سے بھی زیادہ زہریلی اور عوام دشمن لگتی تھیں اب وہی ساری باتیں وقت کی مجبوری لگنے لگی ہیں۔
دعویٰ تھا کہ بہت ساری اشیا جن کی جو بھی قیمت وصول کی جارہی ہے وہ محض اس لئے زیادہ ہیں کہ ان پر ضرورت سے زیادہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور ٹیکس کی یہ زائد رقم حکمرانوں کی ذاتی جیب میں جاتی ہے۔ اگر یہ ٹیکس کم کر دیئے جائیں تو اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آدھی سے بھی کم ہو جائیں۔ اب جبکہ ان کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور ہے، اس وقت کی حکومت کے لگائے ٹیکسوں سے بھی کہیں زیادہ ٹیکس لگادینے اور قیمتیں بڑھادینے کو اپنی مجبوری میں شمارکیا جا رہا ہے۔ قرض تو ہے ہی ایک لعنت، لیکن اس کو کیا کیجئے کہ قرض کو لعنت کہنے والے اور اگر قرض لینا ہی پڑجائے تو خودکشی کرلینے کو ترجیح دینے والے کوئی ایسا در چھوڑنے کیلئے تیار نہیں جہاں سے دو چار روپے بطور قرض ملنے کا امکان ہو۔
خبر ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمرکشکول ہاتھ میں لئے آئی ایم ایف یاترا کرنے امریکہ پہنچ گئے ہیں اور توقع ہے کہ آئی ایم ایف سے کم از کم 12 ارب ڈالرز کا معاہدہ ہو جائے گا۔ باخبر ذریعے کے مطابق حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین ڈالر ریٹ سمیت تمام شرائط تقریباً طے ہوچکی ہیں اور اعلان کرنے کی بجائے ا س پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی حکومت خود بنائے گی۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بینکوں میں بچت کا نظام اور صارف میں تقسیم کمپیوٹرائزڈ کی جارہی ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم زرمبادلہ کے ذخائر کا حصہ بنے گی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ایک جانب روپے کی قدر مزید گرانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب سخت تشویشناک بات یہ ہے یہ قرض اس کڑی شرط کے ساتھ مل رہا ہے اس رقم کی ایک پھوٹی کوڑی بھی پاکستان ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہیں کر سکے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب اس رقم کو ترقیاتی کاموں پر خرچ نہیں کیا جا سکے گا تو پھر وہ وسائل کہاں سے اور کس رقم سے پیدا کرنے ہونگے جس کی آمدن سے اتنی گنجائش نکل آئے کہ قرض واپس کیا جا سکے؟۔ اس کا پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہر مد میں اتنے بھاری ٹیکس لگائے جائیں کہ قرض کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ باالفاظ دیگر اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ چند ماہ میں بجلی، پانی اور گیس کی قیمتوں کے علاوہ کھانے پینے کی عام اشیا تک کی قیمتیں آسمان تک پہنچ جائیں گی تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ شنید ہے کہ اگر حکومت ترقیاتی منصوبے شروع یا مکمل کرنا چاہتی ہے تو اسے عالمی بینک سے رجوع کرنا ہوگا۔
میرے ایک ٹیجر کہا کرتے تھے کہ قرض دینے والا اگر بدشکل سے بدشکل بھی ہو تو بہت حسین لگتا ہے جبکہ جو ہمیں قرض دینے والے ہیں وہ تو ہیں ہی بہت حسین۔ قرض بھی دے رہے ہوں اور حسین و جمیل بھی ہوں تو پھر ہر معاملے میں صبر جمیل کا مظاہرہ ہی کرنا پڑتا ہے۔ اسی قسم کا مظاہرہ موجودہ حکومت کر رہی ہے یعنی خود بھی صبر جمیل کر رہی ہے اور عوام کو بھی یہی تلقین کئے جارہی ہے کہ وہ کچھ کریں یا نہ کریں، صبر جمیل ضرور کریں اس لئے کہ وعدوں کے بر خلاف وہ بھاری سے بھاری اور کڑی سے کڑی شرائط پر قرض لینے پر اور ہر شے کی قیمت بڑھانے پر مجبور ہے۔
قرض نہ لینے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرنے، این آر او نہ کرنے جیسے بیشمار دعوؤں میں ایک دعویٰ اور بھی بہت بلند بانگ انداز میں کیا جارہا تھا اور وہ “ایمنسٹی اسکیم” کا تھا۔ ان تمام باتوں کو نہ صرف لعنت قرار دیا گیا تھا بلکہ پاکستان کی تباہی و بربادی کا سبب بھی گردانہ گیا تھا۔ قرض بھی لیا جارہا ہے، آئی ایم اور ورلڈ بینک کے پاس بھی دوڑیں لگائی جارہی ہیں، این آر او بھی مختلف شکلوں میں نظرآنے لگاہے اور اب ایمنسٹی اسکیم کا قانون (آرڈیننس) بھی پاس ہو چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم بینک ٹرانزیکشن قوانین پر عمل درآمد کے لیے لائی جارہی ہے۔ یہ سکیم اصل میں ایف اے ٹی ایف قوانین پر عمل کے لیے بھی ہے۔ حکومت کا خیال ہے بینک قوانین میں سختی لانے کے بعد بیرون ملک اور اندرون ملک، ٹیکس بچایا گیا ہے اور ٹیکس ایمننسٹی سکیم لا کر اس کے ذریعے دو سو ارب روپے اکٹھا کرنا ممکن ہو جائے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جو دعوے تھے وہ کیا ہوئے؟۔
ان ساری باتوں کا مدعا فقط اتنا ہے کہ ہم اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلیاں لائیں۔ اگر کوئی بات غلط ہے تو اسے بشمول خود، غلط ہی سمجھیں اور اگر کسی مجبوری کے تحت کسی بات کو، مثلاً قرض کی لعنت کو قبول ہی کرنا پڑجائے تو اسے بھی سب کی مجبوری ہی سمجھا جائے۔ کسی بات کا دعویٰ کرنے سے قبل اس بات کا جائزہ ضرور لیا جائے کہ کیا وہ قابل عمل بھی ہے۔ یہی اور ایسی ہی بیشمار باتوں کا اگر خیال رکھا جائے تو سیاسی ماحول میں بہت زیادہ بہتری آسکتی ہے اور سیاسی دوریوں اور نفرتوں کو صفر تک لایا جاسکتا ہے۔