تعلیم کا اولین مقصد انسانیت کی تعمیر ہے ۔دنیاوی تجربات سے آگاہی اور واقفیت ہی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔طلبہ کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا اور زندگی کی کشمکش کے لئے تیار کرنا ہی تعلیم کااولین مقصد ہے۔ایس مل کے مطابق ماحول کا تعلیم و تدریس پر گہر ا اثر پڑتا ہے۔ فروبل استاد کو ایک باغبان اور طالب علم کو ایک پودے سے تشبیہ دیتاہے۔باغبان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے باغ کے شجر سایہ دار ،ثمر آور اپنی خوب صورتی،لذت اور خوشبو میں یکتا و نمایاں ہوں۔ اسی طرح ایک معلم بھی علم کی قدر و منزلت طلباء میں پیدا کرتے ہوئے پسندیدہ معاشرتی اقدار کو پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم کا اہم کام زندگی کے لئے معاون و مددگار معلومات ،مہارتوں اور تجربات سے طلباء کو واقف کرنا ہے اگر تعلیم ان امور کا احاطہ نہیں کرتی ہے تووہ بے فیض تصور کی جاتی ہے۔ درس و تدریس کو جتنا آسان سمجھا لیا گیا ہے در حقیقت یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ہر بچہ کو حصول علم کے لئے اپنی ذات سے استفادہ کر نا ضروری ہوتا ہے۔اس ایک نکتہ کا استحصال کرتے ہوئے اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبا ء کی ذہنی سماجی معاشی حالات سے با خبر رہتے ہوئے حالات کے مطابق بچوں کی علمی تشنگی کو سیراب کرنے کے سامان فراہم کرے۔تعلیم و تربیت کے زمرے میں ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اکتساب کی ترقی اور تنزلی میں ماحول کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اجماع ہے کہ توارث ایک غیر متبدل اور اٹل شئے ہے جب کہ ماحول کو حسب منشاء و ضرورت ڈھا لا جا سکتا ہے۔تعلیمی دنیا میں اسی لئے ماحول کو ایک کارگر عامل گردانا گیا ہے۔اکتسابی نظام کے دو اہم جزو ایک وہ پر جوش طلبہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ تبدیل کرنے کا جویا رکھتے ہیں جب کہ دوسرا اہم جزو ماحول ہوتا ہے۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول اسکول انتظامیہ ،اساتذہ ،والدین اور طلبہ کے مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔سازگار ماحول کو وجود میں لائے بغیر کسی بھی قسم کی اکتسابی سرگرمی بے فیض اور وقت کا خسران ثابت ہوتی ہے۔ نافع اکتساب کے لئے سازگار ماحول (Conducive Atmosphere) کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ کے اکتسابی سفر کو آسان پر کیف اور دلچسپ بنا نے کے لئے انتظامیہ ،اساتذہ اور والدین سازگار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔طلبہ کی بھلائی اور اکتساب کے فروغ کے لئے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا جو انھیں سیکھنے کے لامحدود مواقع فراہمکرے۔اگر اکتساب کے لئے طلبہ کو موزوں ،محتاط ،حوصلہ افزا اور سازگار صحت مند ما حول فراہم کیا جائے تو تحصیل علم کے لئے طلباء پیش قدمی کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔اکتسابی ماحول اگر سازگار ہوتوطلباء میں اکتساب کے لئے اپنے آپ تحریک پیدا ہوگی،سیکھنے کی شدید امنگ ابھرے گی۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول کو وجود میں لاتے ہوئے اساتذہ تدریسی فرائض کو بہتر انجام دینے کے علاوہ طلبہ کے اکتساب میں تیزی اور سرگرمی کو نوٹ کر سکتے ہیں۔ بہتر اکتسابی ماحول کی وجہ سے معلومات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور طلبہ میں معلومات کو بروقت استعمال کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کمرۂ جماعت میں سازگار ماحول کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے اساتذہ سود مند اکتساب کی فراہمی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بچوں میں سیکھنے کا عمل مفلوج ہوجاتا ہے۔ معاون و محتاط منصوبہ بند اکتسابی ماحول طلبہ کو غیر فعال اکتساب (passive learning) کا شکار ہونے سے نہ صرف محفوظ رکھتا ہیبلکہ طلبہ کو اکتسابی امور میں سرگرمی سے حصہ لینے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔ بہتر تعلیمی ماحول کی بنا پرطلبہ میں سود مند اکتسابی نظریات و تجربات پرورش پاتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تھوڑی سی توانائی اگر اکتسابی ماحول کو پیدا کرنے میں صرف کردیں تب تدریس ان کے لئے ایک نہایت ہی پرکیف آسودہ اور آسان کاز ہوجاتا ہے۔ تدریسی فرائض کو وہ بحسن و خوبی نہایت آرام و اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ساز گار تعلیمی ماحول طلبہ میں اکتسابی خواہش کو مہمیز کرنے کے علاوہ اکتسابی پیش قدمی کا بھی متحمل بناتا ہے۔ ترقی پذیر اکتساب کے لئے لازمی اوصاف جیسے تجسس ،تحقیق،اختراعی انداز فکر،تخلیقیت،معیاری سوجھ بوجھ، کے علاوہ ازخود اکتساب کی تحریک طلبہ میں سازگار اکتسابی ماحول کی وجہ سے از خود فروغ پاتے ہیں جس سے اکتساب کی صلاحیت تیز تر ہوجاتی ہے۔دیانت دار اور تدریس سے محبت کرنے والے اساتذہ اکتسابی دلچسپیوں کے فروغ میں ممد و معاون اشتراکی اکتسابی(contributory learning) ماحول کو جود میں لائیں۔اشتراکی اکتسابی ماحول طلبہ میں سیکھنے کے عمل کے فروغ میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔اشتراکی اکتسابی ماحول کے تحت حاصل شدہ تجربات بھی طلبہ میں اکتساب کو استحکام بخشتے ہیں جس سے طلبہ کے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہونے کے علاوہ معلومات بھی ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔
سازگار اکتسابی ماحول کے لئے معاون عناصر؛۔اکتسابی ترقی کے لئے چند معاون اور قیمتی عناصر پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ موثرو موزوں تعلیمی حالات کو وجود میں لاسکتے ہیں۔ ان عناصر کے علاوہ دوران تدریس دریافت شدہ طریقہ تدریس، حکمت عملیوں کے ذریعہ اساتذہ سازگار تعلیمی ماحول کو ترتیب دے سکتے ہیں۔درج ذیل بنیادی عوامل کو جب دلچسپ طریقہ سے نافذ کیاجاتا ہے تو طلبہ کے اکتساب کے لئے درکار سازگار اکتسابی ماحول ہموار ہوتا ہے۔
(1)بہتر اکتساب کے لئے متعلم کی سرگرم شمولیت لازمی ہوتی ہے اسی لئے طلبہ کو باربار اکتسابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کریں تاکہ طلبا کو اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے علاوہ کرو اور سیکھو(Learn by Doing)کا موقع ملے
(2)تدریسی سرگرمیوں میں جذبہ تحریک کو نما یاں جگہ دی جائے تاکہ اکتساب میں طلباء دلچسپی لیں۔دلچسپی سیکھنے کی عمل کو تیز کرتی ہے۔طلبہ کو اگر مناسب طریقہ سے ترغیب و تحریک دی گئی تو وہ نئے معلومات کے حصول میں اپنی توانیاں صرف کردیتے ہیں۔
(3)طلبہ کو ذہنی طور پر ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں اور ان میں پائے جانے والے احسا س عدم تحفظ پر قابو پائیں۔ طلبہ میں ذہنی اضطراب اور بندیشوں سے آزادی کے ذریعہ اکتساب میں اضافہ ہوگا اور وہ اکتسابی تجربات کو استعمال کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔
(4)اساتذہ کی جانب سے تیارکردہ حکمت عملی و منصوبہ بندی سے اکتساب کی ضرورت متعلم پر مترشح ہو جانا چاہیئے ۔طلبہ پر جب اکتساب کی ضرورت عیاں ہوجاتی ہے تو اکتساب کا عمل بھی بامعنی ہوجاتا ہے۔
(6)ٓاکتسابی عمل کے دوران طلبہ کے علمی استحکام کے لئے مشق اور تجربہ کرنے کے وافر مواقع عطاکیئے جائیں تاکہ اکتساب طلبہ کے لئے پرکیف اور بامعنی عمل بن جائے۔
(6)طلبہ میں خود کار اکتساب کی حوصلہ افزائی کے لئے مناسب مواقع فراہم کریں تاکہ طلبہ میں اکتسابی تجربات کے متعلق اطمینان کی فضاء پیدا کی جائے جوسیکھنے کے عمل میں مزید تحریک کا باعث ہوتی ہے۔
(7)اساتذہ درس و تدریس کے دوران لگاتار بچوں کی حو صلہ افزائی کرتے رہیں پوچھے جانے والے سوالات کی جانچ کریں صحیح جوابت پر تعریف و توصیف سے کام لیں اور غلطی کرنے والے طلبہ کی تحقیر سے اجتناب کریں اور صحیح جواب کی سمت ان کی رہنمائی کریں۔اس سے ان میں احساس جاگزیں ہوگا کہ وہ استاد کے پاس اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی شخصییت بھی اہمیت رکھتی ہے۔
(8)طلبہ کے انفرادی نظریات کی جانچ کریں اختراعی صلاحیت کی ہمت افزائی کی جائے۔طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اکتسابی عمل کو ممکن بنائیں تاکہ وہ مسائل سے سامنا کرنے کے قابل بن سکیں۔یہ عمل طلبہ میں اکتساب کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
(9)صرف نصابی سرگرمیوں پر توانیاں نہ صرف کی جائیں بلکہ طلبہ کی پوشیدہ فطری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش بھی ضروری ہے۔صرف نصابی سرگرمیوں کو جب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو طلبہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دباؤ اکتسابی عمل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
(10)سازگار اکتسابی ماحول صحت مند باہمی گفت وشنیدکے ذریعے آپسی تعلقات کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتا ہے ۔باہمی تعاون کے ذریعے اکتساب میں نہ صرف اضا فہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ معلومات کے تبادلے کے ذریعہ خود اعتمادی کی فضاء بھی پیدا ہوتی ہے۔
(11)معلوم سے نا معلوم تشریح سے تجزیہ ،آسان سے پیچیدہ (مشکل) ،جزو سے کل ،ٹھوس سے خلاصہ کی سمت گامزن تدریسی طریقے طلبہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو پرکیف بنادیتے ہیں جس سے اکتساب کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
(12)سرگرمیوں پر مبنی تدریس،تدریس سرگرمیوں کی ترتیب میں لچک اور طلبہ کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سازگار اکتسابی ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مثالی کمرۂ جماعت کی تزئین و ترتیب؛۔کامیابی کے لئے حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ جنگ ہو،کھیل،مہم جوئی یا پھر تدریسی محاذ۔تدریسی عمل میں کمرۂ جماعت کو مکمل قابو میں رکھنے کے لئے استاد کے لئے حکمت عملی کا استعمال ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ طلبہ کو اکتساب کی مثبت شاہراہ پر گامزن رکھ سکتا ہے۔مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل کے ذریعہ طلبہ کو اکتساب کی جانب آسانی سے راغب کیا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی توجہ صرف نفس مضمون کی تدریس پر نہ رہے کہ کیا پڑھا یا جائے بلکہ اساتذہ اپنی توجہ کو طلبہ کی اکتسابی حالت اور ماحول کی طرف بھی مرکوز کریں تاکہ موثر تدریس کی انجام دہی کو ممکن بنایا جاسکے۔مختلف طریقوں اور حکمت عملی کی ذریعہ ایک بے جان کمرۂ جماعت کو فعال تدریسی مرکز میں تبدیل کی جاسکتا ہے۔اساتذہ کمرۂ جماعت کو طالب علم مرکوز جماعت میں تبدیل کردیں جہاں بچوں کو تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ اکتساب کی جانب مائل و راغب کیا جاسکے۔طلباء چشمہء علم سے اپنی تشنگی کو بجھاسکیں اور جہا ں اعلی سے اعلی اکتساب کی راہیں وا ہو جائیں۔وہ کمرۂ جماعت جہاں طلبہ کی حو صلہ افزائی اور موثر اکتساب کے لئے رہبر ی و رہنمائی کی جاتی ہے وہ طلبہ اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جاتے ہیں اورایسے ہی کمرۂ جماعت کو معیاری اکتسابی مرکز سے معنون کیا جاتا ہے۔خراب کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین کے باعث طلبا کے اکتساب پر بر ے اثرات مر تب ہوتے ہیں اس سے نہ صرف کمزور طلبہ نبر د آزما ہوتے ہیں بلکہ روشن دماغ قابل طلبہ بھی اس آندھی میں تنکے کی مانند اڑجاتے ہیں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت کی فضاؤں کو مکدر کردینے والے احوال سے واقف کرانا بھی اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ خوش اسلوبی اور مکمل یکسوئی سے تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں۔ کمرۂ جماعت کی فضاکو خوش گوار بنانے کے لئے مدرس اپنی تمام تر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ ذیل میں مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل و ترتیب میں معاون نکات کو تحر یر کیا گیا ہے۔
(1)طلبہ کو بغیر مفہوم و مطلب کے اکتساب سے باز رکھتے ہوئے ان کی توجہ پر معنی اور وسیع اکتساب کی طرف مبذول کروائی جائے۔جامع جانچ کے ذریعہ طلبہ کے نقائص کو دور کیا جائے۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو طلبہ کی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا جائے۔اس عمل کے ذریعہ ہر طالب علم ا پناحصہ لینے کے ساتھ دینے والے کا کردار بھی انجام دے سکے گا۔
(2)کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کے لئے ایسا معاون اور مددگار بنایا جائے جہاں پرکمرۂ جماعت ہر وقت اساتذہ کی شفقت اور محبت سے معمور و منور رہے۔ اساتذہ اپنی شفقت ومحبت اور بروقت مسائل کی یکسوئی کے ذریعہ طلبہ میں اطمینان اور آسودگی کی فضاء کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے طلبہ میں اکتسابی ترقی اور تیز ہونے کے علاوہ طلبہ بغیر کسی شدو مد اور پس و پیش کے اپنے مسائل کو اساتذہ کے روبرو پیش کرنے میں تامل نہیں کر یں گے۔
(3)ہر طالب علم کو دوسروں کی قدر دانی کے جذبے سے متصف کر نا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے ہم جماعت کی کسی بھی مشکل وقت میں مدد سے جی نہ چرائے۔اس عمل سے طلبہ میں ایک دوسرے پر بھروسہ و یقین کا جذبہ فروغ پاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ احسا س ذمہ داری کے زیور سے بھی طلبہ آراستہ ہوجاتے ہیں۔
(4)کمرۂ جماعت میں انجام دی جانی والی تدریسی سرگرمیاں طلبہ میں اختراعی انداز فکر اور تخلیقیت کو فروغ دینے میں معاون ہونا چاہیئے جس کے ذریعہ طلبہ میں مسائل کو حل کرنے کے لئے تحقیق و جستجو کو پروان چڑھانے کے ساتھ سوجھ بوجھ کی صلاحیت پیدا ہوسکے اور باہمی اکتساب کی فضاء بھی ہموار ہوسکے۔
(5)کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے نظم و ضبط کے اصولو ں سے طلبہ کو آگا ہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے عمل اور ردعمل میں احیتاط کو ملحوظ رکھیں تا کہ ان کی ایک جامع شخصیت کی تشکیل کو ممکن بنایا جاسکے۔اگر تما م طلبہ کا طرز عمل جماعت میں بہتر ہوگا تب ہی کمرۂ جماعت کے اکتساب کا ماحول بھی سازگار ہوگا۔
(6)کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ان کی کارکردگی سے واقف کیا جائے ان کو ان کے اکتساب کے طاقتور پہلوؤں سے واقف کروانے کے علاوہ کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی کیاجائے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کو بام عروج تک لے جا سکیں۔اکتسابی تنوع کے مسائل کے لئے کمرۂ جماعت میں مددگار رویہ اختیار کرنے سے طلبہ میں کمرۂ جماعت کے اکتساب میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے اور استاد کے درس و تدریس سے ایک گوناگوں سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت میں مستعمل تدریسی حکمت عملیوں کے ذریعہ طلباء میں غور و فکر کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔غور و فکر ، فہم و ادراک اور اطلاق و انطباق کی صلاحیت کے ذریعہ طلبہ میں کئی اہم مہارتیں مضبوط ومستحکم ہوجاتی ہیں۔معلومات کی کھوج اور دوسروں سے معلومات کے تبادلہ کے وجہ سے بچوں میں اکتساب کی ضرورت کے تحت اندرونی محرکہ بہت زیادفروغ ہوتا ہے۔
(8)کمرۂ جماعت میں معلومات اور علم کی ترسیل میں اہم وسیلہ کا کام انجام دینے والی تعلیمی اشیاء کی موجودگی لازمی تصور کی جاتی ہے۔مددگار تعلیمی اشیاء آلات و اوزاروں کو بہتر طریقے سے ترتیب دیں تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب اور خوبصورتی کی بہتر عکاسی ہوسکے۔
مثبت اکتسابی ماحول کے فوائد؛۔ کمرۂ جماعت میں ایک سازگار اکتسابی ماحول تشکیل و ترتیب کے فوائد پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے۔تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین میں مناسب طریقوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔
(۱)سازگار اکتسابی ماحول اکتساب کے لئے طلبہ کو آمادہ کر تا ہے۔
(2)طلباء کی تعلیمی ضروریات کے مطابق کارآمد تدریس انجام دی جاتی ہے۔
(3)طلبہ کی اکتسابی صلاحیتیں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(4)سست متعلم(slow learner) بھی اچھی کارکردگی انجام دینے کی ترغیب و تحریک پاتے ہیں۔
(۵)انفرادی طرز عمل اور نظم و ضبط میں عمدگی پیدا ہوتی ہے۔
(6)گزرتے وقت کے ساتھ ہر طالب علم میں بہتر سے بہتر کارکردگی انجام دینے کا یقین جاگزیں ہوتا جاتا ہے۔
(7)فطری صلاحیت اور قابلیت کے اظہار کے لئے اسٹیج دستیاب ہوتا ہے۔
(8)سازگار ماحول کی وجہ سے اکتساب منظم اور مبنی بر مقاصد ہوجا تاہے۔
(9)کمرۂ جماعت کا سازگار ماحول سنجیدہ فکر (Critical Thinking)اور تخلیقیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
(10)عملی کام کے معیار میں بہتر ی واقع ہوتی ہے۔
(11)تخیل کی پرواز اور دانشمندی کو فروغ ملتا ہے۔
(12)تعلیمی ،گفت و شنید اور دیگر زندگی کے لئے معاون مہارتیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔
(13)طلبہ میں مثبت رویوں کے فروغ کے ذریعہ خود اعتادی پیدا ہوتی ہے۔
(14)متواتر اشتراکی اکتسابی کے بناء پر باہمی تعلقات میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے۔
(15)عمدہ عادات و اقدار کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا جذبہ جاگزیں ہوتا ہے۔ہر بچہ کسی نہ کسی فطری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے جس کی نمو و فروغ کے لئے تربیت ضرورت ہوتی ہے جو بچہ کو اسکول فراہم کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے خیال کیا جاتا ہے کہ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکول ایک درسگاہ ہے اور تعلیم دینے کے سوائے اس کا اور کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اسکول ہی واحد ذریعہ تعلیم نہیں ہے جہاں بچہ زندگی کے تما م حقائق سے آگہی حا صل کر تا ہے۔ بچے کے گردو پیش کے احوال ہر پل اس کو اکتساب کی سمت مائل رکھتے ہیں۔ والدین اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کی فلاح و بہبو د کے لئے تدریس میں نفسیاتی پہلووں کو پیش نظر رکھیں جس کے ذریعہ ایک خوش گوار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔نفسیاتی امور سے نا آشنا والدین ،اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کو اکتساب سے دور کردینے کے علاوہ ملک و ملت کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...