تعلیم کا اولین مقصد انسانیت کی تعمیر ہے ۔دنیاوی تجربات سے آگاہی اور واقفیت ہی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔طلبہ کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا اور زندگی کی کشمکش کے لئے تیار کرنا ہی تعلیم کااولین مقصد ہے۔ایس مل کے مطابق ماحول کا تعلیم و تدریس پر گہر ا اثر پڑتا ہے۔ فروبل استاد کو ایک باغبان اور طالب علم کو ایک پودے سے تشبیہ دیتاہے۔باغبان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے باغ کے شجر سایہ دار ،ثمر آور اپنی خوب صورتی،لذت اور خوشبو میں یکتا و نمایاں ہوں۔ اسی طرح ایک معلم بھی علم کی قدر و منزلت طلباء میں پیدا کرتے ہوئے پسندیدہ معاشرتی اقدار کو پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم کا اہم کام زندگی کے لئے معاون و مددگار معلومات ،مہارتوں اور تجربات سے طلباء کو واقف کرنا ہے اگر تعلیم ان امور کا احاطہ نہیں کرتی ہے تووہ بے فیض تصور کی جاتی ہے۔ درس و تدریس کو جتنا آسان سمجھا لیا گیا ہے در حقیقت یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ہر بچہ کو حصول علم کے لئے اپنی ذات سے استفادہ کر نا ضروری ہوتا ہے۔اس ایک نکتہ کا استحصال کرتے ہوئے اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبا ء کی ذہنی سماجی معاشی حالات سے با خبر رہتے ہوئے حالات کے مطابق بچوں کی علمی تشنگی کو سیراب کرنے کے سامان فراہم کرے۔تعلیم و تربیت کے زمرے میں ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اکتساب کی ترقی اور تنزلی میں ماحول کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اجماع ہے کہ توارث ایک غیر متبدل اور اٹل شئے ہے جب کہ ماحول کو حسب منشاء و ضرورت ڈھا لا جا سکتا ہے۔تعلیمی دنیا میں اسی لئے ماحول کو ایک کارگر عامل گردانا گیا ہے۔اکتسابی نظام کے دو اہم جزو ایک وہ پر جوش طلبہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ تبدیل کرنے کا جویا رکھتے ہیں جب کہ دوسرا اہم جزو ماحول ہوتا ہے۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول اسکول انتظامیہ ،اساتذہ ،والدین اور طلبہ کے مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔سازگار ماحول کو وجود میں لائے بغیر کسی بھی قسم کی اکتسابی سرگرمی بے فیض اور وقت کا خسران ثابت ہوتی ہے۔ نافع اکتساب کے لئے سازگار ماحول (Conducive Atmosphere) کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ کے اکتسابی سفر کو آسان پر کیف اور دلچسپ بنا نے کے لئے انتظامیہ ،اساتذہ اور والدین سازگار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔طلبہ کی بھلائی اور اکتساب کے فروغ کے لئے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا جو انھیں سیکھنے کے لامحدود مواقع فراہمکرے۔اگر اکتساب کے لئے طلبہ کو موزوں ،محتاط ،حوصلہ افزا اور سازگار صحت مند ما حول فراہم کیا جائے تو تحصیل علم کے لئے طلباء پیش قدمی کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔اکتسابی ماحول اگر سازگار ہوتوطلباء میں اکتساب کے لئے اپنے آپ تحریک پیدا ہوگی،سیکھنے کی شدید امنگ ابھرے گی۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول کو وجود میں لاتے ہوئے اساتذہ تدریسی فرائض کو بہتر انجام دینے کے علاوہ طلبہ کے اکتساب میں تیزی اور سرگرمی کو نوٹ کر سکتے ہیں۔ بہتر اکتسابی ماحول کی وجہ سے معلومات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور طلبہ میں معلومات کو بروقت استعمال کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کمرۂ جماعت میں سازگار ماحول کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے اساتذہ سود مند اکتساب کی فراہمی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بچوں میں سیکھنے کا عمل مفلوج ہوجاتا ہے۔ معاون و محتاط منصوبہ بند اکتسابی ماحول طلبہ کو غیر فعال اکتساب (passive learning) کا شکار ہونے سے نہ صرف محفوظ رکھتا ہیبلکہ طلبہ کو اکتسابی امور میں سرگرمی سے حصہ لینے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔ بہتر تعلیمی ماحول کی بنا پرطلبہ میں سود مند اکتسابی نظریات و تجربات پرورش پاتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تھوڑی سی توانائی اگر اکتسابی ماحول کو پیدا کرنے میں صرف کردیں تب تدریس ان کے لئے ایک نہایت ہی پرکیف آسودہ اور آسان کاز ہوجاتا ہے۔ تدریسی فرائض کو وہ بحسن و خوبی نہایت آرام و اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ساز گار تعلیمی ماحول طلبہ میں اکتسابی خواہش کو مہمیز کرنے کے علاوہ اکتسابی پیش قدمی کا بھی متحمل بناتا ہے۔ ترقی پذیر اکتساب کے لئے لازمی اوصاف جیسے تجسس ،تحقیق،اختراعی انداز فکر،تخلیقیت،معیاری سوجھ بوجھ، کے علاوہ ازخود اکتساب کی تحریک طلبہ میں سازگار اکتسابی ماحول کی وجہ سے از خود فروغ پاتے ہیں جس سے اکتساب کی صلاحیت تیز تر ہوجاتی ہے۔دیانت دار اور تدریس سے محبت کرنے والے اساتذہ اکتسابی دلچسپیوں کے فروغ میں ممد و معاون اشتراکی اکتسابی(contributory learning) ماحول کو جود میں لائیں۔اشتراکی اکتسابی ماحول طلبہ میں سیکھنے کے عمل کے فروغ میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔اشتراکی اکتسابی ماحول کے تحت حاصل شدہ تجربات بھی طلبہ میں اکتساب کو استحکام بخشتے ہیں جس سے طلبہ کے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہونے کے علاوہ معلومات بھی ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔
سازگار اکتسابی ماحول کے لئے معاون عناصر؛۔اکتسابی ترقی کے لئے چند معاون اور قیمتی عناصر پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ موثرو موزوں تعلیمی حالات کو وجود میں لاسکتے ہیں۔ ان عناصر کے علاوہ دوران تدریس دریافت شدہ طریقہ تدریس، حکمت عملیوں کے ذریعہ اساتذہ سازگار تعلیمی ماحول کو ترتیب دے سکتے ہیں۔درج ذیل بنیادی عوامل کو جب دلچسپ طریقہ سے نافذ کیاجاتا ہے تو طلبہ کے اکتساب کے لئے درکار سازگار اکتسابی ماحول ہموار ہوتا ہے۔
(1)بہتر اکتساب کے لئے متعلم کی سرگرم شمولیت لازمی ہوتی ہے اسی لئے طلبہ کو باربار اکتسابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کریں تاکہ طلبا کو اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے علاوہ کرو اور سیکھو(Learn by Doing)کا موقع ملے
(2)تدریسی سرگرمیوں میں جذبہ تحریک کو نما یاں جگہ دی جائے تاکہ اکتساب میں طلباء دلچسپی لیں۔دلچسپی سیکھنے کی عمل کو تیز کرتی ہے۔طلبہ کو اگر مناسب طریقہ سے ترغیب و تحریک دی گئی تو وہ نئے معلومات کے حصول میں اپنی توانیاں صرف کردیتے ہیں۔
(3)طلبہ کو ذہنی طور پر ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں اور ان میں پائے جانے والے احسا س عدم تحفظ پر قابو پائیں۔ طلبہ میں ذہنی اضطراب اور بندیشوں سے آزادی کے ذریعہ اکتساب میں اضافہ ہوگا اور وہ اکتسابی تجربات کو استعمال کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔
(4)اساتذہ کی جانب سے تیارکردہ حکمت عملی و منصوبہ بندی سے اکتساب کی ضرورت متعلم پر مترشح ہو جانا چاہیئے ۔طلبہ پر جب اکتساب کی ضرورت عیاں ہوجاتی ہے تو اکتساب کا عمل بھی بامعنی ہوجاتا ہے۔
(6)ٓاکتسابی عمل کے دوران طلبہ کے علمی استحکام کے لئے مشق اور تجربہ کرنے کے وافر مواقع عطاکیئے جائیں تاکہ اکتساب طلبہ کے لئے پرکیف اور بامعنی عمل بن جائے۔
(6)طلبہ میں خود کار اکتساب کی حوصلہ افزائی کے لئے مناسب مواقع فراہم کریں تاکہ طلبہ میں اکتسابی تجربات کے متعلق اطمینان کی فضاء پیدا کی جائے جوسیکھنے کے عمل میں مزید تحریک کا باعث ہوتی ہے۔
(7)اساتذہ درس و تدریس کے دوران لگاتار بچوں کی حو صلہ افزائی کرتے رہیں پوچھے جانے والے سوالات کی جانچ کریں صحیح جوابت پر تعریف و توصیف سے کام لیں اور غلطی کرنے والے طلبہ کی تحقیر سے اجتناب کریں اور صحیح جواب کی سمت ان کی رہنمائی کریں۔اس سے ان میں احساس جاگزیں ہوگا کہ وہ استاد کے پاس اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی شخصییت بھی اہمیت رکھتی ہے۔
(8)طلبہ کے انفرادی نظریات کی جانچ کریں اختراعی صلاحیت کی ہمت افزائی کی جائے۔طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اکتسابی عمل کو ممکن بنائیں تاکہ وہ مسائل سے سامنا کرنے کے قابل بن سکیں۔یہ عمل طلبہ میں اکتساب کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
(9)صرف نصابی سرگرمیوں پر توانیاں نہ صرف کی جائیں بلکہ طلبہ کی پوشیدہ فطری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش بھی ضروری ہے۔صرف نصابی سرگرمیوں کو جب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو طلبہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دباؤ اکتسابی عمل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
(10)سازگار اکتسابی ماحول صحت مند باہمی گفت وشنیدکے ذریعے آپسی تعلقات کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتا ہے ۔باہمی تعاون کے ذریعے اکتساب میں نہ صرف اضا فہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ معلومات کے تبادلے کے ذریعہ خود اعتمادی کی فضاء بھی پیدا ہوتی ہے۔
(11)معلوم سے نا معلوم تشریح سے تجزیہ ،آسان سے پیچیدہ (مشکل) ،جزو سے کل ،ٹھوس سے خلاصہ کی سمت گامزن تدریسی طریقے طلبہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو پرکیف بنادیتے ہیں جس سے اکتساب کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
(12)سرگرمیوں پر مبنی تدریس،تدریس سرگرمیوں کی ترتیب میں لچک اور طلبہ کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سازگار اکتسابی ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مثالی کمرۂ جماعت کی تزئین و ترتیب؛۔کامیابی کے لئے حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ جنگ ہو،کھیل،مہم جوئی یا پھر تدریسی محاذ۔تدریسی عمل میں کمرۂ جماعت کو مکمل قابو میں رکھنے کے لئے استاد کے لئے حکمت عملی کا استعمال ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ طلبہ کو اکتساب کی مثبت شاہراہ پر گامزن رکھ سکتا ہے۔مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل کے ذریعہ طلبہ کو اکتساب کی جانب آسانی سے راغب کیا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی توجہ صرف نفس مضمون کی تدریس پر نہ رہے کہ کیا پڑھا یا جائے بلکہ اساتذہ اپنی توجہ کو طلبہ کی اکتسابی حالت اور ماحول کی طرف بھی مرکوز کریں تاکہ موثر تدریس کی انجام دہی کو ممکن بنایا جاسکے۔مختلف طریقوں اور حکمت عملی کی ذریعہ ایک بے جان کمرۂ جماعت کو فعال تدریسی مرکز میں تبدیل کی جاسکتا ہے۔اساتذہ کمرۂ جماعت کو طالب علم مرکوز جماعت میں تبدیل کردیں جہاں بچوں کو تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ اکتساب کی جانب مائل و راغب کیا جاسکے۔طلباء چشمہء علم سے اپنی تشنگی کو بجھاسکیں اور جہا ں اعلی سے اعلی اکتساب کی راہیں وا ہو جائیں۔وہ کمرۂ جماعت جہاں طلبہ کی حو صلہ افزائی اور موثر اکتساب کے لئے رہبر ی و رہنمائی کی جاتی ہے وہ طلبہ اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جاتے ہیں اورایسے ہی کمرۂ جماعت کو معیاری اکتسابی مرکز سے معنون کیا جاتا ہے۔خراب کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین کے باعث طلبا کے اکتساب پر بر ے اثرات مر تب ہوتے ہیں اس سے نہ صرف کمزور طلبہ نبر د آزما ہوتے ہیں بلکہ روشن دماغ قابل طلبہ بھی اس آندھی میں تنکے کی مانند اڑجاتے ہیں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت کی فضاؤں کو مکدر کردینے والے احوال سے واقف کرانا بھی اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ خوش اسلوبی اور مکمل یکسوئی سے تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں۔ کمرۂ جماعت کی فضاکو خوش گوار بنانے کے لئے مدرس اپنی تمام تر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ ذیل میں مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل و ترتیب میں معاون نکات کو تحر یر کیا گیا ہے۔
(1)طلبہ کو بغیر مفہوم و مطلب کے اکتساب سے باز رکھتے ہوئے ان کی توجہ پر معنی اور وسیع اکتساب کی طرف مبذول کروائی جائے۔جامع جانچ کے ذریعہ طلبہ کے نقائص کو دور کیا جائے۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو طلبہ کی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا جائے۔اس عمل کے ذریعہ ہر طالب علم ا پناحصہ لینے کے ساتھ دینے والے کا کردار بھی انجام دے سکے گا۔
(2)کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کے لئے ایسا معاون اور مددگار بنایا جائے جہاں پرکمرۂ جماعت ہر وقت اساتذہ کی شفقت اور محبت سے معمور و منور رہے۔ اساتذہ اپنی شفقت ومحبت اور بروقت مسائل کی یکسوئی کے ذریعہ طلبہ میں اطمینان اور آسودگی کی فضاء کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے طلبہ میں اکتسابی ترقی اور تیز ہونے کے علاوہ طلبہ بغیر کسی شدو مد اور پس و پیش کے اپنے مسائل کو اساتذہ کے روبرو پیش کرنے میں تامل نہیں کر یں گے۔
(3)ہر طالب علم کو دوسروں کی قدر دانی کے جذبے سے متصف کر نا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے ہم جماعت کی کسی بھی مشکل وقت میں مدد سے جی نہ چرائے۔اس عمل سے طلبہ میں ایک دوسرے پر بھروسہ و یقین کا جذبہ فروغ پاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ احسا س ذمہ داری کے زیور سے بھی طلبہ آراستہ ہوجاتے ہیں۔
(4)کمرۂ جماعت میں انجام دی جانی والی تدریسی سرگرمیاں طلبہ میں اختراعی انداز فکر اور تخلیقیت کو فروغ دینے میں معاون ہونا چاہیئے جس کے ذریعہ طلبہ میں مسائل کو حل کرنے کے لئے تحقیق و جستجو کو پروان چڑھانے کے ساتھ سوجھ بوجھ کی صلاحیت پیدا ہوسکے اور باہمی اکتساب کی فضاء بھی ہموار ہوسکے۔
(5)کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے نظم و ضبط کے اصولو ں سے طلبہ کو آگا ہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے عمل اور ردعمل میں احیتاط کو ملحوظ رکھیں تا کہ ان کی ایک جامع شخصیت کی تشکیل کو ممکن بنایا جاسکے۔اگر تما م طلبہ کا طرز عمل جماعت میں بہتر ہوگا تب ہی کمرۂ جماعت کے اکتساب کا ماحول بھی سازگار ہوگا۔
(6)کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ان کی کارکردگی سے واقف کیا جائے ان کو ان کے اکتساب کے طاقتور پہلوؤں سے واقف کروانے کے علاوہ کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی کیاجائے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کو بام عروج تک لے جا سکیں۔اکتسابی تنوع کے مسائل کے لئے کمرۂ جماعت میں مددگار رویہ اختیار کرنے سے طلبہ میں کمرۂ جماعت کے اکتساب میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے اور استاد کے درس و تدریس سے ایک گوناگوں سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت میں مستعمل تدریسی حکمت عملیوں کے ذریعہ طلباء میں غور و فکر کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔غور و فکر ، فہم و ادراک اور اطلاق و انطباق کی صلاحیت کے ذریعہ طلبہ میں کئی اہم مہارتیں مضبوط ومستحکم ہوجاتی ہیں۔معلومات کی کھوج اور دوسروں سے معلومات کے تبادلہ کے وجہ سے بچوں میں اکتساب کی ضرورت کے تحت اندرونی محرکہ بہت زیادفروغ ہوتا ہے۔
(8)کمرۂ جماعت میں معلومات اور علم کی ترسیل میں اہم وسیلہ کا کام انجام دینے والی تعلیمی اشیاء کی موجودگی لازمی تصور کی جاتی ہے۔مددگار تعلیمی اشیاء آلات و اوزاروں کو بہتر طریقے سے ترتیب دیں تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب اور خوبصورتی کی بہتر عکاسی ہوسکے۔
مثبت اکتسابی ماحول کے فوائد؛۔ کمرۂ جماعت میں ایک سازگار اکتسابی ماحول تشکیل و ترتیب کے فوائد پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے۔تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین میں مناسب طریقوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔
(۱)سازگار اکتسابی ماحول اکتساب کے لئے طلبہ کو آمادہ کر تا ہے۔
(2)طلباء کی تعلیمی ضروریات کے مطابق کارآمد تدریس انجام دی جاتی ہے۔
(3)طلبہ کی اکتسابی صلاحیتیں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(4)سست متعلم(slow learner) بھی اچھی کارکردگی انجام دینے کی ترغیب و تحریک پاتے ہیں۔
(۵)انفرادی طرز عمل اور نظم و ضبط میں عمدگی پیدا ہوتی ہے۔
(6)گزرتے وقت کے ساتھ ہر طالب علم میں بہتر سے بہتر کارکردگی انجام دینے کا یقین جاگزیں ہوتا جاتا ہے۔
(7)فطری صلاحیت اور قابلیت کے اظہار کے لئے اسٹیج دستیاب ہوتا ہے۔
(8)سازگار ماحول کی وجہ سے اکتساب منظم اور مبنی بر مقاصد ہوجا تاہے۔
(9)کمرۂ جماعت کا سازگار ماحول سنجیدہ فکر (Critical Thinking)اور تخلیقیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
(10)عملی کام کے معیار میں بہتر ی واقع ہوتی ہے۔
(11)تخیل کی پرواز اور دانشمندی کو فروغ ملتا ہے۔
(12)تعلیمی ،گفت و شنید اور دیگر زندگی کے لئے معاون مہارتیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔
(13)طلبہ میں مثبت رویوں کے فروغ کے ذریعہ خود اعتادی پیدا ہوتی ہے۔
(14)متواتر اشتراکی اکتسابی کے بناء پر باہمی تعلقات میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے۔
(15)عمدہ عادات و اقدار کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا جذبہ جاگزیں ہوتا ہے۔ہر بچہ کسی نہ کسی فطری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے جس کی نمو و فروغ کے لئے تربیت ضرورت ہوتی ہے جو بچہ کو اسکول فراہم کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے خیال کیا جاتا ہے کہ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکول ایک درسگاہ ہے اور تعلیم دینے کے سوائے اس کا اور کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اسکول ہی واحد ذریعہ تعلیم نہیں ہے جہاں بچہ زندگی کے تما م حقائق سے آگہی حا صل کر تا ہے۔ بچے کے گردو پیش کے احوال ہر پل اس کو اکتساب کی سمت مائل رکھتے ہیں۔ والدین اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کی فلاح و بہبو د کے لئے تدریس میں نفسیاتی پہلووں کو پیش نظر رکھیں جس کے ذریعہ ایک خوش گوار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔نفسیاتی امور سے نا آشنا والدین ،اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کو اکتساب سے دور کردینے کے علاوہ ملک و ملت کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔