(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر ۲
مدینہ کی جانب سفر ایک اور محبت بھرا سفر تھا، حاجی جب فریضۃ الحج کے لئے نکلتا ہے تو مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھنے کی خواہش بھی رکھتا ہے، اور تین ہی مساجد ہیں جن کی جانب ثواب کی خاطر سفر کیا جا سکتا ہے، مسجدِ حرام، مسجد نبوی ﷺاور مسجدِ اقصی۔ مسجدِ حرام میں چند روز نماز ادا کرنے کے بعد اب ہم دوسرے حرم کی جانب محوِ سفر تھے، جہاں ہر نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔فجر کے فوراً بعد ہم چلے تھے، راستے میں ایک جگہ تفتیش کے لئے بس کو روکا گیا، اور تقریباً ایک گھنٹہ اس میں گزر گیا، وہیں ایک گم شدہ خاتون بھی ملی، جو اپنے گروپ سے بچھڑ گئی تھی، وہ افغانستان کے کسی ایسے علاقے سے تھی، کہ اس کو پشتو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی، اور اس کی زبان سے بھی سب نابلد تھے، ہر بس کے مسافرین کے سامنے اسے لے جایا جاتا، مگر ناکامی ہوتی، اس کے پاس کوئی سفری دستاویز بھی نہ تھی، اور وہ انتظامیہ کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔
دن کافی چڑھ چکا تھا جب ہم مدینۃ النبی ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، کشادہ سڑکیں اور جھک کر ملتا ہوا آسمان، کجھور کے درخت اور سورج کی ہلکی تمازت!! سب کچھ ہی بہت اچھا لگ رہا تھا، زبان راستے بھر وقفے وقفے سے درود و سلام سے تر رہی تھی، اور اب تو بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح بہترین تحیہ پیش کریں، عاجزی کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں ایک وسیع احاطے میں بس کو روک لیا گیا، پہلی مہمانی زمزم کی بوتل، جوس کا ڈبہ اور امریکانا کے منی کیک سے ہوئی، یہاں کے میزبانوں کی سب سے خاص بات انکے تروتازہ اور مسکان بھرے چہرے تھے، ہماری بس کا ڈرائیور اور ذمہ دار اندراج کے لئے دفتر میں چلے گئے، ہمارا دل بے چین ہونے لگا، تاخیر پر تاخیر ہو رہی تھی، ہم نے دائیں جانب باہر دیکھا تودرجنوں نہیں سینکڑوں بسیں کھڑی تھیں، ہم جو نمازِ ظہر مسجد نبویﷺ میں ادا کرنے کے شوق میں بیٹھے تھے، ہر گزرتی ساعت ہمارے چہرے کی پریشانی بڑھ رہی تھی، وہیں ظہر کی اذان ہو گئی، مرد با جماعت نماز ادا کرنے چلے گئے، واپس آکر انہوں نے ہمیں بھی وضو خانوں کی راہ دکھائی، جن کی تعداد انتہائی ناکافی تھی، اور اسی بنا پر صفائی کی ابتر صورت حال، ہم پریشان ہو کر قطار سے باہر نکلتے، مگر حاجت سے مجبور پھر وہیں جانے پر مجبور!!
ظہر کے بعد بس چلی اور کئی سڑکیں اور گلیاں پار کر کے ’’قباء روڈ‘‘ سے اندر کی جانب ایک کنارے پر رک گئی، یہ مکہ کی رہائش کی مانند ہوٹل نہیں تھا بلکہ ایک دو منزلہ مکان تھا، جس میں کئی کئی خواتین ایک کمرے میں اور انکے محرم دوسرے کمرے میں تھے، مجھے جس کمرے میں جگہ ملی وہاں زیادہ تر بزرگ خواتین اور ایک نوجوان خاتون تھی، عصر کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا، اس لئے آرام کی غرض سے لیٹنے لگی تو دروازہ بند کرنا چاہا تو ایک بزرگ بول پڑیں: ’’بوا نہ ماریں، میرا دل گھبراندا اے‘‘، ان کی یقین دہانی پر کہ ہم عورتیں ہی تو ہیں، دروازہ بند نہ کریں، میں سب سے پرے کنارے کے ایک بستر پر لیٹ گئی، ابھی آنکھ بھی بند نہ ہوئی تھی، کہ ایک مرد اندر داخل ہو گیا، میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی، دوپٹے سے نقاب کیا، تو خاتون بگڑ گیں: ’’او جی ، اسی حاجی آں، حاجیاں کولوں پردہ نئیں تھیندا‘‘۔یعنی ہم حاجی ہیں اور حاجیوں سے پردہ نہیں ہوتا۔میں رخ موڑ کر بیٹھ گئی، وہ صاحب اپنی کچھ چیزیں لے کر چلے گئے، لیکن چند منٹ بعد واپس کچھ اور پوچھنے آگئے، میں تیسری مرتبہ لیٹی تو وہ کھانے کے برتن اٹھائے دو اور مردوں کو اندر لئے آگئے، میں نے نقاب کیا اور باہر کی راہ لی، دروازے تک پہنچی تو خاتون نے دوبارہ یاد دہانی کرائی: ’’اے سب حاجی نے، حاجیاں دے دل پاک ہوندے نے، غصّہ نہ کرو تسی، آؤ روٹی ٹکر کھاؤ ساڈے نال‘‘، میں تیزی سے باہر نکلی، میرے آنسو بھل بھل بہنے لگے، ساتھ والے کمرے سے میاں نے مجھے باہر نکلتے دیکھ لیا تھا، وہ بھی پریشان ہو گئے، ہم نے وضو کیا اور مسجدِ نبوی چل دیے، نمازِ عصر ادا کی، کھانے کی مناسب جگہ کی تلاش میں نکلے، اور قباء روڈ پر اسلام آباد ہوٹل میں پہنچ گئے، جہاں کا کھانا تروتازہ اور مزے دار تھا ہی، لیکن اس کے عملے کے حسنِ اخلاق نے ایسا متاثر کیا کہ مدینہ میں ہم نے کہیں اور کھانا نہ کھایا، مکہ مدینہ کے کھانوں میں اتنی برکت ہے کہ ایک کھانا دو افراد کو بآسانی پورا ہو جاتا ہے، مکہ میں ہوٹل میں کھانے کے ساتھ پانی نہیں ملتا، ہم زم زم بھر کر لے جاتے، مگر مدینہ میں آپ ہوٹل میں بیٹھیں تو جگ گلاس سب سے پہلے میز پر آتا ہے۔
ہم رات ڈھلے واپس آئے ، تو یہ خوش خبری سنی کہ ہوٹل تبدیل ہو رہا ہے، فجر کے بعد دوسرے ہوٹل میں شفٹ ہوں گے، میاں نے منتظم صاحب کو ہماری پریشانی بتائی،مگر یہ رات ہمیں یہیں گزارنی تھی، ہم تو آکر سو گئے، مگر ہمارے کمرے کی ایک نوجوان دوشیزہ نہا دھو کر بال بکھیرے ساتھ مردوں والے کمرے میں اپنے شوہر کے پاس چلی گئی، صاحب نکل کر باہر آ گئے، اور اب وہ صاحبہ ہیں کہ کبھی کھانے کا دور چل رہا ہے اور کبھی گپوں کا! نصف شب کے بعد انہیں سونے کا موقع ملا۔
صبح مسجد پہنچے تو اندازہ ہوا، ہوا میں خنکی ہے، اور ٹھنڈک جسم میں گھستی چلی جا رہی ہے، سویٹر جو ہم نے احتیاطاً ہی رکھ لیا تھا، گرمائش دے رہا تھا، لیکن موزوں اور شال کی بھی ضرورت تھی، ناشتا کر کے واپس ہوئے تو نزلہ شروع ہو چکا تھا، نئے ہوٹل میں پہلی منزل پر ایک ڈبل کیبن کمرہ ہمیں مل گیا تھا، جس میں ہم دو افراد کے لئے پانچ بستر لگے تھے، دوسری جانب اکرم بھٹی صاحب اپنی بیگم اور بیوہ بھابھی جسے سب پٹھانی کہتے تھے، قیام پزیر تھے، رات بھر وقفے وقفے سے کھانسی کی آوازیں بلا رکاوٹ ہماری جانب آ رہی تھیں، صاحب آنکھیں ملتے ہوئے بولے: ’’بندہ کھانسی کی دوا ہی لے لیتا ہے، ساری رات سو نہیں سکا ان آوازوں سے‘‘۔پتا نہیں ، کیا تھا اس جملے میں، ہمیں آگے چل کر اس کی بہت قیمت ادا کرنا پڑی، سب سے پہلے تو میرا نزلہ، بخار اور کھانسی میں ڈھل گیا، ہر روز تین تین مرتبہ گرم پانی میں شہد پینے سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا، حتی کہ منی کے کیمپ میں جہاں چودہ مرد ایک جانب اور چودہ خواتین رسی سے لٹکی چادر کے دوسری جانب تھیں، اور رات کے سکوت کو توڑنے والی میری مسلسل کھانسی نے کس کس کو بے چین نہ کیا تھا، اور اکثر حاجی اپنا اجر سمیٹتے ہوئے خاموش تھے، مگر مغل صاحب نے ہمارے میاں کو پکڑا اور انہیں سیدھا ڈسپنسری لے گئے، ’’آپ اپنی بیگم کا علاج کیوں نہیں کرواتے‘‘، اورمیاں صاحب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن کی تصویر بنے کھڑے تھے، موقع پا کر انہوں نے ڈاکٹر کے کان میں ہولے سے کہا: ’’ذرا احتیاط سے دوا دیں، کوئی سایڈ افیکٹ نہ ہو، شی از ایکسپیکٹنگ‘‘، اور یوں براؤن رنگ کے کھانسی سیرپ کی ایک بوتل ہمیں مل گئی، جس سے کھانسی تو دور نہ ہوئی مگر اب کسی کو گلہ نہ تھا کہ ہمارا علاج نہیں ہو رہا۔
مدینہ میں مکہ کی نسبت فرصت زیادہ تھی، مسجد ابو بکر صدیقؓ، مسجدِ عمرؓ، مسجد غمامہ ہمارے راستے میں آتی تھیں، وہاں نوافل ادا کئے، مسجد فاطمہؓ و علیؓ مقفل تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مقامات پر ان اصحاب نے خطبہء عیددیا تھا، جبکہ مسجد غمامہ کے مقام پر رسولِ کریم نے عید کا خطبہ دیا، اور نماز استسقاء بھی ادا کی، جب ایک بادل نے آپﷺ پر سایہ کئے رکھا۔ غمام عربی میں بادل کو کہتے ہیں۔
روضہ رسول ﷺ پر حاضری اور ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کا شوق ہمیں کشاں کشاں باب نمبر ۳۰ پر لے آیا، ظہر کی نماز کے بعد خواتین بھاگ بھاگ کر اس جانب پہنچ رہی تھیں، ہم بھی دستی سامان ہلکا کر کے انتظار میں کھڑے تھے اور منتظم ’’پریوں‘‘ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کر رہے تھے، جو ’’باجی ادھر نہیں۔۔ باجی بیٹھ جاؤ ۔۔ باجی دھکے نہیں ۔۔‘‘ جیسے احکام صادر کر رہی تھیں، ہماری زبان پر درود و سلام جاری تھا، اسکو شمار کرنے کے لئے کوئی تسبیح تھی نہ جدید آلہء شمار!! ہمارا کاتبین پر بھروسہ ہی کافی تھا، ’’ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘ (ق، ۱۸)، بس اتنی دعا تھی کہ یہ نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں قبول ہو جائے اور میرے نام کے ساتھ محبوب کونین حضرت محمد ﷺ کے حضور پیش ہو جائے، تقریباً آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد خواتین کے لئے روضہ ء رسول ﷺ کی جانب جانے کے دروازے کھولے گئے، تو قدموں سے دھڑ دھڑ کی آوازوں کے ساتھ ،منہ سے ایک خاص قسم کی سیٹی اور کلکاریوں کا شور بھی سنائی دیا، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے دھکے اور کسی کی پرواہ نہ کرنے کا انداز، سچ تو یہ ہے کہ میرا دل دکھ سے بھر گیا، نبی رحمت ﷺ کے کتنے احسانات ہیں اس عورت پر، جینے کے حق سے لیکر عزت، ملکیت، نان نفقہ، وقار، قدموں میں جنت، اور پرورش پر جنت کا وعدہ!! کیا کچھ نہیں ملا عورت کو ۔۔ اور یہ عورت روضہء رسول ﷺ پر حاضری کے وقت ہی اس وقار کو بھول گئی، اگلی انتظار گاہ پر میں نے ارد گرد کی کئی خواتین کو یہاں کے آداب کی یاد دہانی کروائی، اور جب منتظم پریوں نے ہمارے لئے کپڑے کا دروازہ کھولا تو ہم اندر داخل ہو گئے، جہاں دائیں بائیں اور عقب سے آنے والے دھکے ہمیں فٹ بال کی مانند ٹھوکریں مار رہے تھے، ہمیں اپنی ضعف در ضعف کی حالت کا بھی احساس تھا، ہم نے اسطوانہ عائشہ (ستون) کے پیچھے کھڑے ہو کر دو نفل پڑھے، پھر اسطوانہ ابو لبابہ یا التوبہ کے قریب، اسی سے بائیں جانب اسطوانہ الحرس اور اسطوانہ الوفود کو دیکھا اور اس کے قریب بھی نوافل پڑھے، باہر نکلی تو اندازہ ہوا کہ اندر کی دھکم پیل میں میرا دوپٹہ کہیں کھو چکا ہے۔
جنوری ۲۰۰۴ میں مدینہ کا موسم سرد و گرم کا حسین امتزاج تھا، صبح سردی، دوپہر خوب گرمی اور شام معتدل موسم، جہاں صحن میں خوب رونق لگی ہوتی، بچوں کی اچھل کود اور مغرب کے قریب لوکل خواتین کی چائے،قہوہ اور کھجور کے ساتھ آمد۔ کچھ خواتین شاپنگ کے بعد سیدھا ادھر ہی آجاتیں تو انکے خریدے ہوئے لوازمات صفوں میں خلل ڈالنے لگتے۔
ایک روز زیارات کے لئے بلاوا آگیا، اشراق کے بعد بس میں بیٹھے، سب سے پہلے مسجد قبا ء پہنچے، جو اسلام کی پہلی تعمیر کردہ مسجد ہے، سفرِ ہجرت میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے چند روز قبا میں قیام فرمایا تھا، اور یہاں ایک مسجد تعمیر کی تھی،جس کی بنیاد آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی، یہ مدینہ منورہ سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آپﷺ خود بھی ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر قباء جایا کرتے تھے، اس میں دو نفل پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کی ادائیگی کا ہے۔
بس میں بیٹھتے ہی کسی نے باغِ سلمان فارسیؓ دیکھنے کی خواہش کی تو بتایا گیا کہ اب اس باغ میں نہیں جا سکتے، سعودی حکومت نے اس کے گرد فصیل بنا دی ہے، یہ باغ عوالی میں ہے، حضرت سلمان فارسیﷺ نے رسول کریم ﷺ کی مدینہ آمد کی خبر بڑی توجہ اور شوق سے سنی تھی، وہ آپ ﷺ ہی کی تلاش میں تو یہاں پہنچے تھے، کہ نصرانی عالم کے مطابق آپ ﷺ کے نزول کا وقت اب قریب آچکا تھا، رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے وقت آپؓ اسی سرزمین میں موجود تھے، مگر غلام بنا لئے گئے تھے، اور ایمان لانے کے بعد آپؓ کی آزادی کی قیمت کھجور کے ۳ سو پودے لگانا ٹھہری تھی، رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک رات میں تمام پودے لگائے تھے، وہیں وہ کنواں بھی ہے جس سے وہ سینچے گئے، اور اسی سال ان میں پھل آگیا، باغ کی جگہ پر اب ہائی سکول بن چکا ہے، اور کنواں اب بھی موجود ہے، اطلاعات کے مطابق، لیکن یہاں بس رکنے کی اجازت نہ تھی، سڑک سے ہی مسجد قبلتین پر نظر ڈالتے ہوئے ہم احد کے میدان میں پہنچے۔ مسجد قبلتین ایک تاریخی مسجد ہے جس میں دو سن ھجری میں ظہر کی نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا، او ر رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز کی ادائیگی کے بعد باقی نماز بیت اللہ الحرام کی جانب رخ کر کے پڑھائی۔
احد کے میدان میں کفر اور اسلام کا دوسرا غزوہ پیش آیا، آپ ﷺ نے احد کے بارے میں فرمایا: ’’احد ایک پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔۔ ‘‘۔ میدان احد میں ایک جانب شہدائے احد کا قبرستان ہے، جہاں ستر صحابہ دفن ہیں۔ یہیں سید الشہداء حضرت حمزہؓ، مصعب بن عمیرؓدفن ہیں، جن کے کفن کی چادریں چھوٹی ہونے کی بنا پر سر ڈھانپ دیے گئے اور پاؤں پر ایک خوشبو دار گھاس اذخر ڈالی گئی،حضرت حنظلہؓ بھی جنہیں غسیل الملائکہ ہونے کا اعزاز ملا، سعد بن الربیعؓ بھی جنہوں نے نیزے اور تلوار کے ستر زخم کھا کر بھی کہا تھا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو کچھ ہو گیا اور تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی تو اللہ کے ہاں کوئی معذرت نہ پاؤ گے، جنہیں احد کے دامن میں جنت کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔ اسی احد میں ایک سچے یہودی نے بھی مسلمانوں کے لشکر میں دادِ شجاعت دی تھی، اور جان جانِ آفرین کے سپرد کی تھی، رسولِ رحمت نے اس کے حق میں گواہی دی تھی: ’’مخیریق بہترین یہودی تھا‘‘، ان شہیدوں میں اصیرمؓ بھی تھے جنہوں نے عین وقتِ قتال اسلام قبول کیا، اور ایک نماز کی ادائیگی بھی نہ کی تھی کہ میدان میں کام آگئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی شہادت کی گواہی دی۔ لشکرِ اسلام کے ایک اور سپاہی ’’قزمان‘‘ جس نے بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور سات آٹھ کافروں کو ڈھیر کیا، جب اس سے زخمی حالت میں پوچھا گیا، تو اس نے کہا: ’’واللہ، میری جنگ تو اپنی قوم کی ناموس کے لئے تھی‘‘، پھر اس نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود اپنے آپ کو ذبح کر کے ہلاک کر لیا، آپ ؐ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ احد کے معرکے نے مجاہدوں کی خوب درجہ بندی کی ہے، اور اللہ اپنی حزب کا بہت قدردان ہے۔
وادی قناۃ سے جنوبی کنارے پر پہاڑی جسے اب جبل رماۃ کہا جاتاہے جہاں عبد اللہ بن جبیر کی سرکردی میں پچاس صحابہ کو کھڑا اس ہدایت کے ساتھ کھڑاکیا گیا تھا، کہ وہ اپنے تیروں سے مسلمانوں کی پشت کی حفاظت کریں، اور فتح یا شکست اور کسی بھی صورتِ حال میں اس جگہ کو نہ چھوڑیں، اگرچہ پرندے ہمیں اچک رہے ہوں تو بھی اس جگہ کو نہ چھوڑیں، اور ان کے فتح کے لمحوں سے اس ہدایت کی پیروی نہ کرنے سے جنگ کا پانسہ بدل گیا، فتح شکست سے تعبیر ہوئی، ستر صحابہ شہید ہو گئے، آج بھی لوگ جبل رماۃ پر کھڑے ہو رہے تھے، وہاں کھڑے ہو کر دیکھیں تو میدانِ جنگ میں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ راہنما کی ہدایت کتنی اہم ہوتی ہے پیروی کے لئے، اگرچہ اللہ تعالی نے انکی اس کمزوری کو معاف فرما دیا، لیکن احد کے میدان میں جانے والے اس سبق سے بے خبر کیسے رہ سکتے ہیں۔
اب احد میں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے، ہم نے احد کی محبت میں اس بازار سے کھجوریں خریدیں۔واپسی کے سفر میں غزوۃ خندق کی مساجد دور سے دکھائی گئیں، حضرت عثمان بن عفان کا خریدا ہوا کنواں بھی نہ دیکھ سکے، بس اس جگہ ہی کو دیکھا۔ واپسی پر بس نے ہمیں مسجدِ نبوی ﷺ کے قریب ہی اتارا، خواتین کے حصے میں پہنچنے تک مسجد کے اندر گنجائش نہیں رہی تھی، ہم صحن کی صف میں شریک ہو گئے، سورج کی تپش سارے وجود پر پڑ رہی تھی، ہوٹل واپس پہنچنے تک گرمی کے اثرات سے نزلہ بھی بڑھ گیا اور بخار بھی ہو گیا۔ اگلے روز جمعہ تھا، اور مسجد کی جانب جاتے ہوئے ہماری دعا تھی، اللہ کرے اندر جگہ مل جائے، اور اندر جگہ مل گئی، جمعہ کی پہلی رکعت میں اچانک روشنی بڑھ جانے کا احساس ہوا، جی ہاں، ہمارے سر سے مسجد کی چھت سرک رہی تھی، اور دھوپ چھن چھن کرہم پر آ رہی تھی،نماز مکمل ہونے تک ہم مکمل دھوپ میں کھڑے تھے، دعاہماری قبول ہوئی تھی، اور مراد پوری نہیں ہوئی تھی، دعا میں کمی کی بنا پر! ہم نے اندر داخلہ ہی تو مانگا تھا، سایہ نہیں مانگا تھا، راحت نہیں مانگی تھی، اور اس پر ہم بے اختیار مسکرا دیے۔
حج کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ صالحین اور صحیح الاعتقاد ساتھیوں کے ہمراہ حج نصیب ہو، اللہ کا شکر کہ اس نے یہ دعا بھی پوری کی، مکہ میں جن ساتھیوں سے پورا تعارف بھی نہ ہوا تھا، مدینہ آکر ان سے دوستی بھی ہو گئی، ہم عشاء کے بعد کچھ دیر انکے کمرے میں بیٹھ جاتے، ان میں کرنل صاحب، میجر صاحب، مغل صاحب، قریشی صاحب اور اظہر صاحب کی بیگمات تھیں۔ انہیں محفلوں میں ایک روز سوال آیا: میں اپنے شوہر کی جیب سے بلا اجازت رقم نکال لیتی ہوں، اس پر پکڑ تو نہیں ہو گی اللہ کے ہاں؟ اور جرح کے دوران معلوم ہوا کہ شوہر صاحب گھریلو اخراجات بخوشی پورے کرتے ہیں، اور یہ رقم اضافی شوق پورے کرنے کی ہے، ان سے یہی کہا گیا، شوہر کو اس معاملے سے باخبر کر دیں، اور اگر انہیں اعتراض نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ (حج کی قبولیت پانے کے لئے ایسے سوالات کا تنگ کرنا بھی حاجی کے فوکس کو ظاہر کرتا ہے، ہر لمحہ حجِ مبرور پانے کی طلب کسی بھی عمل پر بے چین کر سکتی ہے)۔
مدینہ سے رخصتی سے قبل یہاں سے خریدے جانے والے تحائف بھی اہم ہیں، شوہروں نے شادی کے بعد شاید اسی موقع پر بیویوں کی اس شوق سے سونے کی خریداری کروائی، ہمارے میاں نے بھی ہمیں ایک انگوٹھی کا تحفہ دیا۔ مدینہ ایک مصروف تجارتی مرکز بھی ہے، جس میں فرض نماز کے قریب تاجر اپنی تجارت سے اس طرح بے نیاز ہو جاتے ہیں، گویا انہیں ان گاہکوں اور اپنی اشیاء کے بیچنے سے سروکار ہی نہ ہو، ’’بعد الصلاۃ‘‘ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں، اور کاروبار کو بے برکتی سے بچا لیتے ہیں۔
ہمارے گیارہ روزہ قیامِ مدینہ کے دوران کوئی چالیس نمازوں کی مسجد نبوی ﷺ میں ادائیگی پر نارِ جہنم سے رہائی ، اور نفاق سے برأت کی خوشخبری پر خوش ہو رہا تھا، تو کوئی اس کی سند کے ضعف کا بتا رہا تھا۔ علامہ البانی ؒ کے مطابق زیادہ قوی حدیث یہ ہے: ’’من صلی صلاۃ المکتوبۃ ۔۔ ‘‘ہے۔ یعنی جس نے چالیس روز تک تمام نمازیں تکبیرِ اولی کے ساتھ مسجد (کوئی بھی مسجد) میں پڑھیں، اس کے لئے دو برأتیں ہیں: ۱۔ جہنم سے رہائی، ۲۔ نفاق سے دوری (ترمذی)
ہماری ایک ساتھی کو قیامِ مدینہ کے دوران خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شدت سے شوق تھا، انکے گزشتہ سفر میں انہیں مدینہ میں آقائے کائنات کا دیدار نصیب ہوا تھا اور انکی زبان پر درود شریف جاری رہتا، مگر ۔۔ خواب دیکھنا اپنے بس میں تو نہیں،ہاں ریاض الجنہ میں بار بار نوافل بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور درود و سلام کی برکتیں بھی سمیٹی جا سکتی ہیں، اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد ۔۔
مدینہ منورہ میں ہماری تکان دور ہو چکی تھی، رسول اللہ ﷺ کی صحبت پانے والوں کی اولادوں نے آج بھی سنتِ رسول ﷺ کو زندہ رکھا ہے، ہنستا مسکراتا شہر، آپ کو کچھ بڑھ کر دینے والا، تجارت میں کھلے دل والا، قیمت میں کمی اور مال میں اضافہ دینے والا، اسی لئے دنیا میں کوئی شہر مدینہ جیسا نہیں، قبرستان تو ویرانی کی علامت ہیں مگر جنت البقیع کی رونق اس کی فصیل سے باہر تک آتی ہے۔ فجر کے بعد ہمیں کوچ کرنا تھا، پہلا پڑاؤ ذو الحلیفہ کی میقات تھا، یہاں سے عمرے کا احرام پہنا اور رسولِ کریم کے اتباع میں ہم بھی عمرے کی ادائیگی کے لئے ’’لبیک اللھم لبیک ۔۔ ‘‘ پڑھتے ہوئے دوبارہ بسوں میں سوار ہو رہے تھے، جو فراٹے بھرتی مکہ مکرمہ کی مسافتیں نگل رہی تھی!!۔(جاری ہے)
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...