یہ دربارِ’’ الہی ‘‘ہے یہاں ملتا ہے بن مانگے

(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر ۲
مدینہ کی جانب سفر ایک اور محبت بھرا سفر تھا، حاجی جب فریضۃ الحج کے لئے نکلتا ہے تو مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھنے کی خواہش بھی رکھتا ہے، اور تین ہی مساجد ہیں جن کی جانب ثواب کی خاطر سفر کیا جا سکتا ہے، مسجدِ حرام، مسجد نبوی ﷺاور مسجدِ اقصی۔ مسجدِ حرام میں چند روز نماز ادا کرنے کے بعد اب ہم دوسرے حرم کی جانب محوِ سفر تھے، جہاں ہر نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔فجر کے فوراً بعد ہم چلے تھے، راستے میں ایک جگہ تفتیش کے لئے بس کو روکا گیا، اور تقریباً ایک گھنٹہ اس میں گزر گیا، وہیں ایک گم شدہ خاتون بھی ملی، جو اپنے گروپ سے بچھڑ گئی تھی، وہ افغانستان کے کسی ایسے علاقے سے تھی، کہ اس کو پشتو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی، اور اس کی زبان سے بھی سب نابلد تھے، ہر بس کے مسافرین کے سامنے اسے لے جایا جاتا، مگر ناکامی ہوتی، اس کے پاس کوئی سفری دستاویز بھی نہ تھی، اور وہ انتظامیہ کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔
دن کافی چڑھ چکا تھا جب ہم مدینۃ النبی ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، کشادہ سڑکیں اور جھک کر ملتا ہوا آسمان، کجھور کے درخت اور سورج کی ہلکی تمازت!! سب کچھ ہی بہت اچھا لگ رہا تھا، زبان راستے بھر وقفے وقفے سے درود و سلام سے تر رہی تھی، اور اب تو بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح بہترین تحیہ پیش کریں، عاجزی کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں ایک وسیع احاطے میں بس کو روک لیا گیا، پہلی مہمانی زمزم کی بوتل، جوس کا ڈبہ اور امریکانا کے منی کیک سے ہوئی، یہاں کے میزبانوں کی سب سے خاص بات انکے تروتازہ اور مسکان بھرے چہرے تھے، ہماری بس کا ڈرائیور اور ذمہ دار اندراج کے لئے دفتر میں چلے گئے، ہمارا دل بے چین ہونے لگا، تاخیر پر تاخیر ہو رہی تھی، ہم نے دائیں جانب باہر دیکھا تودرجنوں نہیں سینکڑوں بسیں کھڑی تھیں، ہم جو نمازِ ظہر مسجد نبویﷺ میں ادا کرنے کے شوق میں بیٹھے تھے، ہر گزرتی ساعت ہمارے چہرے کی پریشانی بڑھ رہی تھی، وہیں ظہر کی اذان ہو گئی، مرد با جماعت نماز ادا کرنے چلے گئے، واپس آکر انہوں نے ہمیں بھی وضو خانوں کی راہ دکھائی، جن کی تعداد انتہائی ناکافی تھی، اور اسی بنا پر صفائی کی ابتر صورت حال، ہم پریشان ہو کر قطار سے باہر نکلتے، مگر حاجت سے مجبور پھر وہیں جانے پر مجبور!!
ظہر کے بعد بس چلی اور کئی سڑکیں اور گلیاں پار کر کے ’’قباء روڈ‘‘ سے اندر کی جانب ایک کنارے پر رک گئی، یہ مکہ کی رہائش کی مانند ہوٹل نہیں تھا بلکہ ایک دو منزلہ مکان تھا، جس میں کئی کئی خواتین ایک کمرے میں اور انکے محرم دوسرے کمرے میں تھے، مجھے جس کمرے میں جگہ ملی وہاں زیادہ تر بزرگ خواتین اور ایک نوجوان خاتون تھی، عصر کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا، اس لئے آرام کی غرض سے لیٹنے لگی تو دروازہ بند کرنا چاہا تو ایک بزرگ بول پڑیں: ’’بوا نہ ماریں، میرا دل گھبراندا اے‘‘، ان کی یقین دہانی پر کہ ہم عورتیں ہی تو ہیں، دروازہ بند نہ کریں، میں سب سے پرے کنارے کے ایک بستر پر لیٹ گئی، ابھی آنکھ بھی بند نہ ہوئی تھی، کہ ایک مرد اندر داخل ہو گیا، میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی، دوپٹے سے نقاب کیا، تو خاتون بگڑ گیں: ’’او جی ، اسی حاجی آں، حاجیاں کولوں پردہ نئیں تھیندا‘‘۔یعنی ہم حاجی ہیں اور حاجیوں سے پردہ نہیں ہوتا۔میں رخ موڑ کر بیٹھ گئی، وہ صاحب اپنی کچھ چیزیں لے کر چلے گئے، لیکن چند منٹ بعد واپس کچھ اور پوچھنے آگئے، میں تیسری مرتبہ لیٹی تو وہ کھانے کے برتن اٹھائے دو اور مردوں کو اندر لئے آگئے، میں نے نقاب کیا اور باہر کی راہ لی، دروازے تک پہنچی تو خاتون نے دوبارہ یاد دہانی کرائی: ’’اے سب حاجی نے، حاجیاں دے دل پاک ہوندے نے، غصّہ نہ کرو تسی، آؤ روٹی ٹکر کھاؤ ساڈے نال‘‘، میں تیزی سے باہر نکلی، میرے آنسو بھل بھل بہنے لگے، ساتھ والے کمرے سے میاں نے مجھے باہر نکلتے دیکھ لیا تھا، وہ بھی پریشان ہو گئے، ہم نے وضو کیا اور مسجدِ نبوی چل دیے، نمازِ عصر ادا کی، کھانے کی مناسب جگہ کی تلاش میں نکلے، اور قباء روڈ پر اسلام آباد ہوٹل میں پہنچ گئے، جہاں کا کھانا تروتازہ اور مزے دار تھا ہی، لیکن اس کے عملے کے حسنِ اخلاق نے ایسا متاثر کیا کہ مدینہ میں ہم نے کہیں اور کھانا نہ کھایا، مکہ مدینہ کے کھانوں میں اتنی برکت ہے کہ ایک کھانا دو افراد کو بآسانی پورا ہو جاتا ہے، مکہ میں ہوٹل میں کھانے کے ساتھ پانی نہیں ملتا، ہم زم زم بھر کر لے جاتے، مگر مدینہ میں آپ ہوٹل میں بیٹھیں تو جگ گلاس سب سے پہلے میز پر آتا ہے۔
ہم رات ڈھلے واپس آئے ، تو یہ خوش خبری سنی کہ ہوٹل تبدیل ہو رہا ہے، فجر کے بعد دوسرے ہوٹل میں شفٹ ہوں گے، میاں نے منتظم صاحب کو ہماری پریشانی بتائی،مگر یہ رات ہمیں یہیں گزارنی تھی، ہم تو آکر سو گئے، مگر ہمارے کمرے کی ایک نوجوان دوشیزہ نہا دھو کر بال بکھیرے ساتھ مردوں والے کمرے میں اپنے شوہر کے پاس چلی گئی، صاحب نکل کر باہر آ گئے، اور اب وہ صاحبہ ہیں کہ کبھی کھانے کا دور چل رہا ہے اور کبھی گپوں کا! نصف شب کے بعد انہیں سونے کا موقع ملا۔
صبح مسجد پہنچے تو اندازہ ہوا، ہوا میں خنکی ہے، اور ٹھنڈک جسم میں گھستی چلی جا رہی ہے، سویٹر جو ہم نے احتیاطاً ہی رکھ لیا تھا، گرمائش دے رہا تھا، لیکن موزوں اور شال کی بھی ضرورت تھی، ناشتا کر کے واپس ہوئے تو نزلہ شروع ہو چکا تھا، نئے ہوٹل میں پہلی منزل پر ایک ڈبل کیبن کمرہ ہمیں مل گیا تھا، جس میں ہم دو افراد کے لئے پانچ بستر لگے تھے، دوسری جانب اکرم بھٹی صاحب اپنی بیگم اور بیوہ بھابھی جسے سب پٹھانی کہتے تھے، قیام پزیر تھے، رات بھر وقفے وقفے سے کھانسی کی آوازیں بلا رکاوٹ ہماری جانب آ رہی تھیں، صاحب آنکھیں ملتے ہوئے بولے: ’’بندہ کھانسی کی دوا ہی لے لیتا ہے، ساری رات سو نہیں سکا ان آوازوں سے‘‘۔پتا نہیں ، کیا تھا اس جملے میں، ہمیں آگے چل کر اس کی بہت قیمت ادا کرنا پڑی، سب سے پہلے تو میرا نزلہ، بخار اور کھانسی میں ڈھل گیا، ہر روز تین تین مرتبہ گرم پانی میں شہد پینے سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا، حتی کہ منی کے کیمپ میں جہاں چودہ مرد ایک جانب اور چودہ خواتین رسی سے لٹکی چادر کے دوسری جانب تھیں، اور رات کے سکوت کو توڑنے والی میری مسلسل کھانسی نے کس کس کو بے چین نہ کیا تھا، اور اکثر حاجی اپنا اجر سمیٹتے ہوئے خاموش تھے، مگر مغل صاحب نے ہمارے میاں کو پکڑا اور انہیں سیدھا ڈسپنسری لے گئے، ’’آپ اپنی بیگم کا علاج کیوں نہیں کرواتے‘‘، اورمیاں صاحب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن کی تصویر بنے کھڑے تھے، موقع پا کر انہوں نے ڈاکٹر کے کان میں ہولے سے کہا: ’’ذرا احتیاط سے دوا دیں، کوئی سایڈ افیکٹ نہ ہو، شی از ایکسپیکٹنگ‘‘، اور یوں براؤن رنگ کے کھانسی سیرپ کی ایک بوتل ہمیں مل گئی، جس سے کھانسی تو دور نہ ہوئی مگر اب کسی کو گلہ نہ تھا کہ ہمارا علاج نہیں ہو رہا۔
مدینہ میں مکہ کی نسبت فرصت زیادہ تھی، مسجد ابو بکر صدیقؓ، مسجدِ عمرؓ، مسجد غمامہ ہمارے راستے میں آتی تھیں، وہاں نوافل ادا کئے، مسجد فاطمہؓ و علیؓ مقفل تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مقامات پر ان اصحاب نے خطبہء عیددیا تھا، جبکہ مسجد غمامہ کے مقام پر رسولِ کریم نے عید کا خطبہ دیا، اور نماز استسقاء بھی ادا کی، جب ایک بادل نے آپﷺ پر سایہ کئے رکھا۔ غمام عربی میں بادل کو کہتے ہیں۔
روضہ رسول ﷺ پر حاضری اور ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کا شوق ہمیں کشاں کشاں باب نمبر ۳۰ پر لے آیا، ظہر کی نماز کے بعد خواتین بھاگ بھاگ کر اس جانب پہنچ رہی تھیں، ہم بھی دستی سامان ہلکا کر کے انتظار میں کھڑے تھے اور منتظم ’’پریوں‘‘ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کر رہے تھے، جو ’’باجی ادھر نہیں۔۔ باجی بیٹھ جاؤ ۔۔ باجی دھکے نہیں ۔۔‘‘ جیسے احکام صادر کر رہی تھیں، ہماری زبان پر درود و سلام جاری تھا، اسکو شمار کرنے کے لئے کوئی تسبیح تھی نہ جدید آلہء شمار!! ہمارا کاتبین پر بھروسہ ہی کافی تھا، ’’ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘ (ق، ۱۸)، بس اتنی دعا تھی کہ یہ نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں قبول ہو جائے اور میرے نام کے ساتھ محبوب کونین حضرت محمد ﷺ کے حضور پیش ہو جائے، تقریباً آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد خواتین کے لئے روضہ ء رسول ﷺ کی جانب جانے کے دروازے کھولے گئے، تو قدموں سے دھڑ دھڑ کی آوازوں کے ساتھ ،منہ سے ایک خاص قسم کی سیٹی اور کلکاریوں کا شور بھی سنائی دیا، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے دھکے اور کسی کی پرواہ نہ کرنے کا انداز، سچ تو یہ ہے کہ میرا دل دکھ سے بھر گیا، نبی رحمت ﷺ کے کتنے احسانات ہیں اس عورت پر، جینے کے حق سے لیکر عزت، ملکیت، نان نفقہ، وقار، قدموں میں جنت، اور پرورش پر جنت کا وعدہ!! کیا کچھ نہیں ملا عورت کو ۔۔ اور یہ عورت روضہء رسول ﷺ پر حاضری کے وقت ہی اس وقار کو بھول گئی، اگلی انتظار گاہ پر میں نے ارد گرد کی کئی خواتین کو یہاں کے آداب کی یاد دہانی کروائی، اور جب منتظم پریوں نے ہمارے لئے کپڑے کا دروازہ کھولا تو ہم اندر داخل ہو گئے، جہاں دائیں بائیں اور عقب سے آنے والے دھکے ہمیں فٹ بال کی مانند ٹھوکریں مار رہے تھے، ہمیں اپنی ضعف در ضعف کی حالت کا بھی احساس تھا، ہم نے اسطوانہ عائشہ (ستون) کے پیچھے کھڑے ہو کر دو نفل پڑھے، پھر اسطوانہ ابو لبابہ یا التوبہ کے قریب، اسی سے بائیں جانب اسطوانہ الحرس اور اسطوانہ الوفود کو دیکھا اور اس کے قریب بھی نوافل پڑھے، باہر نکلی تو اندازہ ہوا کہ اندر کی دھکم پیل میں میرا دوپٹہ کہیں کھو چکا ہے۔
جنوری ۲۰۰۴ میں مدینہ کا موسم سرد و گرم کا حسین امتزاج تھا، صبح سردی، دوپہر خوب گرمی اور شام معتدل موسم، جہاں صحن میں خوب رونق لگی ہوتی، بچوں کی اچھل کود اور مغرب کے قریب لوکل خواتین کی چائے،قہوہ اور کھجور کے ساتھ آمد۔ کچھ خواتین شاپنگ کے بعد سیدھا ادھر ہی آجاتیں تو انکے خریدے ہوئے لوازمات صفوں میں خلل ڈالنے لگتے۔
ایک روز زیارات کے لئے بلاوا آگیا، اشراق کے بعد بس میں بیٹھے، سب سے پہلے مسجد قبا ء پہنچے، جو اسلام کی پہلی تعمیر کردہ مسجد ہے، سفرِ ہجرت میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے چند روز قبا میں قیام فرمایا تھا، اور یہاں ایک مسجد تعمیر کی تھی،جس کی بنیاد آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی، یہ مدینہ منورہ سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آپﷺ خود بھی ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر قباء جایا کرتے تھے، اس میں دو نفل پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کی ادائیگی کا ہے۔
بس میں بیٹھتے ہی کسی نے باغِ سلمان فارسیؓ دیکھنے کی خواہش کی تو بتایا گیا کہ اب اس باغ میں نہیں جا سکتے، سعودی حکومت نے اس کے گرد فصیل بنا دی ہے، یہ باغ عوالی میں ہے، حضرت سلمان فارسیﷺ نے رسول کریم ﷺ کی مدینہ آمد کی خبر بڑی توجہ اور شوق سے سنی تھی، وہ آپ ﷺ ہی کی تلاش میں تو یہاں پہنچے تھے، کہ نصرانی عالم کے مطابق آپ ﷺ کے نزول کا وقت اب قریب آچکا تھا، رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے وقت آپؓ اسی سرزمین میں موجود تھے، مگر غلام بنا لئے گئے تھے، اور ایمان لانے کے بعد آپؓ کی آزادی کی قیمت کھجور کے ۳ سو پودے لگانا ٹھہری تھی، رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک رات میں تمام پودے لگائے تھے، وہیں وہ کنواں بھی ہے جس سے وہ سینچے گئے، اور اسی سال ان میں پھل آگیا، باغ کی جگہ پر اب ہائی سکول بن چکا ہے، اور کنواں اب بھی موجود ہے، اطلاعات کے مطابق، لیکن یہاں بس رکنے کی اجازت نہ تھی، سڑک سے ہی مسجد قبلتین پر نظر ڈالتے ہوئے ہم احد کے میدان میں پہنچے۔ مسجد قبلتین ایک تاریخی مسجد ہے جس میں دو سن ھجری میں ظہر کی نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا، او ر رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز کی ادائیگی کے بعد باقی نماز بیت اللہ الحرام کی جانب رخ کر کے پڑھائی۔
احد کے میدان میں کفر اور اسلام کا دوسرا غزوہ پیش آیا، آپ ﷺ نے احد کے بارے میں فرمایا: ’’احد ایک پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔۔ ‘‘۔ میدان احد میں ایک جانب شہدائے احد کا قبرستان ہے، جہاں ستر صحابہ دفن ہیں۔ یہیں سید الشہداء حضرت حمزہؓ، مصعب بن عمیرؓدفن ہیں، جن کے کفن کی چادریں چھوٹی ہونے کی بنا پر سر ڈھانپ دیے گئے اور پاؤں پر ایک خوشبو دار گھاس اذخر ڈالی گئی،حضرت حنظلہؓ بھی جنہیں غسیل الملائکہ ہونے کا اعزاز ملا، سعد بن الربیعؓ بھی جنہوں نے نیزے اور تلوار کے ستر زخم کھا کر بھی کہا تھا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو کچھ ہو گیا اور تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی تو اللہ کے ہاں کوئی معذرت نہ پاؤ گے، جنہیں احد کے دامن میں جنت کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔ اسی احد میں ایک سچے یہودی نے بھی مسلمانوں کے لشکر میں دادِ شجاعت دی تھی، اور جان جانِ آفرین کے سپرد کی تھی، رسولِ رحمت نے اس کے حق میں گواہی دی تھی: ’’مخیریق بہترین یہودی تھا‘‘، ان شہیدوں میں اصیرمؓ بھی تھے جنہوں نے عین وقتِ قتال اسلام قبول کیا، اور ایک نماز کی ادائیگی بھی نہ کی تھی کہ میدان میں کام آگئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی شہادت کی گواہی دی۔ لشکرِ اسلام کے ایک اور سپاہی ’’قزمان‘‘ جس نے بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور سات آٹھ کافروں کو ڈھیر کیا، جب اس سے زخمی حالت میں پوچھا گیا، تو اس نے کہا: ’’واللہ، میری جنگ تو اپنی قوم کی ناموس کے لئے تھی‘‘، پھر اس نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود اپنے آپ کو ذبح کر کے ہلاک کر لیا، آپ ؐ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ احد کے معرکے نے مجاہدوں کی خوب درجہ بندی کی ہے، اور اللہ اپنی حزب کا بہت قدردان ہے۔
وادی قناۃ سے جنوبی کنارے پر پہاڑی جسے اب جبل رماۃ کہا جاتاہے جہاں عبد اللہ بن جبیر کی سرکردی میں پچاس صحابہ کو کھڑا اس ہدایت کے ساتھ کھڑاکیا گیا تھا، کہ وہ اپنے تیروں سے مسلمانوں کی پشت کی حفاظت کریں، اور فتح یا شکست اور کسی بھی صورتِ حال میں اس جگہ کو نہ چھوڑیں، اگرچہ پرندے ہمیں اچک رہے ہوں تو بھی اس جگہ کو نہ چھوڑیں، اور ان کے فتح کے لمحوں سے اس ہدایت کی پیروی نہ کرنے سے جنگ کا پانسہ بدل گیا، فتح شکست سے تعبیر ہوئی، ستر صحابہ شہید ہو گئے، آج بھی لوگ جبل رماۃ پر کھڑے ہو رہے تھے، وہاں کھڑے ہو کر دیکھیں تو میدانِ جنگ میں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ راہنما کی ہدایت کتنی اہم ہوتی ہے پیروی کے لئے، اگرچہ اللہ تعالی نے انکی اس کمزوری کو معاف فرما دیا، لیکن احد کے میدان میں جانے والے اس سبق سے بے خبر کیسے رہ سکتے ہیں۔
اب احد میں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے، ہم نے احد کی محبت میں اس بازار سے کھجوریں خریدیں۔واپسی کے سفر میں غزوۃ خندق کی مساجد دور سے دکھائی گئیں، حضرت عثمان بن عفان کا خریدا ہوا کنواں بھی نہ دیکھ سکے، بس اس جگہ ہی کو دیکھا۔ واپسی پر بس نے ہمیں مسجدِ نبوی ﷺ کے قریب ہی اتارا، خواتین کے حصے میں پہنچنے تک مسجد کے اندر گنجائش نہیں رہی تھی، ہم صحن کی صف میں شریک ہو گئے، سورج کی تپش سارے وجود پر پڑ رہی تھی، ہوٹل واپس پہنچنے تک گرمی کے اثرات سے نزلہ بھی بڑھ گیا اور بخار بھی ہو گیا۔ اگلے روز جمعہ تھا، اور مسجد کی جانب جاتے ہوئے ہماری دعا تھی، اللہ کرے اندر جگہ مل جائے، اور اندر جگہ مل گئی، جمعہ کی پہلی رکعت میں اچانک روشنی بڑھ جانے کا احساس ہوا، جی ہاں، ہمارے سر سے مسجد کی چھت سرک رہی تھی، اور دھوپ چھن چھن کرہم پر آ رہی تھی،نماز مکمل ہونے تک ہم مکمل دھوپ میں کھڑے تھے، دعاہماری قبول ہوئی تھی، اور مراد پوری نہیں ہوئی تھی، دعا میں کمی کی بنا پر! ہم نے اندر داخلہ ہی تو مانگا تھا، سایہ نہیں مانگا تھا، راحت نہیں مانگی تھی، اور اس پر ہم بے اختیار مسکرا دیے۔
حج کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ صالحین اور صحیح الاعتقاد ساتھیوں کے ہمراہ حج نصیب ہو، اللہ کا شکر کہ اس نے یہ دعا بھی پوری کی، مکہ میں جن ساتھیوں سے پورا تعارف بھی نہ ہوا تھا، مدینہ آکر ان سے دوستی بھی ہو گئی، ہم عشاء کے بعد کچھ دیر انکے کمرے میں بیٹھ جاتے، ان میں کرنل صاحب، میجر صاحب، مغل صاحب، قریشی صاحب اور اظہر صاحب کی بیگمات تھیں۔ انہیں محفلوں میں ایک روز سوال آیا: میں اپنے شوہر کی جیب سے بلا اجازت رقم نکال لیتی ہوں، اس پر پکڑ تو نہیں ہو گی اللہ کے ہاں؟ اور جرح کے دوران معلوم ہوا کہ شوہر صاحب گھریلو اخراجات بخوشی پورے کرتے ہیں، اور یہ رقم اضافی شوق پورے کرنے کی ہے، ان سے یہی کہا گیا، شوہر کو اس معاملے سے باخبر کر دیں، اور اگر انہیں اعتراض نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ (حج کی قبولیت پانے کے لئے ایسے سوالات کا تنگ کرنا بھی حاجی کے فوکس کو ظاہر کرتا ہے، ہر لمحہ حجِ مبرور پانے کی طلب کسی بھی عمل پر بے چین کر سکتی ہے)۔
مدینہ سے رخصتی سے قبل یہاں سے خریدے جانے والے تحائف بھی اہم ہیں، شوہروں نے شادی کے بعد شاید اسی موقع پر بیویوں کی اس شوق سے سونے کی خریداری کروائی، ہمارے میاں نے بھی ہمیں ایک انگوٹھی کا تحفہ دیا۔ مدینہ ایک مصروف تجارتی مرکز بھی ہے، جس میں فرض نماز کے قریب تاجر اپنی تجارت سے اس طرح بے نیاز ہو جاتے ہیں، گویا انہیں ان گاہکوں اور اپنی اشیاء کے بیچنے سے سروکار ہی نہ ہو، ’’بعد الصلاۃ‘‘ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں، اور کاروبار کو بے برکتی سے بچا لیتے ہیں۔
ہمارے گیارہ روزہ قیامِ مدینہ کے دوران کوئی چالیس نمازوں کی مسجد نبوی ﷺ میں ادائیگی پر نارِ جہنم سے رہائی ، اور نفاق سے برأت کی خوشخبری پر خوش ہو رہا تھا، تو کوئی اس کی سند کے ضعف کا بتا رہا تھا۔ علامہ البانی ؒ کے مطابق زیادہ قوی حدیث یہ ہے: ’’من صلی صلاۃ المکتوبۃ ۔۔ ‘‘ہے۔ یعنی جس نے چالیس روز تک تمام نمازیں تکبیرِ اولی کے ساتھ مسجد (کوئی بھی مسجد) میں پڑھیں، اس کے لئے دو برأتیں ہیں: ۱۔ جہنم سے رہائی، ۲۔ نفاق سے دوری (ترمذی)
ہماری ایک ساتھی کو قیامِ مدینہ کے دوران خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شدت سے شوق تھا، انکے گزشتہ سفر میں انہیں مدینہ میں آقائے کائنات کا دیدار نصیب ہوا تھا اور انکی زبان پر درود شریف جاری رہتا، مگر ۔۔ خواب دیکھنا اپنے بس میں تو نہیں،ہاں ریاض الجنہ میں بار بار نوافل بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور درود و سلام کی برکتیں بھی سمیٹی جا سکتی ہیں، اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد ۔۔
مدینہ منورہ میں ہماری تکان دور ہو چکی تھی، رسول اللہ ﷺ کی صحبت پانے والوں کی اولادوں نے آج بھی سنتِ رسول ﷺ کو زندہ رکھا ہے، ہنستا مسکراتا شہر، آپ کو کچھ بڑھ کر دینے والا، تجارت میں کھلے دل والا، قیمت میں کمی اور مال میں اضافہ دینے والا، اسی لئے دنیا میں کوئی شہر مدینہ جیسا نہیں، قبرستان تو ویرانی کی علامت ہیں مگر جنت البقیع کی رونق اس کی فصیل سے باہر تک آتی ہے۔ فجر کے بعد ہمیں کوچ کرنا تھا، پہلا پڑاؤ ذو الحلیفہ کی میقات تھا، یہاں سے عمرے کا احرام پہنا اور رسولِ کریم کے اتباع میں ہم بھی عمرے کی ادائیگی کے لئے ’’لبیک اللھم لبیک ۔۔ ‘‘ پڑھتے ہوئے دوبارہ بسوں میں سوار ہو رہے تھے، جو فراٹے بھرتی مکہ مکرمہ کی مسافتیں نگل رہی تھی!!۔(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں