پاکستان کے خدشات غلط ہیں؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرحدی حالات بہت کشیدہ ہیں اور خاص طور سے کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے مسلسل دراندازیاں جاری رہنے کی وجہ سے، لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے شہری علاقے سخت تحفظات کا شکار ہیں اور ان کی معمول کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائیاں بے شک بہت بھر پور سہی لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ سرحدوں کے اُس پار سے جاری یہ خلاف ورزیاں اور جواباً پاکستان کا رد عمل کسی وقت بھی بڑی لڑائی کا سبب بن سکتا ہے۔ ادھر بھارت میں جنرل الیکشن بھی قریب ہیں اور پلوامہ حملے میں بھارتی رد عمل کی ناکامی موجودہ مودی حکومت کیلئے بہت ہی سبکی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اگر مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف، اس کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق، کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکے تو ممکن ہے کہ آنے والے الیکشن کے نتائج اس کے خلاف چلے جائیں، اس لئے اس بات کا اندیشہ ہے کہ بھارتی حکومت الیکشن سے پہلے پہلے پاکستان کے خلاف، اپنے تئیں، کوئی کارروائی کر گزرے اس لئے پاکستان کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جانا کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف کوئی اوچھی کارروائی کر گزرے گا، ایسی بات نہیں جس کو انہونی سمجھا جائے۔ اسی خدشے کا اظہار پاکستان کے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ “بھارت 16 سے 20اپریل کے درمیان پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھارت کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور پوری پاکستانی قوم اس معاملے پر ایک ہے۔ وزارت خارجہ میں بھی بھارت کی جنگی تیاریوں کے بارے میں متعدد بار سوچ بچار ہوچکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے آپس میں سو اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن بھارتی جارحیت کے خلاف ہم ایک ہیں”۔

شاہ محمود قریشی کا بھارت اور عالمی برادری کو خبر دار کرنا اور متوقع حملے کے خدشے سے آگاہ کرنا اپنی جگہ درست لیکن جو بات بے محل سی لگی وہ پاکستانی قوم کا آپس میں مختلف الخیال ہونا اور اندرونی اختلافات کی جانب اشارہ کرنا تھا۔ دنیا میں وہ کونسا ملک ہے جس میں سیاسی، مذہبی، مسلکی یا علاقائی اختلافات نہیں ہوا کرتے۔ کیا وہ مملکتیں جو سیاسی لحاظ سے بہت مضبوط ہیں، جہاں بہت مستحکم حکومتیں موجود ہیں اور جہاں قومیں سیاسی لحاظ سے بہت ہی زیادہ وسیع النظر ہیں، کیا ان ریاستوں میں ہر قسم کے اختلافات نہیں پائے جاتے؟۔ کیا امریکہ، برطانیہ، یورپ کے دیگر ممالک اور اسی طرح بھارت میں اندرونی اختلافات موجود نہیں؟۔ اگر ان ممالک میں جن کو بہت ترقی یافتہ یا بہت مہذب سمجھاجاتا ہے، ہر قسم کے اختلافات موجود ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں ایسا سب کچھ ہونا کونسی ایسی بات ہے جس کا بار بار حوالہ دینا ضروری سمجھا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ قوم جنگ کی صورت میں تو اتحاد کا مظاہرہ کرسکتی ہے لیکن حالت امن میں نہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ “خطے میں بہت خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے اور جنگ کے بادل ابھی ٹلے نہیں ہیں۔ عالمی برادری اس معاملے کا نوٹس لے ورنہ خاموشی بہت بڑی غلطی ہو گی۔ عالمی برادری کی خاموشی غیرذمے دارنہ فعل ہے اور اگر بھارت نے کوئی جارحیت کی تو اس کا نقصان بھارت کو ہو گا اور پاکستان بھرپور جواب دے گا”۔

ایک جانب پاکستان کے یہ خدشات جس کو پاکستانی وزیر خارجہ نے دنیا کے سامنے محض اس لئے رکھے کہ اگر خطے میں کوئی کشیدگی بڑھ جائے یا حالات قابو سے باہر ہو جائیں تو دنیا کو اس شکایت کا موقع نہ ملے کہ پاکستان نے عالمی برادری کو بر وقت کیوں آگاہ کیوں نہ کیا لیکن دوسری جانب بھارت کا پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر جو رد عمل سامنے آیا اس کو غیر سنجیدہ نہ کہا جائے تو پھر کہا بھی کیا جا سکتا ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انڈین حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ “انڈیا اِس غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ بیان کو مسترد کرتا ہے۔ انڈیا نے پاکستانی وزیرِخارجہ کے بیان کو واضح طور پر خطے میں جنگی جنون کو بڑھانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہتھکنڈے بظاہر پاکستان میں پائے جانے والے دہشت گردوں کو انڈیا میں دہشت گرد حملہ کرنے پر اکسانا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ انڈیا میں ہونے والے سرحد پار حملوں کی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ اور اس پیچیدہ معاملے میں کسی عذر سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حکومت کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو جنگی جنون کو ہوا دینے کے بیانات جاری کرنے کی بجائے سرحد پار دہشت گردی جیسے اہم مسئلے کے لیے اپنے زیر انتظام تمام علاقوں سے دہشت گرد عناصر کو ختم کرنے کے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے”۔

انڈین حکومت کے اس قسم کے بیانات “میں نہ مانوں” کے زمرے میں آتے ہیں یا باالفاظ دیگر کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کی سوئی مسلسل ایک ہی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ پلوامہ میں جو کچھ بھی ہوا اس میں پاکستان ہی ملوث تھا۔ یہ وہ مؤقف ہے جس کا مسلسل اختیار کیا جانا اور اس پر اٹل ہوجانا پاکستان اور انڈیا کے حالات کو معمول پر لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگا۔ پاکستان اس مؤقف کے بارے میں کہ پلوامہ حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ ہے، بار بار بھارت سے کہہ چکا ہے کہ اگر اس کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو وہ پاکستان کے سامنے رکھے لیکن وہ ایسا کرنے اور شواہد پیش کرنے کی بجائے ایک ہی بات پر ڈتا ہوا ہے کہ پلوامہ حملے میں پاکستان ہی ملوث ہے۔

اگر بھارت کی اس ڈھٹائی کو سامنے رکھا جائے تو پھر شاہ محمود قریشی کے وہ خدشات کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف کوئی بڑا محاذ کھول سکتا ہے اور کسی بھی مقام پر حملہ آور ہوسکتا ہے، درست ہی ہیں۔ جب بھارت اس بات پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ پلوامہ حملے کے پسِ پردہ مقبوضہ کشمیر میں لئے جانے والے نہایت ظالمانہ اقدامات بھی پلوامہ حملوں کا سبب بن سکتے ہیں اور ظلم و ستم کے ہاتھوں مجبور کشمیریوں کے پاس اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر اس کے علاوہ کوئی اور راستہ چھوڑا ہی نہیں گیا کہ وہ انتہائی قدم اٹھائیں، تو ایسا ہو جانا کوئی عجب بات نہیں۔ اس پہلو کی جانب غور کرنے کی بجائے مسلسل پاکستان پر الزام دھرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جن خدشات کا اظہار پاکستان کے وزیر خارجہ کر رہے ہیں وہ درست ہی ہے لہٰذا عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستانی خدشات کا اداراک کرتے ہوئے کوئی ایسا قدم اٹھائے جس سے بھارت کوئی مجنونانہ حرکت سے باز رہے۔

موجودہ پاکستانی حکومت سے بھی اتنی گزارش ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف پاکستانی عدالتوں نے دائرہ تنگ کرنا شروع کیا تھا تب بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھارتی دراندازیاں بڑھنا شروع ہو گئیں تھیں۔ ان کارروائیوں پر موجودہ حکومت جو اس وقت اپوزیشن میں تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ سب کچھ بھارت نواز حکومت کے دفع میں کررہا ہے تاکہ اسے عوام کی توجہ اور ہمدردی حاصل ہوسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اسی قسم کی کارروائیاں پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ہو رہی ہیں یہاں تک کہ وہ ایک بڑی اسٹرائک بھی کر چکا ہے تو کیا یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی سپورٹ تصور کی جائے؟۔ بات اتنی سی ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس کا مقصد پاکستان کو ہر لمحے مضطرب اور پریشان رکھنا ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو دشمن کسی بھی پارٹی کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ امید ہے کہ آئندہ موجودہ حکومتی پارٹی اپنے بیانات دیتے ہوئے کسی پر کوئی ایسا الزام کبھی نہیں لگائے گی جس سے کسی بھی پارٹی کی وطن دوستی پر کوئی حرف آتا ہو۔ ہم سب پاکستانی ہیں، سب محب وطن ہیں اور سب کے سب پاکستان کی خاطر جان دینے کیلئے تیار ہیں۔ سیاسی اختلافات لاکھ ہوں لیکن کوئی ایک فرد پاکستان سے بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں