کشیدہ صورت حال کا حل نکالا جائے

تازہ ترین خبروں کے مطابق ایل او سی پر بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے بعد پاک فوج کی جوابی کارروائی میں 5 بھارتی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے جبکہ دشمن کی متعدد چیک پوسٹیں بھی تباہ ہوگئیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چڑی کوٹ سیکٹر میں بھارتی فوج نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک خاتون اور 4 بچوں سمیت 6 شہری زخمی ہوگئے۔

لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے خلاف ورزیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ چند ماہ قبل بھی اکثر سرحدی خلاف ورزیاں ہوتی رہتی تھیں لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے بلاناغہ خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی کئی مقامات سے بیک وقت خلاف ورزیوں کا مظاہرہ کیاجاتا ہے۔ یہ ساری خلاف ورزیاں بلا اشتعال اور بلا عذر کی جاتی ہیں اور اس میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جانا اور وہ بھی بلا جواز، یہ بزدلانہ حرکت بذات خود ایک مکروہ فعل ہے اور دنیا میں کے ملک کے قانون میں، یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی شہری آبادی کو نشانہ بنانا سخت جرم تصور کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ بھارت کو دنیا کی کوئی پرواہ نہیں جس کی وجہ سے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر نہ تو کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی اسے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ عالمی برادری اس کے متعلق کیا رائے قائم کرے گی۔ ایسا کرنے کی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرات بھی شاید بھارت کو اسلئے ہوتی ہے کہ ایک طویل عرصے سے مسلسل خلاف ورزی کے باوجود اقوام عالم بھارت کے خلاف کسی قسم کا رد عمل دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتی اور یہی پر اسرار خاموشی بھارت کے جنگی جرائم کو مہمیز بخش رہی ہے جو کہ ایک سنگین غفلت اور دنیا کی دہری پالیسی کا ایک واضح ثبوت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ہر ایسی بزدلانہ کارروائی کے بعد بھارت کو منھ توڑ جواب دیتا آیا ہے اور بہادروں کی طرح ان کی شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کی بجائے ان کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتا رہا ہے، ان کے فوجی مورچوں کو تباہ برباد کرتا رہا ہے اور ان کے سورماؤں کو دوسری دنیا کی سیر پر روانہ کرتا رہا ہے لیکن اس قسم کی مسلسل حالت جنگ کسی بھی وقت دونوں ملکوں کو ایک بہت بڑی تباہ و بربادی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں اس بات کا ادراک بھارتی حکام نہیں کر پارہے۔

ممکن ہے کہ پاکستان کا مسلسل تحمل صورت حال کو یہیں تک ہی محدود رکھے اور جنگ کا دائرہ نہ بڑھ سکے لیکن سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ روز روز کی ان کارروائیوں سے وہ شہری علاقے جہاں کے رہنے اور بسنے والے ہر وقت ایک ہنگامی صورت حال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ان کے دل و دماغ پر اس صورت حال کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہونگے؟، کیا اس بات پر غور کرنے کی ضرورت نہیں؟۔ کیا ان کے بچے اور بڑے ان علاقوں کے مکینوں کی طرح ہو سکتے ہیں جو پر امن ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں؟، کیا ان کے بچے اسی طرح کھلے میدانوں میں کھیل کود سکتے ہونگے، اسکول جا اور آ سکتے ہونگے، اپنی خوشیاں اور غم ایک دوسرے کے ساتھ بلا کسی خوف و خطر شیئر کر سکتے ہونگے، وہاں کے بڑے اپنے روز مرہ کے سارے کام کاج معمول کے مطابق انجام د ے سکتے ہونگے، کھیتوں اور باغات میں جا سکتے ہونگے، اپنی اپنی ڈیوٹیاں انجام دے سکتے ہوں گے، کیا یہ سب توجہ طلب باتیں نہیں؟۔ جب ہر وقت وہ بموں، گولیوں اور گولوں کے دھماکے سنتے ہونگے، اپنے گھروں پر برسنے والی گولیوں کو دیکھتے ہونگے، جب ان کی آنکھوں کے سامنے ہر روز ان کے پیارے زخمی یا شہید ہوتے ہونگے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک عام انسان کی طرح کے انسان دکھائی دے سکتے ہوں۔ وہ بچے جو ایسے ہی ماحول میں پل کر جوان ہونگے کیا وہ ان بڑوں کی طرح بن سکیں گے جو پرسکوں اور امن و امان والے علاقے میں پل کر جوان ہوئے ہوں۔ یہ ہیں وہ سارے پہلو جس پر پوری انسانیت کو غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن لگتا ہے کہ عالمی برادری اور خاص طور سے بھارت کو اس ساری صورت حال کا نہ تو کوئی احساس ہے اور نہ ہی اسے اس بات کی کوئی فکر کہ بڑھتی ہوئی اس وحشت سے پاکستان اور بھارت کو کسی بھی وقت کوئی بہت بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں بھارت نے پاکستان کو غافل سمجھ کر رات کی تاریکی میں کسی اعلان جنگ کے بغیر ایک بڑی فضائی کارروائی کر گزرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے جانب سے تو بھارت نے بہت چابک دستی دکھانے کی کوشش کی لیکن اسے اس بات کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا کہ جن کو وہ غافل سمجھ رہا ہے وہ نہ صرف پوری طرح بیدار ہیں بلکہ ہر طرح کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ سبق بھی سکھانے میں ماہر ہیں۔ 1965 میں بھی اس نے رات کی تاریکی میں ٹینکوں کی ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ کوئی اعلان جنگ کئے بغیر پاکستان کی سرحدوں میں گھسنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے وہ عبرت ناک شکست اٹھانا پڑی تھی جس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ بالکل اسی طرح اس بار بھی اس نے ایک دو نہیں بلکہ پورے درجن بھر بمبار طیاروں کے ساتھ فضائی خلاف ورزی کی اور اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ وہ جن جن اہداف کو نشانہ بنانے آیا ہے ان سب کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیگا۔ بھارت کو اپنے “کرگسوں” پر اتنا اعتماد تھا کہ کہ اس نے کارروائی سے قبل ہی اس بات کا دعویٰ کردیا کہ اس نے پاکستان کو بھاری مالی و جانی نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کو اس بات میں کوئی شبہ ہی نہیں تھا کہ اس کے “کرگس” اہداف کو نشانہ نہ بنا سکیں گے لیکن وہ یہ بات بھولے ہوئے تھا کہ “شاہین” شاہین ہی ہوتے ہیں۔ کر گس ممکن ہے کہ تیز اڑان رکھتے ہوں لیکن وہ شاہینوں کی تگ وتاز کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتے۔ شاہینوں کو اپنے تعاقب میں دیکھ کر انھیں ایم ایم عالم یاد آگیا اور وہ سب ایک دوسرے پر گرتے پڑتے افرا تفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے اور اپنی رفتار بڑھانے کیلئےاپنے اپنے پے لوڈ ویرانوں میں ہی پھینک گئے۔ دوسری جانب بھارت کامیڈیا ان کی کامیابیوں کا پروپیگنڈا اس یقین کے ساتھ کر چکا تھا کہ بھارت کے یہ کرگس بہر صورت ان اہداف کو جن کا وہ منصوبہ بنا کر گئے تھے، نشانہ بنا کر ہی لوٹیں گے لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ جیسا کہا جارہا ہے ویسا ہو ہی نہیں سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تا حال بھارت کو پوری دنیا میں ذلت کا سامنا ہے۔ اسی سبکی کو دور کرنے اور اپنے تئیں اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ایسی صورت حال بنانے کے درپے ہے جس کا بہانہ بنا کر وہ کوئی بڑی جنگ چھیڑ سکے۔

پاکستان کا تحمل اپنی جگہ لیکن جس بات پر پاکستان کو بھی بہت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایل او سی یا کسی بھی محاذ پر مسلسل کسی ہنگامی صورت حال کا جاری رہنا ایک بہت ہی کربناک عمل ہے۔ محافظین ہو یا شہری آبادی، اگر مسلسل بے سکونی کی کیفیت میں رہیں گے تو ان کی معمول کی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ اس کا مستقل حل نکالا جائے، خواہ وہ ایک بھر پور جوابی کارروائی کی صورت میں ہو یا اقوام عالم کی ثالثی کی شکل میں، جو بھی ممکنہ حل ہو نکالا جائے ورنہ حالات کسی بھی وقت کوئی بری خبر کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں