عور ت کی زندگی سے جڑا ایک تلخ پہلو 

وہ ایک بار پھر سے زندگی کے اُسی دوراہے پر کھڑی تھی ،جہاں اُس کی ذات آزمائشوں کی لپیٹ میں تھی ۔ ہاں اب شائد وہ وقت آگیا تھا جہاں ایک بار پھر اُس کو اذیتیں سہنی تھیں ، لوگوں کی دھتکار کا سامنا کرنا تھا ۔ وہ اِسی وقت سے ڈرتی تھی اور زندگی کے دس سال اُس نے تنہائی میں گزار دئیے تا کہ اُسے خود کو مسترد کرنے کی اذیت نہ سہنی پڑے ۔ ہاں طلاق کے بعد وہ یہی تو نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی ذات کو یوں پامال کیا جائے ۔ قصور ہی کیا تھا اُس کا ؟ محض طلاق یافتہ ہونا یا عام لڑکیوں کی طرح اپنی خوشحال زندگی کے خواب دیکھنا؟ انہی تکلیفوں کو جھیلتے ہوئے وہ زندگی میں بہت آگے نکل آئی جہاں اُسے صرف اپنی پہچان بنانی تھی لیکن وہ یہ بھُلا بیٹھی تھی کہ وہ ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہے جہاں طلاق یافتہ عورت لوگوں کی آنکھوں کو کھٹکتی ہے ۔
زندگی کے ماہ و سال یونہی گزرتے گئے اور اُس نے اپنی ذات سے جڑی اِس تلخ حقیقت کے ساتھ سمجھوتا کرلیا ۔ لیکن اُس نے خود پر لگے طلاق کے دھبے کی باعث خود سے یہ عہد کیا کہ اب وہ کسی مرد میں اپناسہارا تلاش نہیں کرے گی تا کہ وہ مسترد کیے جانے کی تکلیف سے خود کو بچا سکے۔مسلسل ذہنی ازیت کے باعث اُس کا ذہن اب ماؤف ہو چکا تھا اور اب اُس میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ وہ لوگوں کے بے ہودہ سوالات کا سا منا کر سکے ۔ مسترد ہوجانے کے ڈر سے اُس نے اپنی زندگی کو اِس زاویے سے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا ، لیکن شائد وقت بے رحم تھا جو ایک بار پھر سے اُس کی تذلیل کا سبب بن بیٹھا ۔ہاں ایک بار پھر سے اُس نے اپنی ذات کی کرچیاں بکھرتے ہوئے دیکھیں ، ایک بار پھر سے وہ سسکیوں سے روئی ۔ہر تاریک رات کے آخری لمحات میں وہ اپنے رب سے دعا کرتی اوراپنی غلطیوں کی معافی مانگتی۔ ہاں وہ نہ چاہنے کے باوجود اپنا دل ہار بیٹھی ، محبت کر بیٹھی کہ شائد وقت نے اُس کو تسلیم کروا دیا تھا کہ تنہا زندگی گزارنا بہت کٹھن ہے ۔ وہ کسی کی محبت میں اپنا بھیانک ماضی بھُلا بیٹھی ، اپنی روح پر لگی وہ اذیتیں بُھلا بیٹھی ، اور اپنی ذات پر لگا وہ داغ بھی فراموش کر بیٹھی ، وہ خوش رہنے لگی تھی،جینے لگی تھی لیکن اب وہ وقت آگیا تھا جب اُسے اپنی محبت کے حصول کے لیے ایسے لوگوں کا سامنا کرنا تھا جو اُس کی ذات کو مسترد کرنے کے لیے ہر روز نئی وجوہات تلاش کرتے ، جو اُس کے لیے پل پل کی موت کا سامان بنتا رہا۔
وقت اور حالات کے ہاتھوں ڈری وسہمی ہوئی لڑکی کیا کرتی ؟ آخر تھی تو وہ بھی ایک انسان ، عام لڑکیوں کی طرح وہ بھی ایک نارمل زندگی جینا چا ہتی تھی بس ٹھکرا جانے سے ڈرتی تھی۔ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے والی لڑکی تھی جس کا کُل اثاثہ صرف اُس کے الفاظ تھے ، اپنی لکھی ہوئی تحاریر تھیں ،یہی اُس کے دوست تھے کہ جب لفظ اُس سے روٹھ جاتے تو وہ بوکھلائی ہوئی پھرتی تھی کہ اپنے درد کو قلم بند کرنے کا یہی ایک واحد ذریعہ تھا ۔ وہ بھی دنیا داری جانتی تھی ،اپنی مسکراہٹ کے پیچھے اپنے غم کو چھپانے کا بھی ہنر رکھتی تھی ، عام لڑکیوں کی طرح اُسے بھی مہندی کی خوشبو پسند تھی ، چوڑیوں کی کھنک ، پائل کی چھم چھم اُسے بھی پسند تھی ،گلاب کے پھول کی مانند وہ بھی کھلنا چاہتی تھی، مگر حالات کی آڑ میں وہ اِن تما م ادھوری خواہشات کو دل کے کسی کونے میں دفن کردیتی ، لیکن وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور وہ ایک بار پھر سے اُن خواہشات کی تکمیل کے لیئے جینے لگی۔
ہاں وقت نے اُسے بہت کچھ سکھایا تھا، اُس کے سامنے ایسی ان گنت مثالیں تھیں جن میں عورت زات کی تذلیل شامل ہوتی ۔ کئی گھر بنتے اُجڑتے دیکھتی تو اُس کادل لزر جاتا، کسی عورت کے ساتھ ناانصافی ہوتے دیکھتی تو خود کو بے بس محسوس کرتی،کبھی عورت کو ماں کے روپ میں مجبور دیکھا، تو کبھی بہن اور بیوی کے روپ میں ۔ غرض کہ تمام حالات میں ایک عورت کو ہی پستے ہوئے دیکھا ۔کئی بار عورت کو گھر سے بے گھر ہوتے دیکھا، کبھی تین لفظوں میں آزاد ہوتے دیکھا، کبھی گالی گلاچ ، مار دھاڑ جیسی جسمانی اذیتوں میں پستے دیکھا، تو کبھی عورت کو سسرال کے اعلیٰ معیار پر پورا نہ اُترنے کی صورت میں بہت بے رحمی سے مسترد ہوتے دیکھا ۔ ایسے میں وہ خود میں سمٹ جاتی اور ہر روز خود پر نظر ثانی کرکے ایک نیا نقص تلاش کرتی اور پھر خود ہی اپنی مرمت کرنے کا ارادہ باندھتی تاکہ وہ کسی بھی صورت اپنی محبت حاصل کر سکے ،کیونکہ وہ اپنی محبت میں اُس مقام پر تھی جہاں سے پلٹنا اُس کے لیے ناممکن تھااو ر اپنی ذات کے ٹھکرائے جانے کی باعث اُس میں ا پنی محبت سے دستبردار ہونے کی بھی ہمت نہ تھی ۔ لیکن پھر بھی وہ ہر لمحہ ٹھکرائی گئی اور ہر دن ٹھوکر لگنے کے بعدبھی وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے رکھتی ،کہ اب محبت میں اُسے ہار نا منظو ر نہیں تھا۔
عورت کی ذات کا یہ ایک درد ناک پہلو ہے جس میں وہ ایک مرد کا تحفظ پانے کے لیئے پل پل کی موت مرتی ہے ، اپنی ہی ذات کا تماشا بنتے ہوئے دیکھتی ہے اور پھر خود ہی اپنی بے بسی پر رو کر خاموش ہوجاتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ہر روز رونما ہونے والے ایسے کئی واقعات ہیں جن میں عورت کو جب چاہے بنا کسی ٹھوس وجہ کے مسترد کر دیا جاتا ہے اور بہت بے رحمی سے اُسے ہر گھڑی آزمائشات کی سولی پر چڑھایا جاتا ہے ، جہاں عورت کے ساتھ اُس کے والدین بھی انہی ازیتوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔ نہایت افسوس ناک بات یہ ہے کہ لوگ ایسی صور تِ حال پیدا کرنے سے پہلے کسی لڑکی اوراُس کے والدین کے احساسات،اور عزت کے بارے میں ایک پل کے لیئے بھی نہیں سوچتے اور اپنی کارستانی بڑے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مکافاتِ عمل کا ایک وقت مقرر ہے جو یقینی ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں