وزیر اعظم عمران خان نے سب کو یہ کہہ حیرت میں ڈال دیا کہ ایم کیو ایم کے ارکانِ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی و سینیٹ سے زیادہ نفیس میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ ان کا یہ کہنا کتنا حیرت انگیز یا کتنا بڑا “یوٹرن” ہے، میں چند گزارشات قارئین کے سامنے رکھنا چاہونگا جس سے اس بات کا اندازرہ ہو سکے کہ ایم کیو ایم ہے کیا۔
متحدہ قومی موومنٹ جو کبھی مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے وجود میں آئی تھی اب بظاہر کئی دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ موجودہ ایم کیو ایم ہے بھی اور نہیں بھی، نیزموجودہ ایم کیو ایم کے متعلق اب یہ کہنا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ ہے یا مہاجر قومی موومنٹ اس لئے کہ وہ جس شکل میں بھی ہے وہ اپنے آپ کو کہتے تو “ایم سے متحدہ” ہی ہیں لیکن کارڈ وہ “ایم سےمہاجر” کا ہی استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ اب تک “ون مین شو” کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ وہ جس محور کے گرد گردش کرتی ہے وہ ایک ہی شخصیت ہے لیکن پاکستان میں کیونکہ اس شخصیت کی تحریر، تقریر، تصویر حتیٰ کہ کسی بھی قسم کی گفتگو، بحث، ٹاک شو یا کسی کے مضمون اور کالم تک میں اس کا نام تک لیاجانا مکروہ ہے اس لئے اگر ایسا کرنا یا نام لینا ضروری ہوجائے تو “بانی ایم کیو ایم” کہنے یا لکھنے سے زیادہ ایک حرف بھی ممکن ہے کہ لائق تعزیر قرار دیدیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صحافی، ہر اینکر، ہر شریک گفتگو، ہر مبصر اور ہر تجزیہ کار ایم کیو ایم کے بانی کا نام لیتے ہوئے محتاط نظر آتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟، اس کی اصل وجہ یا تو میری طرح نام لینے سے ہچکچانے والے ہی بتا سکتے ہیں یا پھر احکامات جاری کرنے والے لیکن اتنا ہر فرد جانتا ہے کہ ایم کیو ایم کا بانی ہی نہیں، پوری ایم کیو ایم شدید الزامات کی زد میں رہی ہے اور آج تک وہ ان الزامات سے اپنے آپ کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام تر الزامات کے باوجود وہ عوامی سطح پر مقبول رہی ہے اور ہر الیکشن میں کامیابی اسی کے سر رہی ہے جس سے اس بات کا ضرور پتہ چلتا ہے کہ عوام لگائے گئے الزامات کو یا تو درست نہیں مانتے یا پھر جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ان کے پسِ پردہ حقائق اتنے گہرے ہیں کہ کسی کا (الزمات کی روشنی میں) چور، ڈاکو، بھتہ خور یا آدم خور بن جانا بنتا ہی بنتا ہے۔
جن الزامات کا ایم کیو ایم کو مسلسل سامنا ہے وہ سارے کے سارے نہایت سنگین ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اس کے باوجود بھی ایم کیو ایم کو پاکستان کی کسی عدالت نے یا کسی بھی حکومت نے کبھی کالعدم قرار نہیں دیا۔ اگر کوئی جماعت ملک دشمن بھی ہو، فتنہ پرور بھی ہو، نسلی تعصب کی مرتکب بھی ہو، ایک مافیہ بھی ہو، آئین و قانون کے خلاف سرگرمیاں بھی رکھتی ہو، اس کے کارکنان سیکڑوں انسانوں کے قاتل بھی ہوں، بھارت سے تخریب کاری کی تربیت بھی حاصل کرتے رہے ہوں اور اس کا بانی اداروں اور ریاست کے خلاف زہر بھی اگلتا رہا ہو، پھر بھی اس کو سیاست میں حصہ لینے کا مسلسل حق حاصل رہا ہو اور حد یہ ہو کہ وہ ایک فوجی حکومت کی لاڈلی بھی رہی ہو اور کھربوں روپوں کے فنڈز بھی اس کے توسط سے ملے ہوں تو کیا یہ بات ایک حیران کن نہیں؟۔ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب تاریخ اگر دے سکے تو دے لیکن کم ازا کم پاکستان میں کوئی سیاسی، سماجی، مذہبی پارٹی یا قانون سے تعلق رکھنے والے کسی بھی ماہر اور تجزیہ نگار کی جانب سے آج تک نہیں مل سکا اور نہ ہی اس بات کا کوئی امکان نزدیک و دور نظر آتا ہے۔
یہاں ایک بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم پر الزامات تو بہت سنگین سہی لیکن ان الزامات کو آج تک نہ تو کسی عدالت میں ثابت کیا گیا اور نہ ہی ان سارے مذکورہ الزامات پر کوئی ایک فرد بھی اپنے انجام تک پہنچایا گیا۔ حال ہی میں اسلحوں کی بڑی بڑی کھیپوں کا قبروں اور پانی کی ٹنکیوں سے نکلنے سے لیکر دفاتر کی کھدائی تک جیسے سنگین ترین واقعات میں ملوث افراد تک کو عدالت میں پیش کرکے ان پر فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی جبکہ ملک کے تمام انٹیلیجنس ادارے ان الزامات کو لگاتے بھی رہے ہیں اور وہ سب کے سب خود ہی براہ راست تحقیقات میں بھی شریک رہے ہیں۔
برے لوگ کہاں نہیں ہوا کرتے لیکن بروں کیلئے ہی ہر ملک میں ایسے ادارے بنائے جاتے ہیں جو ان کو برے کام سے باز رکھ سکیں۔ ایم کیو ایم بھی فرشتوں کی جماعت تو نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی جو بات اب تک سب سے نمایاں رہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جماعت جو گزشتہ 40 سال سے سیاست کر رہی ہے، حکومتوں بھی شامل رہی ہے، جس کے مرکز پر ملک کی ہر سیاسی پارٹی اور اور ان کے رہبران حاضریاں لگاتے رہے ہیں، فوجی آمر بھی جن کا سہارا لیتے رہے ہیں، ڈاکٹر طاہرالقاری جیسی شخصیت بھی جن سے متاثر رہی ہے، فضل الرحمن بھی جس لیڈر کے گھر تشریف لا چکے ہوں، ن لیگ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں جس جماعت نے ڈاکٹر طاہرالقاری کا ساتھ دیا ہو، جس کے بیشمار ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز رہے ہوں، ان کی ایک بہت بڑی تعداد اب تک نہ تو پانامہ میں نظر آئی، نہ ملک کی دولت کی لوٹا لاٹی میں ملوث دکھائی دی، نہ ملک سے باہر بڑی بڑی جائیدادیں کو خریدا اور نہ ہی آج کل نیب کو مطلوب ہے۔ عالم یہ ہے کہ ایک واضح تعداد وہ ہے جو جہاں جہاں رہتے بستے تھے تھے ان ہی محلوں اور تنگ و تار گلیوں اور مکانوں میں ہی رہ بھی رہے ہیں اور بس بھی رہے ہیں۔
خرابیاں کس میں نہیں ہوتیں، فرشتے یہ بھی نہیں ہونگے لیکن کیا جو اچھائیاں ایک آنکھ دیکھ رہی ہے کیا پورے پاکستان کے پاس ویسی کوئی اور آنکھ نہیں ہے؟۔
یہاں ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جو باتیں بانی ایم کیو ایم کرتے رہے ہیں اور جو الزامات ایم کیو ایم پر لگتے رہے ہیں کیا پاکستان میں ایسی باتیں صرف وہی کرتے رہے ہیں اور اسی قسم کے الزامات کا سامنا صرف اور صرف ایم کیو ایم ہی کو رہا ہے؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بانی پر پابندی اور ایم کیو ایم کا خاتمہ بہر صورت ضروری ہے لیکن اگر ایسا نہیں بلکہ پاکستان میں بہت سی سیاسی جماعتیں اور رہنما، بشمول موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان کا ماضی بھی ایسی ہی تلخ گوئیوں اور زہریلا لبی سے پُر رہا ہے تو پھر سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیوں نہیں؟۔ یہ ہے وہ سوال جس کے جواب میں جتنی بھی تاخیر ہوگی معاملات اتنے ہی پیچیدہ تر ہوتے جائیں گے۔
آج ملک کا وزیر اعظم یہ کہنا کہ اس نے ایم کیو ایم سے زیادہ نفیس ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کو نہیں دیکھا، بے شک حیران کن ہی ہے لیکن اس بات کا اظہار بھی کہ حالات کو مثبت انداز میں آگے لیجانے کا ایک راستہ بھی اس میں دکھائی دیتا ہے جو عمران خان کی وسعت قلبی کا اظہار بھی کررہا ہے۔ مخالفوں کو اپنا بنانے کی جانب ایک احسن قدم ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کو اس بات پر شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ اس پر دفاعی رویہ اختیار کرنے والے ناقدین یہ کہیں کہ یہ وہ ایم کیو ایم ہے جو بانی ایم کیو ایم والی نہیں لیکن کیا وہ اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ یہ تمام ممبران وہی ہیں جو بانی ایم کیو ایم والے ہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بانی ایم کیو ایم والی ایم کیو ایم کا وجود اب بظاہر ختم ہوچکا ہے لیکن شاید ایسا نہیں بھی ہے۔ بانی کا کردار اب تک ایک ٹھوس حقیقت کی صورت میں موجود ہے جس کا واضح ثبوت بانی کو چند گھنٹوں کیلئے بھی موقع نہ دینا، 90 زیرو کے دروازے کو سیل رکھنا، دفاتر کو قائم کرنے کی اجازت نہ دینا یہاں تک کہ شہدا کے قبرستان کے راستے تک بند کردینا ہے۔
Everyone loves what you guys tend to be up too. This type of
clever work and coverage! Keep up the awesome works guys I’ve
added you guys to our blogroll.
Apрreciate the recommendation. Let mme tгy it out.