ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اگر توہین رسالت کا معاملہ واقعی اظہار خیال کی آزادی کا ہی ہوتا۔

اگر آسیہ کا کیس ایک عام کیس کی طرح ہی چلتا۔

اگر ممتاز قادری کا کیس بھی قتل کے بقیہ ہزاروں کیسز کی طرح چلتا۔

اگر اس کیس میں قرآن اور حدیث سے گواہی کے اصول نکالنے والے اپنے باپ کے لیئے برے الفاظ بولے جانے کی خبر سن کر اتنے ہی غیر جذباتی رہتے۔

اگر ہنگامہ خیز مظاہرین کو جاہل ملا کہہ کر تذلیل کرنے والے، جماعت اسلامی کے پر امن مظاہروں کی ہی حمایت کرتے نظر آتے۔ یا ایک پرامن مظاہرہ منعقد کرتے۔

اگر اقلیتوں کے حقوق کے داعی، کشمیر، افغانستان، عراق، ۔۔۔۔۔۔میں اکثریت کی عزت، جان اور مال کی منظم بربادی پر مظاہرے کرتے، وفود امریکا اور یورپ بھیجتے۔

اگر یورپ، امریکہ اور پاکستان کی موم بتی مافیا  کے پاکستانی آسیہ کی حمایت کے ساتھ ساتھ وانی کی شہادت پر، عراق اور شام میں مسلمان عورتوں، بچوں نہتے مردوں اور بزرگوں وغیرہ کے بے دریغ قتل و غارت گری پر آواز اٹھاتی

۔۔۔۔۔تو

۔۔۔۔۔تو

میں مانتا کہ عدالت ٹھیک اور مظاہرین کی جذباتیت غلط۔

میں مانتا کہ توہین رسالت کو جدید دور کے تناظر میں دیکھنے والے غیر جذباتی ہیں نہ کہ بے غیرت۔

میں مانتا کہ توہین رسالت پر خود کم از کم خاموشی پر ہی اکتفا کرنے کے بجاۓ مظاہرین کو تمام تر مغلظات بکنے والے ان مغلظات کے خود حقدار نہیں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ۔۔۔

ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کی دل آزاری، ان کے ممالک پر بمباری، ان کے عقائد کی جدید سائنٹیفک میڈیا کیمپینر کے ذریعے پامالی، ان کے علما کی کردار کشی، اور ان سب سے بڑھ کر ان کے لئے ان کی جانوں سے بڑھ کر رسول پا کﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی شان میں گستاخی کر کے ان کو دیوار سے لگایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت سیرت رسول و صحابہ و ازواج مطہرات پر عمل کرتے ہوئے صبر  سے کام لیتے ہیں حالانکہ دل ان کے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔

لیکن اگر ایک شخص ذاتی حیثیت میں یا ایک چھوٹا سا گروپ اس منظم ظلم و ذیادتی کے خلاف آواز بلند کرے تو دشمن اسے بھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اور نادان مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس پر بھی دشمن کی ہاں میں ہاں ملا کر قصوروار اپنے ہی بھائیوں کو ٹہراتا ہے۔

آسیہ کا معاملہ دنیا میں دنیا کی عدالت اور آخرت میں وہاں کی عدالت دیکھے گی۔ اسلام ہم عام مسلمانوں کو کوئی سی بھی عدالت لگانے کا اختیار نہیں دیتا۔  ہاں ایک اختیار دیتا ہے اور اس کا جواب بھی مانگتا ہے۔

کہ۔

مارکیٹنگ، ایڈورٹائزنگ اور جدید علوم کے ایکسپرٹ ، تجھے رسول پاکﷺ کے خلاف تحریک میں اسلام دشمنوں کا گٹھ جوڑ نظر نہ آیا۔

اپنی ذاتی زندگی میں اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت کی اتنی فُکر کرنے والے ، ناموس رسولﷺ پر آنچ آئی تو پرامن ہی صحیح مظاہرہ تو کرتا، نعرہ نہ صحیح واٹس ایپ میسیج میں حمایت ہی کر دیتا۔ اور یہ سب نہیں تُوتوخاموش بھی نہ رہ سکا۔ جو رسولﷺ کے لئے اٹھے، بولے یا لکھے تُوتو ان کی ہی تذلیل کرتا رہا۔ میں سوچ رہا ہوں میں کس کے ساتھ ہوں۔  آپ بھی سوچئے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں