دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا

ٹیمیں ایک جھٹکے میں تباہ و برباد تو ہوجایا کرتی ہیں لیکن بننے میں برسوں لگتے ہیں۔ ٹیم کوئی سی بھی ہو، اس میں کتنے ہی نامی گرامی پہلوان ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر ان میں مناسب ٹیم ورک نہ ہو، کپتان اپنے کھلاڑیوں سے، کھلاڑی اپنے کپتان سے اور ہر کھلاڑی ہر دوسرے کھلاڑی سے بدگمانی یا دوریوں کا شکار ہو تو پھر خواہ کھیل کا آغاز کتنا ہی عمدہ ہو اس کا اختتام کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتا۔
پاکستان کا قومی کھیل کونسا ہے؟۔ آج یہ سوال اگر کسی نوجوان سے کیا جائے گا تو وہ یہ سن کر پریشان ہوجائے گا کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی گنا جاتا تھا۔ ایک طویل مدت تک پاکستان ہاکی کے میدان پر حکومت کرتا رہا ہے۔ ہاکی کا وہ کونسا ٹائیٹل ہے جو وہ اپنے نام نہیں کرتا رہا ہے۔ ایک موقعہ وہ بھی تھا جب ہاکی کے تمام ٹائیٹل پاکستان ہی کے پاس ہوا کرتے تھے، ہماری ٹیم کی مضبوطی کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ ہاکی کے عالمی مبصرین یہ کہتے نظر آتے تھے کہ پاکستان کو ہاکی کے میدان میں صرف اور صرف خود پاکستان کی ٹیم ہی ہرا سکتی ہے۔ میں نے ہاکی کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب پاکستان کسی میچ میں دو یا تین گول کرکے آتا تھا تو ہر عام و خاص کو شدید مایوسی ہوا کرتی تھی کیونکہ پاکستان عام طور پر مخالف ٹیم کے خلاف پانچ گولوں سے اوپر ہی گول کیا کرتا تھا۔ میں اس بات کا چشم دیدہ گواہ ہوں کہ جونہی پاکستانی ٹیم کے پاس گیند آیا کرتی تھی، مخالف ٹیم کے تمام کے تمام کھلاڑی ہر قسم کی جدوجہد چھوڑ کر بے تحاشہ اپنی “ڈی” کی جانب دوڑ جایا کرتے تھے اس لئے کہ وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اپنے گول کا دفاع کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے۔ گیارہ کے گیارہ کھلاڑی صرف اس بات میں مصروف ہوجاتے تھے کہ جو صورت بھی ہو، وہ اپنے اوپر ہونے والے حملہ کو ناکام بنائیں۔
میونخ اولمپک میں پاکستان کی ٹیم کے جذباتی طرز عمل نے اس وقت کی سب سے بہترین ٹیم کو ہی تباہ و برباد کردیا تھا۔ پاکستان کی پوری کی پوری ٹیم کے کھلاڑیوں پر ہاکی کے تمام دروازے ہمیشہ ہمیشہ بند کر دیئے گئے تھے۔ کسی ملک کے تمام کے تمام کھلاڑی نکال دیئے جائیں تو یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ وہ ٹیم دنیا میں اپنا کوئی مقام بنا سکے لیکن یہ پاکستان کے کھلاڑی ہی تھے جو اگلے سال ہی ایسی ٹیم بننے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ ورلڈ کپ کے اپنے پول میں وہ ناقابل شکست ٹیم کے طور پر ابھرے اور پوری دنیا کو حیران کر گئے۔ بے شک وہ سیمی فائنل میں ہار گئے لیکن ایک بالکل نئی اور ناتجربے کار ٹیم کا اپنے پول میں ناقابل شکست رہنا بھی ناقابل یقین بات بن گئی تھی۔ یہ بات اس بات کی گواہی تھی کہ پاکستان میں ہاکی کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں تھی اور بلا شبہ اگر دنیا میں ہر ملک کو ایک سے زیادہ ٹیمیں بنانے کا اختیار ہوتا تو پاکستان چار پانچ ٹیمیں بھی میدان میں اتار سکتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو ہاکی کا ہر ٹائیٹل کا تنہا وارث رہ چکا ہو، پوری ٹیم پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پابندی لگائے جانے کے باوجود بھی دنیا کی بہترین ٹیم کا مالک بن چکا ہو اور ہاکی اس کا قومی کھیل بھی کہلاتا ہو، وہ ہاکی کے افق سے بالکل ہی غائب کیسے ہوگیا؟۔ یہ ایک ایسی غور طلب بات ہے جس پر شاید پاکستان میں کوئی فرد بھی سوچنے کیلئے آج تک تیار نہیں۔
ہاکی کی ٹیم اس لئے ایک ٹیم تھی کہ اس کا ایک ایک کھلاڑی تسبیح کے دانوں کی طرح جذبے اور اخلاص کی ڈوری میں پرویا ہوا تھا۔ جب جذے اور اخلاص کی ڈوری ٹوٹ جائے اور سلیکٹر کی آنکھوں میں لالچ کی چمک پیدا ہوجائے تو پھر اچھی ٹیمیں اسی طرح ریت کا ڈھیر بن جایا کرتی ہے۔
ایک طویل مدت کے بعد پاکستان کی کرکٹ کی ٹیم ایک ٹیم کی شکل میں سامنے آنا شروع ہوئی تھی۔ بے شک اس ٹیم میں ایسے نامی گرامی کھلاڑی نہیں تھے جیسے ایک زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ سب کھلاڑی نہایت اوسط درجے کے تھے لیکن ان کے اندر ایک ربط تھا جس کی مثال ماضی کی کسی ٹیم میں بھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ ان کا کپتان اس ٹیم کو مربوط رکھے ہوئے تھا۔ اس کی نظر میں ہر کھلاڑی برا بر تھا۔ وہ میدان میں ہونے والی کسی بھی غلطی پر سرزنش کرنے میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتا تھا تو کسی کی اچھی پرفارمینس پر دل کھول کر داد بھی دیتا تھا۔ ایک ایک کھلاڑی کو ہدایات بھی جاری کرتا اور وقت اور حالات کے اعتبار سے فیلڈنگ کو ترتیب دے کر پوری منصوبہ بندی بھی کیا کرتا تھا۔ اب صرف یہی ہوا کہ قیادت ہی تو تبدیل ہوئی تھی۔ کھلاڑی تو پہلے سے بھی بہتر چنے گئے تھے اور ان کی کار کردگی بھی گزشتہ میچوں سے زیادہ اچھی تھی تو پھر کیا وجہ ہے کہ ٹیم تین ایسے میچ ہار گئی جو ہاتھوں میں آئے ہوئے تھے؟۔ کیا وجہ ہے کہ بہترین فائی ٹنگ اسکور دے کر نہ تو میچ جیتے جاسکے اور ناہی اسکور کا تعاقب کرکے کامیابی حاصل کی جاسکی۔
اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو چند باتیں لازماً قابل توجہ قرار پائیں گی۔
ہوتا یہ ہے کہ ہمارے سارے اداروں کی طرح کرکٹ میں بھی کوئی فرشتے نہیں بیٹھے ہوئے۔ جو جو بیماریاں ہمارے معاشرے میں ہیں انھیں سارے جراثیموں کا شکار پاکستان کرکٹ بورڈ بھی ہے۔ لالچ، ہوس، تعصب، ضد اور انا اگر معاشرے کے ناسور ہیں تو وہی سڑا ہوا مواد کرکٹ بوڑ کے دماغوں میں بھی پکا ہوا ہے۔ ورڈ کپ کے نزدیک جب کرکٹ ٹیم ایک مضبوط ہی نہیں واقعی ایک ٹیم بن کر ابھر رہی تھی تو لالچوں، ہٹ دھرمیوں اور تعصبات کی بیماری کو ظاہر تو ہونا ہی تھا۔ اس قسم کے ایونٹ میں بہت نام بھی ہوتا ہے اور دولت بھی برستی ہے۔ جب بھی ایسا موقعہ آتا ہے ہر سمت سے ناقابل برداشت دباؤ بورڈ کے ایک ایک فرد کے کاندھوں کو شل کرنا شروع کردیتا ہے جس کا نتیجہ اقربا پروری، لالچ، تعصب، نوکریاں بچانے اور پیسہ کمانے کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ اب کرکٹ ٹیم میں آشکارا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ کیپٹن کو ایک بہانے کا سہارا لیکر ریسٹ دیدیا گیا ہے اور لگتا ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد تک بھی یہ ریسٹ جاری ہی رہے گا۔ نہایت تیزی کے ساتھ کئی کھلاڑیوں کو ٹیم میں داخل کیا جارہا ہے اور عالم یہ ہے کہ کیپٹن شپ اب تک تجرباتی مراحل میں ہے جس کی وجہ سے کھلاڑی بکھرے بکھرے سے نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کھلاڑیوں کو بھی “ان” کیا گیا ہے وہ پہلوں سے بہتر ہی نظر آرہے ہیں لیکن کم از کم دو ایسے میچ جس کو پاکستان نہایت آسانی کے ساتھ جیت سکتا تھا، ان کی ہار اس بات کو ظاہر کررہی ہے کہ تجربہ تجربہ ہی ہوتا ہے۔
بے شک انتخاب کو برا نہیں کہا جاسکتا، لیکن کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ ورلڈ کپ میں شامل دیگر ٹیموں کے سامنے بھی ان کھلاڑیوں کی ایسی ہی پرفارمینس برقرار رکھ سکیں گے۔
یہ شمولیتیں اور تبدیلیاں اس بات کی بھی غمازی کرتی ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ شاید اب تک اس بات کا فیصلہ ہی نہیں کرسکا ہے کہ ورلڈ کپ کیلئے ٹیم کی کونسی ہوگی؟۔ وہ ٹیم جو گزشتہ کئی سال سے ایک مضبوط سے مضبوط ٹیم بنتی جارہی تھی، وہ ٹیم ورلڈ کپ کھیلے گی یا اب جن جن کھلاڑیوں نے اعلیٰ کارکردگی کا (انفرادی) مظاہرہ کیا ہے ان کو ٹیم میں جگہ دی جائے گی؟۔ اس بات کا فیصلہ ابھی تک نہ ہونا ہی سب سے پہلی وجہ ہوگی جو پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر بھی نکال پھینک سکتی ہے۔
آسٹریلیا کے خلاف نئی ٹیم کے بعض کھلاڑیوں نے جو اعلیٰ کارکردی کا مظاہرہ کیا ہے اگر ان کو سلیکٹ نہیں کیا گیا تو یہ بات ان کے ذہن پر برا اثر بھی ڈال سکتی ہے اور اگر ان کی وجہ سے کئی سال سے محنت کرنے والے کھلاڑیوں کو نظرانداز کیا گیا تو وہ بھی کوئی اچھی بات نہ ہوگی۔
بات فقط اتنی ہے کہ جب فیصلے بر وقت نہ ہوں تو کنفیوژن ضرور جنم لیتا ہے۔ جو فیصلے ورلڈ کپ شروع ہونے سے محض دو ماہ قبل لئے جارہے ہیں اگر یہ آج سے کم از کم سال بھر قبل کر لئے جاتے تو سلیکشن کمیٹی کو مشکلات پیش نہیں آتیں لیکن ہمارے ادارے عام طور پر وقت گزرجانے کے بعد ہی سوچ بچار کرنے کے عادی ہیں۔
کیپٹن شپ کے فیصلے سے لیکر کھلاڑیوں کی سلیکشن تک آزمائش کا یہ مرحلہ کسی نے پیدا نہیں کیا، اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔ میں تو صرف اتنا کہونگا کہ اگر کسی بھی معاملے میں ذرا بھی غلطی ہوئی تو خواہ انفرادی کھلاڑی کچھ بھی پرفارم کر جائیں، نتیجہ پاکستان کے حق میں نکالنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اس لئے ٹیم کا مطلب ہی “ٹیم ورک” ہوتا ہے جو موجودہ ٹیم میں کہیں سے کہیں تک بھی دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ انفرادی سطح پر بہترین کارکردگی کے باوجود جو نظر آیا وہ یہی نظر آیا کہ
شومی قسمت دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں