سالم الحسانی صاحب بغداد میں پیدا ہوئے۔ 1960 میں ان کے والدین بغداد سے برطانیہ، مانچسٹر تشریف لے آئے، انھوں نے اپنی ابتدائی اور اعلی تعلیم مانچسٹر سے ہی حاصل کی۔ 1991 میں مکینکل انجیئنرنگ میں مانچسٹر یونیورسٹی میں ہی بطور پروفیسر کام کرنے لگے۔ آف شور انسٹالیشن اور میجر پلانٹ میں ایکسپرٹ بنے، کمپیوٹیشنل ماڈلنگ اور بائیو میڈیکل پروسیس میں مہارت حاصل کی۔
1968 میں سے لے کر 2019 تک 200 سے زیادہ مقالہ جات، پیپرز اور کتابیں لکھیں جو عالمی سطح کے جرنلز اور میگزینز میں شائع ہوئیں، لیکن پچھلے 20 سالوں میں سالم الحسانی صاحب کی تحقیقات کا رخ یکسر تبدیل ہوگیا ۔
ان کے ایک استاد ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا، “سالم! میرا خیال ہے کہ تمھیں اسلامی تاریخ پر تحقیق کرنی چاہئیے”۔ سالم صاحب یہ سن کر مسکرائے اور بولے، ” سر! مجھے تاریخ سے نفرت ہے، کیونکہ یہ تاریخ قتل و غارت، قبضوں اور حملوں سے عبارت ہےاور میں یہ سب پڑھ کر خود کو دکھی نہیں کرنا چاہتا ہوں”۔ ان کے استاد فکرمند لہجے میں گویا ہوئے، “میں جنگی اور سیاسی تاریخ کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی علمی اور سائنسی تاریخ کی بات کررہا ہوں، جو تمھارے لئیے کسی دلچسپی سے کم نہیں ہوگی”۔
سالم صاحب نے یہ سننے کے بعد اپنے استاد کی گذارش کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور پھر تاریخ کے صفحوں میں گم ہوگئے۔ یہ پچھلے 20 سالوں سے امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں کی ہر بڑی لائبریری کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں۔ ان کو جہاں سے جو ہاتھ لگتا ہے یہ اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنالیتے ہیں اور ان کی 20 سال کی تحقیق نے مغرب کے تعصب اور ہماری جہالت دونوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے۔
1493-711 عیسوی مسلمانوں کے تابناک ماضی، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک پھیلی عظیم الشان اسلامی ریاست، عادل خلافت اور تحقیق و جستجو پر مشتمل حسین روایات کا مرقع ہے لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئیے کہ مغرب اپنےتعصب کی بنیاد پر اس سارے زمانے کو “اندھیرے کا زمانہ” بولتا اور بتاتا ہے کہ اس زمانے میں تو سائنس و تحقیق کا کوئی کام سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔ یونانیوں کے بعد اگر کسی نے علم و فن اور تعلیم و تحقیق کے جھنڈے گاڑے ہیں تو وہ یورپینز ہیں۔
آپ سن کر حیران رہ جائینگے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے ایک شخص کو 30000 دینار پر تمام سہولیات اور آسائشوں کے ساتھ صرف اس کام پر معمور کر رکھا تھا کہ وہ تمام یونانی کتابوں کا ترجمہ عربی میں منتقل کرے۔
سالم الحسانی صاحب نے 1001 کے نام سے پورا ایک ادارہ کھڑا کردیا ہے، وہ مسلم ہیریٹج کے نام سے ایک ویب سائٹ کے بانی بھی ہیں، فاؤنڈیشن آف سائنس ، ٹیکنالوجی اینڈ سولائزیشن کے چیئرمین بھی ہیں جبکہ مانچسٹر یونیورسٹی میں لاطینی و یونانی ادب کے شعبے کے اعزازی پروفیسر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس سارے ڈارک ایج کو پوری تحقیق اور شرح صدر کے بعد گولڈن ایج کہتے ہیں۔
ان کی تحقیق ان کو یہ بتاتی ہے کہ آج بمشکل کوئی ایک ایجاد بھی دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد صدیوں پہلے مسلمانوں نے نہ رکھ دی ہو۔ ان کی تمام کتابیں اور ڈاکیومنٹریز نیشنل جیوگرافک کے تعاون سے یوٹیوب پر بھی موجود ہیں۔انھوں نےاعلی ترین اور نہایت پروفیشنل انداز میں مسلمانوں کے تحقیقی کام کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر نے کہا تھا کہ:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مسلمان سائنسدانوں، ڈاکٹرز ، انجنئیرز اور فلاسفرز کے ناموں کو اس طرح لکھا گیا ہے کہ پڑھنے والا انھیں کوئی یونانی یا یورپی خیال کرتا ہے۔ آپ ابن رشد کی مثال لے لیں انھیں ایواروس لکھا اور پڑھا جاتا ہے اور یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ جب ابن رشد بستر مرگ پر تھے تو ان کی ایک ریاضی کی تحقیق پر ایک کم عمر نوجوان نے کچھ اعتراض کردیا ۔ ابن رشد شدت مرض اور بستر مرگ پر ہونے کے باوجود اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا “برخوردار! مجھے بتاؤ کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے؟”۔ ان کے آس پاس موجود لوگوں نے کہا کہ محترم یہ کم عمر نوجوان ہے آپ اس کی وجہ سے اپنا آرام کیوں خراب کرتے ہیں ،تو ابن رشد نے جواب دیا کہ “میں مرنے کے بعد اللہ تعالی کو کیا جواب دونگا کہ، جب اس نے مجھے علم حاصل کرنے کی مہلت دی تھی پھر بھی میں نے اس موقع کو ضائع کردیا”۔
آپ علم کی ایسی طلب اور تڑپ رکھنے والی قوم سے توقع رکھتے ہیں کہ اس نے سات صدیاں اندھیرے میں گذار دی ہونگی؟ سالم الحسانی کے مطابق اس سے بڑا دھوکہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ نیوٹن کے جن 3 قوانین کو نیوٹن کا کہا جاتا ہے ان میں سے پہلا اور تیسرا پہلے ہی مسلمان سائنسدان دے چکے تھے۔ فاؤنٹین پین بھی مسلمانوں کی ایجاد تھی، عباس ابن فرناس نامی ایک مسلمان انجینئر نے اس جہاز کی بنیاد بھی رکھ دی تھی اور اڑان بھی بھرلی تھی جسے رائٹ برادران کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ بس جہاز کی دم نہ لگانے کی وجہ سے وہ زیادہ لمبا سفر کرنے کے قابل نہیں ہوسکا تھا، دنیا کے پہلےجدید ڈیم کا نقشہ اور بنیاد بھی ابن الہیثم نے رکھی تھی۔
سالم الحسانی کہتے ہیں کہ 1001 تو ایک استعارہ ہے ، اصل میں تو ان سات صدیوں میں روزانہ کی بنیاد پر پوری اسلامی ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں نئی نئی تحقیقات، فلاسفیز آتی تھیں اور نئے نئے سائنسی تجربات کئیے جاتے تھے۔ اس میں صرف مرد ہی نہیں سینکڑوں عورتیں بھی شامل تھیں۔ ونڈ مل کا سب سے پہلا تصور حضرت عمر فاروق ؓکے دور میں پیش کیا گیا اور ابھی بھی اس کے ڈھانچے افغانستان میں موجود ہیں۔
الشفاء، فاطمہ الفریحہ، زبیدہ، لبانا، مریم الاجلیاہ اور سطیطہ الماہملی سمیت بے شمار خواتین نت نئی ایجادات و تحقیقات میں ہمہ تن مصروف رہتی تھیں۔ ہندوستان کے ایک ہندو کمپیوٹر انجنئیر نے کمپیوٹر کی تاریخ پر کتاب مرتب کی ہے اور وہ اس کے شروع میں ہی الکندی کا نام شامل کئیے بغیر نہیں رہ سکا ہے جس نے کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کی بنیاد رکھی تھی۔
16 مارچ کو سالم الحسانی صاحب پہلی بار پاکستان آئے تھے۔ان کے کام اور رتبے کے اعتبار سے اصولی طور پر ان کے استقبال،ان کے اعزاز اور ان کے کام کو ملکی سطح پر پیش کرنے کا کام حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم کا تھا لیکن”اور بھی غم ہیں زمانے میں تعلیم کے سوا” ۔ بہرحال کراچی میں آئی – بی – ایم نے انھیں خوش آمدید کہا ۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک انھوں نے 1001 کے کام کو بہت خوبصورتی سے پایہء تکمیل تک پہنچا دیا ہے ۔ محترم سالم الحسانی صاحب اس عمر میں بھی جوانوں والا جذبہ اور ہمت رکھتے ہیں، اقبال کے دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اس پیغام کو پوری تڑپ کے ساتھ ساری دنیا کے طول و عرض میں لے کر گھوم رہے ہیں کہ:
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑادے ممولے کو شہباز سے
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
ذیل میں سالم الحسانی صاحب کی دونوں ویب سائٹس کے لنکس موجود ہیں۔
http://www.1001inventions.com/
http://muslimheritage.com/
http://www.fstc.org.uk/