دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزر نا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس ۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہے اور بالخصوص اکتسابی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی،ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے جیسے نقل و حرکت کے نقائص ،بصری نقائص،سمعی نقائص،ذہنی صحت(نفسیاتی)معذوریاں،فکری معذوری اوراکتسابی معذوری(Learning Disabilities)وغیرہ۔اکتسابی معذوری بنیادی طور پراعصابی خلل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔اکتسابی معذوری میں ڈسلیکسیا(Dyslexia)،آٹزم جیسے عوارض شامل ہیں۔اکتساب سے مربوط مسائل کے لیئے وسیع طو ر پر اکتسابی نقائص کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔اکتسابی معذوری کوئی ذہنی معذوری نہیں ہے ۔اکتسابی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کا ہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔اکتسابی معذوری سے متا ثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچے استاد کی اکتسابی معذوری سے عدم آگہی کے باعث روزانہ کمرۂ جماعت میں استاد کی معلمانہ جہالت کا شکار بنتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار طالب علم اپنے استاد سے فریاد کر تا ہے کہ استاد جی اگر میں آپ کے پڑھائے جانے والے طریقے سے علم حا صل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہوں تو کیا آپ مجھے اس طریقے سے پڑھائیں گے جس طریقے سے میں سیکھ سکتا ہوں۔طالب علم کی یہ فریا د قابل غور ہے اور اس امر کا اظہار بھی ہے کہ اکتسابی معذوری سے دوچار طلبہ میں صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہوتا ہے بلکہ ان میں بھی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اکتسابی معذوری کا شکار طلباء کی ضرورتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی تدریسی فرائض انجام دیں۔اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی خدمات کی انجام دہی سے قبل اساتذہ کو تعلیمی معذوری سے واقفیت ضروری ہے۔اگر اساتذہ اکتسابی معذوری سے آگہی نہیں رکھتے ہیں تب اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی ترقی مجروح ہوجاتی ہے۔1978میں گراس میان(Gross Man)نے اکتسابی معذوری جیسی اصطلاح سے تعلیمی دنیا کو متعارف کروایا۔گراس میان کے مطابق اکتسابی خرابی سے مراد ہر وہ شئے جیسے ذہنی(Mental)،ادراکی نقائص(Perception handicap)،اعصابی خرابیاں(Neurological Dysfunctioning)،نا پختگی(Immaturity)جذباتی مسائل(Emotional Problems)،برتاؤ کے مسائل(Behaviourial Probelems) سماجی ثقافتی مسائل جو اکتسابی عمل میں مانع و حائل ہوتی ہیں۔
اکتسابی معذوری کا شکار بچے اشیاء کو عام بچوں سے مختلف طریقے سے دیکھتے ،سنتے اور سمجھتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ نئے معلومات اور مہارتوں کو سیکھنے اوربرؤے کار لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ عام طور پر اکتسابی معذوری میں پائی جانے والی خرابیوں میں پڑھنے میں دشواری ،لکھنے میں دشواری،ہجے کرنے میں تکلیف ،ریاضی کو سمجھنے میں دشواری اور استدلال کی کمی شامل ہیں۔اکتسابی معذوری کو ہر گز ذہنی معذوری(Mental Retardation)اور حرکی نقائص(Sensory dysfunction) پر محمول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہر اسکول میں 8تا 10 فیصد طلبہ اکتسابی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ان میں کچھ معمولی نوعیت کے اور کچھ سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں ۔اکثر موقعوں پر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ اساتذہ کی توجہ حا صل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں یا پھر اساتذہ ان کے مسائل کو قابل اعتنا ء ہی نہیں سمجھتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں عام بچوں کی طرح تعلیمی دلچسپی اور حصول علم کی پیاس شدت سے پائی جاتی ہے لیکن کمرۂ جماعت کی روایتی تدریس کی وجہ سے وہ تعلیمی پیش قدمی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اغلاط پر غور و خوص کرنے اور اصلاحی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے اساتذہ کی ڈانٹ پھٹکار اور عتاب کی وجہ سے اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ حصول علم کے سفر میں قابل قدر پیش رفت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔اساتذہ بچوں کے تعلیمی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جب ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں تب وہ دباؤ کا شکار ہوکر تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔اکتسابی معذوری جو کہ پہلے ایک پوشیدہ نصابی معذوری کے طور پر نمودار ہوتی ہے آگے چل کر بچوں کے لئے نصابی،لسانی،سماجی اور نفسیاتی خسران کا سبب بن جاتی ہے۔طلبہ مطلوبہ تعلیمی اوصاف رکھنے کے باوجود جب حصول علم میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں تب اس کو اکتسابی معذوری کی ایک علامت سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ینگ(Young)اورٹائر(Tyre)کے مطابق روایتی کمرۂ جماعت کی تدریس کے باوجود لسانی مہارتوں جیسے پڑھنے ،لکھنے ،ہجے اور دانشوارانہ صلاحیت کے حصول میں طلبہ اکتسابی معذوری کے باعث ناکام ہوجاتے ہیں۔اکستابی معذوری کا شکار طلبہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر قوت تخیل کے حامل ہوتے ہیں لیکن نصابی سرگرمیوں کی انجام دہی میں ناکامی کے سبب بچوں کی صلاحیتوں اور نصابی مظاہروں میں ایک خلیج پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان بچوں کا تعلیمی طو ر پر پسماندہ طلبہ میں شمار ہونے لگتا ہے۔ اکثر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں تخلیقی صلاحیت ،فنکارانہ صلاحیتیں اور دیگر غیر معمولی اوصاف بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جس کے بل پر وہ ایک تخلیق کار ،فنکار ،مصور،سنگ تراش وغیر ہ بن سکتے ہیں۔اسکولی تعلیم کے دوران منعقد شدنی امتحانات میں تعلیمی معذوری کی وجہ سے خراب مظاہرے کی بناء ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچے زندگی میں ناکامیوں کا شکارہوجائیں گے اور ایک ناکام زندگی گزاریں گے۔تھامس ایلوا ایڈسن اپنی سوانح عمر ی میں لکھتا ہے کہ اسکولی تعلیم کے زمانے میں وہ اکتسابی معذوری کا شکار تھا جس کی بناء پر اسکول کی ٹیچر نے اس کی والدہ کو خط لکھ کر ایڈسن کو اسکول بھیجنے سے منع کردیا۔جب ایڈسن کی ماں نے خط دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ماں کو روتا دیکھ کر ایڈسن پوچھتا ہے کہ وہ کیوں رو رہی ہے ۔ایڈسن کی ماں کہتی ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ اس کی ٹیچر اس کو نہیں پڑھا سکتی ہے۔آج سے وہ خود اپنے بیٹے کو پڑھائے گی۔ماں کی توجہ اور التفات کا ایڈسن پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ اکتسابی معذوری کے باوجود دنیا کا ایک عظیم اور نامور سائنسدان بن گیا۔دس ہزار سے زائد ایجادات ایڈسن سے منسوب ہیں۔البرٹ آئنسٹائن کو کون نہیں جانتا، اس کا شمار دنیا کے فطین اور زیرک افراد میں ہوتا ہے۔البرٹ آئنسٹائن تعلیمی معذوری کے سبب ابتدائی جماعتوں میں اساتذہ کی غیر معمولی عتاب اور درشت رویہ کا شکار تھا لیکن اس کے ماموں کی توجہ اور شفقت نے اسے ایک نابغہ روزگار شخص بنا دیا اور نوبل انعام کا حقدار ٹھہرا۔ آگستے روڈون ایک معروف فرانسیسی آرٹسٹ تھااسکول میں اساتذہ اسے سب سے نکمہ طالب علم قرار دیتے تھے اساتذہ نے اس کے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ اسے اسکول بھیجنے کے بجائے کوئی دوسرا کام سکھایا جائے۔امریکہ کے اٹھائیسویں صدر ووڈروولسن نے نو سال کی عمر کے بعد حروف لکھنا سیکھا۔اکتسابی معذوری کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا ان افراد نے منوایا کیونکہ ان کو ایک مخلص اور شفیق استاد ماں ،ماموں وغیرہ کی شکل میں میسر ہوئے۔اکتسابی معذوری کے شکار طلبہ کو ایڈسن ،آئنسٹائن اور دیگر کی طر ح ایک مشفق اور ہمدرد استاد کی ضرورت ہے۔ اساتذہ ،والدین اور تعلیم سے وابسطہ افراد بچوں کے نصابی مظاہرے کے بل پر کوئی فیصلہ صادر نہ کریں جو کہ تعلیمی مقاصدکے مغائر ہوتے ہیں۔اساتذہ اگر اکتسابی معذوری سے واقف ہوجائیں تب وہ طلبہ میں پائے جانے والی اکتسابی معذوری کی نہ صرف شناخت کے قابل ہوجائیں گے بلکہ اس کے سد باب کے لئے بھی آگے آئیں گے۔اساتذہ طلبہ کی اصلاحی تعلیم(Remedial Education) کے ذریعے طلبہ کی زندگیوں میں عظیم انقلاب بر پا کرنے والی ذات بن سکتے ہیں۔
اکتسابی معذوری کی اہم قسمیں؛۔اکتسابی نقائص مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں مثلا پڑھنے میں پیش آنے والی دقت،لکھنے میں (املے کا) نقص ، تو جیہ واستدلال کا نقص،نقص قوت شامہ،علم الاعداد (Arithmetic)کا نقص وغیرہ ۔یہ نقائص دماغ کے بعض گو شوں کی غیرمتنا سب نشو نماء کی بناء پر پیدا ہو تے ہیں۔اکتساب سے جڑے نقائص میں ذیل کے پانچ نقائص قابل ذکرہیں۔
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( (2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia) (3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion) (4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)(5)جملوں کو پڑھنے میں الجھن (Dysphasia) اورجملوں کو لکھنے میں الجھن (Aphasia)
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( ؛۔ڈسلیکسیا تعلیم اور نفسیات میں استعما ل ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔جدید ماہرین تعلیم اس اصطلاح کو تعلیم اور تدریس کے حوالے سے اکثر استعمال کرتے ہیں۔اس اصطلاح کوخاص طور پر لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات کے زمرے میں استعمال کیا جاتا ہے۔Dyslexiaدو یونانی الفاظ Dysاور Lexia کا مرکب ہے۔Dysکا معنی غیر منظم اورLexiaکا مفہوم ہے الفاظ، یعنی ڈسلیکسیا کا مفہوم ہوا الفاظ کا غیر منظم اور غیر موزوں استعمال۔بعض ماہرین اس کو حروف کے اندھا پن (Word Blindness) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ڈسلیکسیا طلبہ میں پایا جانے والا ایک ایسا عارضہ ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو الفاظ یا د کرنے،تحریر کرنے اور پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پڑھنے ،لکھنے ،سننے ،بولنے،اور ہجے (Spelling)کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں اور یہ معذوری عصبیاتی خرابی خاص طور پر بصری اور لفظی ارتباط (Visual-verbal association)میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ڈسلیکسیا سے متاثر بچے کم از کم اوسط درجے کی ذہانت اور قابلیت کے مالک ہوتے ہیں۔ان میں یہ معذوری ذہانت یا قابلیت کی کمی کی بناء پر پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں الفاظ کے منظم اورموزوں استعمال اور فہم کی اہلیت ٹھیک طر ح سے پروان نہیں چڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ڈسلیکسیا کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اساتذہ کی مناسب مدد اورنارمل پیئر گروپ کے اختلاط سے اس کو بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے ۔اس سلگتے تعلیمی مسئلے پر ہمار ے ملک ہندوستان میں ایک بہترین فلم تارے زمیں پر بھی بنائی گئی ہے جس میں اس معذوری کا کما حقہ احاطہ کرنے کے علاوہ تدارک اور سدباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تارے زمیں کے رائٹر امول گپتا کا ایک قول میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں’’ مسئلہ بچوں کا نہیں نظام تعلیم کا ہے۔یہ بچوں کو مریض بنارہے ہیں۔آپ کسی بچے کو مار پیٹ کر قابل نہیں بنا سکتے ۔‘‘
(2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia)؛۔تحریر سے متعلق بچوں میں پائے جانے والی معذوری کو ڈسگرافیا کہا جاتا ہے ۔ڈسگرافیا سے متاثر طلبہ ٹھیک طور پر لکھ نہیں پاتے ہیں۔لکھنے سے متعلق یہ معذوری بصری اور حرکی افعال (Visual-Motor Act)میں ارتباط کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بصری و حرکی افعال کے ارتباط میں نقص کے باعث یا داشت پر بھی خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ڈسگرافیا کی وجہ سے بچے از خود لکھ نہیں پا تے اور ان کا خط بھی بہت شکستہ ہو تا ہے ایسے بچوں کو اصلاحی مشقوں Remedial Exercises))کے ذریعہ عام دھا رے میں لایا جا سکتا ہے
(3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion)؛۔بعض طلبہ پڑھے ہوئے اور لکھے ہوئے حروف کی صورت گیری یا تصور قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں ایسے طلبہ میں تصوراتی حافظے کی خامی پائی جاتی ہے۔ وہ بہ آسانی گفتگو کرسکتے ہیں لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نقل بھی کرسکتے ہیں لیکن حافظہ کے بل پر حروف یا الفاظ کو نہیں لکھ پاتے ہیں۔
(4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)؛۔علم الا عداد میں الجھنDyscalculia) ) کی بناء پر بچے معمولی حسا ب کتاب بھی نہیں کر پا تے ۔اگر اس کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اس پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ نقائص معمولی اور غیر معمولی قسم کے ہوتے ہیں معمولی قسم کے نقائص والے بچوں کو نا رمل بچوں کی جماعت میں ہی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
(5)الفاظ اورجملے پڑھنے میں دقت کو(Dysphasia) کہاجاتا ہے ہیں۔الفاظ کی قرات میں ناکامی کی وجہ سے جملہ سازی،جملہ بندی بھی نہیں کر پاتے ہیں جس کو (Aphasia) کہاجاتا ہے ۔ چھپے ہوئے مواد کو بھی پڑھنے میں دقت کا سامنادیگر اکتسابی معذوری کی طرح اسکولی بچوں میں پائے جانے والی ایک اور اکتسابی معذوری ہے۔
اکتسابی معذوری کی علامات؛۔ عا م مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ اکتسابی نقائص کا شکا ر طلبہ تختہ سیاہ سے اورکتا بوں سے الفاظ کو اپنے نو ٹ بک میں تحریر کر نے میں دقت محسوس کر تے ہیں کیو نکہ وہ الفاظ کو پڑھنے اور لکھنے میں تذبذب کا شکا ر ہو جا تے ہیں اور اسی بناء پر کسی حرف کا معکوس حرف تحریر کر تے ہیں۔ الفاظ و حروف کی شناخت میں تذبذ ب کی بناء پر عبا رت خوانی (پڑھنے )میں بھی دقت محسوس کر تے ہیں۔ایک مشفق و تجربہ کار استا د کی اگر رہبر ی میسر آجائے تو یہ طلبہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور سماج پر بوجھ بننے کے بجائے سما ج کا ایک فعال حصہ بن جا تے ہیں۔لیکن حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر اکتسابی نقائص کا شکار بچے موثر رہبری کے فقدان کے باعث اپنا تعلیمی سفر منزل پر پہنچے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
اکتسابی معذور طلبہ کی تدریس کیسے انجام دی جائے؛۔بچوں کی اصلاحی تدریس کے فرائض کی انجام دہی سے قبل استاد بچوں کی مخصوص معذوری ،جذباتی ،برتاؤ کی خرابیوں کے علاوہ بچوں میں پائے جانے والی خوبیوں کا پتہ لگائیں۔بعض مرتبہ نقائص کی شناخت کے لئے پیشہ وار حضرات جیسے ماہرین تعلیم ،معالج ،ماہر امراض نفسیات اور اعصابی امراض کے ماہرین کی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔استعداد و مہارت کے معیار کی جانچ کے لئے مہارتوں اور استعداد کے امتحانات(Tests)کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں نصابی سرگرمیوں کی بہتری اور فروغ میں اساتذہ درج ذیل امور کو اختیار کرتے ہوئے فعال کردار انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ میں اکتسابی مشقوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیں۔ تاکہ ہر مشق کی تکمیل کے بعد طلبہ کو اطمینان اور مسرت کا احساس ہو سکے۔مشق کی کامیاب تکمیل کا احساس طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کرنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔بچوں میں الفاظ کو لکھنے اور پڑھنے کے لئے وافرمشقوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔الفاظ کی ترکیب ،الفاظ کو جوڑنے اور علیحدہ کرنے کی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں تاکہ ہجے کرنے(Spelling) کی استعداد کو پروان چڑھایا جا سکے۔طلبہ کے معیار کی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے املا لیں اور مناسب تحریر ی قواعد سے نہ صرف طلبہ کو روشناس کریں بلکہ ان قواعد کو ان کے ذہن میں پیوست کردیں جس سے ان میں تحریر کی صلاحیت پروان چڑھے گی ۔طلبہ میں ادراکی صلاحیت کو فروغ دینے کے لئے منظر کشی اور اس کے اظہار کے مواقع فراہم کیئے جائیں۔الفاظ کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے نقل کرنے اور ان کی ترتیب کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ ٹھوس،نیم مادی اور تجریدی تصوراتی تدریس کے ذریعہ طلبہ میں علم الاعداد کی مہارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔حرکی ادراکی مہارتوں کے فروغ کے لئے اساتذہ پہلے اکتسابی طور پر معذور بچوں کو معاون تدریس اشیاء کے استعمال کے ذریعہ جیسے زاویوں،منحنی خطوط،اور دائروں کو اتارنے کی تربیت دیں اور پھر بعد میں معاون تدریس اشیاء کی مدد کے بغیر مذکورہ افعال انجام دینے کے لئے طلبہ کو تیار کریں۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کو تیز تیز اور بہت زیادہ لکھنے کا کام تفویض نہ کریں۔ابتدائی مراحل میں زبانی امتحان پر ہی اکتفاء کرنا بہتر ہوتا ہے۔تعلیم سے بچوں کو مانوس کرنے کے لئے پہلے ان میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کے بہتر کام پر تعریف و توصیف سے کام لیں۔سزا و جزاء کے ذریعہ طلبہ کو متحرک و فعال رکھا جا سکتا ہے۔انفرادی ،اصلاحی ،اختراعی تدریسی طریقوں اور اسکول کے روزمرہ کی روایتی سرگرمیوں میں تبدیلی لاکر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں اکتساب کے عمل کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم والی سرگرمیوں جیسے الفاظ کا تجزیہ،اعادہ ،ترتیب و بندش اکتسابی معذور طلبہ میں تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔بچوں کی تعلیمی استعداد کے مطابق سہل اور ترمیم شدہ اصلاحی سرگرمیوں کو جو اکتسابی معذور طلبہ کے لئے سود مند ہو شامل تدریس کرنا ضروری ہوتا ہے۔اکتسابی معذور طلبہ کے لئے مستعمل طریقہ تدریس سے والدین کو آگا ہ کر نا ضروری ہوتا ہے تاکہ دونوں جانب سے بچے کی بہتر ی کو یقینی بنایا جائے۔والدین اساتذہ اور تعلیم سے وابسطہ افراد کی اجتماعی کاوشوں سے اکتسابی معذور طلبہ کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ہمہ جہت ترقی کو یقینی بناتے وقت اکتسابی معذور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا خاص خیال رکھا جا نا ضروری ہے۔طلبہ کو زندگی کے لئے معاون مہارتوں سے لیس کریں تاکہ وہ سماج کے لئے ایک کار آمد اور بہترین شہری ثابت ہوں۔اساتذہ اپنے فرائض کی بہتر انجام دہی اور تعلیمی خسارے سے پاک تدریس کو اختیار کرتے ہوئے اعلی اقدار کو پروان چڑھانے کے ساتھ اپنے فرائض سے عہدہ براں ہوسکتے ہیں۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بہترین. بہت سادہ زبان میں ساری باتیں سمجھا دی۔
شکریہ 👍