دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزر نا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس ۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہے اور بالخصوص اکتسابی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی،ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے جیسے نقل و حرکت کے نقائص ،بصری نقائص،سمعی نقائص،ذہنی صحت(نفسیاتی)معذوریاں،فکری معذوری اوراکتسابی معذوری(Learning Disabilities)وغیرہ۔اکتسابی معذوری بنیادی طور پراعصابی خلل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔اکتسابی معذوری میں ڈسلیکسیا(Dyslexia)،آٹزم جیسے عوارض شامل ہیں۔اکتساب سے مربوط مسائل کے لیئے وسیع طو ر پر اکتسابی نقائص کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔اکتسابی معذوری کوئی ذہنی معذوری نہیں ہے ۔اکتسابی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کا ہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔اکتسابی معذوری سے متا ثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچے استاد کی اکتسابی معذوری سے عدم آگہی کے باعث روزانہ کمرۂ جماعت میں استاد کی معلمانہ جہالت کا شکار بنتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار طالب علم اپنے استاد سے فریاد کر تا ہے کہ استاد جی اگر میں آپ کے پڑھائے جانے والے طریقے سے علم حا صل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہوں تو کیا آپ مجھے اس طریقے سے پڑھائیں گے جس طریقے سے میں سیکھ سکتا ہوں۔طالب علم کی یہ فریا د قابل غور ہے اور اس امر کا اظہار بھی ہے کہ اکتسابی معذوری سے دوچار طلبہ میں صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہوتا ہے بلکہ ان میں بھی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اکتسابی معذوری کا شکار طلباء کی ضرورتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی تدریسی فرائض انجام دیں۔اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی خدمات کی انجام دہی سے قبل اساتذہ کو تعلیمی معذوری سے واقفیت ضروری ہے۔اگر اساتذہ اکتسابی معذوری سے آگہی نہیں رکھتے ہیں تب اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی ترقی مجروح ہوجاتی ہے۔1978میں گراس میان(Gross Man)نے اکتسابی معذوری جیسی اصطلاح سے تعلیمی دنیا کو متعارف کروایا۔گراس میان کے مطابق اکتسابی خرابی سے مراد ہر وہ شئے جیسے ذہنی(Mental)،ادراکی نقائص(Perception handicap)،اعصابی خرابیاں(Neurological Dysfunctioning)،نا پختگی(Immaturity)جذباتی مسائل(Emotional Problems)،برتاؤ کے مسائل(Behaviourial Probelems) سماجی ثقافتی مسائل جو اکتسابی عمل میں مانع و حائل ہوتی ہیں۔
اکتسابی معذوری کا شکار بچے اشیاء کو عام بچوں سے مختلف طریقے سے دیکھتے ،سنتے اور سمجھتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ نئے معلومات اور مہارتوں کو سیکھنے اوربرؤے کار لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ عام طور پر اکتسابی معذوری میں پائی جانے والی خرابیوں میں پڑھنے میں دشواری ،لکھنے میں دشواری،ہجے کرنے میں تکلیف ،ریاضی کو سمجھنے میں دشواری اور استدلال کی کمی شامل ہیں۔اکتسابی معذوری کو ہر گز ذہنی معذوری(Mental Retardation)اور حرکی نقائص(Sensory dysfunction) پر محمول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہر اسکول میں 8تا 10 فیصد طلبہ اکتسابی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ان میں کچھ معمولی نوعیت کے اور کچھ سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں ۔اکثر موقعوں پر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ اساتذہ کی توجہ حا صل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں یا پھر اساتذہ ان کے مسائل کو قابل اعتنا ء ہی نہیں سمجھتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں عام بچوں کی طرح تعلیمی دلچسپی اور حصول علم کی پیاس شدت سے پائی جاتی ہے لیکن کمرۂ جماعت کی روایتی تدریس کی وجہ سے وہ تعلیمی پیش قدمی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اغلاط پر غور و خوص کرنے اور اصلاحی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے اساتذہ کی ڈانٹ پھٹکار اور عتاب کی وجہ سے اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ حصول علم کے سفر میں قابل قدر پیش رفت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔اساتذہ بچوں کے تعلیمی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جب ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں تب وہ دباؤ کا شکار ہوکر تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔اکتسابی معذوری جو کہ پہلے ایک پوشیدہ نصابی معذوری کے طور پر نمودار ہوتی ہے آگے چل کر بچوں کے لئے نصابی،لسانی،سماجی اور نفسیاتی خسران کا سبب بن جاتی ہے۔طلبہ مطلوبہ تعلیمی اوصاف رکھنے کے باوجود جب حصول علم میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں تب اس کو اکتسابی معذوری کی ایک علامت سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ینگ(Young)اورٹائر(Tyre)کے مطابق روایتی کمرۂ جماعت کی تدریس کے باوجود لسانی مہارتوں جیسے پڑھنے ،لکھنے ،ہجے اور دانشوارانہ صلاحیت کے حصول میں طلبہ اکتسابی معذوری کے باعث ناکام ہوجاتے ہیں۔اکستابی معذوری کا شکار طلبہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر قوت تخیل کے حامل ہوتے ہیں لیکن نصابی سرگرمیوں کی انجام دہی میں ناکامی کے سبب بچوں کی صلاحیتوں اور نصابی مظاہروں میں ایک خلیج پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان بچوں کا تعلیمی طو ر پر پسماندہ طلبہ میں شمار ہونے لگتا ہے۔ اکثر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں تخلیقی صلاحیت ،فنکارانہ صلاحیتیں اور دیگر غیر معمولی اوصاف بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جس کے بل پر وہ ایک تخلیق کار ،فنکار ،مصور،سنگ تراش وغیر ہ بن سکتے ہیں۔اسکولی تعلیم کے دوران منعقد شدنی امتحانات میں تعلیمی معذوری کی وجہ سے خراب مظاہرے کی بناء ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچے زندگی میں ناکامیوں کا شکارہوجائیں گے اور ایک ناکام زندگی گزاریں گے۔تھامس ایلوا ایڈسن اپنی سوانح عمر ی میں لکھتا ہے کہ اسکولی تعلیم کے زمانے میں وہ اکتسابی معذوری کا شکار تھا جس کی بناء پر اسکول کی ٹیچر نے اس کی والدہ کو خط لکھ کر ایڈسن کو اسکول بھیجنے سے منع کردیا۔جب ایڈسن کی ماں نے خط دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ماں کو روتا دیکھ کر ایڈسن پوچھتا ہے کہ وہ کیوں رو رہی ہے ۔ایڈسن کی ماں کہتی ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ اس کی ٹیچر اس کو نہیں پڑھا سکتی ہے۔آج سے وہ خود اپنے بیٹے کو پڑھائے گی۔ماں کی توجہ اور التفات کا ایڈسن پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ اکتسابی معذوری کے باوجود دنیا کا ایک عظیم اور نامور سائنسدان بن گیا۔دس ہزار سے زائد ایجادات ایڈسن سے منسوب ہیں۔البرٹ آئنسٹائن کو کون نہیں جانتا، اس کا شمار دنیا کے فطین اور زیرک افراد میں ہوتا ہے۔البرٹ آئنسٹائن تعلیمی معذوری کے سبب ابتدائی جماعتوں میں اساتذہ کی غیر معمولی عتاب اور درشت رویہ کا شکار تھا لیکن اس کے ماموں کی توجہ اور شفقت نے اسے ایک نابغہ روزگار شخص بنا دیا اور نوبل انعام کا حقدار ٹھہرا۔ آگستے روڈون ایک معروف فرانسیسی آرٹسٹ تھااسکول میں اساتذہ اسے سب سے نکمہ طالب علم قرار دیتے تھے اساتذہ نے اس کے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ اسے اسکول بھیجنے کے بجائے کوئی دوسرا کام سکھایا جائے۔امریکہ کے اٹھائیسویں صدر ووڈروولسن نے نو سال کی عمر کے بعد حروف لکھنا سیکھا۔اکتسابی معذوری کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا ان افراد نے منوایا کیونکہ ان کو ایک مخلص اور شفیق استاد ماں ،ماموں وغیرہ کی شکل میں میسر ہوئے۔اکتسابی معذوری کے شکار طلبہ کو ایڈسن ،آئنسٹائن اور دیگر کی طر ح ایک مشفق اور ہمدرد استاد کی ضرورت ہے۔ اساتذہ ،والدین اور تعلیم سے وابسطہ افراد بچوں کے نصابی مظاہرے کے بل پر کوئی فیصلہ صادر نہ کریں جو کہ تعلیمی مقاصدکے مغائر ہوتے ہیں۔اساتذہ اگر اکتسابی معذوری سے واقف ہوجائیں تب وہ طلبہ میں پائے جانے والی اکتسابی معذوری کی نہ صرف شناخت کے قابل ہوجائیں گے بلکہ اس کے سد باب کے لئے بھی آگے آئیں گے۔اساتذہ طلبہ کی اصلاحی تعلیم(Remedial Education) کے ذریعے طلبہ کی زندگیوں میں عظیم انقلاب بر پا کرنے والی ذات بن سکتے ہیں۔
اکتسابی معذوری کی اہم قسمیں؛۔اکتسابی نقائص مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں مثلا پڑھنے میں پیش آنے والی دقت،لکھنے میں (املے کا) نقص ، تو جیہ واستدلال کا نقص،نقص قوت شامہ،علم الاعداد (Arithmetic)کا نقص وغیرہ ۔یہ نقائص دماغ کے بعض گو شوں کی غیرمتنا سب نشو نماء کی بناء پر پیدا ہو تے ہیں۔اکتساب سے جڑے نقائص میں ذیل کے پانچ نقائص قابل ذکرہیں۔
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( (2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia) (3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion) (4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)(5)جملوں کو پڑھنے میں الجھن (Dysphasia) اورجملوں کو لکھنے میں الجھن (Aphasia)
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( ؛۔ڈسلیکسیا تعلیم اور نفسیات میں استعما ل ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔جدید ماہرین تعلیم اس اصطلاح کو تعلیم اور تدریس کے حوالے سے اکثر استعمال کرتے ہیں۔اس اصطلاح کوخاص طور پر لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات کے زمرے میں استعمال کیا جاتا ہے۔Dyslexiaدو یونانی الفاظ Dysاور Lexia کا مرکب ہے۔Dysکا معنی غیر منظم اورLexiaکا مفہوم ہے الفاظ، یعنی ڈسلیکسیا کا مفہوم ہوا الفاظ کا غیر منظم اور غیر موزوں استعمال۔بعض ماہرین اس کو حروف کے اندھا پن (Word Blindness) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ڈسلیکسیا طلبہ میں پایا جانے والا ایک ایسا عارضہ ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو الفاظ یا د کرنے،تحریر کرنے اور پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پڑھنے ،لکھنے ،سننے ،بولنے،اور ہجے (Spelling)کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں اور یہ معذوری عصبیاتی خرابی خاص طور پر بصری اور لفظی ارتباط (Visual-verbal association)میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ڈسلیکسیا سے متاثر بچے کم از کم اوسط درجے کی ذہانت اور قابلیت کے مالک ہوتے ہیں۔ان میں یہ معذوری ذہانت یا قابلیت کی کمی کی بناء پر پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں الفاظ کے منظم اورموزوں استعمال اور فہم کی اہلیت ٹھیک طر ح سے پروان نہیں چڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ڈسلیکسیا کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اساتذہ کی مناسب مدد اورنارمل پیئر گروپ کے اختلاط سے اس کو بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے ۔اس سلگتے تعلیمی مسئلے پر ہمار ے ملک ہندوستان میں ایک بہترین فلم تارے زمیں پر بھی بنائی گئی ہے جس میں اس معذوری کا کما حقہ احاطہ کرنے کے علاوہ تدارک اور سدباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تارے زمیں کے رائٹر امول گپتا کا ایک قول میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں’’ مسئلہ بچوں کا نہیں نظام تعلیم کا ہے۔یہ بچوں کو مریض بنارہے ہیں۔آپ کسی بچے کو مار پیٹ کر قابل نہیں بنا سکتے ۔‘‘
(2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia)؛۔تحریر سے متعلق بچوں میں پائے جانے والی معذوری کو ڈسگرافیا کہا جاتا ہے ۔ڈسگرافیا سے متاثر طلبہ ٹھیک طور پر لکھ نہیں پاتے ہیں۔لکھنے سے متعلق یہ معذوری بصری اور حرکی افعال (Visual-Motor Act)میں ارتباط کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بصری و حرکی افعال کے ارتباط میں نقص کے باعث یا داشت پر بھی خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ڈسگرافیا کی وجہ سے بچے از خود لکھ نہیں پا تے اور ان کا خط بھی بہت شکستہ ہو تا ہے ایسے بچوں کو اصلاحی مشقوں Remedial Exercises))کے ذریعہ عام دھا رے میں لایا جا سکتا ہے
(3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion)؛۔بعض طلبہ پڑھے ہوئے اور لکھے ہوئے حروف کی صورت گیری یا تصور قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں ایسے طلبہ میں تصوراتی حافظے کی خامی پائی جاتی ہے۔ وہ بہ آسانی گفتگو کرسکتے ہیں لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نقل بھی کرسکتے ہیں لیکن حافظہ کے بل پر حروف یا الفاظ کو نہیں لکھ پاتے ہیں۔
(4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)؛۔علم الا عداد میں الجھنDyscalculia) ) کی بناء پر بچے معمولی حسا ب کتاب بھی نہیں کر پا تے ۔اگر اس کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اس پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ نقائص معمولی اور غیر معمولی قسم کے ہوتے ہیں معمولی قسم کے نقائص والے بچوں کو نا رمل بچوں کی جماعت میں ہی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
(5)الفاظ اورجملے پڑھنے میں دقت کو(Dysphasia) کہاجاتا ہے ہیں۔الفاظ کی قرات میں ناکامی کی وجہ سے جملہ سازی،جملہ بندی بھی نہیں کر پاتے ہیں جس کو (Aphasia) کہاجاتا ہے ۔ چھپے ہوئے مواد کو بھی پڑھنے میں دقت کا سامنادیگر اکتسابی معذوری کی طرح اسکولی بچوں میں پائے جانے والی ایک اور اکتسابی معذوری ہے۔
اکتسابی معذوری کی علامات؛۔ عا م مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ اکتسابی نقائص کا شکا ر طلبہ تختہ سیاہ سے اورکتا بوں سے الفاظ کو اپنے نو ٹ بک میں تحریر کر نے میں دقت محسوس کر تے ہیں کیو نکہ وہ الفاظ کو پڑھنے اور لکھنے میں تذبذب کا شکا ر ہو جا تے ہیں اور اسی بناء پر کسی حرف کا معکوس حرف تحریر کر تے ہیں۔ الفاظ و حروف کی شناخت میں تذبذ ب کی بناء پر عبا رت خوانی (پڑھنے )میں بھی دقت محسوس کر تے ہیں۔ایک مشفق و تجربہ کار استا د کی اگر رہبر ی میسر آجائے تو یہ طلبہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور سماج پر بوجھ بننے کے بجائے سما ج کا ایک فعال حصہ بن جا تے ہیں۔لیکن حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر اکتسابی نقائص کا شکار بچے موثر رہبری کے فقدان کے باعث اپنا تعلیمی سفر منزل پر پہنچے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
اکتسابی معذور طلبہ کی تدریس کیسے انجام دی جائے؛۔بچوں کی اصلاحی تدریس کے فرائض کی انجام دہی سے قبل استاد بچوں کی مخصوص معذوری ،جذباتی ،برتاؤ کی خرابیوں کے علاوہ بچوں میں پائے جانے والی خوبیوں کا پتہ لگائیں۔بعض مرتبہ نقائص کی شناخت کے لئے پیشہ وار حضرات جیسے ماہرین تعلیم ،معالج ،ماہر امراض نفسیات اور اعصابی امراض کے ماہرین کی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔استعداد و مہارت کے معیار کی جانچ کے لئے مہارتوں اور استعداد کے امتحانات(Tests)کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں نصابی سرگرمیوں کی بہتری اور فروغ میں اساتذہ درج ذیل امور کو اختیار کرتے ہوئے فعال کردار انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ میں اکتسابی مشقوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیں۔ تاکہ ہر مشق کی تکمیل کے بعد طلبہ کو اطمینان اور مسرت کا احساس ہو سکے۔مشق کی کامیاب تکمیل کا احساس طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کرنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔بچوں میں الفاظ کو لکھنے اور پڑھنے کے لئے وافرمشقوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔الفاظ کی ترکیب ،الفاظ کو جوڑنے اور علیحدہ کرنے کی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں تاکہ ہجے کرنے(Spelling) کی استعداد کو پروان چڑھایا جا سکے۔طلبہ کے معیار کی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے املا لیں اور مناسب تحریر ی قواعد سے نہ صرف طلبہ کو روشناس کریں بلکہ ان قواعد کو ان کے ذہن میں پیوست کردیں جس سے ان میں تحریر کی صلاحیت پروان چڑھے گی ۔طلبہ میں ادراکی صلاحیت کو فروغ دینے کے لئے منظر کشی اور اس کے اظہار کے مواقع فراہم کیئے جائیں۔الفاظ کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے نقل کرنے اور ان کی ترتیب کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ ٹھوس،نیم مادی اور تجریدی تصوراتی تدریس کے ذریعہ طلبہ میں علم الاعداد کی مہارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔حرکی ادراکی مہارتوں کے فروغ کے لئے اساتذہ پہلے اکتسابی طور پر معذور بچوں کو معاون تدریس اشیاء کے استعمال کے ذریعہ جیسے زاویوں،منحنی خطوط،اور دائروں کو اتارنے کی تربیت دیں اور پھر بعد میں معاون تدریس اشیاء کی مدد کے بغیر مذکورہ افعال انجام دینے کے لئے طلبہ کو تیار کریں۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کو تیز تیز اور بہت زیادہ لکھنے کا کام تفویض نہ کریں۔ابتدائی مراحل میں زبانی امتحان پر ہی اکتفاء کرنا بہتر ہوتا ہے۔تعلیم سے بچوں کو مانوس کرنے کے لئے پہلے ان میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کے بہتر کام پر تعریف و توصیف سے کام لیں۔سزا و جزاء کے ذریعہ طلبہ کو متحرک و فعال رکھا جا سکتا ہے۔انفرادی ،اصلاحی ،اختراعی تدریسی طریقوں اور اسکول کے روزمرہ کی روایتی سرگرمیوں میں تبدیلی لاکر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں اکتساب کے عمل کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم والی سرگرمیوں جیسے الفاظ کا تجزیہ،اعادہ ،ترتیب و بندش اکتسابی معذور طلبہ میں تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔بچوں کی تعلیمی استعداد کے مطابق سہل اور ترمیم شدہ اصلاحی سرگرمیوں کو جو اکتسابی معذور طلبہ کے لئے سود مند ہو شامل تدریس کرنا ضروری ہوتا ہے۔اکتسابی معذور طلبہ کے لئے مستعمل طریقہ تدریس سے والدین کو آگا ہ کر نا ضروری ہوتا ہے تاکہ دونوں جانب سے بچے کی بہتر ی کو یقینی بنایا جائے۔والدین اساتذہ اور تعلیم سے وابسطہ افراد کی اجتماعی کاوشوں سے اکتسابی معذور طلبہ کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ہمہ جہت ترقی کو یقینی بناتے وقت اکتسابی معذور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا خاص خیال رکھا جا نا ضروری ہے۔طلبہ کو زندگی کے لئے معاون مہارتوں سے لیس کریں تاکہ وہ سماج کے لئے ایک کار آمد اور بہترین شہری ثابت ہوں۔اساتذہ اپنے فرائض کی بہتر انجام دہی اور تعلیمی خسارے سے پاک تدریس کو اختیار کرتے ہوئے اعلی اقدار کو پروان چڑھانے کے ساتھ اپنے فرائض سے عہدہ براں ہوسکتے ہیں۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
بہترین. بہت سادہ زبان میں ساری باتیں سمجھا دی۔
شکریہ 👍