“کہتے ہیں دنیا کے ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ دنیا کے ہر ناکام مرد کے پیچھے بھی کسی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اور یہ تو کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ دنیا میں ناکام مردوں کی تعداد کامیاب مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔” میرا خیال ہے یہ کسی فلم کے ڈائیلاگز ہیں لیکن اتنے غلط بھی نہیں ہیں، شاید یہ بات بھی ہمارے لئے کسی حیرت سے کم نہ ہو کے دنیا میں ہارٹ اٹیک کا سب سے زیادہ رسک عورتوں کو ہوتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مرتے اس مرض میں سب سے زیادہ مرد ہی ہیں اور مردوں میں بھی ادھیڑ عمر کے مردوں میں اس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
صحیح بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور دوسری متعدد کتب احادیث میں سورۃ تحریم کے نزول کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنھا کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا بہت پسند تھا اس لئے جب آپ روز شام میں تمام ازواج کے حجروں میں دورے پر نکلتے تو حضرت زیب رضی اللہ تعالی عنھا کے گھر کچھ دیر زیادہ بیٹھ جا تے تاکہ آرام سے شہد کھا سکیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے یہ بات ناگوار گزری کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر زیادہ وقت کیوں بیٹھتے ہیں اور پھر میں نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ساتھ ملا کر یہ پلان بنایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حجروں میں آئیں گے تو ہم کہیں گی کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے۔ مغافیر وہ پھول ہوتا ہے کہ جس پر اگر شہد کی مکھی بیٹھ جائے تو پورے شہد میں سے اس کی بو آنے لگتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نفیس طبیعت کی وجہ سے اس کو پسند نہیں فرمائیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ منصوبہ سو فیصد کامیاب ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم افسردہ ہوئےاور ناراض ہو کر شہد کو اپنے اوپر حرام کرلیا، جس پر قرآن میں امہات المومنین کو سخت تنبیہ کی گئی۔
حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کے پورے واقعے کے بعد جب زلیخا کا شوہر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض کو پیچھے سے پھٹا دیکھتا ہے تو کہتا ہے “اف! تم عورتوں کی چالاکیاں، بے شک تمہاری چالیں بڑی غضب کی ہوتی ہیں۔” یاد رکھیں خواتین کے لیے دنیا کا آئیڈیل ترین شخص ان کا باپ، خوش قسمت ترین عورت ان کی بھابھی اور کامیاب ترین انسان ان کا بہنوئی ہوتا ہے۔ جبکہ اپنے شوہر کے لئے اقبال کا وہ مصرعہ رہ جاتا ہے کہ:
دنیا میں جس کو نہیں آتا کوئی فن تم ہو!
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دنیا میں کبھی کسی ساس کو “مکمل” داماد نہیں ملا اور مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی ساس کو “فرمانبردار بہو” بھی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔بنیادی طور پر انسان ناشکرا پیدا ہوا ہےلیکن عورتوں میں یہ صفت غالب ہے۔اسلئیے آپ ان کے شکوں کے بجائے اپنی شکر گذاری پر توجہ دیں، ذہن میں رہے کہ کسی دوسرے انسان کا شکر آپ کے شکوں کو ختم نہیں کرسکتا ہے۔اپنے حصے کا شکر بہرحال آپ کو خود ہی ادا کرنا پڑیگا اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ شکر گذار لوگ صحت مند زندگی کے ساتھ لمبی عمر بھی پاتے ہیں۔
اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں یا شادی کے بعد بھی خوش اور پرسکون رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو عورت کی ذات اور نفسیات دونوں کو سمجھنا ہوگا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ اپنی ساخت اور اپنے دماغ ہر دو اعتبار سے عورت نہایت کمزور واقع ہوئی ہے۔ تحقیق، تجربہ، مشاہدہ اور قرآن بھی یہی بتاتا ہے کہ عورت اس قدر کمزور ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیر بھی صحیح سے بیان نہیں کر پاتی ہے، سونے چاندی میں بہلائی جاتی ہے اور اس کی گواہی بھی آدھی مانی جاتی ہے۔ ہر مہینے کے کچھ خاص دنوں میں اس پر سے عبادت بھی ساقط کردی جاتی ہے اور ایسی کمزور ترین مخلوق پر اپنی برتری ثابت کرنے سے زیادہ بے وقوفی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
اکثر مردوں کو شادی کے بعد بیوی کی “اصلاح” کی فکر لگ جاتی ہے، وہ انھیں “سیدھا” کرنے پر تل جاتے ہیں۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ “عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اس کو سیدھا کرنے کو کوشش کروگے تو اس کو توڑ دوگے” بیوی کی اصلاح نہیں کی جاتی ہے ان سے “محبت” کی جاتی ہے، بیویوں کو “سیدھا” نہیں کیا جاتا ہے “صبر” کیا جاتا ہے۔
حضرت لقمان علیہ السلام سے کسی نے پوچھا آپ نے سب سے زیادہ کارآمد کس دوا کو پایا ہے؟ آپ نے فرمایا “صبر اور محبت” کو، سوال کرنے والے نے پوچھا اور اگر افاقہ نہ ہو تو؟ فرمایا “دوا کی مقدار بڑھا دو”۔ شادی ایسا رشتہ ہے جہاں آپ کو محبت کی دیگچی چڑھا کر نیچے سے صبر کی آنچ کو تیز کرنا ہوتا ہے، یاد رہے کہ آنچ جتنی تیز ہوگئی دیگچی اتنی ہی جلدی پک کر تیار ہوجائیگی۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ “اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ غلیظ القلب ہوتے تو یہ لوگ آپ سے چھٹ جاتے، آپ انھیں معاف کردیں، انہیں بخش دیں اور انہیں اپنے مشوروں میں شریک کریں۔” ایک اور جگہ فرمایا “برائی کو بھلائی سے دفع کرو اگر کوئی تمہارا جانی دشمن بھی ہوگا تو تمہارا جگری دوست بن جائے گا”۔ یہاں تو جانی دشمن کا مسئلہ بھی نہیں ہے معصوم اور کمزور سی عورت ہے آپ کے میٹھے بول، اس کی غلطیوں پر صبر اور کوتاہیوں پر درگزر اسے آپ پر جان چھڑکنے والا بنا دے گی لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نصیحت کرنے میں بہت تیز اور بہت جلد باز ہیں، ہمیں کیڑے نکالنے اور تنقید کرنے کا سب سے زیادہ شوق ہے، کھانے میں نمک سے لے کر صبح آفس کے لئے نہ اٹھانے تک ہر ہر چیز کی ذمہ داری عورت کی ہی تو ہے۔
عورت کو اللہ تعالی نے “انکیوبیٹر اور رسیور” بنایا ہے آپ اسے کچا گوشت اور سبزی لا کر دیتے ہیں یہ آپ کو پکا ہوا خوشبو دار کھانا دیتی ہے، آپ اسے مکان دیتے ہیں یہ اسے گھر میں تبدیل کر دیتی ہے، آپ اس سے حلال رشتہ قائم کرتے ہیں یہ آپ کو ہنستے کھیلتے معصوم بچے دیتی ہے۔
اگر آپ عزت چاہتے ہیں تو پھر عزت دینی پڑیگی ۔عورتوں کے نزدیک چوڑیوں کی میچنگ سےلے کر تیسرے گھر میں ہونے والی شادی ہر چیز بہت اہم ہے۔ جو چیز سرے سے آپ کے لئیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے وہ ان کے لئیے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
آپ نہایت توجہ اور احترام کے ساتھ ان کی بات سنیں، اس کے مطابق ردعمل دیں لیکن ہر بات کو دل پر نہ لیں۔ عورتوں کی اکثر باتیں سننے کی ہوتی ہیں اثر قبول کرنے کے لئے نہیں ہوتیں۔ اگر آپ نے خواتین کی ہر بات کو دل پر لے کران کا اثر لینا شروع کردیا تو آپ بھی بی پی، شوگر اور دل کے مریض بن کر ساری زندگی گزار دینگے اور بقول شاعر:
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
کہتے ہیں جتنی محنت اور مشقت لوگ شادی سے پہلے کرتے ہیں اتنی محنت اگر شادی کے بعد کی زندگی کو سمجھنے میں کریں تو ان کی شادی کے بعد کی زندگی مثالی بن جائیگی۔ آپ اپنے اندر “صبر اور محبت” یہ دو خوبیاں پیدا کر لیں، آپ کی زندگی اور آپ کا گھر دونوں جنت کا نمونہ بن جائینگے۔
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
ماشااللہ بہت اچھا آرٹیکل ہے میں مکمل طور پر آپ سے اتفاق کرتی ہو لیکن اس میں آپ نے ایک حدیث بیان کی ہے اس میں حضرت زینب کی جگہ حضرت حفصہ آنا ہے(صحیح بخاری 5268)