کریم کی ٹیکسی کے اشتہارمیں دلہن کو گھر سے بھاگتاہوا دکھانے کی کوٸی محتاجی نہیں تھی۔کریم پاکستان میں جتنی کثیرالمستعمل ہے اس نے عام ٹیکسیوں اور رکشوں کی دال روٹی بھی مشکل کردی ہے!!!!
پیپسی اورکوک کے شائقین کو کئی دفعہ انڈین ویڈیوزدکھائی گئیں جن میں اس کولڈڈرنک سے واش روم صاف ہورہےہیں اور ہوٹل والےمچھر مکھی بھی اس سےمارہے ہیں۔مگران لوگوں کےاستعمال میں کمی نہی آٸی!!
پھرکیا ان کمپنیوں کواپنی سیل بڑھانےکےلیے ایک غیر قانونی جوڑے کودیدہ دلیری کے ساتھ پراٸی محفل میں گھس کرزبردستی بوتل پہ ہاتھ صاف کرتے ہوے دکھاناپڑ گیا تھا؟؟؟
اس وقت ٹپال چاۓ کے سوا کوٸی اور چاۓ پاکستان میں بزنس نہیں کررہی ہے جواسے اپنی سیل بڑھانےکےلیے لڑکوں کوپڑوسیوں کی دیوارپھاندنے کاراستہ دکھانے یا دیوانہ وار اچھل کود کرنے والے اشتہاروں کی ضرورت پڑے۔
دراصل ان شتہاروں کے ذریعے مصنوعات نہیں بلکہ تصورات بیچے جارہے ہیں!!!!!!
معاملات اور معمولات بیچے جارہے ہیں!!!!!
آئیڈیاز دیےجارہےہیں اور ٹرینڈ سیٹ کیے جارہے ہیں!!!!!
پیغامات ارسال کیے جارہے ہیں،،،، خفیہ پیغامات جو صرف بھیجنے والوں کو پتہ ہوتے ہیں۔ یا اس کے مددگاروں کو پتہ ہوتے ہیں۔ وصول کرنے والوں اور اسکا نشانہ بننے والوں کو بھی ان پیغامات کی گہراٸی اور اثر پذیری کا اندازہ نہیں ہوتا۔۔۔
جب ”روشن خیال“ والدین بچوں کے ساتھ بیٹھ کرٹی وی پر ہرطرح کے پروگرام دیکھ رہےہوتے ہیں انھیں اندازہ ہی نہی ہوتاکہ ان پروگرامز سے انکے بچے کون کون سے آئیڈیاز وصول کررہے ہیں اور آگے چل کر کسطرح انھیں سر پہ ہاتھ رکھ کے رونا ہو گا۔۔۔
خوشیوں کے بھرے گھر سے خوشیوں کے پھول نوچ کر اور جان نثار والدین کے سر سے عزت کی چادر کھینچ کر جب لڑکی چپکے سے کریم ٹیکسی میں بیٹھ کر فرار ہوگی تب کون اس گھر کے دکھ سمیٹنے آۓگا؟؟
الٹا یہ ظالم میڈیا دلخراش سوالات کےنشتروں سے الگ کلیجہ چھلنی کر رہا ہوگا !!!!!
جب بسوں کے انتظاراور رکشوں کے کرایوں سے بچ کر ایک لڑکی” بائیکیا “ کے ہتھے چڑھ جاۓ گی تو اسے کوٸی بچانے نہیں آۓگا بلکہ یہ تو ہماری موم بتی مافیا کے لیےترنوالہ ہے اب ”مظلوم کارڈ“ لہرایا جاۓگا۔کیونکہ”چیخنے“ کا آئیڈیا تو اسکے بعد ہی کارآمدہوگا۔۔۔
یہ تنخواہ دار ”آنٹیاں “جو ”بربادشدہ عورت“ کی بہت ”قدردان“ ہیں۔بھوکی بلیوں کی طرح ان کی طرف لپکتی ہیں کیونکہ یہی ” بے سمت اور لاوارث عورت“ہی توانکا”چارہ“ ہے۔اب اسکو روتا پیٹتادکھایا جاۓگااورمعاشرے میں رول ماڈل بنانے کا کام شروع ہوگا۔ اس چکر میں اسکو مختلف ”ہاتھوں“ اور ”اداروں“ سےگزارا جاۓگا اور بالآخر یا تو وہ مایوس ہوکرخود کشی کرلے گی یا پھراس کو قتل کرواکے ”ڈبل مظلوم“ ۔۔ایک چٹ پٹا موضوع کچھ عرصہ ”جگالی“ کرنے کے لیے میڈیا کے ہاتھ آجاۓ گا۔اور اس سے ممکنہ فوائد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جاۓگی۔۔۔۔ !
اسی طرح کولڈ ڈرنک کولیجیے۔
پیارے نبیﷺ کےفرمان کے مطابق کسی کی دعوت میں بغیر بلاۓ جانے والا ڈاکو ہے ۔کہ ڈاکو بھی زبردستی گھرمیں گھس کردوسرےکی محنت کی کماٸی پرتصرف حاصل کرتا ہے۔۔۔۔ اس تربیت کے حامل معاشرے کو بےغیرتی اور لوٹ کھسوٹ کاپیغام دے رہے ہیں۔
ذرا سوچیےکہ اگراس کولڈ ڈرنک کمپنی کے مالک کے گھر کی تقریب میں بھی ایسےسو(100) آوارہ جوڑے آکر ناچنے کودنے اور کھانے پینے لگیں تو کیا یہ خوداس چیزکو برداشت کر لینگے؟
جی نہیں! ہرگز نہیں!!!
یہ سب پیغامات اس جاہل معاشرے کےکم تعلیم یافتہ متوسط اورنچلے طبقے کے لیے ہیں کیونکہ یہی تومیدان ہے انکے کھیلنے کا۔۔۔ کیونکہ یہیں تو اقدار کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس لیےان ہی کو تو پریشان اور غیر مطمئن کرنا ہے۔ چونکہ اسی طبقے میں آبادی زیادہ ہوتی ہے ، اسی میں جوھرِ قابل پیدا ہوتاہے۔ متمول طبقے میں تو کرنے کے دوسرے کام ہیں یہ پھندا تواس ملک کی غالب آبادی ہی کے لیے ہے۔ کاش ہم تفریح کی میٹھی گولی میں لپٹے اس زہر کوپہچان سکیں۔اوراس سےاپنی قوم کوبچاسکیں۔