بچے خداداد صلاحیتیں لے کردنیا میں آتے ہیں ۔جو بچے خداداد صلاحیتوں سے لیس ہوتے ہیں انھیں غیر معمولی یا خداداد صلاحیتوں کے حامل بچوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔خداداداورغیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ اپنی ذہنی استعداد کی بنا ء پر اسکول میں ہر ایک کے منظور نظر ہوتے ہیں ۔ غیر معمولی اکتسابی صلاحیتوں کے حامل طلبہ اسکول میں اپنے ہم عمر بچوں سے ذہانت اور دیگر استعدادوں میں اعلی ہوتے ہیں۔ مار لینڈ رپورٹ کے مطابق ’’غیر معمولی یا خداداد، اعلی صلاحیتوں ،ذہانت،سودمند اختراعی فکر اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل نصابی و دیگر بصری اور نفسی حرکی(ذہنی عمل کے تحت انجام دینے والیPsycho-motor )سرگرمی کو انجام دینے والے طلبہ کو کہاجاتا ہے۔‘‘ ٹرمن اور اوڈین (Terman and Oden) کے مطابق غیر معمولی بچے نہ صرف جسمانی بناوٹ وسماجی ہم آہنگی سے لیس ہوتے ہیں بلکہ وہ شخصی خصائل،نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں میں عام بچوں سے اعلی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ڈبلیو۔بی۔کولسنک(W.B.Kolesnik)کے مطابق لفظ غیر معمولی ہر اس بچہ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو اپنے ہم عمر بچوں میں پائی جانے والی صلاحیتوں میں سے چندصلاحیتوں میں بہتر و ممتاز ہوتا ہے اور یہی اوصاف و صلاحیتیں اسے سماجی زندگی کے معیار اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانے میں غیر معمولی شراکت دارکے طور پر پیش کرتی ہیں۔ خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے لئے مرتب کردہ تدریسی منصوبوں کی نظر میں خداداد کی اصطلاحی تعریف میں چند اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین تمام اختلافی نظریات کو پس پشت رکھ کرخداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے لئے خصوصی توجہ اور بہترین نصابی پروگرام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ خداداد یا غیر معمولی بچے منفرد اور زیرک قوت تخیل کے حامل ہوتے ہیں۔پیچیدہ سوالات کو نہایت آسانی اور اعلی تکنیک سے حل کرتے ہیں۔یہ گہری بصیرت اور اعلی کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔غیر معمولی خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ اعلی درجہ کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں ۔ خصوصی توجہ اور دلچسپی کے ذریعہ اگر ان کی رہنمائی کی جائے تو یہ سماج میں اپنا گرانقدر کردار انجام دیتے ہیں۔خداداد صلاحیتوں کے حامل بچے نصابی اور دیگر صلاحیتوں کے اعتبار سے اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف اور منفرد ہوتے ہیں لیکن جسمانی نشوونما،سماجی برتاؤ اور جذباتی ردعمل میں اپنے ہم عمر بچوں سے مناسبت رکھتے ہیں ۔انہیں صرف ان کی تعلیمی زمرے میں اعلی ذہانت کی وجہ سے خدادا یا غیر معمولی طالب علم کے طور پر جانا جاتا ہے۔غیر معمولی بچوں کی تدریسی خدمات کی انجام دہی میں پہلا اور سب سے اہم کام ان میں پائی جانے والی غیر معمولی صلاحیتوں سے ادراک حاصل کرنا ہوتا ہے۔جب غیر معمولی بچوں کی صلاحیتوں کا ادراک ہوجاتا ہے تب ضروری ہے کہ استاد تعلیمی طور پر غیر معمولی اور بعض شعبوں یا زمروں میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں فرق کو ملحوظ رکھیں۔طلبہ کی کارکردگی کی بناء پر ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے لیکن استعداد ی پیمائش(Skill Test)،ذہانتی پیمائش(Intelligence Test)اور تخلیقی پیمائش(Creative Test)ان کی خدادا د صلاحیت کی نوعیت کا صحیح نتیجہ پیش کرتے ہیں۔
بہتر نگہداشت،ہمت افزائی ،بہترین تدریسی احکامات،آزاد مطالعاتی پرواجکٹس،خداداد صلاحیتوں کے فروغ اور بہتری کے لئے مناسب موقعوں کی فراہمی غیر معمولی طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔اگر مذکورہ نکات کا لحاظ نہیں رکھا گیا تب ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے یا پھر یہ صلاحیتیں غلط سمت اختیار کرنے کی وجہ سے سماجی مطابقت پیداکرنے میں کئی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان غیر معمولی بچوں کا مستقبل تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔اگر اساتذہ بچوں کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں یا پھر ان کی تدریسی سرگرمیاں اعلی معیار اور بہتر تدریسی تقاضوں سے مبراء ہوتی ہیں تب خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ میں نہ صرف عدم مطابقت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ وہ نفسیاتی اور تعلیمی مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ اعلی درجہ کی معلومات رکھنے والی و انفرادی تدریس ، طلبہ کی صلاحیت اور دلچسپی سے ہم آہنگ موثر تدریسی لائحہ عمل اور طلبہ میں تعلیمی امکانات کو فروغ دینے والے مواقعوں کی فراہمی کے ذریعے خدادا د صلاحیتوں کے حامل طلبہ کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ میں تمام طلبہ کو بہترین تعلیم و تدریس دینے کا پنہاں داعیہ بھی غیر معمولی طلبہ کے لئے بہتر و مناسب تعلیمی لائحہ عمل ترتیب دینے کی طر ف مائل رکھتا ہے۔غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کی صلاحیتوں کو کسی بھی طو ر پر پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ کی کاوشیں ضروری ہوتی ہیں۔اساتذہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ میں پائے جانے والی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پرحسب ذیل دو گروہ میں تقسیم کریں تا کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے طلبہ کی مناسب رہبری ورہنمائی انجام دی جاسکے۔
(1)خداداد ذہنی صلاحیت کے حامل یا تعلیمی طور پر قابل اور دیگر زمروں میں قابلیت سے لیس یا عاری طلبہ۔
(2)تعلیمی طور پر اوسط یا دیگر زمروں میں غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ۔
غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کے اوصاف؛۔غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں اعلی ذہانت اور تعلیمی صلاحیت ، اعصابی نظا م اور دماغ کی اعلی درجہ کی کارکردگی کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ غیر معمولی یا خداداد صلاحیتیں جینیاتی طور پر ورثے میں ملتی ہیں یا پھر مناسب و سازگار ماحول کے ذریعے انھیں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔تعلیمی طور پر غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کی نشاندہی اور مناسب نگہداشت کے ذریعے طلبہ کی اکستابی رفتار کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔غیر معمولی یا خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی چند نمایا ں خصوصیات کو ذیل میں پیش کیاگیاہے۔
(1) ذہنی آزمائش(I.Q Test)ا وہ طلبہ جن کا (I.Q)ذہنی میقاس 125یا اس سے اونچا ہوتا ہے وہ بچے عام طو ر پر ذہنی طو ر پر خداداد اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
(2)غیر معمولی بچوں میں ذہنی صلاحیت جیسے قوت حافظہ ،قوت فکر،استدلال،تخیل،تجزیہ،ترکیب اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اعلی ہوتی ہے۔
(3)غیر معمولی بچے وسیع علم حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی اعلی درجہ کی ہوتی ہے۔
(4)ذہنی طو ر پر غیر معمولی صلاحیت کے حامل بچوں میں حقائق اور واقعات کا علم اعلی درجہ کا ہوتا ہے۔جب کہ ان کے ہم عمر وں کے لئے یہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے۔
(5)ان میں اعلی درجہ کی قوت تجسس پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے علم کے حصول میں بے چین رہتے ہیں۔حتی کہ کبھی سنے اور پڑھے گئے حقائق کو بھی وہ حافظے میں بہ آسانی محفوظ رکھ لیتے ہیں۔
(6)تجریدی نظریات اور خیالات کو بیان کرتے ہیں اور اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے بہت پہلے اپنے تعلیمی کام کو مکمل کر لیتے ہیں۔زیرک مشاہدے کے حامل ہونے کی وجہ سے حالات و واقعات سے معلومات اور نتائج اخذ کرنے کے متحمل ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اغلاط کی نشاندہی میں بھی یہ بہت تیز ہوتے ہیں۔
(7)مشکل پیچیدہ ذہنی کام کو نہایت آسانی و اطمینان کے ساتھ انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں اور سوالات کے حل اور مسائل کو حل کرنے میں یہ بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
(8)عملی سرگرمیاں(Practical Work)کو معلنہ وقت سے پہلے ہی مکمل کر لیتے ہیں عملی کام کی انجام دہی میں کئی غیر معمولی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اعلی عملی کام کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
(9)سوال کو حل کرنے کے لئے متبادل طریقے اور ضابطوں کو استعمال کرتے ہیں۔مختلف اور متبادل طریقوں کے استعمال سے یہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(10) غیر معمولی بچوں میں جذباتی استحکام پایا جاتا ہے۔یہ خود اعتماد ،پر امید ،صابر و شاکر ہوتے ہیں۔ان کی دلچسپیاں اعلی معیار کی ہوتی ہیں۔یہ حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے کسی بھی چیز کو استدلال کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں۔یہ حصول علم کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔
خداداد صلاحیتوں کے حامل بعض بچے تعلیمی سطح پر اوسط درجے کا مظاہرہ کرنے کے باوصف چند مخصوص اعلی صلاحیتوں کی بناء پر فن موسیقی،مصوری،نقاشی ،رقص اور تخلیقی ادب کے ذریعہ اپنی اعلی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔بچوں کی ان مخفی صلاحیتوں کی کسی ذہنی امتحان(Intelligence Test) کے ذریعہ شناخت نہیں کی جاسکتی ہے۔ان اوصاف اور صلاحیتوں کا دلچسپی سے مربوط (Interest Inventory)
امتحانات کے ذریعہ پتہ لگایا جا سکتا ہے۔استاد کی جانب سے بچوں کی خاص دلچسپی والے زمروں میں اٹھایا جانے والا ایک ادنی سا قدم ان کی مخصوص صلاحیت کو پروان چڑھانے میں مددگار ہونے کے علاوہ زندگی میں ان کے اہداف کے حصول کی تحریک بن جا تا ہے۔بچوں کے بہترین اوصاف اور صلاحیتوں کی مسلسل حوصلہ افزائی ،رہنمائی اور مواقعو ں کی فراہمی کے ذریعہ ان کے مظاہروں کو اعلی معیار کا بنایا جاسکتا ہے۔ان امور کی انجام دہی کے وقت استاد کو دوسرے گروہ کے محنتی اور جفاء کش طلبہ میں تمیز کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اوسط درجہ کے محنتی طلبہ تھوڑی سی جفاکشی اور محنت کے بل پر امتحانات میں اعلی نشانات کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ایسے طلبہ کو غیر معمولی طلبہ کے گروپ سے علیحدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے مسائل؛۔غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ جبء غیر مناسب اور ناسازگار تعلیمی ماحول کی وجہ سے اساتذہ کی معلنہ معیار کے مطابق مظاہر ہ کرنے کے تلخ تجربات سے دوچار ہوتے ہیں تب وہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے سخت جد وجہد کر نا پڑتا ہے۔ماحول سے مطابقت نہ کرنے کی وجہ سے ان کی بلند و بالا آرزؤئیں اور خواہشات چکناچور ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بتدریج ذہنی اور جذباتی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایسے نامساعد حالات میں ان کا برتاؤ نہایت جارحانہ اور مشکوک ہوجاتا ہے۔اساتذہ کے لئے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی ضرورتوں اور مسائل کا علم رکھنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں سے کسی امکانی لاپرواہی اور بدسلوکی سے پرہیز کر سکیں۔غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ جب تعلیمی ماحول اور تدریسی سرگرمیوں کو اپنی قابلیت سے کمتر اور غیر معیاری محسوس کر تے ہیں تب وہ مایوسی کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔ذیل میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں پائے جانے والے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
(1)غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ اپنی علمی پیاس اور تجسس کی وجہ سے متعدد سوالات،بہتر تفہیم اور استدلال کی جب استاد سے مانگ کرتے ہیں بعض مرتبہ ان کو استاد کی برہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اساتذہ کا غیر صحت مند رویہ بچوں میں مایوسی کو پیدا کرنے کا باعث ہوجاتا ہے۔اساتذہ کو اس طرح کے غیر معلمانہ و غیر منصفانہ ردعمل سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے۔
(2)اساتذہ جب بچوں کے متوقع سوالات کا اطمینان بخش جواب نہیں دیتے ہیں تب وہ مایوس ہونے کے علاوہ دباؤ کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔
(3)عام بچوں کی طر ح جب اساتذہ ان کو بھی وہی کام تفویض کرتے ہیں تب وہ کام میں دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں۔تفویض کردہ کام کو بے کیف پانے سے ان میں بے چینی پیدا ہوجاتی ہے ۔
(۴)اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بناء پر جب وہ کمرۂ جماعت میں سرگرم حصہ لیتے ہیں تب جماعت کے دیگر طلبہ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف کے بجائے اس کو تسلط پر محمول کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو مستردشدہ تسلیم کرنے لگتے ہیں۔
(5)اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ عدم مطابقت کا شکار ہوجاتے ہیں۔بعض مرتبہ ان کا رویہ انتہائی تحکمانہ ہوجاتا ہے۔دوسروں کو حقیر اور کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور جب خود کو دوسروں سے علیحدہ کرنے کو کوشش کر تے ہیں تب ان کی سماجی مہارتیں اور استعدادیں پروان چڑھنے سے قاصر رہتی ہے۔
(6) ہم جماعت ساتھیوں کی جانب سے کرم کتابی (کتابی کیڑا) اور استاد کا پٹھو کہنے کی وجہ سے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلباء تحقیر و تضحیک اور طعن و تشنہ کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔
(7)غیرمددگار ماحول ،ضرورت اور درکار وسائل میں پائی جانی والی خلیج سے ان کی تعلیمی ترقی پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے منفی رجحانات ان میں پرورش پانے لگتے ہیں اور وہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(8) اعلی صلاحیتوں سے متصف ہونے کے باوجود سماجی ہم آہنگی کے فقدان کے باعث یہ خود کو تنہا و اداس پاتے ہیں۔ بچوں میں پائے جانے والے اس بحران پر ان کے ذہنی رجحانات اور ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے قابو پایا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی جانب سے فراہم کردہ مشفق اور صحت مند تعلیمی ماحول غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلباء کے بیشتر مسائل کو ازخود ختم کر دیتا ہے۔
غیر معمولی بچوں کی تعلیم میں اساتذہ کا کردار؛۔ہر اسکول میں تجربہ کار اور بہترین اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ان بچوں کی صلاحیتوں کی نہ صرف نشاندہی و شناخت کا کام انجام دے سکے بلکہ ان کی صلاحیت کا ادارک کرتے ہوئے ،ان کی ذہانتی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مبسوط و خاص تعلیمی لائحہ عمل تیار کرے۔ان کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان میں ذوق و شوق کے جذبہ کو سرد نہ پڑنے دیں اور ان میں احساس جاگزیں کریں کہ ان کی خواہشات و تمناؤ ں کی تکمیل کے تما م سامان و اسباب استاد کی دسترس میں ہیں۔غیر معمولی بچوں کے لئے علیحدہ جماعت کا انتظام یا پھر ان کو دیگر بچوں سے الگ کرنے کی کسی بھی کوشش کو دانشوارانہ فعل سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا ہے۔اس طرح کے بچوں کا تناسب تمام اسکول میں ایک یا دو فیصد ہوتا ہے ان کے لئے علیحدہ تعلیمی انتظام کی وجہ سے زائد مصارف کا بوجھ اسکول انتظامیہ کو برداشت کرنا پڑئے گا۔ غیر معمولی صلاحیت کے بنیاد پر ان کو دوہری ترقی(Double Promotion) دینا بھی کسی بھی طو ر پر قابل قبول فعل نہیں مانا جائے گا کیونکہ یہ اعلی جماعت کے طلبہ سے ذہانتی طو ر پر بہتر تو ہیں لیکن یہ جذباتی طور پر،سماجی اور جسمانی طو رپر یقیناًاونچی جماعت کے طلبہ سے پیچھے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ عدم آہنگی کا شکا ر ہوسکتے ہیں۔اس تناظر میں اتنا ہی ضروری ہے کہ اساتذہ مروجہ ڈھانچے میں بہت زیادہ ترمیم و تبدیلی کے ایسے تعلیمی لائحہ عمل کو اپنائے جو بچوں میں فراست و ذکاوت،قابلیت اور پوشیدہ صلاحیتوں کو فروغ دے سکیں۔غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی تدریس میں استاد کے کردار پر درجہ ذیل نکات سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
(1) اساتذہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ اور کسی مخصوص صلاحیت کے حامل طلبہ کی علیحدہ شناخت کرتے ہوئے انھیں مناسب مواقع فراہم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کو یقینی بنائیں تاکہ ان کی صلاحیتوں کو استحکام حاصل ہو اور وہ اور بہتر مظاہر ہ کے متحمل ہوسکیں۔
(2)اساتذہ بچوں کو ان کی خاص اور پوشیدہ خداداد صلاحیت سے واقف کروائیں اور اس کے بہتر استعمال کے لئے رہنمائی و رہبر ی کے فرائض انجام دیں۔
(3)اساتذہ بچوں میں عدم مطابقت اور عدم ہم آہنگی جیسے پیدا ہونے والے مسائل پر طلبہ میں خود ضبطی (Self-control)کو فروغ دیتے ہوئے قابو پائیں۔
(4)بہترین اکتسابی تجربات ،اور زیادہ سے زیادہ اکتساب کو فروغ دینے والے حالات جو کہ طلبہ کی ذہانت اور قابلیت کے عین مطابق ہو ں فراہم کرتے ہوئے اساتذہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں احسا س طمانیت کو جاگزیں کرسکتے ہیں۔
(5)بچوں کی کارکردگی اور کامیابی پر ان کی تعریف و توصیف کی جائے۔استاد کی جانب سے کی جانے والی تعریف و توصیف بچے میں توانائی بھر دیتی ہے اور وہ مزید بہتری کی جانب پیش قدمی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(6)خداداد صلاحیت کے حامل طلبہ کوغیر معمولی طلباء کے ساتھ کام کرنے کا مواقع فراہم کیا جائے جیسے باہمی اکتساب وغیر ہ جس کی وجہ بچوں کی اعلی صلاحیتیں اور پروان چڑھنے لگتی ہیں۔
(7)بچوں کو ان کی دلچسپی اور لیاقت کی سطح پر ان کے پسندیدہ تعلیمی میدان کے انتخاب کا مواقع فراہم کریں۔ان کے پسندیدہ تعلیمی میدان میں وسعت و فروغ پیدا کرنے کے لئے ان کی مسلسل رہبری و رہنمائی انجام دیں۔
(8)بچوں میں چالینجنگ جذبے کے فروغ کے لئے بہترین موضوعات و مواد فراہم کریں جس سے ان میں تنقیدی فکر ،وسعت اور تخلیقیت پیدا ہوسکے۔
اساتذہ غیر معمولی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کے فروغ اور ان میں احساس طمانیت پیدا کرنے کے لئے بہترین تعلیمی لائحہ عمل کی فراہمی اور عمل آوری کو یقینی بنائیں۔خاص طور پر اعلی درجات کے موضوعات کی تدریسی سرگرمیوں میں شمولیت کے ذریعہ طلبہ کی تعلیم کو پرکیف بہ معنی اور زندگی سے مربوط کیا جاسکتا ہے۔ایک اچھے تعلیمی نظام کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی صلاحیتوں کو دریافت کرے،ان میں شعور پیدا کرے،اور ایساماحول فراہم کرے جس سے یہ صلاحیتیں پختہ ہوجائیں اور جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں تو علم و ادب،صنعت و حرفت،نظم و نسق،تعلیم و تدریس،طب و جراحت،فنون لطیفہ اورسائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں انھیں بھر پور طریقہ سے بروئے کار لائیں۔اعلی اقدار کو ان کے شعور کا حصہ بنایا جائے اور اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے میں حق پرستی،انصاف پسندی،ذمہ داری،خوش خلقی،رحم دلی،کریم النفسی اور اعلی ظرف جیسی صفات پیدا کرسکیں۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
متذکرہ طلباء کی شناخت اور رہنمائی سے متعلق اساتذہ مکمل عبور رکھتے ہوئے وسائل فراہم کرنا چاہیے
مضمون تفصیلی اور تدریسی عمل میں معاون ہے