اچھی بات کہنا اور سننا

میڈیا بدل رہا ہے سماج کے تحت افشاں نوید صا حبہ کا مضمون واقعی دل کو چھو لینے والا تھا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ
” احساس مٹ نہ جائے تو انسان کیلئے
کافی ہے ایک را ہ کی ٹھوکر لگی ہوئی ”
واقعی ہم توٹھہرے تماشائی ! امی کہتی تھیں “غیر کی شادی میں عبد اللہ دیوانہ” جب تو بات سمجھ ہی نہ آ تی تھی۔ آج پتا چلا ہم سب کیا ہیں ؟کیسے میڈیا کی انگلیوں میں ناچ رہے ہیں وہ بھی فخریہ اور شعوری طور پر جو نہ سمجھے اسکو خدا سمجھے مگر زندگی کا مقصد برا ئی کو روکنا بھی ہے ۔ خود اچھے ہو ئے تو کیا ؟ معروف عمل کرے اور برائی سے رکے اور روکے ” جا ئزہ لیا جائے تو معلوم ہوا برائی سے رکنا تو دور کی بات ہے اس کے خلاف سننا بھی گوارہ نہیں تو رکیں گے کیسے؟ کیا یہ ضعف الایمان نہیں ؟ دغا نہیں ؟ ضمیر سونہیں رہا ؟ مختصر با مقصد زندگی کا یوں زیاں لمحہ فکریہ ہے اور شکر کریں آگے اللہ کا جس نے قدم قدم پر جاگے ہوئے ضمیر کو جگانے سنوارنے کا انتظام کیا ہے اور اندھیرے میں چراغ جیسے رہنمائی دینے والے فراہم کئے ہیں یہ انکا کرم ہے فضل ہے ۔ اتنی آسانی سے چھوٹے سے مضمون کو پڑھ کر پلٹ آنے کے ! سبحان اللہ ہر فرد کے پاس مواقع میسر ہیں ۔ جیسے پرندے کچرے میں سے اپنا دانہ چگ لیتے ہیں تو ہم اشرف ا لمخلوقات کیا برا ئی اور بھلائی میں تمیز نہیں کر سکتے ؟صبح کی نشریات میں سا حر لودھی کے پروگرام میں جو خرافات ، لباس ، تہذیب ، کلچر دکھا یا جا رہا ہے کیا ہم اسی لئے رہ گئے ہیں ؟ تضاد چیزیں تو پہچان ہیں غلط اور صحیح کی۔ “اچھی بات کہنا ” صدقہ کیوں ہے؟ کیونکہ یہ سہنے والا جس درد سے کہتا ہے یقیناًاثر رکھتا ہے اور پھریہی صدقہ دفائے بلا ہے دونوں جہاں میں ۔ کہنا آسان ہے اور سہنا مشکل ہے ۔ مگر مشکل بھی دراصل امتحان ہے؟ کیا آپ کسی بھی امتحان میں فیل ہونا پسند کرینگے؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں