تعلیم کا بنیادی مقصد خودی کی تلاش اوربازیافت ہے۔ملک و قوم اور دنیا کا مستقبل نئی نسل کی تخلیقی و ذہنی نشوو نما کے رہین منت ہے۔طلبہ کے پوشیدہ جو ہر کو دریافت کرنا اور ان کو نکھار کر ملکی و قومی تعمیر کے لئے بامعنی بنانا ابتدائے آفرینش سے ہر استاد کا شیوہ و شعار رہا ہے۔ندرت ،تخلیقیت اور انفرادیت طلبہ کی شخصیت سازی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ماضی میں تخلیقیت اور اختراعی افعال یا افکار کو اعلی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ تحقیق اور معلومات کی بنا پرتخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت کو دو مختلف عوامل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ماضی قریب میں اعلی ذہانت (I.Q)کے حامل طلبہ کو فطری طور پر تخلیقیت سے بھر پور سمجھا جاتا تھاجس کو جدید تحقیق نے محض ایک خام خیالی قراردیا ہے۔اللہ نے تما م کائنات کو بنایا بلکہ بہت خوبصورت بنایا۔ ہم کوکائنات کی ہر شئے میں ایک ربط باہم نظر آتا ہے ۔کائنا ت کی ہر شئے سے ٖخالق کائنات کا نظم و ضبط(ڈسپلن)،خوبصورتی اورحسن انتظام ہویدا ہے جس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ڈسپلن ،خوبصورتی اور حسن انتظام کو پسند فرماتے ہیں۔ سورہ تین کے مطالعے سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا ہے۔تقویم کا یہ حسن صرف ظاہر ی ،جسمانی حسن و جمال ہی نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی غور و فکراورتدبیر و تدبرجیسی بے شمار صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔سورہ رحمن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ’’ہم نے انسان کو بیان کرنے کا علم دیا ‘‘اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ بیان و اظہار کے وہ تمام وسائل جس سے تعلیم و تربیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں انسان مثبت تبدیلیوں کا نقیب بن سکتا ہے۔ آج کا دور معیار، مہارت اور تخلیقیت کا دور ہے۔آج تعلیم و تربیت اور زندگی کے تما م شعبوں میں ایک نمایاں جدت اور ارتقاء کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں قوت تخیل اور تخلیقیت(Creativity) اپنے وقت کے اعلی معیار کو چھورہی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے انسانی عظمت کو چار چاند لگ چکے ہیں۔ ماہرین نفسیات نے تخلیق کو دراصل تقلید اور جمود کی مسماری اور ایک نئی دنیا کی تعمیر قرار دیا ہے۔کسی بھی تعمیر ی کاز کے لئے تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان میں یہ تعمیری جرات( جسے ہم تخلیقی فکر سے بھی عبارت کرتے ہیں) ،حوصلہ اور اعتماد،علم سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں بنایا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت نہ ہو۔تخلیقی قوت جب قوموں سے رخصت ہوتی ہے تو اس کی وجہ ان میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان اور عدم وجود نہیں ہوتا ہے بلکہ جدت اور تخلیقی فکر کا اپنی روایات اور ہٹ دھرمی کے باعث انکار و رد ہوتا ہے ۔ روایا ت اور جمود میں جکڑے تعلیمی نظام میں تخلیقی بات کہنے کا مطلب ہے ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا۔ جب یہ صورت حال وجود میں آتی ہے تب کسی بھی قوم کی عظمت پر زوال کے گہن لگنے لگتے ہیں۔بقول علامہ اقبال
آئین نو سے ڈر نا ،طرز کہن پہ اڑنا منز ل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تخلیقی فکر اگر موجود ہوتو ہر طرح کے حالات میں راستہ نکل سکتا ہے۔بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اس کو فروغ دینا ہر استاد کا فرض اولین ہوتا ہے۔اساتذہ کے لئے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ذہانت اور تخلیقیت میں ایک اٹوٹ وابستگی ضرور ہے لیکن یہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور علیحدہ ہیں۔ذہانت علم،مہارت اور معلومات کی شکل میں تخلیقیت کو نہ صرف وجود میں لاتی ہے بلکہ اس کی نشوونما میں کلید ی کردار انجام دیتی ہے۔مدارس ہی معاشرے کے وہ ادارے ہوتے ہیں جہاں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کی جاتی ہے اور تخلیقیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔بچوں میں تخلیقی فکر اور رجحان پیدا کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مدارس اوروالدین پر عائد ہوتی ہے۔اسکولی تعلیم کے اہم مقاصد میں ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتہ کا ادراک ،طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت و نشاندہی اور طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت انسان میں پائے جانے والی تمام صلاحیتوں میں نہایت اعلی و ارفع مقام رکھتی ہے۔کسی بھی شخص کے نظریات ،افعال و افکار اس کی تخلیقی صلاحیت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت اللہ تعالی کا عطاکر دہ ایک بیش بہا تحفہ ہے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔جدید طرز تعلیم میں تخلیقیت کو غایت درجہ کی اہمیت حاصل ہے۔آج کے دور میں انسانی ترقی و ارتقاء میں تخلیقی مزاج کو ایک موثر طریقہ تدریس کے طور پر اختیار کیا جارہاہے۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبہ کو متنفر کرنے والے سخت ،روایتی اور قدیم طرز تدریس سے نہ صرف اجتناب کریں بلکہ طلبہ میں تخلیقی فکر ،ندرت اور قوت تخیل کو پروان چڑھائیں۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں پیدا کیا ہے جس میں کوئی نہ کوئی تخلیقی صلاحیت موجود نہ ہو۔ہر آدمی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔اسکولس تخلیقی صلاحیتوں کو وجود بخشنے اور پروان چڑھانے والے مراکز کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اسی لئے مدارس پر بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور فروغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کسی بھی طالب علم میں تخلیقی فکر پیدا کرنے میں تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
(1) اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تخلیقی طریقہ تدریس پر عمل پیر ا ہوکر طلباء میں تخلیقی کیفیت کو بیدار کریں۔
(2)طلباء کی تخلیقی کیفیت پر موثر ردعمل کے ذریعہ تخلیقی فکر کی پرورش اور نشوو نما۔
(3)تخلیقی فکر و صلاحیتوں کو فروغ دینے والے ماحول کی فراہمی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ’’ہر بچہ اپنے ذہن میں ایک تخلیقی دنیا آباد رکھتا ہے۔‘‘قوت تخیل ہی طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔اسی لئے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے ان کو ان کی خیالی دنیا میں آباد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں کے خیالی پلاؤ ہی دراصل ان کی اصل کیفیات کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔عظیم فنکاروں،موجدوں،اور مصنفوں نے تعلیم میں ہمیشہ جدت اور قوت تخیل کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے دنیا میں جتنے بھی تخلیقی کام کئے گئے ہیں ان میں پرانے تصورات اور اشیاء کو نئے اندازی میں دیکھا گیا ہے۔نیوٹن نے جب سیب کو گرتے دیکھا تو یہ نیوٹن اور دیگر افراد کے لئے کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں تھی ۔لیکن نیوٹن نے اس سیب کے گرنے کے عمل کو ایک خاص جدید انداز میں دیکھا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں گر رہا ہے اوپر کیوں نہیں جا رہا ہے۔نیوٹن کی اس جدت فکر کا نتیجہ کشش ثقل (Gravity)ہے جس سے دنیا نا واقف تھی۔ اسکولس میں بچوں کی قوت متخیلہ کو مہمیز کرنے والے طریقہ ہائے تدریس کی اشد ضرورت ہے جس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملے۔ماہرین نفسیات نے بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو تخلیقی فکر کے وجود کا سبب قرار دیا ہے۔ہم غلطیاں کرنے اور ان کے اقرار سے گھبراتے ہیں جب کہ غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ کا وجود میں آناتقریبا نا ممکن ہے۔ہمارا تعلیمی ماحول تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کر تا ہے اگر بچہ جب استاد کے کسی سوال کے جواب میں استاد کے متوقع خیال کے برخلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تب استاد بچہ کی ہمت افزائی کے بجائے اس کے خیالات کو یکسر رد کرتے ہوئے بچوں میں تخلیقی فکر کے فروغ پر پابندیاں عائد کردیتا ہے۔اساتذہ اکثر اوقات بچوں کی نئی سوچ کو رد کردیتے ہیں اور ان کا طریقہ تدریس و تعلیم ہمیشہ محدود طریقہ کار کے اردگرد گردش کرتا رہتا ہے۔
اکثر اساتذہ تخلیق سے زیادہ تربیتی کاوشوں پر وقت صرف کرتے ہیں۔علم نفسیات کے مطابق بچوں کے لئے سب سے بد ترین چیز بچوں کو مباح کاموں میں روکنا ٹوکناتخلیقی فکر کی نشو ونما میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔درخت کی مناسب نشوونما کے لئے اس کی شاخوں کو تراشنا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ سیدھا اور بلند ہوجائے ۔ اسی طرح بچوں تک کونسی معلومات پہنچائی جائے اور کونسی نہیں یہ بہت ہی ضروری ہے ۔علمی انفجار کے اس دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔آج مختلف ذرائع سے معلومات کا ایک سیلاب امڈاچلا آرہاہے۔اساتذہ اور والدین کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بچوں کو کونسی معلومات فراہم کریں اور کس سے باز رکھیں جو ان کے حصول علم میں معاون ہو ،قوت تخیل کو بال و پر اور تخلیقی صلاحیتوں کو پرواز عطاکرے۔مروجہ اور روایتی افکار سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں مجروح ہوجاتی ہیں اور وہ روشن لکیر پر چلنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔بچوں میں آزادانہ غور و فکر کی اگر عادت پیدا ہوجائے تو وہ محیر العقل کارنامے انجام دیتے ہیں۔روایتی سوچ کی تباہ کاریوں کے ضمن میں ایلس ہووے سلائی مشین کے موجد کا واقعہ چشم کشا ثابت ہوسکتا ہے۔ایلس ہووے (Elis Howe)نے 1845میں سلائی مشین بنائی۔اس مشین میں میں سوئی میں روایتی طریقے کے مطابق چھید اوپر کی جانب تھا جس کی وجہ سے مشین کی کارکردگی متاثر ہوگئی۔جس کی وجہ سے ایلس ہوے اپنی مشین سے صرف جوتے ہی سی سکتا تھا۔ایک عرصے تک ایلس ہوے اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہا ایک رات اس نے خوا ب دیکھا کہ اس کو وحشی قبیلے کے آدمیوں نے پکڑلیا ہے ۔انھوں نے اسے ٖحکم دیا کہ اگر وہ چوبیس گھنٹے میں سلائی مشین تیار نہ کر سکا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔مقرر ہ چوبیس گھنٹے میں وہ سلائی مشین بنانے میں ناکام رہ ۔قبیلے کے لوگ اس کو مارنے کے لئے ہاتھوں میں برچھے تھامے دوڑنے لگے۔ہووے نے دیکھا کہ ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ بنا ہواہے۔یہ دیکھتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی ۔اس کو سلائی مشین بنانے کا سراغ مل چکا تھا۔اس نے بر چھے کی طر ح سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بناکر اس میں دھاگا ڈالا۔پہلے چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی اب وہی مشین نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی تھی۔ابتدا میں ایلس ہووے کی ناکامی روایتی فکر کی وجہ سے ہوئی تھی وہ یہی سوچ رہاتھاکہ ہاتھ کی سوئی کا چھید اوپر کی جانب ہوتا ہے اور جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے وہی صحیح ہوگی۔ جب اس کے لاشعور نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا اس وقت وہ معاملے کی تہہ تک پہنچا اور مسئلہ کو فورا حل کر لیا۔جب انسان اپنے آپ کو کسی کام میں ہمہ تن مشغول کردیتا ہے تب وہ قدرت کے سربستہ رازوں کو حل کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں پاتا ہے جیسیایلس ہووے نے سلائی مشین کی ایجاد انجام دی۔
فکر کی جدت،ندرت خیال اور تخلیقی سوچ کے فروغ میں البرٹ آئن سٹائن کا قول بہت زیادہ اہمت کا حامل ہے’’ْذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شد ید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘اساتذہ اگر اپنے آپ کو اوسط درجے سے اونچا دیکھنا چاہتے ہیں تب ضروری ہے کہ وہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احترام کرنا سیکھیں۔ماہرین نفسیات میں تخلیقی صلاحیت و افکار کے خداداد اور پیدائشی ہونے پراختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کا ماننا ہے کہ تخلیقی فکر پیدائشی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کے مطابق’’تخلیق کے بارے میں اکثر سمجھا جا تا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پر اسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیبوں کو نصیب ہوتی ہے۔لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘‘ایلس ٹیسن کی تحقیق نے والدین،اساتذہ اور اسکولوں کی ذمہ داری میں اضافہ کر دیا ہے۔بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے جب تما م راستے کھلے ہیں تواساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہوجائے۔بعض ماہرین نفسیات کے مطابق تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے ۔ماحول اس کو صرف نکھار تا یا بگاڑتا ہے۔اگر اس بات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی ان صلاحیتوں کو جلانے اور نکھارنے کے طریقے اور تدابیر اختیار کرنا اساتذہ کے لئے ضروری ہے۔اب اساتذہ کے لئے مفرر کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔تخلیقی اظہار اور طریقہ کار کو جب نظر اندازیا ہدف ملامت بنایا جاتا ہے تب بچوں میں پائی جانے والی تخلیقی صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اوسط تعلیمی ذہانت لیکن بہتر تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پراپنی توجہ و انہماک کو مرکوز کریں۔تعریف و توصیف اور رہبری و رہنمائی کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔
ذہانت کے اقسام :۔ماہر علم نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) ذہانت کی تعریف کر تے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ذہانت ما حول سے مطابقت پیدا کر نے کے عمل کا نام ہے اور فر د کا ذہنی ارتقاء اس کے ما حول سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کر نے پر منحصر ہو تا ہے۔ نک وچلر (Wechler)کے مطابق ذہا نت ،کسی بھی کا م کو بامقصد طر یقے سے انجام دینے کی مجموعی لیاقت جیسے گہری فراست و بصیرت ،سنجیدہ فکر کے ذریعے ما حول سے موثر طر یقے سے نبرد آزما ہو نے کا نا م ہے۔دیگر ماہرین نفسیات کے مطابق ذہانت سے مرادقوت فکر و استدلال ،مسائل کے حل اور تصوراتی تشکیل کانام ہے۔ذہانتی ترقی و ارتقاء دماغ کی جنیاتی ہیت اور ماحول کی فراہمی پر منحصر ہوتی ہے۔سماجی تقاضوں اور زمانے کی مسابقت سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں بچے کی ذہانت کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔انسان کے دیگر اعضا ء کی نشوونما کی طرح ذہانت بھی عمر کے ساتھ ترقی پذیر رہتی ہے۔اگر طلبہ کی ذہانت کو مہمیز کرنے والے حالات اور ماحول فراہم کیا جائے تو یہ مزید ترقی کر جاتی ہے۔محتاط تجزیات سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ وہ بچے جو ذہین نہیں تھے لیکن وہ تخلیقی صلاحیت کے حامل پائے گئے ۔
ماہرین نفسیات کے مطابق سات قسم کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔
(1)استدلالی(ریاضیاتیLogical )ذہانت۔ ،اعداد و ہندسوں اورریاضی کے عناصر کی شناخت،تقسیم و تفریق اور استدلال کی صلاحیت ۔
(2)لسانی(Liguistic-Verbal)لسانی ذہانت سے مراد لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ،لفظیات کے برتاؤ کا علم و ردعمل،اور اظہار خیال کی صلاحیت ہے۔
(3)موسیقی ،نغمگی(Musical-Rhythmic)ذہانت:۔ صوتیاتی پہچان و ردعمل،سر تال کی تمیز ،تعریف و توصیف کو موسیقی یا نغمگی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(4)بصری(Visual-Spatial بصری شکلوں اور تصویروں کی شناخت و پہچان کو بصری ذہانت کہا جاتا ہے۔
(5)جسمانی(Bodily-kinesthetic)ذہانت، حالات کے مطابق جسمانی حرکات و سکنات پر قابو پانا اور حرکی ارتباط میں بہتری پیدا کرنے کو جسمانی ذہانت کہا جاتا ہے۔
(6) شخصی ذہانت(Intra Personal Intelligence)شخصی ذہانت کے بل پر فرد اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔اسی ذہانت کے زیر اثر آدمی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر تا ہے اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائحہ عمل بھی تر تیب دے کر اس پر عمل پیرا ہوتاہے۔
(7) بین شخصی ذہانت (Inter Personal Intelligence) بین شخصی ذہانت کے ذریعے دوسرے افراد کی پسند اور نا پسند کا اندازہ قائم کرتے ہوئے ان سے اپنے تعلقات کو مضبوطی استحکام فراہم کر تا ہے۔
ذہانت اور تخلیقیت کے درمیان رشتہ:۔والک اور کوگان(Wallach and Kogan) کی تحقیق نے طلبہ کو چار گروپس میں تقسیم کیا جس سے ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
(1)اعلیٰ تخلیقیت۔:اعلیٰ ذہانت ۔ان بچوں میں اعلیٰ قسم کی ذہانت اور اعلیٰ قسم کی تخلیقیت پائی جاتی ہے۔ان میں اعلی تخلیقیت کا وجود بہترین ذہانت کی وجہ سے پایاجاتا ہے۔جب یہ بچے اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقی کام انجام دیتے ہیں تب ان سے اعلیٰ تخلیقی کام وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
(2)اعلیٰ تخلیقیت ۔کم ذہانت:۔یہ بچے اکثر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ان کی تما م تخلیقی افکار پر تحدید یں عائد کر دی جاتی ہیں اور اکثر ان پر پھسڈی(Dull)ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔جب ان کی تخلیقی افکار و افعال کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے تب وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ذہنی خلفشارکے باعث غصہ کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔اگر ان کو ایک ایسا استاد جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہو اور تعریف و توصیف کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تب ان سے بہتر مظاہر سرزد ہونے لگتے ہیں۔
(3)کم تخلیقیت ،اعلیٰ ذہانت:۔یہ بچے صرف اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہتر مظاہرہ کرپاتے ہیں۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغولیت کی بنا پر وہ تخیلی اور تخلیقی فکر کے لئے وقت نہیں نکال پاتے ہیں۔یہ صرف تعلیمی سرگرمیوں میں جٹے رہتے ہیں۔ تعلیمی ناکامی ان کے لئے سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ صرف کرنے کی وجہ سے ان سے کوئی تخلیقی اور اخٰتراعی عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا ہے۔
(4)کم تخلیقیت۔کم ذہانت:۔ایسے بچوں پر اساتذہ کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ذہانت کی کمی کے باعث یہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ اکثرپریشان رہتے ہیں اور اکثر دفاعی انداز اپناتے ہیں ۔اساتذہ کی مسلسل تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت:۔ہر بچے میں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجو د ہوتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو تلاش کر تے ہوئے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت اور نشاندہی ان میں تخلیقی صلاحیتو ں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انھیں دوسروں سے نمایا ں اور ممتاز کرتی ہیں۔
(1)ان میں اعلیٰ معیار کی دلچسپی اور تندہی پائی جاتی ہے وہ جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں اس کو تندہی سے انجام دیتے ہیں۔
(2)پسندید ہ کاموں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف انجام دیتے ہیں بلکہ معروف نتائج کو اپنی جدید تحقیق کے ذریعہ تبدیل کرتے ہیں۔
(3)تخلیقی مسائل کے حل میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور مسائل کا اختراعی وتخلیقی حل ڈھونڈ نکا لتے ہیں۔
(4)اپنے اصل خیالات و افکار کے اظہار سے نہیں ہچکچاتے ہیں اور اپنے نظریات ،افکار و خیالات کو تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
(5)تخلیقی صلاحیتو ں کے حامل طلبہ دوسروں کے تخلیقی کام میں دلچسپی کا اظہار کرنے کے علاو ہ اس سے جذبہ و تحریک حاصل کرتے ہیں ۔ یہ طلبہ کسی بھی تخلیقی کام کی تعریف و توصیف میں پیچھے نہیں رہتے ہیں۔
(6)کسی بھی شئے کو نئے زاویے سے دیکھتے ہیں اور نئے افکار و نظریات کے اطلاق سے کچھ نہ کچھ تخلیقی کام انجام دینے کے لئے مضطرب رہتے ہیں۔
(7)تخلیقی صلاحیت کے حامل بچوں کی قوت متخیلہ بہترین ہوتی ہے وہ مختلف اور تخلیقی انداز میں غور و فکر کے عادی ہوتے ہیں۔بقول البرٹ آئن سٹائن ’’ مجھے کوئی مخصوص چیز نہیں حا صل ہے بلکہ مجھ میں حد درجہ کا تجسس پایا جاتا ہے۔‘‘تجسس ،تخیل اور تخلیقی افکار ہی وہ اثر پذیر عوامل ہوتے ہیں جس سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ماہرین نفسیات تخلیقی افکار و افعال کی اپج کے لئے چار مراحل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ان چار ذہنی عوامل پر توجہ کو مرکوز کرتے ہوئے فطری تخلیقی صلاحیتوں کو بچوں میں فروغ دیا جا نا ممکن ہے۔
(1)ذہن سازی یا ذہن کی تشکیل نو(Mental Reframing):۔دلچسپ خیالات کو ذہن میں بساکر افکار و مسائل کی تشکیل نو کے ذریعہ ان کو منظم اور سہل بنایا جاسکتا ہے۔
(2)ذہنی استراحت(Mental Relaxation):۔ذہن کو تما م افکار و تفکرات سے آزاد کرتے ہوئے سکون و آرام سے دلچسپ افکار و مسائل پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔اس طرز عمل سے بصیرت کے حصول کے علاوہ تخلیقی نظریات وجود میں آتے ہیں۔
(3)روشن خیالی (Mental illumination):۔ذہنی بصیرت کی وجہ سے ذہن میں در آنے والی تصویریں اور پس منظر میں بسے خیالات آخر کار شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ذہن میں اس طرح کے در آنے والے واقعات و تصویروں کو بھولنے سے قبل محفوظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(4)ذہنی انتخاب(Mental Selection) نادر ا ختراعی کازکی انجام دہی سے قبل تمام تخلیقی افکار و تخیلات کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ تخلیقی افکار،تخلیقی حقائق کی کسی بھی شکل میں تبدیلی کی سطح سے آگے ہوتے ہیں۔تخلیقی اذہان کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی تخلیقی نظریا ت پر عمل پیرا ہونے سے قبل تخلیقی نظریات و افکار کے انتخاب کو ترجیح دیں۔
تخلیقیت اور جد ت طرازی کے فروغ میں اساتذہ اور والدین کلیدی کردار انجا م دیتے ہیں۔اساتذہ اور والدین کو بچوں میں تخلیقیت کے فروغ کے لئے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم ایسے بچوں کو پسند کرتے ہیں جو فرمانبردار،دوسروں کا ادب کرنے والا،اپنا کام وقت پر انجام دینے والا ہوتا ہے اس کے برخلاف ہم ان بچوں کو پسند نہیں کرتے ہیں جو بہت زیادہ سوال کرتے ہیں ،سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں،اپنے عقائد اور نظریات پر ڈٹے رہتے ہیں ،کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے ہیں۔پہلے بچے کو ہم اچھا اور دوسرے کو بدتمیز یا نافرمان کہتے ہیں اس طرح کے رویے بچوں میں تخلیقی افکار کی تعمیر کے بجائے تخریب کا کام انجام دیتے ہیں۔تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے دریافت ہوچکے ہیں ۔بچوں کو گروپ کی صورت میں آئیڈیاز(نظریات) اور اشیاء پر غوروفکر کرنے ،کسی بھی فیصلے کے فوری اور دورس نتائج کا اندازہ قائم کرنے،کسی بھی چیز کی وجوہات اور مقاصد پر غور و فکر کرنے،کسی بھی کام کی منصوبہ بندی کرنے،کسی مسئلے کے ممکنہ پہلوؤں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے،متبادل راستہ تلاش کرنے ،فیصلے کرنے اور دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے سے تخلیقی فکر نمو پذیر ہوتی ہے۔اسکولس اور والدین ڈسپلن کے نام پر بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹے بلکہ ان کی حو صلہ افزائی کرتے ہوئے تخلیقی سوچ کو فروغ دیں۔تخلیقی سوچ کے ضمن میں خیال رہے کہ جدت فکر و نظر کے نام پر دین کے حدود نہ پھلانگیں۔دین میں اپنی تخلیقی افکار اور
جدت نظر کے اطلاق سے احتراز کریں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو جو دین ملا ہے اسے بالکل اسی طر ح بلاچوں و چراں قبول کر لیں۔اپنی تخلیقی صلاحیتوں کااستعمال فہم دین کے لئے نہ کریں ورنہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
مضمون تفصیلی اور مکمل معلومات پر مبنی ہے یہ اردو میں نفسیات اور تخلیقی کے میدان میں اچھا کام ہے
سلام مسنونہ و بعد ! کسی تحریر کی خوبی یہ سمجھی جاتی ہٸے کہ نفسیاتی اور غیر مرغوب موضوعات پر لکھا جاٸے اور لوگ اسے بھی دلچسپی سے پڑھیں