تعلیم کا بنیادی مقصد خودی کی تلاش اوربازیافت ہے۔ملک و قوم اور دنیا کا مستقبل نئی نسل کی تخلیقی و ذہنی نشوو نما کے رہین منت ہے۔طلبہ کے پوشیدہ جو ہر کو دریافت کرنا اور ان کو نکھار کر ملکی و قومی تعمیر کے لئے بامعنی بنانا ابتدائے آفرینش سے ہر استاد کا شیوہ و شعار رہا ہے۔ندرت ،تخلیقیت اور انفرادیت طلبہ کی شخصیت سازی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ماضی میں تخلیقیت اور اختراعی افعال یا افکار کو اعلی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ تحقیق اور معلومات کی بنا پرتخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت کو دو مختلف عوامل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ماضی قریب میں اعلی ذہانت (I.Q)کے حامل طلبہ کو فطری طور پر تخلیقیت سے بھر پور سمجھا جاتا تھاجس کو جدید تحقیق نے محض ایک خام خیالی قراردیا ہے۔اللہ نے تما م کائنات کو بنایا بلکہ بہت خوبصورت بنایا۔ ہم کوکائنات کی ہر شئے میں ایک ربط باہم نظر آتا ہے ۔کائنا ت کی ہر شئے سے ٖخالق کائنات کا نظم و ضبط(ڈسپلن)،خوبصورتی اورحسن انتظام ہویدا ہے جس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ڈسپلن ،خوبصورتی اور حسن انتظام کو پسند فرماتے ہیں۔ سورہ تین کے مطالعے سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا ہے۔تقویم کا یہ حسن صرف ظاہر ی ،جسمانی حسن و جمال ہی نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی غور و فکراورتدبیر و تدبرجیسی بے شمار صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔سورہ رحمن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ’’ہم نے انسان کو بیان کرنے کا علم دیا ‘‘اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ بیان و اظہار کے وہ تمام وسائل جس سے تعلیم و تربیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں انسان مثبت تبدیلیوں کا نقیب بن سکتا ہے۔ آج کا دور معیار، مہارت اور تخلیقیت کا دور ہے۔آج تعلیم و تربیت اور زندگی کے تما م شعبوں میں ایک نمایاں جدت اور ارتقاء کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں قوت تخیل اور تخلیقیت(Creativity) اپنے وقت کے اعلی معیار کو چھورہی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے انسانی عظمت کو چار چاند لگ چکے ہیں۔ ماہرین نفسیات نے تخلیق کو دراصل تقلید اور جمود کی مسماری اور ایک نئی دنیا کی تعمیر قرار دیا ہے۔کسی بھی تعمیر ی کاز کے لئے تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان میں یہ تعمیری جرات( جسے ہم تخلیقی فکر سے بھی عبارت کرتے ہیں) ،حوصلہ اور اعتماد،علم سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں بنایا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت نہ ہو۔تخلیقی قوت جب قوموں سے رخصت ہوتی ہے تو اس کی وجہ ان میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان اور عدم وجود نہیں ہوتا ہے بلکہ جدت اور تخلیقی فکر کا اپنی روایات اور ہٹ دھرمی کے باعث انکار و رد ہوتا ہے ۔ روایا ت اور جمود میں جکڑے تعلیمی نظام میں تخلیقی بات کہنے کا مطلب ہے ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا۔ جب یہ صورت حال وجود میں آتی ہے تب کسی بھی قوم کی عظمت پر زوال کے گہن لگنے لگتے ہیں۔بقول علامہ اقبال
آئین نو سے ڈر نا ،طرز کہن پہ اڑنا منز ل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تخلیقی فکر اگر موجود ہوتو ہر طرح کے حالات میں راستہ نکل سکتا ہے۔بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اس کو فروغ دینا ہر استاد کا فرض اولین ہوتا ہے۔اساتذہ کے لئے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ذہانت اور تخلیقیت میں ایک اٹوٹ وابستگی ضرور ہے لیکن یہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور علیحدہ ہیں۔ذہانت علم،مہارت اور معلومات کی شکل میں تخلیقیت کو نہ صرف وجود میں لاتی ہے بلکہ اس کی نشوونما میں کلید ی کردار انجام دیتی ہے۔مدارس ہی معاشرے کے وہ ادارے ہوتے ہیں جہاں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کی جاتی ہے اور تخلیقیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔بچوں میں تخلیقی فکر اور رجحان پیدا کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مدارس اوروالدین پر عائد ہوتی ہے۔اسکولی تعلیم کے اہم مقاصد میں ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتہ کا ادراک ،طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت و نشاندہی اور طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت انسان میں پائے جانے والی تمام صلاحیتوں میں نہایت اعلی و ارفع مقام رکھتی ہے۔کسی بھی شخص کے نظریات ،افعال و افکار اس کی تخلیقی صلاحیت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت اللہ تعالی کا عطاکر دہ ایک بیش بہا تحفہ ہے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔جدید طرز تعلیم میں تخلیقیت کو غایت درجہ کی اہمیت حاصل ہے۔آج کے دور میں انسانی ترقی و ارتقاء میں تخلیقی مزاج کو ایک موثر طریقہ تدریس کے طور پر اختیار کیا جارہاہے۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبہ کو متنفر کرنے والے سخت ،روایتی اور قدیم طرز تدریس سے نہ صرف اجتناب کریں بلکہ طلبہ میں تخلیقی فکر ،ندرت اور قوت تخیل کو پروان چڑھائیں۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں پیدا کیا ہے جس میں کوئی نہ کوئی تخلیقی صلاحیت موجود نہ ہو۔ہر آدمی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔اسکولس تخلیقی صلاحیتوں کو وجود بخشنے اور پروان چڑھانے والے مراکز کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اسی لئے مدارس پر بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور فروغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کسی بھی طالب علم میں تخلیقی فکر پیدا کرنے میں تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
(1) اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تخلیقی طریقہ تدریس پر عمل پیر ا ہوکر طلباء میں تخلیقی کیفیت کو بیدار کریں۔
(2)طلباء کی تخلیقی کیفیت پر موثر ردعمل کے ذریعہ تخلیقی فکر کی پرورش اور نشوو نما۔
(3)تخلیقی فکر و صلاحیتوں کو فروغ دینے والے ماحول کی فراہمی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ’’ہر بچہ اپنے ذہن میں ایک تخلیقی دنیا آباد رکھتا ہے۔‘‘قوت تخیل ہی طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔اسی لئے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے ان کو ان کی خیالی دنیا میں آباد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں کے خیالی پلاؤ ہی دراصل ان کی اصل کیفیات کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔عظیم فنکاروں،موجدوں،اور مصنفوں نے تعلیم میں ہمیشہ جدت اور قوت تخیل کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے دنیا میں جتنے بھی تخلیقی کام کئے گئے ہیں ان میں پرانے تصورات اور اشیاء کو نئے اندازی میں دیکھا گیا ہے۔نیوٹن نے جب سیب کو گرتے دیکھا تو یہ نیوٹن اور دیگر افراد کے لئے کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں تھی ۔لیکن نیوٹن نے اس سیب کے گرنے کے عمل کو ایک خاص جدید انداز میں دیکھا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں گر رہا ہے اوپر کیوں نہیں جا رہا ہے۔نیوٹن کی اس جدت فکر کا نتیجہ کشش ثقل (Gravity)ہے جس سے دنیا نا واقف تھی۔ اسکولس میں بچوں کی قوت متخیلہ کو مہمیز کرنے والے طریقہ ہائے تدریس کی اشد ضرورت ہے جس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملے۔ماہرین نفسیات نے بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو تخلیقی فکر کے وجود کا سبب قرار دیا ہے۔ہم غلطیاں کرنے اور ان کے اقرار سے گھبراتے ہیں جب کہ غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ کا وجود میں آناتقریبا نا ممکن ہے۔ہمارا تعلیمی ماحول تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کر تا ہے اگر بچہ جب استاد کے کسی سوال کے جواب میں استاد کے متوقع خیال کے برخلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تب استاد بچہ کی ہمت افزائی کے بجائے اس کے خیالات کو یکسر رد کرتے ہوئے بچوں میں تخلیقی فکر کے فروغ پر پابندیاں عائد کردیتا ہے۔اساتذہ اکثر اوقات بچوں کی نئی سوچ کو رد کردیتے ہیں اور ان کا طریقہ تدریس و تعلیم ہمیشہ محدود طریقہ کار کے اردگرد گردش کرتا رہتا ہے۔
اکثر اساتذہ تخلیق سے زیادہ تربیتی کاوشوں پر وقت صرف کرتے ہیں۔علم نفسیات کے مطابق بچوں کے لئے سب سے بد ترین چیز بچوں کو مباح کاموں میں روکنا ٹوکناتخلیقی فکر کی نشو ونما میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔درخت کی مناسب نشوونما کے لئے اس کی شاخوں کو تراشنا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ سیدھا اور بلند ہوجائے ۔ اسی طرح بچوں تک کونسی معلومات پہنچائی جائے اور کونسی نہیں یہ بہت ہی ضروری ہے ۔علمی انفجار کے اس دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔آج مختلف ذرائع سے معلومات کا ایک سیلاب امڈاچلا آرہاہے۔اساتذہ اور والدین کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بچوں کو کونسی معلومات فراہم کریں اور کس سے باز رکھیں جو ان کے حصول علم میں معاون ہو ،قوت تخیل کو بال و پر اور تخلیقی صلاحیتوں کو پرواز عطاکرے۔مروجہ اور روایتی افکار سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں مجروح ہوجاتی ہیں اور وہ روشن لکیر پر چلنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔بچوں میں آزادانہ غور و فکر کی اگر عادت پیدا ہوجائے تو وہ محیر العقل کارنامے انجام دیتے ہیں۔روایتی سوچ کی تباہ کاریوں کے ضمن میں ایلس ہووے سلائی مشین کے موجد کا واقعہ چشم کشا ثابت ہوسکتا ہے۔ایلس ہووے (Elis Howe)نے 1845میں سلائی مشین بنائی۔اس مشین میں میں سوئی میں روایتی طریقے کے مطابق چھید اوپر کی جانب تھا جس کی وجہ سے مشین کی کارکردگی متاثر ہوگئی۔جس کی وجہ سے ایلس ہوے اپنی مشین سے صرف جوتے ہی سی سکتا تھا۔ایک عرصے تک ایلس ہوے اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہا ایک رات اس نے خوا ب دیکھا کہ اس کو وحشی قبیلے کے آدمیوں نے پکڑلیا ہے ۔انھوں نے اسے ٖحکم دیا کہ اگر وہ چوبیس گھنٹے میں سلائی مشین تیار نہ کر سکا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔مقرر ہ چوبیس گھنٹے میں وہ سلائی مشین بنانے میں ناکام رہ ۔قبیلے کے لوگ اس کو مارنے کے لئے ہاتھوں میں برچھے تھامے دوڑنے لگے۔ہووے نے دیکھا کہ ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ بنا ہواہے۔یہ دیکھتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی ۔اس کو سلائی مشین بنانے کا سراغ مل چکا تھا۔اس نے بر چھے کی طر ح سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بناکر اس میں دھاگا ڈالا۔پہلے چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی اب وہی مشین نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی تھی۔ابتدا میں ایلس ہووے کی ناکامی روایتی فکر کی وجہ سے ہوئی تھی وہ یہی سوچ رہاتھاکہ ہاتھ کی سوئی کا چھید اوپر کی جانب ہوتا ہے اور جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے وہی صحیح ہوگی۔ جب اس کے لاشعور نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا اس وقت وہ معاملے کی تہہ تک پہنچا اور مسئلہ کو فورا حل کر لیا۔جب انسان اپنے آپ کو کسی کام میں ہمہ تن مشغول کردیتا ہے تب وہ قدرت کے سربستہ رازوں کو حل کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں پاتا ہے جیسیایلس ہووے نے سلائی مشین کی ایجاد انجام دی۔
فکر کی جدت،ندرت خیال اور تخلیقی سوچ کے فروغ میں البرٹ آئن سٹائن کا قول بہت زیادہ اہمت کا حامل ہے’’ْذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شد ید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘اساتذہ اگر اپنے آپ کو اوسط درجے سے اونچا دیکھنا چاہتے ہیں تب ضروری ہے کہ وہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احترام کرنا سیکھیں۔ماہرین نفسیات میں تخلیقی صلاحیت و افکار کے خداداد اور پیدائشی ہونے پراختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کا ماننا ہے کہ تخلیقی فکر پیدائشی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کے مطابق’’تخلیق کے بارے میں اکثر سمجھا جا تا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پر اسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیبوں کو نصیب ہوتی ہے۔لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘‘ایلس ٹیسن کی تحقیق نے والدین،اساتذہ اور اسکولوں کی ذمہ داری میں اضافہ کر دیا ہے۔بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے جب تما م راستے کھلے ہیں تواساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہوجائے۔بعض ماہرین نفسیات کے مطابق تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے ۔ماحول اس کو صرف نکھار تا یا بگاڑتا ہے۔اگر اس بات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی ان صلاحیتوں کو جلانے اور نکھارنے کے طریقے اور تدابیر اختیار کرنا اساتذہ کے لئے ضروری ہے۔اب اساتذہ کے لئے مفرر کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔تخلیقی اظہار اور طریقہ کار کو جب نظر اندازیا ہدف ملامت بنایا جاتا ہے تب بچوں میں پائی جانے والی تخلیقی صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اوسط تعلیمی ذہانت لیکن بہتر تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پراپنی توجہ و انہماک کو مرکوز کریں۔تعریف و توصیف اور رہبری و رہنمائی کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔
ذہانت کے اقسام :۔ماہر علم نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) ذہانت کی تعریف کر تے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ذہانت ما حول سے مطابقت پیدا کر نے کے عمل کا نام ہے اور فر د کا ذہنی ارتقاء اس کے ما حول سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کر نے پر منحصر ہو تا ہے۔ نک وچلر (Wechler)کے مطابق ذہا نت ،کسی بھی کا م کو بامقصد طر یقے سے انجام دینے کی مجموعی لیاقت جیسے گہری فراست و بصیرت ،سنجیدہ فکر کے ذریعے ما حول سے موثر طر یقے سے نبرد آزما ہو نے کا نا م ہے۔دیگر ماہرین نفسیات کے مطابق ذہانت سے مرادقوت فکر و استدلال ،مسائل کے حل اور تصوراتی تشکیل کانام ہے۔ذہانتی ترقی و ارتقاء دماغ کی جنیاتی ہیت اور ماحول کی فراہمی پر منحصر ہوتی ہے۔سماجی تقاضوں اور زمانے کی مسابقت سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں بچے کی ذہانت کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔انسان کے دیگر اعضا ء کی نشوونما کی طرح ذہانت بھی عمر کے ساتھ ترقی پذیر رہتی ہے۔اگر طلبہ کی ذہانت کو مہمیز کرنے والے حالات اور ماحول فراہم کیا جائے تو یہ مزید ترقی کر جاتی ہے۔محتاط تجزیات سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ وہ بچے جو ذہین نہیں تھے لیکن وہ تخلیقی صلاحیت کے حامل پائے گئے ۔
ماہرین نفسیات کے مطابق سات قسم کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔
(1)استدلالی(ریاضیاتیLogical )ذہانت۔ ،اعداد و ہندسوں اورریاضی کے عناصر کی شناخت،تقسیم و تفریق اور استدلال کی صلاحیت ۔
(2)لسانی(Liguistic-Verbal)لسانی ذہانت سے مراد لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ،لفظیات کے برتاؤ کا علم و ردعمل،اور اظہار خیال کی صلاحیت ہے۔
(3)موسیقی ،نغمگی(Musical-Rhythmic)ذہانت:۔ صوتیاتی پہچان و ردعمل،سر تال کی تمیز ،تعریف و توصیف کو موسیقی یا نغمگی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(4)بصری(Visual-Spatial بصری شکلوں اور تصویروں کی شناخت و پہچان کو بصری ذہانت کہا جاتا ہے۔
(5)جسمانی(Bodily-kinesthetic)ذہانت، حالات کے مطابق جسمانی حرکات و سکنات پر قابو پانا اور حرکی ارتباط میں بہتری پیدا کرنے کو جسمانی ذہانت کہا جاتا ہے۔
(6) شخصی ذہانت(Intra Personal Intelligence)شخصی ذہانت کے بل پر فرد اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔اسی ذہانت کے زیر اثر آدمی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر تا ہے اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائحہ عمل بھی تر تیب دے کر اس پر عمل پیرا ہوتاہے۔
(7) بین شخصی ذہانت (Inter Personal Intelligence) بین شخصی ذہانت کے ذریعے دوسرے افراد کی پسند اور نا پسند کا اندازہ قائم کرتے ہوئے ان سے اپنے تعلقات کو مضبوطی استحکام فراہم کر تا ہے۔
ذہانت اور تخلیقیت کے درمیان رشتہ:۔والک اور کوگان(Wallach and Kogan) کی تحقیق نے طلبہ کو چار گروپس میں تقسیم کیا جس سے ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
(1)اعلیٰ تخلیقیت۔:اعلیٰ ذہانت ۔ان بچوں میں اعلیٰ قسم کی ذہانت اور اعلیٰ قسم کی تخلیقیت پائی جاتی ہے۔ان میں اعلی تخلیقیت کا وجود بہترین ذہانت کی وجہ سے پایاجاتا ہے۔جب یہ بچے اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقی کام انجام دیتے ہیں تب ان سے اعلیٰ تخلیقی کام وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
(2)اعلیٰ تخلیقیت ۔کم ذہانت:۔یہ بچے اکثر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ان کی تما م تخلیقی افکار پر تحدید یں عائد کر دی جاتی ہیں اور اکثر ان پر پھسڈی(Dull)ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔جب ان کی تخلیقی افکار و افعال کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے تب وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ذہنی خلفشارکے باعث غصہ کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔اگر ان کو ایک ایسا استاد جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہو اور تعریف و توصیف کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تب ان سے بہتر مظاہر سرزد ہونے لگتے ہیں۔
(3)کم تخلیقیت ،اعلیٰ ذہانت:۔یہ بچے صرف اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہتر مظاہرہ کرپاتے ہیں۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغولیت کی بنا پر وہ تخیلی اور تخلیقی فکر کے لئے وقت نہیں نکال پاتے ہیں۔یہ صرف تعلیمی سرگرمیوں میں جٹے رہتے ہیں۔ تعلیمی ناکامی ان کے لئے سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ صرف کرنے کی وجہ سے ان سے کوئی تخلیقی اور اخٰتراعی عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا ہے۔
(4)کم تخلیقیت۔کم ذہانت:۔ایسے بچوں پر اساتذہ کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ذہانت کی کمی کے باعث یہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ اکثرپریشان رہتے ہیں اور اکثر دفاعی انداز اپناتے ہیں ۔اساتذہ کی مسلسل تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت:۔ہر بچے میں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجو د ہوتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو تلاش کر تے ہوئے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت اور نشاندہی ان میں تخلیقی صلاحیتو ں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انھیں دوسروں سے نمایا ں اور ممتاز کرتی ہیں۔
(1)ان میں اعلیٰ معیار کی دلچسپی اور تندہی پائی جاتی ہے وہ جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں اس کو تندہی سے انجام دیتے ہیں۔
(2)پسندید ہ کاموں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف انجام دیتے ہیں بلکہ معروف نتائج کو اپنی جدید تحقیق کے ذریعہ تبدیل کرتے ہیں۔
(3)تخلیقی مسائل کے حل میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور مسائل کا اختراعی وتخلیقی حل ڈھونڈ نکا لتے ہیں۔
(4)اپنے اصل خیالات و افکار کے اظہار سے نہیں ہچکچاتے ہیں اور اپنے نظریات ،افکار و خیالات کو تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
(5)تخلیقی صلاحیتو ں کے حامل طلبہ دوسروں کے تخلیقی کام میں دلچسپی کا اظہار کرنے کے علاو ہ اس سے جذبہ و تحریک حاصل کرتے ہیں ۔ یہ طلبہ کسی بھی تخلیقی کام کی تعریف و توصیف میں پیچھے نہیں رہتے ہیں۔
(6)کسی بھی شئے کو نئے زاویے سے دیکھتے ہیں اور نئے افکار و نظریات کے اطلاق سے کچھ نہ کچھ تخلیقی کام انجام دینے کے لئے مضطرب رہتے ہیں۔
(7)تخلیقی صلاحیت کے حامل بچوں کی قوت متخیلہ بہترین ہوتی ہے وہ مختلف اور تخلیقی انداز میں غور و فکر کے عادی ہوتے ہیں۔بقول البرٹ آئن سٹائن ’’ مجھے کوئی مخصوص چیز نہیں حا صل ہے بلکہ مجھ میں حد درجہ کا تجسس پایا جاتا ہے۔‘‘تجسس ،تخیل اور تخلیقی افکار ہی وہ اثر پذیر عوامل ہوتے ہیں جس سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ماہرین نفسیات تخلیقی افکار و افعال کی اپج کے لئے چار مراحل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ان چار ذہنی عوامل پر توجہ کو مرکوز کرتے ہوئے فطری تخلیقی صلاحیتوں کو بچوں میں فروغ دیا جا نا ممکن ہے۔
(1)ذہن سازی یا ذہن کی تشکیل نو(Mental Reframing):۔دلچسپ خیالات کو ذہن میں بساکر افکار و مسائل کی تشکیل نو کے ذریعہ ان کو منظم اور سہل بنایا جاسکتا ہے۔
(2)ذہنی استراحت(Mental Relaxation):۔ذہن کو تما م افکار و تفکرات سے آزاد کرتے ہوئے سکون و آرام سے دلچسپ افکار و مسائل پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔اس طرز عمل سے بصیرت کے حصول کے علاوہ تخلیقی نظریات وجود میں آتے ہیں۔
(3)روشن خیالی (Mental illumination):۔ذہنی بصیرت کی وجہ سے ذہن میں در آنے والی تصویریں اور پس منظر میں بسے خیالات آخر کار شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ذہن میں اس طرح کے در آنے والے واقعات و تصویروں کو بھولنے سے قبل محفوظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(4)ذہنی انتخاب(Mental Selection) نادر ا ختراعی کازکی انجام دہی سے قبل تمام تخلیقی افکار و تخیلات کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ تخلیقی افکار،تخلیقی حقائق کی کسی بھی شکل میں تبدیلی کی سطح سے آگے ہوتے ہیں۔تخلیقی اذہان کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی تخلیقی نظریا ت پر عمل پیرا ہونے سے قبل تخلیقی نظریات و افکار کے انتخاب کو ترجیح دیں۔
تخلیقیت اور جد ت طرازی کے فروغ میں اساتذہ اور والدین کلیدی کردار انجا م دیتے ہیں۔اساتذہ اور والدین کو بچوں میں تخلیقیت کے فروغ کے لئے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم ایسے بچوں کو پسند کرتے ہیں جو فرمانبردار،دوسروں کا ادب کرنے والا،اپنا کام وقت پر انجام دینے والا ہوتا ہے اس کے برخلاف ہم ان بچوں کو پسند نہیں کرتے ہیں جو بہت زیادہ سوال کرتے ہیں ،سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں،اپنے عقائد اور نظریات پر ڈٹے رہتے ہیں ،کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے ہیں۔پہلے بچے کو ہم اچھا اور دوسرے کو بدتمیز یا نافرمان کہتے ہیں اس طرح کے رویے بچوں میں تخلیقی افکار کی تعمیر کے بجائے تخریب کا کام انجام دیتے ہیں۔تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے دریافت ہوچکے ہیں ۔بچوں کو گروپ کی صورت میں آئیڈیاز(نظریات) اور اشیاء پر غوروفکر کرنے ،کسی بھی فیصلے کے فوری اور دورس نتائج کا اندازہ قائم کرنے،کسی بھی چیز کی وجوہات اور مقاصد پر غور و فکر کرنے،کسی بھی کام کی منصوبہ بندی کرنے،کسی مسئلے کے ممکنہ پہلوؤں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے،متبادل راستہ تلاش کرنے ،فیصلے کرنے اور دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے سے تخلیقی فکر نمو پذیر ہوتی ہے۔اسکولس اور والدین ڈسپلن کے نام پر بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹے بلکہ ان کی حو صلہ افزائی کرتے ہوئے تخلیقی سوچ کو فروغ دیں۔تخلیقی سوچ کے ضمن میں خیال رہے کہ جدت فکر و نظر کے نام پر دین کے حدود نہ پھلانگیں۔دین میں اپنی تخلیقی افکار اور
جدت نظر کے اطلاق سے احتراز کریں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو جو دین ملا ہے اسے بالکل اسی طر ح بلاچوں و چراں قبول کر لیں۔اپنی تخلیقی صلاحیتوں کااستعمال فہم دین کے لئے نہ کریں ورنہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
مضمون تفصیلی اور مکمل معلومات پر مبنی ہے یہ اردو میں نفسیات اور تخلیقی کے میدان میں اچھا کام ہے
سلام مسنونہ و بعد ! کسی تحریر کی خوبی یہ سمجھی جاتی ہٸے کہ نفسیاتی اور غیر مرغوب موضوعات پر لکھا جاٸے اور لوگ اسے بھی دلچسپی سے پڑھیں