میں حوا کی بیٹی، جانتے ہو ایک وقت تھا جب میں زندہ درگور کر دی جا تی تھی،میری
پیدائش پر مائوں کے سر شرم سے جھک جایا کرتے تھے،کوئی بیٹی کا باپ کہلوانا پسند
نہ کرتا تھا،معاشرے میں کوئی مقام عزت میرے نصیب میں نہ تھا،حق وراثت سے محروم بے وقعت چیز تصور کی جاتی تھی۔۔۔
پھر “اسلام ” کے اجالے سے قلب و ذہن منور ہوئے،جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو
دین مبین کی روشنی نے مٹا دیا اور اس روشنی سے میرا نصیب بھی جگمگا اٹھا،بطورماں وسیلہ جنت،بطور بیٹی رحمت،بطور بہن عزت و وقار،بطور بیوی گھر کی ملکہ کامقام ملا۔وراثت کی حقدار ٹھہری،چادر اور چہار دیواری کا تحفظ نصیب ہوا۔
میں خدیجہ،عائشہ،فاطمہ،زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے کردار میں ڈھلی اور باعث تقلید ٹھہری ۔
غرض اسلام نے مجھے وہ سربلندی و عزت عطا کی جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔۔۔۔میں ایک عرصے تک ایسی ہی ٹھاٹھ کی زندگی بسر کرتی رہی میری کوکھ سے عمر بن عبدالعذیز،محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی جیسے سپوت پیداہوئے جنہوں نے میرا
وقار و مرتبہ اور بلند کر دیا۔۔۔۔
پھر زمانے کے تیور بدلے مال و دولت و زیب و زینت کے فریب کا شکار ہوئی،برابری و
آزادی کے طلسماتی نعروں سے مرعوب چادر و چہار دیواری کے مقدس حصار سے باہر
نکلی عزت وقار رحمت وبرکت سے نہ صرف خود محروم ہوئی اپنی نسلوں کو بھی محروم
کر دیا آزادی و خود نمائی کی دوڑ نے میرے نازک وجود کو کملا کر رکھ دیا۔۔۔۔
ترقی نسواں اور آزادئ نسواں کے جھوٹے دعویداروں نے ناصرف میری کوکھ بانجھ کی
بلکہ مجھے چوک و چو راہوں کی زینت بنا کر اپنے مقام و مرتبے سے گرا کر بکائومال میں تبدیل کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
آج اکیسویں صدی کی دیلیز پر کھڑا سماج کے تھپیڑوں سے لڑتا میرا نازک وجود اپنی
بقا کی جنگ لڑ رہا ہے مجھے اپنی اصل(اسلام) کی طرف لوٹنا ہوگا مجھے پھر سے
خدیجہ،عائشہ،فاطمہ اور زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے کرداروں میں ڈھلنا ہوگا،وہی میری اصل جائے پناہ وجائے قرار ہے۔۔۔۔۔
ہر عورت کے لئے بہت واضح پیغام۔۔۔