اس میں قصور کس کا؟

خواتین ڈے بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ بہت دنوں بعد تفریح کا موقع میسر آیا۔ پاکستان کے ماحول میں یا تو گھٹن جیسا ماحول بنا ہوا تھا یا پھر سرحدی کشیدگی کی وجہ سے فضاؤں میں خوف نے گھر کر لیا تھا کہ اچانک نہایت خاموشی کے ساتھ “خواتین ڈے” منانے کا اہتمام ہوا جس نے پاکستان کے مردوں کو گھٹن اور خوف کے ماحول سے باہر نکال کر تفریح کا موقع فراہم کیا جس کیلئے مردوں کو چاہیے کہ وہ سڑکوں پر آکر، پلے کارڈوں پر لکھے جملوں، دل کی گہرائی سے نکلے جملوں اور اداؤ ناز کے مظاہروں کے مفت مناظر پیش کرنے والی خواتین کا شکریہ ادا کریں اس لئے کہ ان ساری باتوں کو سننے، پڑھنے اور دیکھنے کیلئے کسی زمانے میں جیب سے رقم خرچ کرنی پڑتی تھی۔ کسی زمانے میں جو خواہش جیب سے رقم خرچ کرکے پوری کی جاتی رہی ہو اگر وہ مفت میں بانٹی جا رہی ہو اور جس کی عکس بندی پر بھی کوئی پابندی نہ ہو تو پھر ہمارے معاشرے کے کروڑوں مردوں کو کیا اور بھی کچھ چاہیے؟۔

اعتراض اٹھایا جارہا ہے کہ خواتین ڈے منانے کے مظاہروں میں خواتین نے تہذیب و تمدن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور فحاشی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ مغربی دنیا بھی شرما کر رہ گئی۔ اب ایسا بھی کیا مظاہرہ ہو گیا۔ یہ سب تو آنے والی فلم کی ایک ادنیٰ سی جھلک پیش کی گئی ہے تو قوم میں اتنا غصہ پیدا ہو گیا ہے۔ ویسے راز کی بات بتاؤں، جو مرد ان سارے مظاہروں پر خفگی کا اظہار کررہے ہیں یہ سب اوپر اوپر کی باتیں ہیں ورنہ میں نے جو کچھ چھپ چھپ کر دیکھا ہے وہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔

مجھے ضیا الحق کے زمانے کی وہ بات اچھی طرح یاد ہے جب اس نے سارے طوائف خانوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور جو بھی ان گلیوں میں پایا یا دیکھا جاتا تو اس کو بحکم سرکار نہ صرف گرفتارکرلیا جاتا بلکہ اس کو قانونی اور غیر قانونی، دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑجاتا تھا۔ قانونی سزا تو وہ جس کا تقرر حکومت وقت کر چکی تھی اور غیرقانونی سزا وہ جس کو ہماری عام زبان میں “چائے پانی” کہا جاتا ہے۔ یہاں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ قانونی سزا کی تو ہر صورت میں ایک “حد” ہوتی ہے لیکن چائے پانی کی مد کی کوئی حد نہیں ہوتی کیونکہ اس کا مقرر کیا جانا بندے کی حیثیت، شہرت اور دولت پر ہوتا ہے۔ کچھ ہی ایام گزرے تھے کہ اڈے والیوں پر فاقوں کی نوبت آگئی چنانچہ وہ ساری اکھٹی ہوئیں اور ضیا الحق کی لگائی گئی اس پابندی پر سراپا احتجاج بن کر ایک بہت بڑا جلوس نکالا جس میں یہ مطالبہ نہیں تھا کہ ان کے اڈے بحال کر دیئے جائیں یا ان کو اپنے آپ کی قیمت وصول کرنے کی اجازت دے دی جائے بلکہ اٹھائے گئے اقدام اور لگائی گئی پابندی کو سراہتے ہوئے ایک نہایت پاکیزہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ “جناب جنرل صاحب آپ فقط اتنا کریں کہ کہ ہمارا بند و بست کر دیں، کوئی ٹھکانا بنادیں۔ پھر اسی تسلسل میں نہایت عاجزی کے ساتھ گزارش کی گئی تھی کہ کم از کم آپ اتنا تو کریں کہ جو “شرفا” ہمارے کوٹھوں پرتشریف لاتے ہیں ان ہی کے ساتھ ہماری شادی کرادی جائے”۔

ذرا سوچیں کہ وہ تمام افراد تو معززان شہر اور شرفا کہلائیں جو ایسی گلیوں اور چوباروں کے چکر لگائیں لیکن ان گلیوں، چوباروں، کوٹھوں اور ان کے مکینوں کو گٹروں کے کیڑوں کے برابر بھی نہ سمجھا جائے۔ ہوا یہ کہ نہ ان کے ٹھکانے بنائے گئے اور نہ ہی وہ آج تک ان “شرفا” کے ساتھ نتھی کی گئیں جو ان کے پاس اپنا منھ کالا کرانے آتے تھے۔

اب یہ سڑکوں پر آکر مظاہرہ کرنے والیاں کون ہیں؟، سب کو پکڑا جائے اور سب کا “ڈی این اے” کرایا جائے، یہ سب ضیاالحق کے ان ہی گلیوں اور چوباروں کی پیداوار ثابت ہونگی۔ ممکن ہے میری یہ بات کچھ زیادہ سخت بھی ہو اور ان گلیوں اور چوباروں والیوں کو سخت گراں گزرے لیکن جس بے غیرتی، بے شرمی اور گھٹیا پن کا مظاہرہ ان خواتین کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہروں کی شاہراہوں پر کیا گیا ہے، اس کمینگی کی توقع حلال زادیوں سے کسی طور کی ہی نہیں جاسکتی۔ یہ سارے نعرے، جملے، حرکتیں اور ادائیں اس بات کی گواہی پیش کر رہی ہیں کہ ان سب کی نال انھیں محلوں میں گڑی ہوئی ہے جہاں سوائے گندگی کے اور کچھ پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔

جس مظاہرے میں زنا کو ابھارا جارہا ہو، تنہا خاتون کو ہر حد سے گزرجانے کی تعلیم دی جارہی ہو، طلاق کو خوش آئند کہا جارہا ہو، ٹانگیں چیر کر بیٹھنا تہذیب سمجھا جارہا ہو اور کہا جارہا ہو کہ خواتین کو اس وقت تک ظلم و جور سے نہیں بچایا جاسکتا جب تک وہ نکاح سے آزاد نہ ہوجائیں تو کوئی بھی مجھے سمجھائے کہ پھر ان کو حلال زادیاں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟۔

سچ پوچھیں تو ان تمام تر مغلظات سے پر مظاہرہ کرنے والیوں سے مجھے دلی ہمدردی ہے اس لئے کہ ان کی پیدائش میں ان کا ذرہ برابر بھی کوئی قصور نہیں۔ قصور تو سارا کا سارا ان مردوں کا ہے جنھوں نے یا تو اپنی گھروالیوں کی نگرانی نہیں کی یا پھر وہ خود ہر جگہ اتنی لا پرواہی سے منھ مارتے رہے کہ ان کی ماراماری ان کی اولادوں سے بھی پوشیدہ نہ رہ سکی۔ آج کل کسی بھی بہت “شریف” کی قمیض اٹھا کر دیکھ لو، اس کے پیٹ سے ساری خباثتیں جھانک رہی ہونگی۔ وہ کونسی سے غلیظ محفل ہے جس میں اس کی شرکت نہ ہوتی ہو۔ وہ کونسا بازار ہے جہاں سے اس کا گزر نہ ہوتا ہو۔ وہ کون سا میخانہ ہے جہاں وہ شرابیں نہ لنڈھاتا ہو اور وہ کونسی فحاشی ہے جس کا وہ مرتکب نہ ہوا ہو۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر مجھے کوئی یہ بتائے کہ جن شہروں اور شاہراہوں پر فحاشی اور بد تہذیبی کے یہ مظاہرے ہوئے کیا وہاں کوئی بھی “مرد” موجود نہیں تھا؟۔ یہ سب پردے والی جگہیں تھیں؟۔ وہاں “نر” نام کی کوئی شے تھی ہی نہیں؟۔ وہاں ہیجڑوں کی آبادیاں تھیں؟۔ وہاں مسجدیں بھی نہیں تھیں؟۔ آذانوں کی صدائیں بھی نہیں گونجتی تھیں؟۔ نمازی نہیں پائے جاتے تھے؟۔ شریف زادیاں نہیں بستی تھیں؟۔ کیا سارے پہرے دار زنخے تھے؟۔ کیا ان سب کا تعلق اسرائیلی سپاہیوں سے تھا؟۔ کیا یہ بے غیرتی یورپ میں ہو رہی تھی؟۔ کیا یہ سارے گل امریکا میں کھلائے جارہے تھے؟۔ اگر ایسا نہیں ہے بلکہ سڑکیں اور گلیاں مردوں سے بھری ہوئی تھیں، مسجدیں آباد تھیں، نمازی اپنی نمازوں میں لمبے لمبے سجدے کرتے دیکھے جاسکتے تھے، سب کا دعویٰ معزز کہلائے جانے کا تھا، شرفا سے بازار بھرے ہوئے تھے اور حلال زادے بھی موجود تھے تو چند مٹھی بھر، سرپھری، زمانے کی ہوا لگی اور چوباروں سے اتری ان خواتین کو اتنی جرات کیسے ہوئی کہ وہ پاکستان کے ماحول کو پرا گندہ کر کے رکھ دیں اور ہر وہ بات کر گزریں جس کی ہمت ان مردوزن کو بھی نہیں ہو سکتی جو واقعتاً وہیں کی کیڑے ہوتے ہیں جہاں سب اپنا اپنا گند بہانے جاتے ہیں۔

مظاہرہ پاکیزگی کا ہو یا بیہودگی کا، دونوں میں سے کوئی بنا ذہن بنائے نہیں کیا جاسکتا۔ کسی مسجد میں مے نوشی یا شراب خانے میں اللہ کی احکامات کی باتیں سنائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی کوئی سننے کیلئے آمادہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کراچی کے ایک سینما کو اس وقت جلتے دیکھا جب اچانک اس میں “ٹوٹے” چلائے گئے۔ دس سال بعد اسی سینما کو ایک مرتبہ پھر جلتے دیکھا کیونکہ اس میں حسب وعدہ “ٹوٹے” نہیں چلائے گئے۔ جب تک ذہن سازی نہ کی جائے اس وقت تک نہ برائی کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نیکی پھیلائی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ پاکستان کے شہروں کی شاہراہوں پر جو کچھ مظاہرہ ہوا اس کیلئے اذہان تیار کرلئے گئے تھے۔ لوگوں کو سننے اور دیکھنے کا عادی بنادیا گیا تھا۔ اب سانپ گزار کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ لوگ لکیر پیٹ رہے ہیں یا اپنا سر۔

میں اسے نئے پاکستان کی نئی سمت کے ایک نئے سفر کا آغاز دیکھ رہا ہوں اور منتظر ہوں کہ آنے والے برس میں بے لباس جسموں کی نمائش پر بھی میری طرح کئی لوگ ہونگے جو صرف بڑے بڑے کالم تو ضرور لکھ رہے ہونگے لیکن عمل کے میدان میں ایک پتھر تک پھینکنے کیلئے تیار نہیں ہونگے۔

مجھے احساس ہے کہ میں رحمن کیانی کی نظم کا جو بند پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں وہ شاید برمحل نہ ہو لیکن کبھی کبھی بے محل بات میں بھی ایک بڑی کہانی پوشیدہ ہوتی ہے اس لئے امید ہے کہ پڑھنے والے اس بے محلیت کو گوارہ کر ہی لیں گے۔ فرماتے ہیں

پڑھتے نہیں ہیں بھول کر اللہ کی کتاب

ہوتے نہیں ہیں چشمہ زم زم سے فیضیاب

مغرب کے میکدوں کی چڑھائے ہوئے شراب

اس درجہ ہو چکے ہیں مسلمان اب خراب

سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتول کی

اور تالیاں بجاتی ہے امت رسول کی

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

3 تبصرے

  1. Hey I know this is off topic but I was wondering if you knew of any widgets I could add to my blog that automatically tweet
    my newest twitter updates. I’ve been looking for a plug-in like this for quite some time and was hoping maybe you
    would have some experience with something like this.
    Please let me know if you run into anything. I truly enjoy reading your blog and I look forward to your new
    updates.

جواب چھوڑ دیں