بلوچستان کے مسائل بھی ہماری بے حسی کا اسی طرح شکار رہے جس طرح کہ دوسرے مسائل ہماری بے حسی کا شکار ہیں۔ہمارے حکمرانوں کی بد عملی اور بلوچستان کے ہمسایوں کی سازش نے اسے سکون میسر نہیں ہونے دیا۔بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایک خطہ ہے جسے ہر دور حکومت میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ایک عالمی ادارے کے سروے کے مطابق بلوچستان دنیا کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ ہے۔جیسے بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ویسے ہی مسائل کی بہتات میں لپٹا سب سے بڑا صوبہ بھی یہی ہے۔بلوچستان کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔وہاں امن و امان کی صورت حال خراب ہے،انفراسٹرکچر کا کوئی نظام نہیں،عوام غربت کی زندگی جی رہی ہے،تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں،دہشت گردی کے آئے روز واقعات معمول بنے ہوئے ہیں،پانی کی کمی ہے،ڈیم نہ ہونے کے برابر ہیں،بارش ہوجائے تو سیلاب کے ریلے امڈ آتے ہیں اور کئی لوگوں کی زندگی بہا کر لے جاتے ہیں۔حیرانگی کا یہ عالم ہے کہ آبادی کے اعتبار سے قلیل اور رقبے کے اعتبار سے طویل صوبے کے لیے ہر حکومت دانشمنددانہ فیصلے کرنے کے بجائے اسے صرف اپنے اعلانات و منشورات تک محدود رکھتی ہے۔
بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرتے کرتے ہماری نسلیں ختم ہورہی ہیں۔بحیثیت قوم ہم نے آج تک ان مسائل کا حل تلاش نہیں کیا اور نہ ہم کرسکتے ہیں۔ہم کیوں حل نہیں کرسکتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی مسئلہ جنم لے تو اس کا اپنے اختتام تک رسائی حاصل کرنا تو درکنار، اپنے حل کے لیے سفر کرنا یا کسی حل کے دروازے تک پہنچنا ہی تقریبا نا ممکن ہوتا ہے۔اس میں کچھ اپنے محرکات کا دخل ہوتا ہے اور کچھ بیرونی محرکات کا،نتیجہ صرف ایک ہوتا ہے کہ مسئلہ حل نہ ہو اور اسی طرح دن گزرتے رہیں۔اگر بلوچستان میں ترقیاتی سکیموں کا آغاز ہوتا،اسے محرومیوں میں نہ دھکیلا جاتا،امید اور حقیقت کا فرق سمجھ کر اس کے لیے فیصلے کیے جاتے تو بلوچستان آج اس نہج پر براجماں نہ ہوتا۔ہر نئی حکومت نے بلوچستان میں ایک نئی امید وابستہ کی پہر ہر بار اس امید کو ٹھوکر کھانی پڑی،سو ہر بار اس خیال کو تقویت ملی اور اس وہم نے جان پکڑی کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں۔پاکستان میں پچاس معدنی ذخائر میں سے چالیس معدنی ذخائر بلوچستان میں ہیں۔دنیا کا بہترین ماربل بھی بلوچستان میں ہے۔سوئی گیس کے ذخائر بھی بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔سونے اور تانبے کے اربوں ڈالرز کے ذخائر بھی بلوچستان میں ہیں۔بھیڑ بکریوں کی افزائش سے کئی لاکھ ڈالرز سالانہ آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔ گوادر کی مچھلی دنیا بہر میں مشہور ہے اور جاپان اس کا خریدار بھی ہے۔اس سب کے باوجود ہماری ہر حکومت نیک نیتی سے کیوں کام نہیں لیتی اور بلوچستان کو اس کی محرومیوں سے کیوں نجات نہیں دلاتی؟اب کچھ عرصہ پہلے بلوچستان میں خشک سالی عروج پر تھی۔زیر زمیں پانی کی مقدار بہت نازک حد تک کم ہو چکی تھی۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بلوچستان کو دورہ کیا تھا اور اس کا نوٹس بھی لیا تھا،لیکن کسی نے پہر توجہ نہیں دی اور نوٹس پہر نوٹس کی لڑی میں ہی لٹکا رہا اور خشک سالی نے کئی لوگوں کو اپنے باغات کے پھلوں سے محروم کیا۔پہر لوگوں نے باغات کاٹ کر پھینک دیے اور درخت سوکھ گئے۔اب جبکہ بلوچستان میں خشک سالی کے بعد بارشیں ہوئی تو سیلاب کے ریلے امڈ آئے جو کچھ خشک سالی سے بچا کچا تھا اسے بھی اپنی موجوں تلے دبو ڈالا۔اس سیلاب میں گیارہ سے زائد لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے،ہزاروں مکان تباہ ہوئے،کئی لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے،سڑکیں جو تھیں وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں،فصلیں تباہ ہیں اور لوگ پریشان ہیں،جبکہ ہماری صوبائی و قومی حکومت کا اب تک کوئی جامع پلان سامنے نہیں آیا۔معمول کی طرح اس سے بھی آنکھیں چراتے رہے۔
ڈیموں کی اس وقت ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے۔تھوڑی سی بارشیں ہوجائیں تو سیلاب آنے لگ جاتا ہے۔اگر بارشیں نہ ہوں تو ہر جگہ پانی کی ایک گھونٹ کے لیے لوگ ترس جاتے ہیں۔پاکستان میں پانی کی بہت نازک حد تک قلت ہے۔ کچھ پانی انڈیا روک دیتا ہے اور کچھ بارشوں کا پانی ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم ضائع کر دیتے ہیں۔بلوچستان میں اگر ڈیم ہوتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ڈیم ہوتے تو پانی کی بھی بچت ہوتی اور نقصان سے بھی بچ جاتے۔شاید بلوچستان میں ڈیم بنانے کا کسی کو وہم تک نہ ہو تو پہر کیوں بیرونی طاقتیں اور ملک دشمن عناصر پاکستان مخالف تحریکیں چلانے کے لیے اپنے زور بازو نہیں آزمائیں گے۔وہ یقینا آزمائیں گے کیونکہ وہ ہماری کمزوری کو اپنی طاقت بناکر اپنے مفاد حاصل کریں گے،یہی کچھ ہورہا ہے جب سے پاکستان بنا ہے بلوچستان کے ساتھ رواں سلوک رکھا گیا ہے۔ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں کی وجہ سے بلوچستان کی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے اور بلوچستان کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ انسان اس وقت ہار جاتا ہے جب وہ ہار مان لیتا ہے۔ہار جیت انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ہر ہار انسان کو ایک نیا سبق دیتی ہے اور ہر جیت انسان کو ایک جذبہ فراہم کرتی ہے۔ہماری ہر حکومت بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں ہار چکی ہے اور ہر نئ آنے والی حکومت نے اس ہار سے کچھ سبق سیکھا بھی نہیں۔بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔بلوچستان کی ترقی کے لیے عملی منصوبے تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ آل پارٹیز کا ایک وفد تشکیل دیا جائے جو بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرے اور اس کے لیے سفارشات تیار کرے۔ملک دشمن قوتوں کو روکنے کے لیے ایک فورس کو ٹاسک دیا جائے۔جو صرف بلوچستان میں دشمن قوتوں کے منصوبے ناکام بنائے۔